کورونا حکومتی اسٹرٹیجی میں مطابقت کی ضرورت

کورونا سے نمٹنے کی عملی دشواریوں کا دائرہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔


Editorial May 19, 2020
کورونا سے نمٹنے کی عملی دشواریوں کا دائرہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کورونا سے نمٹنے کی عملی دشواریوں کا دائرہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے، حکومت اصولی طور پر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ٹرانسپورٹ اور بڑے شاپنگ مالز کھولنے کا اعلان کرچکی ہے، مگر پنجاب حکومت کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ بحالی کے ایس او پیز میں کچھ ابہام باقی رہ گیا جسے لامحالہ وزارت ٹرانسپورٹ کے ماہرین کو حل کرنا تھا، انھیں فیصلہ کرنا تھا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہونے والے ایک ساتھ بیٹھیں گے، صرف 65 سالہ مسافر کے ساتھ والی سیٹ خالی چھوڑی جائے گی، ایس او پیز سے پہلے ہر مسافر کے ساتھ ایک سیٹ خالی چھوڑنے کی اطلاعات تھیں، تاہم ایک سیٹ خالی نہ چھوڑنے کی شرط نوٹیفکیشن میں درج نہ ہونے پر ٹرانسپورٹرز حضرات حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

پنجاب حکومت سے حاصل کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب حکومت نے ایئرکنڈیشنڈ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں20 فیصد جب کہ نان ایئرکنڈیشنڈ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے میں78 پیسے سے93 پیسہ فی کلو میٹر کمی کا اعلان کیا ہے، کرایوں کی کمی اور ایس او پیز کا ایک ہی نوٹیفکیشن جاری کیا گیا، حتمی ایس او پیز نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے باوجود بھی ٹرانسپورٹ برادری ابہام اور حیرت کا شکار ہے۔

سندھ حکومت کا اپنا انداز نظر، اپنی اسٹرٹیجی، اور میکنزم ہے جس پر عملدرآمد وہ عید کے بعد کرنے کا عندیہ دے چکی ہے، لیکن صاف ظاہر ہے کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں ٹرانسپورٹ اور شاپنگ مالز کھولنے کے وزیراعظم کے احکامات پر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہیں،کوئی متفقہ، مربوط اور غیر متزلزل پالیسی نہیں جو سب کو ساتھ لے کر چلے، اطلاع کے مطابق خیبر پختونخوا میں ٹرانسپورٹ چلنے کا معاملہ طے پاگیا، لیکن پنجاب میں ٹرانسپورٹ کا کرایہ کم کرنے اور سندھ میں تاجروں نے حکومتی پابندیاں ماننے سے انکار کردیا ہے۔

وہ24 گھنٹے میں کاروبار کھولنے کا الٹی میٹم دیتے رہے، ٹرانسپورٹ آزاد کشمیر میں عید تک بند رہے گی، کراچی کے ٹرانسپورٹرز نے دھمکی دی ہے کہ 10مئی تک اجازت نہ ملی تو وہ گاڑیاں سڑکوں پر لے آئیں گے، دریں اثنا پنجاب و بلوچستان کے بعد خیبر پختونخوا میں بھی فلور ملز نے آج سے ہڑتال کرنے اعلان کردیا ہے، ذرایع کا کہنا ہے کہ پنجاب میں حکومت نے فلور ملز کے مطالبات ماننے کا اشارہ دے دیا ہے، تاہم نیپرا نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آیندہ تین سال تک ملک میں لوڈ شیڈنگ کا جن قابو میں نہیں آئیگا اور 2023 کے بعد بھی الیکٹرک کے سسٹم میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔

آخر یہ ہوکیا رہا ہے، حکومت اداروں کے مابین ہم آہنگی قائم رکھنے میں پیش رفت سے قاصر کیوں ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر ادارہ بے سمت ہے، جب کہ معاشرتی شیرازہ بندی میں نہ معلوم کون سا سقم رہ گیا ہے کہ صورتحال انتشار کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، ارباب اختیار اس مضرت رساں ادارہ جاتی دراڑ اور سسٹم میں پڑنے والے شگافوں کو بند کرنے کے لیے راست اقدام میں تاخیر نہ کریں اور متعقلہ وزارتوں اور محکموں کے ذمے دار وزرا، معاونین و مشیروں کو پابند کریں کہ وہ اپنا ہوم ورک کم از کم مکمل کرلیں، سارے کام وزیراعظم نے تو نہیں کرنے، یہ ان وزراتوں اور معاونین کی ذمے داری ہے کہ وہ نام نہاد نورا کشتیوں کے سیاسی مقابلے بند کر کے معروضی منظرنامہ اور زمینی حقیقتوں کا سامنا کریں، وزیراعظم وفاقی کابینہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے وزرا اور حکومتی عہدیداروں پر سختی کریں اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر صنعتیں کھولنے کے اقدامات کی نتیجہ خیزی کو یقینی بنائیں۔

میڈیا کے مطابق پنجاب میں 26 صنعتوں کو کھولا جارہا ہے، یہ صائب اقدام ہے، لیکن وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی برہمی ان کے ایک بیان سے ظاہر ہے کہ جب ہوائی جہاز اور بسیںچل سکتی ہیں تو ٹرینوں نے کیا بگاڑا ہے؟ ایک حکومتی شخصیت نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ پارلیمنٹ تاریخ کی سب سے ناکام پارلیمنٹ ہے، انھوں کہا کہ عوام کی فلا ح اور پارلیمنٹ کے مفاد میں قانون سازی میں بھی ناکام رہی۔ان کے مطابق احتساب کے بغیر سیاست چل سکتی ہے ریاست نہیں چل سکتی۔

ایک معاصر انگریزی اخبار نے کارٹون میں کورونا وائرس کو ''پیرِِ تسمہ پا'' کے طور پر عوام کی گردنوں پر سوار دکھایا ہے جو حقیقت کی غیر مبہم تصویر لگتی ہے، جب کہ زمینی حقیقت اعصاب شکن اور ذہن کو جھنجھوڑنے والی ہے، قوم کورونا کی آفرینش، اس کے مسلسل پھیلاؤ سے پریشان ہے، وبا کے متاثرین کے کیسز کے مستند وغیر مستند اعداد وشمار بکھرے پڑے ہیں اور کورونا کی ماہ جون میں دوسری لہر کی تباہ کاریوں کی پیشگوئیوں سے عام آدمی خوفزدہ ہے، دوسری طرف بنیادی الجھن کورونا کی سائنسی طریقہ سے موثر تحدید، اس کے خاتمہ اور بد اثرات سے نجات کا ہے، جس پر پوری دنیا میں تحقیق ہورہی ہے، عالمی ادارہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ جراثیم کش سپرے مضر صحت ہوسکتا ہے۔

دراصل وبا کا تعلق صرف پاکستان یا وفاق و سندھ حکومت کے مابین کشمکش اور لاک ڈاؤن سے نہیں ہے اس لیے لاک ڈاؤن کی بحث اب اضافی سی لگتی ہے، دنیا کے تمام بڑے ملک کورونا سے نمٹنے کے لیے سائنسی طرز فکر پر دلالت کررہے ہیں، یہ مصیبت عالمگیر ہے اور اس کے لیے گلوبل سوچ، حکومت کی ماہرانہ طبی پیش قدمی، دوراندیشی اور وژن کا عملی اظہار ناگزیر ہے ملک بھر میں عوام ریاست وحکومت کے اشتراک عمل سے کورونا کی شکست کے آرزومند ہیں، پالیسی میں نتیجہ خیز تبدیلیاں چاہتے ہیں، پالیسی، حکمت عملی اور میکنزم حکومت کے اصل معاملات ہیں، حکومت کورونا پر ایک ادارہ اور ایک ترجمان کو اختیار دے کہ وہی میڈیا کو بریف کرے، ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو بیان بازی کا لائسنس نہیں ملنا چاہیے۔ وزرا اور معاونین خصوصی عوام کی مدد کریں اور سنجیدہ ماہرین کورونا کی ہلاکتوں اور ٹیسٹنگ کی پراسراریت سے ہٹ کر حقائق کی ٹھوس تصویر پیش کریں۔

اب ضرورت بڑے پیمانے کے بریک تھرو کی ہے۔ بے سمتی اور نا تجربہ کاری کے باعث حکومت الجھن کا شکار ہے، مثلاً ٹرانسپورٹرز نے حکومت کی جانب سے کرایوں میں کی گئی کمی کو مسترد کیا، ٹرانسپورٹرز کا مزید کہنا تھا کہ نوٹیفیکیشن سے پہلے حکومت نے ٹرانسپورٹ برادری کے ساتھ مذاکرات میں ایک مسافر کے ساتھ دوسری سیٹ خالی رکھنے کاکہا تھا یعنی 40 سیٹوں والی بس میں صرف 20 مسافر بٹھائے جائیں گے تاکہ سماجی فاصلے برقرار رکھ کر پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والوں کی صحت کو یقینی بنایا جاسکے۔

