کورونا چین کے دیگر علاقوں میں کیوں نہیں پھیلا

امریکا کوروناکے ذریعے اپنا اثر رسوخ مضبوط بنانا چاہتا ہے؟


سحرش پرویز May 19, 2020
عالمی وبا کو ہنوز سازش اور شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس جس طرح پوری دنیا میں پھیلا ہے اور جس طرح ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہ انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے، اس بیماری کو صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں بہت سے لوگ شکوک وشبہات کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ اس وائرس کا الزام چین پر عائد کر چکے ہیں۔۔۔ جب کہ گذشتہ دنوں سابق سینیٹر فیصل رضا عابدی نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہرایا اور کہا کہ امریکا نے چین، ایران اور اٹلی کے خلاف اس وائرس کا آغاز کیا، کیوں کہ چین کی یورپی یونین میں سب سے بڑی تجارتی شراکت داری ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سازش علاقائی کرنسیوں میں نہیں، بلکہ امریکی ڈالر میں تجارت کو یقینی بنانے کے لیے بنائی گئی ہے۔

فیصل رضا عابدی کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں زلزلہ آتا ہے تو سب سے پہلے اس کا مرکز تلاش کیا جاتا ہے اور اس وائرس کا مرکز ووہان (WUHAN) تھا، جہاں کی آبادی ایک کڑوراٹھارہ لاکھ ہے، لیکن یہ وائرس صرف 80ہزار لوگوں میں پایا گیا اور آخر اس نے ووہان کی سرحد کو عبور کیوں نہیں کیا، جب کہ یہ نومبر 2019ء میں آیا، جنوری 2020ء میں اس وائرس کی تشخیص کا اعلان ہوا اور فروری میں اسے COVID-19 کا نام دیا گیا اس دوران ٹراسپورٹیشن اور لوگوں کی ایک سے دوسرے شہر میں آمدورفت کا سلسلہ جاری تھا۔

ایک کڑور اٹھارہ لاکھ میں سے کوئی نہ کوئی تو بیجنگ بھی گیا ہو گا، شنگھائی بھی گیا، لیکن یہ وائرس 'ووہان' سے باہر کیوں نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو بغیر کسی ہتھیار کے ہو رہی ہے اور دنیا اس سے متاثر بھی ہو رہی ہے۔ کچھ وقت کے بعد جب یہ وائرس ختم ہو جائے گا، تو دنیا کے بہت سے ممالک بدترین معاشی حالات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

امریکا میں بھی مبینہ طور پر ایسی ہدایات کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، جس میں محکمہ صحت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی دمے کا مریض، نزلہ، کھانسی، ضعیف یا کوئی بھی الرجی کا مریض آئے، تو اسے کورونا کا مریض بتا دیا جائے۔ یہاں تک کہ کوئی پولن الرجی کا مریض بھی آئے، تو اسے بھی 'covid-19' میں شامل کر دیا جائے۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ امریکا کا اس وائرس سے یہ مفاد تھا کہ پوری دنیا کے معاشی حالات خراب ہوں اور سب امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔

اس کے بعد اس کی ویکسین کے ذریعے ممکنہ طور پر امریکا فائدہ اٹھائے گا، کیوں کہ یہ ویکسین لگانا سب کے لیے ضروری ہوگا، اس کے بغیر نہ تو کوئی سفر کر سکے گا، نہ کوئی ویزا حاصل کر سکے گا، یہاں تک کہ ہر طرح کی ٹریڈنگ بھی بند کر دی جائے گی ۔ اس طرح 180 ممالک امریکا کے غلام ہو جائیں گے۔

کورونا کے حوالے سے ایک کتاب 'اینڈ آف دا ڈیز' کتاب کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے، جو 24 جون 2008ء کو منظرعام پر آئی، جس میں اس وائرس کا ذکر ہے، یہاں تک کہ وائرس کے کوڈ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2010ء میں ہالی وڈ میں دو فلمیں بنائی گئیں ، جس میں بتایا گیا کہ پوری دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔

ان فلموں میں جو شہر دکھائے گئے، حقیقت میں بھی ان ہی شہروں میں یہ وائرس آیا۔ جس سے اس وائرس کے حوالے سے سازشی تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سب دنیا کی معیشیت کو تباہ کرنے کے لیے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری معیشت کا پہیا چلنا چاہیے، نہیں تو ملک اگلے 20 سے 25 سال تک کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں