کرونا کا آسیب گھروں کاسکون دلوں کا چین نگل رہا ہے
لاک ڈاؤن کے دوران عورتوں پر ذہنی اور جسمانی تشددکے واقعات بڑھ گئے
KARACHI:
ہماری زمین، اور اس دنیا نے اپنی تخلیق کے بعدکتنی ہی ناگہانی آفات دیکھیں،ان کے نتیجے میں انسانوں نے طرح طرح کے مصائب جھیلے اور ہلاک ہوئے ۔ دریاؤں کا بپھر جانا،سمندر کا غضب ناک ہونا،آندھی طوفان،تیز بارشیں، قحط ، زلزلے اور مختلف امراض بھی، جنھوں نے بستیاں ویران کردیں،ہستیاں مٹا ڈالیں ، قبائل کا نام و نشان نہ رہااور وبا پھوٹی تو کنبے کے کنبے نگل گئی اور پھر پھیلتی ہی چلی گئی۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دبے پاؤںآنے والی وباؤں نے ایک بستی اجاڑی اور دوسری بستی پر حملہ کیا ،ایک گاؤں سے دوسرے گاؤںکو لپیٹ میں لیا، قصبے سے نکلی تو شہر اور دور دور تک موت کا سامان کرنے اور بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے بعد رخصت ہو گئیں ،مگر یہ طے ہے کہ مختلف ادوار میں انسانوں نے وبائیں دیکھیں اوران کے آگے خود کو بے بس اور ناتواں پایا۔وہ ان سے لڑتا رہا، زندہ رہنے کے لیے بھاگا، سو جتن کیے،ہر حربہ آزمایا،اجڑا اور دوبارہ ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ پس ماندگان نے بستیاں آباد کر لیں۔ زندگی کودوبارہ آواز دی اوراسے سب کچھ بھول کرآگے بڑھنا پڑا۔
آج پھر دنیا کو ایک وبا کا سامنا ہے۔ مگر آج کا انسان جدیدسائنسی آلات، علاج معالجے کی بہترین سہولیات کے ساتھ اس کا مقابلہ کررہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں پہلے آنے والی وبائیں کسی ایک ملک یا وسیع رقبے پرآباد بستیوں کو نشانہ بنا نے کے بعد ختم ہو جاتی تھیں ، ان کا زور ٹوٹ جاتاتھا، مگر کروناوائرس تیزی سے پھیلا اور دنیا کے بیش تر ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ سائنس داں اور متعلقہ ماہرین کووِڈ 19 کو سمجھنے اور اس کا توڑ دریافت کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں، مگر اب تک اس ضمن میں قابلِ ذکر کام یابی نہیں ملی ہے۔امید ہے کہ جلد اس سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرلی جائے گی۔
متاثرہ فرد سے صحت مندجسم کو کرونا وائرس کے منتقل ہونے کے قوی امکان نے انسان کو انسان ہی سے دور دھکیل دیا ہے ۔ سیلف آئسولیشن اورسوشل ڈسٹینسنگ جیسی اصطلاحات کے بعد انسان خوف زدہ اور نفسیاتی طور پرشدید دباؤ کا شکار ہے۔ اپنوں سے دور رہنے کی ہدایات یا سماجی فاصلے نے اسے ایک اعصابی جنگ میں دھکیل دیاہے۔
تنہائی تو ویسے ہی عذاب ہوتی ہے ،لیکن اگر یہ جبری طور پر مسلط کر دی جائے توا س سے زیادہ خوف ناک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق معاشی عدم تحفظ، ذہنی تناؤ، غیریقینی صورتِ حال میں گھریلو مسائل، رنجشوں، جھگڑوں اور کشیدگی کو نہ صرف جارحیت میں بدلا ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
کرونا کے خانگی زندگی پراثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال پچھلے سال عالمی سطح پر مالیاتی بحران کے بعد قدرتی آفت جیسا کہ2011 کے کرائسٹ چرچ کے زلزلے میں بھی نہیں دیکھی گئی۔
کسی بھی خطے میں گھر کو بنیادی یونٹ مانا جاتا ہے اور انسان خودکو سب سے زیادہ اپنے گھر میں محفوظ اور پرسکون سمجھتا ہے ۔ گھر کا امن اس کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ہر فرد گھر میں داخل ہونے کے بعدخود کوذہنی طور پر پُرسکون محسوس کرتا ہے اوردفتر، کام کاج کی جگہوں اور باہر کے دوسرے مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والا دباؤ کم ہو جاتا ہے، لیکن جب گھر ہی اکھاڑہ بن جائے جہاں دو فریق ہمہ وقت ایک دوسرے کے صبر، برداشت اور ہمت کو طرح طرح سے آزمانے پر کمر بستہ رہیں تو پھر سکون گلی محلے کی بیٹھک، ہوٹلوں پر گپ شپ،بازاروں کی رونق، دوستوں کے درمیان اور کسی بھی محفل میں نہیں ملتا۔
اس عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے اور اس کے خاتمے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے ۔ تشدد کے واقعات میں اضافہ حیران کن بات نہیں ،لیکن اس کے بے لگام ہوجانے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جو اصل خطرہ ہے۔
عام حالات میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور کسی حد تک قابو میں رہتے ہیں ،مگر کرونا کی وبا کے دوران جس ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا، وہاں ہیلپ لائن پر گھریلو تشدد کی شکایات میں 67 فی صد اضافہ ہوا ہے۔حالیہ دہائیوں میں دنیا نے متعدد بحرانوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا، لیکن سرد جنگوں کے دوران سیکیورٹی رسک، نائن الیون کے واقعات میں بین الاقوامی رجحانات، داعش کی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے یورپ تک سلامتی کے خدشات سامنے آئے اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں دنیا مالی بحران کا شکار بھی ہوئی ،لیکن ان بحرانوں میں سے کوئی بھی عالمی تعلقات، رابطوںاور بین الاقوامی نظام کواتنا نقصان نہیں پہنچا سکا جتنا اس وبا نے پہنچایا۔
چین، امریکا، ایران، اٹلی، اسپین، جنوبی ایشیا اور افریقامیں معاشی، معاشرتی اور سب سے زیادہ خانگی امن اور سکون کونقصان پہنچاہے۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران چین سے لے کر فرانس ، اٹلی سے لے کر اسپین، جرمنی سے برازیل تک مختلف ممالک میں اس وبا کے ساتھ ساتھ گھریلو محاذ آرائیاں بھی پھیلتی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین کے صوبے ہوبے میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا جب کہ ایسے 90 فی صد واقعات اس وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سامنے آئے۔ اسی رپورٹ کے مطابق برازیل میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں چالیس سے پچاس فی صد اضافہ دیکھا گیا ، جن میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئیں مگر ان کے ساتھ ساتھ بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔تشدد کے یہ واقعات برازیل کے ایک بڑے شہرمیں سامنے آئے۔
بیلجیم میں بھی مختلف علاقوں سے پولیس کولاک ڈاؤن کے بعدگھروں میں تشدد کی اطلاع ملی اور ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ چلی میں امورِ خواتین کی وزیر کلاڈیا پاسکل کا کہنا ہے کہ ملک میںلاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
میکسیکوکی پولیس کے شکایتی مرکز کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کی شکایات میں گزشتہ ایک سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ ہواہے۔ کولمبیا کی بات کریں تو وہاں لاک ڈاؤن کے دوران ہیلپ لائن پر خواتین پرتشدد اوران سے بدسلوکی کی شکایات 130 فی صد بڑھ گئی ہیں۔
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ گھر یلو تشدد کے خلاف مدد سے متعلق انٹرنیٹ سرچ میں 75 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی افریقا میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں گھریلو تشدد کی 90 ہزار رپورٹس موصول ہوئیں۔
کرونا وائر س سے شدیدمتاثرہ ملک اٹلی میں بھی لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ۔ اسپین میں بھی عورتوں پر گھریلو تشدد میں ریکارڈ اضافہ بتایا جارہا ہے ،ا س کے علاوہ عورتوں نے قتل کی دھمکیوں کے واقعات بھی درج کروائے ہیں۔
فرانس کی حکومت کے مطابق لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 33 فی صد اضافہ ہوا جس میںمتاثرہ خواتین کی عمریں 18 سے 75 تک ہیں۔
برطانیہ کی طرف چلیں تو معلوم ہو گا کہ گھریلو تشدد کی رپورٹ کے لیے ہاٹ لائن پر 65فی صد سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لاطینی امریکا کے بڑے ممالک میکسیکو اور برازیل میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے اعدادوشمار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ ارجنٹینا میںوبا کے دنوں میں عورتوں سے بدسلوکی اور تشدد میں 67 فی صد اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ میں خواتین سے متعلق امور کی ڈائریکٹر ماریا نوئیل بائیزا کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس لاطینی امریکا میں 38سو خواتین کا قتل ہوا، آئندہ برس نہ جانے کتنی اور خواتین جان سے جائیں گی؟
اسی وبا کے دوران اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس یہ کہنے پر مجبورہوگئے کہ''بہت سی خواتین اور لڑکیوںکے لیے سب سے زیادہ خطرہ وہاں ہے جہاں انہیں سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے، یعنی ان کے اپنے گھروں میں۔ لہذا، آج میں دنیا بھر کے گھروں میں امن کے لیے ایک نئی درخواست کر رہا ہوں۔''
اگر جنو ب ایشیائی ممالک کا ذکر کیا جائے تو صو ر تِ حال یہاں بھی گمبھیر ہو رہی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس خطہ میں وسائل سے زیادہ مسائل رہے ہیں اوراب کرونا کی بدولت یہ ایک دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔یہاں اربوں انسان رہتے ہیں۔ بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان، سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان سمیت خطے کے گنجان آباد علاقوںمیں کرونا کے متاثرین یورپی ممالک کی نسبت کم ہیں ۔ تاہم اس وبا کے برے اثرات کے باعث سماجی اور تجارتی زندگی معطل ہے جس سے گھروں میں موجود وہ لوگ بھی متاثر ہیں جو باہر نکل کر کام نہیں کرتے، یعنی خواتین، بزرگ اور بچے...!
جنوبی ایشیا میں سب ہی ممالک ترقی پذیراور لاکھوں کچی بستیوں پر مشتمل ہیں جن کی صحت کے مراکز تک رسائی بھی آسان نہیں ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور دیگر چھوٹی ریاستیں جہاں کروناکے مریضوں کی کم تعداد رپورٹ ہوئی ہے ، مگر یہ بھی وائرس کے نشانے پر ہیں ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے اور صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی متوقع ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ کیسز بھارت میں جب کہ سب سے کم بھوٹان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں کتنا اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق اور انسدادِ گھریلو تشدد کے ادارے کی ہیلپ لائن پر شکایات کے لیے گھنٹوںانتظار کرنا پڑ رہا ہے اور یہ نہایت سنگین مسئلہ ہے۔انسانی حقوق سے متعلق ضیااعوان کے مطابق ان کی ہیلپ لائن بیس سال سے چل رہی ہے، لیکن ایسی صورتِ حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں شوہر مطلق العنان حاکم کے روپ میں سامنے آتا ہے وہاں عورت پر ہاتھ اٹھ جانا عام بات ہے۔ ایسے میں اس وبا کے دوران پہلے سے موجودسخت گیر طبیعت، حاکما نہ مزاج اورذہنی یا جسمانی تشدد کو اپنا حق سمجھنے والوں کو موقع مل جانا حیران کن نہیں ہوگا۔ تاہم اس بار گھریلو تشدد کے اثرات صرف شادی شدہ جوڑے کو نہیں بھگتنا پڑرہے بلکہ یہ گھر کے ہر مکین کو متاثر کر رہا ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل وقت گزارنے، گھریلو معاملات اور مختلف امور سے متعلق ضرورت سے زیادہ حصہ ڈالنے یا رائے کا اظہار کرنے سے بات بڑھ رہی ہے اور بحث مباحثے پہلے یکسانیت کا شکار بنا رہی ہے اور پھر ماحول کی گھٹن اعصاب پر طاری ہوکربگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔
حساسیت کی وجہ سے ہلکی پھلکی بحث کا اختتام سنگین لڑائیوں کی ابتدا ثابت ہو رہا ہے اور یہ زیادہ تر ان خاندانوں میں معمول بن گیا ہے جن کو روزگار کے مستقل ذرایع میسر نہیں ہیں۔ایسے گھرانے جو ماہانہ تنخواہ اور لگی بندھی آمدن پر نہیں چلتے بلکہ یومیہ اجرت اور ہوائی روزی سے منسلک ہیں، ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔
ان میں ویلڈر، مستری، درزی، پلمبر، الیکٹریشن ،گھروں میں کام کرنے والی عورتیں، ڈرائیور اور مزدور شامل ہیں جو گھر کا چولھا نہیں جلا پارہے۔اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ تو ان کے پاس وسائل ہیں نہ اہلیت ،جس کے نتیجے میں مارپیٹ کے بعد اور معاملہ بڑھ جانے پراقدامِ قتل یا اس کا ارتکاب اورمیاں بیوی کے مابین طلاق کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایسا ہوا بھی ہوگا، کیو ں کہ یہاں پر بہت کیسزرپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد گھر میں رہتے ہوئے ماحول کو بہتربنانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے اورایک دوسرے کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت اور مباحث سے بچے۔ دوسری طر ف صاحبِ حیثیت افرادکوچاہیے کہ وہ مفلس اور بدحال لوگوں کی اتنی مدد ضرور کریں کہ ان کا دال دلیا چلتا رہے۔
اس ضمن میں ذرایع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔گھروں کا ماحول بہتر بنانے اور گھریلو تشدد سے بچنے کے حوالے سے بھی آگاہی دینے اور اس پرباقاعدہ پروگرام نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں میں قید دماغ جو بتدریج نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں ، انھیںبتایا جائے کہ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ما ر پیٹ ، گالی گلوچ کو ہی ہتھیار نہ بنائیں بلکہ اس کا مثبت، بہترین متبادل نکالنے کے لیے زور آزمائی کریں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں ہی نہیں بلکہ اس حالیہ وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی حکومتوں کو کچھ ایسی پالیسیاں ضروری بنانی چاہئیں جو گھر کے یونٹ کو پریشانیوں اور الجھنوں کا مرکز نہ بننے دیں، بلکہ اسے صحیح معنوں میں امن و شانتی کے گہوارے میں تبدیل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
اگر آپ خود، آپ کاکوئی پیارا، دوست یاپڑوسی گھریلوجھگڑوں اور تشدد کا سامنا کر رہا ہے توہمّت کیجیے، آگے بڑھ کر ان کے مابین صلح صفائی کروائیے اور کوشش کیجیے کہ آپ کی مدد سے وہ اپنے معاملات سلجھا سکیں ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو خاموش نہ رہیں، لیگل ایڈ سیل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، وزارتِ انسانی حقوق پاکستان کی ہیلپ لائن پر اس کی رپورٹ درج کروائیں ۔دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ ہیلپ لائن پررابطہ کرنے والوں کو اردواور علاقائی زبانوں میں خدمات مہیا کی جائے تاکہ ہر زبان اور بولی جاننے والی خواندہ اور نیم خواندہ عورتیںایسی صورتِ حال میں مدد لے سکیں۔
ہماری زمین، اور اس دنیا نے اپنی تخلیق کے بعدکتنی ہی ناگہانی آفات دیکھیں،ان کے نتیجے میں انسانوں نے طرح طرح کے مصائب جھیلے اور ہلاک ہوئے ۔ دریاؤں کا بپھر جانا،سمندر کا غضب ناک ہونا،آندھی طوفان،تیز بارشیں، قحط ، زلزلے اور مختلف امراض بھی، جنھوں نے بستیاں ویران کردیں،ہستیاں مٹا ڈالیں ، قبائل کا نام و نشان نہ رہااور وبا پھوٹی تو کنبے کے کنبے نگل گئی اور پھر پھیلتی ہی چلی گئی۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دبے پاؤںآنے والی وباؤں نے ایک بستی اجاڑی اور دوسری بستی پر حملہ کیا ،ایک گاؤں سے دوسرے گاؤںکو لپیٹ میں لیا، قصبے سے نکلی تو شہر اور دور دور تک موت کا سامان کرنے اور بڑے پیمانے پر تباہی مچانے کے بعد رخصت ہو گئیں ،مگر یہ طے ہے کہ مختلف ادوار میں انسانوں نے وبائیں دیکھیں اوران کے آگے خود کو بے بس اور ناتواں پایا۔وہ ان سے لڑتا رہا، زندہ رہنے کے لیے بھاگا، سو جتن کیے،ہر حربہ آزمایا،اجڑا اور دوبارہ ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ پس ماندگان نے بستیاں آباد کر لیں۔ زندگی کودوبارہ آواز دی اوراسے سب کچھ بھول کرآگے بڑھنا پڑا۔
آج پھر دنیا کو ایک وبا کا سامنا ہے۔ مگر آج کا انسان جدیدسائنسی آلات، علاج معالجے کی بہترین سہولیات کے ساتھ اس کا مقابلہ کررہا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صدیوں پہلے آنے والی وبائیں کسی ایک ملک یا وسیع رقبے پرآباد بستیوں کو نشانہ بنا نے کے بعد ختم ہو جاتی تھیں ، ان کا زور ٹوٹ جاتاتھا، مگر کروناوائرس تیزی سے پھیلا اور دنیا کے بیش تر ممالک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ سائنس داں اور متعلقہ ماہرین کووِڈ 19 کو سمجھنے اور اس کا توڑ دریافت کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں، مگر اب تک اس ضمن میں قابلِ ذکر کام یابی نہیں ملی ہے۔امید ہے کہ جلد اس سے بچاؤ کی ویکسین تیار کرلی جائے گی۔
متاثرہ فرد سے صحت مندجسم کو کرونا وائرس کے منتقل ہونے کے قوی امکان نے انسان کو انسان ہی سے دور دھکیل دیا ہے ۔ سیلف آئسولیشن اورسوشل ڈسٹینسنگ جیسی اصطلاحات کے بعد انسان خوف زدہ اور نفسیاتی طور پرشدید دباؤ کا شکار ہے۔ اپنوں سے دور رہنے کی ہدایات یا سماجی فاصلے نے اسے ایک اعصابی جنگ میں دھکیل دیاہے۔
تنہائی تو ویسے ہی عذاب ہوتی ہے ،لیکن اگر یہ جبری طور پر مسلط کر دی جائے توا س سے زیادہ خوف ناک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق معاشی عدم تحفظ، ذہنی تناؤ، غیریقینی صورتِ حال میں گھریلو مسائل، رنجشوں، جھگڑوں اور کشیدگی کو نہ صرف جارحیت میں بدلا ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
کرونا کے خانگی زندگی پراثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ ایسی صورتِ حال پچھلے سال عالمی سطح پر مالیاتی بحران کے بعد قدرتی آفت جیسا کہ2011 کے کرائسٹ چرچ کے زلزلے میں بھی نہیں دیکھی گئی۔
کسی بھی خطے میں گھر کو بنیادی یونٹ مانا جاتا ہے اور انسان خودکو سب سے زیادہ اپنے گھر میں محفوظ اور پرسکون سمجھتا ہے ۔ گھر کا امن اس کی پہلی ترجیح ہوتا ہے۔ہر فرد گھر میں داخل ہونے کے بعدخود کوذہنی طور پر پُرسکون محسوس کرتا ہے اوردفتر، کام کاج کی جگہوں اور باہر کے دوسرے مسائل کی وجہ سے پیدا ہونے والا دباؤ کم ہو جاتا ہے، لیکن جب گھر ہی اکھاڑہ بن جائے جہاں دو فریق ہمہ وقت ایک دوسرے کے صبر، برداشت اور ہمت کو طرح طرح سے آزمانے پر کمر بستہ رہیں تو پھر سکون گلی محلے کی بیٹھک، ہوٹلوں پر گپ شپ،بازاروں کی رونق، دوستوں کے درمیان اور کسی بھی محفل میں نہیں ملتا۔
اس عالمی وبا کا پھیلاؤ روکنے اور اس کے خاتمے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے ۔ تشدد کے واقعات میں اضافہ حیران کن بات نہیں ،لیکن اس کے بے لگام ہوجانے کے خدشات بڑھ رہے ہیں جو اصل خطرہ ہے۔
عام حالات میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں اور کسی حد تک قابو میں رہتے ہیں ،مگر کرونا کی وبا کے دوران جس ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا، وہاں ہیلپ لائن پر گھریلو تشدد کی شکایات میں 67 فی صد اضافہ ہوا ہے۔حالیہ دہائیوں میں دنیا نے متعدد بحرانوں اور آزمائشوں کا سامنا کیا، لیکن سرد جنگوں کے دوران سیکیورٹی رسک، نائن الیون کے واقعات میں بین الاقوامی رجحانات، داعش کی سرگرمیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ سے یورپ تک سلامتی کے خدشات سامنے آئے اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں دنیا مالی بحران کا شکار بھی ہوئی ،لیکن ان بحرانوں میں سے کوئی بھی عالمی تعلقات، رابطوںاور بین الاقوامی نظام کواتنا نقصان نہیں پہنچا سکا جتنا اس وبا نے پہنچایا۔
چین، امریکا، ایران، اٹلی، اسپین، جنوبی ایشیا اور افریقامیں معاشی، معاشرتی اور سب سے زیادہ خانگی امن اور سکون کونقصان پہنچاہے۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران چین سے لے کر فرانس ، اٹلی سے لے کر اسپین، جرمنی سے برازیل تک مختلف ممالک میں اس وبا کے ساتھ ساتھ گھریلو محاذ آرائیاں بھی پھیلتی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے ایک رپورٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ چین کے صوبے ہوبے میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں تین گنا اضافہ دیکھا گیا جب کہ ایسے 90 فی صد واقعات اس وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے سامنے آئے۔ اسی رپورٹ کے مطابق برازیل میں لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں چالیس سے پچاس فی صد اضافہ دیکھا گیا ، جن میں سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئیں مگر ان کے ساتھ ساتھ بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔تشدد کے یہ واقعات برازیل کے ایک بڑے شہرمیں سامنے آئے۔
بیلجیم میں بھی مختلف علاقوں سے پولیس کولاک ڈاؤن کے بعدگھروں میں تشدد کی اطلاع ملی اور ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ چلی میں امورِ خواتین کی وزیر کلاڈیا پاسکل کا کہنا ہے کہ ملک میںلاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے کے دوران خواتین پر تشدد کے واقعات میں 70 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
میکسیکوکی پولیس کے شکایتی مرکز کے مطابق لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد کی شکایات میں گزشتہ ایک سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اضافہ ہواہے۔ کولمبیا کی بات کریں تو وہاں لاک ڈاؤن کے دوران ہیلپ لائن پر خواتین پرتشدد اوران سے بدسلوکی کی شکایات 130 فی صد بڑھ گئی ہیں۔
آسٹریلوی حکومت کا کہنا ہے کہ گھر یلو تشدد کے خلاف مدد سے متعلق انٹرنیٹ سرچ میں 75 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی افریقا میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں گھریلو تشدد کی 90 ہزار رپورٹس موصول ہوئیں۔
کرونا وائر س سے شدیدمتاثرہ ملک اٹلی میں بھی لاک ڈاؤن کے بعد گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ۔ اسپین میں بھی عورتوں پر گھریلو تشدد میں ریکارڈ اضافہ بتایا جارہا ہے ،ا س کے علاوہ عورتوں نے قتل کی دھمکیوں کے واقعات بھی درج کروائے ہیں۔
فرانس کی حکومت کے مطابق لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد ملک میں گھریلو تشدد کے واقعات میں 33 فی صد اضافہ ہوا جس میںمتاثرہ خواتین کی عمریں 18 سے 75 تک ہیں۔
برطانیہ کی طرف چلیں تو معلوم ہو گا کہ گھریلو تشدد کی رپورٹ کے لیے ہاٹ لائن پر 65فی صد سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق لاطینی امریکا کے بڑے ممالک میکسیکو اور برازیل میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد کے اعدادوشمار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ ارجنٹینا میںوبا کے دنوں میں عورتوں سے بدسلوکی اور تشدد میں 67 فی صد اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ میں خواتین سے متعلق امور کی ڈائریکٹر ماریا نوئیل بائیزا کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے باعث دنیا بھر میں عورتوں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس لاطینی امریکا میں 38سو خواتین کا قتل ہوا، آئندہ برس نہ جانے کتنی اور خواتین جان سے جائیں گی؟
اسی وبا کے دوران اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس یہ کہنے پر مجبورہوگئے کہ''بہت سی خواتین اور لڑکیوںکے لیے سب سے زیادہ خطرہ وہاں ہے جہاں انہیں سب سے زیادہ محفوظ ہونا چاہیے، یعنی ان کے اپنے گھروں میں۔ لہذا، آج میں دنیا بھر کے گھروں میں امن کے لیے ایک نئی درخواست کر رہا ہوں۔''
اگر جنو ب ایشیائی ممالک کا ذکر کیا جائے تو صو ر تِ حال یہاں بھی گمبھیر ہو رہی ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے اس خطہ میں وسائل سے زیادہ مسائل رہے ہیں اوراب کرونا کی بدولت یہ ایک دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔یہاں اربوں انسان رہتے ہیں۔ بھارت، پاکستان، بنگلا دیش، افغانستان، سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان سمیت خطے کے گنجان آباد علاقوںمیں کرونا کے متاثرین یورپی ممالک کی نسبت کم ہیں ۔ تاہم اس وبا کے برے اثرات کے باعث سماجی اور تجارتی زندگی معطل ہے جس سے گھروں میں موجود وہ لوگ بھی متاثر ہیں جو باہر نکل کر کام نہیں کرتے، یعنی خواتین، بزرگ اور بچے...!
جنوبی ایشیا میں سب ہی ممالک ترقی پذیراور لاکھوں کچی بستیوں پر مشتمل ہیں جن کی صحت کے مراکز تک رسائی بھی آسان نہیں ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان، بھارت، بنگلا دیش اور دیگر چھوٹی ریاستیں جہاں کروناکے مریضوں کی کم تعداد رپورٹ ہوئی ہے ، مگر یہ بھی وائرس کے نشانے پر ہیں ۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہو سکتی ہے اور صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی متوقع ہیں ۔ اگر ایسا ہوا تو پورے جنوبی ایشیا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے زیادہ کیسز بھارت میں جب کہ سب سے کم بھوٹان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں کتنا اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق اور انسدادِ گھریلو تشدد کے ادارے کی ہیلپ لائن پر شکایات کے لیے گھنٹوںانتظار کرنا پڑ رہا ہے اور یہ نہایت سنگین مسئلہ ہے۔انسانی حقوق سے متعلق ضیااعوان کے مطابق ان کی ہیلپ لائن بیس سال سے چل رہی ہے، لیکن ایسی صورتِ حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں شوہر مطلق العنان حاکم کے روپ میں سامنے آتا ہے وہاں عورت پر ہاتھ اٹھ جانا عام بات ہے۔ ایسے میں اس وبا کے دوران پہلے سے موجودسخت گیر طبیعت، حاکما نہ مزاج اورذہنی یا جسمانی تشدد کو اپنا حق سمجھنے والوں کو موقع مل جانا حیران کن نہیں ہوگا۔ تاہم اس بار گھریلو تشدد کے اثرات صرف شادی شدہ جوڑے کو نہیں بھگتنا پڑرہے بلکہ یہ گھر کے ہر مکین کو متاثر کر رہا ہے۔
ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل وقت گزارنے، گھریلو معاملات اور مختلف امور سے متعلق ضرورت سے زیادہ حصہ ڈالنے یا رائے کا اظہار کرنے سے بات بڑھ رہی ہے اور بحث مباحثے پہلے یکسانیت کا شکار بنا رہی ہے اور پھر ماحول کی گھٹن اعصاب پر طاری ہوکربگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔
حساسیت کی وجہ سے ہلکی پھلکی بحث کا اختتام سنگین لڑائیوں کی ابتدا ثابت ہو رہا ہے اور یہ زیادہ تر ان خاندانوں میں معمول بن گیا ہے جن کو روزگار کے مستقل ذرایع میسر نہیں ہیں۔ایسے گھرانے جو ماہانہ تنخواہ اور لگی بندھی آمدن پر نہیں چلتے بلکہ یومیہ اجرت اور ہوائی روزی سے منسلک ہیں، ان کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ساڑھے پانچ کروڑ ہے۔
ان میں ویلڈر، مستری، درزی، پلمبر، الیکٹریشن ،گھروں میں کام کرنے والی عورتیں، ڈرائیور اور مزدور شامل ہیں جو گھر کا چولھا نہیں جلا پارہے۔اس آفت کا مقابلہ کرنے کے لیے نہ تو ان کے پاس وسائل ہیں نہ اہلیت ،جس کے نتیجے میں مارپیٹ کے بعد اور معاملہ بڑھ جانے پراقدامِ قتل یا اس کا ارتکاب اورمیاں بیوی کے مابین طلاق کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ایسا ہوا بھی ہوگا، کیو ں کہ یہاں پر بہت کیسزرپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد گھر میں رہتے ہوئے ماحول کو بہتربنانے کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائے اورایک دوسرے کے کاموں میں غیر ضروری مداخلت اور مباحث سے بچے۔ دوسری طر ف صاحبِ حیثیت افرادکوچاہیے کہ وہ مفلس اور بدحال لوگوں کی اتنی مدد ضرور کریں کہ ان کا دال دلیا چلتا رہے۔
اس ضمن میں ذرایع ابلاغ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔گھروں کا ماحول بہتر بنانے اور گھریلو تشدد سے بچنے کے حوالے سے بھی آگاہی دینے اور اس پرباقاعدہ پروگرام نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں میں قید دماغ جو بتدریج نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو رہے ہیں ، انھیںبتایا جائے کہ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے ما ر پیٹ ، گالی گلوچ کو ہی ہتھیار نہ بنائیں بلکہ اس کا مثبت، بہترین متبادل نکالنے کے لیے زور آزمائی کریں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن کے ان دنوں میں ہی نہیں بلکہ اس حالیہ وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی حکومتوں کو کچھ ایسی پالیسیاں ضروری بنانی چاہئیں جو گھر کے یونٹ کو پریشانیوں اور الجھنوں کا مرکز نہ بننے دیں، بلکہ اسے صحیح معنوں میں امن و شانتی کے گہوارے میں تبدیل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔
اگر آپ خود، آپ کاکوئی پیارا، دوست یاپڑوسی گھریلوجھگڑوں اور تشدد کا سامنا کر رہا ہے توہمّت کیجیے، آگے بڑھ کر ان کے مابین صلح صفائی کروائیے اور کوشش کیجیے کہ آپ کی مدد سے وہ اپنے معاملات سلجھا سکیں ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو خاموش نہ رہیں، لیگل ایڈ سیل، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن، وزارتِ انسانی حقوق پاکستان کی ہیلپ لائن پر اس کی رپورٹ درج کروائیں ۔دوسری جانب یہ بھی ضروری ہے کہ ہیلپ لائن پررابطہ کرنے والوں کو اردواور علاقائی زبانوں میں خدمات مہیا کی جائے تاکہ ہر زبان اور بولی جاننے والی خواندہ اور نیم خواندہ عورتیںایسی صورتِ حال میں مدد لے سکیں۔