ٹرانسپورٹرز کا کہنا تھاکہ جب پنجاب حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا تو اس میں اس ایک سیٹ خالی چھوڑ کر سواری بٹھانے کی شرط سرے سے موجود ہی نہیں، نوٹیفیکیشن میں صرف 65 سالہ مسافر کے ساتھ والی سیٹ خالی رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے، البتہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہوتے وقت ایک مسافر دوسرے مسافر سے تین فٹ کے فاصلے پر رہنا لازمی قرار دیا گیا ہے،27 نکاتی ایس او پیز میں کہا گیا ہے کہ سفر مکمل کرنے پر بس یا ویگن کو جراثیم کش ادویات سے دھویا جائے گا، ہوا کے لیے بس یا ویگن کی ونڈوز کو کھلا رکھا جائے گا، بس ٹرمینل اور بس یا ویگن میں ہینڈ سینیٹائزر موجود ہونا چاہیے، بخار یا شدید کھانسی کی صورت میں مسافر کو گاڑی میں سوار نہیں ہونے دیا جائے گا۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے مسافر اور عملے کے افراد کے لیے ماسک اور گلوز پہننا لازمی قرار دیے گئے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ میں بیٹھنے سے پہلے ٹیمپریچر چیک کیا جائے گا، کھانسی نزلہ زکام کے لیے ٹشو کا استعمال کیا جائے گا بس، کوسٹر یا ویگن میں سوار65 سالہ مسافر کے ساتھ والی سیٹ خالی رکھی جائے گی، ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا ٹیمپریچر سفر شروع کرنے سے پہلے چیک کرنا لازمی قرار دیا گیا، مسافروں اور بس عملہ کے درمیان سماجی فاصلہ یقینی بنانا ہوگا، ٹرمینل میں پارکنگ سائیٹس پر نشانات لگائے جائیں گے۔

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ بس ٹرمینلز پر اضافی اہلکار تعینات کرکے رش جمع نہیں ہونے دیا جائے گا، مسافروں کو الیکٹرانک ٹکٹنگ جاری کی جائے تاکہ مسافروں کو ٹریک کرنا آسان ہوسکے، پنجاب بھر کے تمام بس ٹرمینلز پر ایس او پیز کو نمایاں جگہوں پر چسپاں کیا جائے گا تاکہ کورونا وباء سے بچا جاسکے، ٹرانسپورٹرز کا کہنا تھا کہ پنجاب کی سطح میں ٹرانسپورٹر رہنماء مذاکرات کررہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ نوٹیفکیشن کے پیدا ہونے والے ابہام کو دور کرے اور نوٹیفکیشن اردو میں جاری کرے تاکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے سے جڑے افراد اس کو بآسانی سمجھ سکیں۔

صدر ٹرمپ نے ایک مسلمان امریکی امیونولوجسٹ ڈاکٹرمنصف محمد سلاوی کو کورونا وائرس کی ویکسین تلاش کرنے کے پروگرام کے لیے نامزد کیا ہے، ڈاکٹر سلاوی اب تک 14نئی ویکسین کی تیاری میں مدد دے چکے ہیں، ہمارے ماہرین بھی ایسی کوششیں کرسکتے ہیں، کیونکہ عالمی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ وائرس سے معاشرے میں پوشیدہ عدم مساوات بے نقاب ہوگئی ہے، بلکہ دیکھا جائے تو کورونا ہمارے سماجی منظرنامہ میں ''اک تماشا ہو ا گلہ نہ ہوا '' کے مصداق ہوچکا ہے۔

ایک سینئر ڈاکٹر کو اپنے خیر خواہوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی کسی بھی مرض میں مبتلا ہو اسے اسپتال سے دور رہنا چاہیے،کیونکہ اس پر کورونا کا ٹھپہ لگا کر قرنطینہ میں بھیجنا آسان ہوگیا ہے۔ ہوشربا افواہیں بھی گردش میں ہیں، دیگر بہت ساری درد انگیز اطلاعات سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ہیں۔ لہٰذا ارباب اختیار کو ترجیحات واضح کرتے ہوئے یہ طے کرنا ہوگا کہ کورونا سے نمٹنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس ''کیا '' کی صداقت حکومت کے حقیقی وژن سے مشروط ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں