ہوشمندی کے تقاضے اورکورونا

دیگر ملکوں کے معاشی ماہرین کی طرح پاکستان میں بھی ملکی اقتصادی اور مالیاتی صورتحال زیر بحث ہے

دیگر ملکوں کے معاشی ماہرین کی طرح پاکستان میں بھی ملکی اقتصادی اور مالیاتی صورتحال زیر بحث ہے

کورونا وائرس نے انسانی صحت کے عالمگیر نظام کو جھنجھوڑ کر رکھ تو دیا مگر دنیا بھر کی معیشت کو بھی سر کے بل کھڑا کرکے مرزا غالب کی زبان میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ:

کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگن عشق

ہے مکرر لبِ ساقی پہ سدا میرے بعد

دیگر ملکوں کے معاشی ماہرین کی طرح پاکستان میں بھی ملکی اقتصادی اور مالیاتی صورتحال زیر بحث ہے، سیکریٹری منصوبہ بندی ظفر حسن کی زیرصدارت نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، اجلاس بریفنگ میں بتایا گیا کہ کورونا، لاک ڈاؤن اور ٹڈی دل نے معیشت کو بدترین نقصان پہنچایا، معاشی ترقی کی شرح68 سال بعد منفی ہوگئی۔

1952 میں معاشی ترقی کی شرح منفی ہوئی تھی، شرح نمو سال 1952 میں منفی1.81 فیصد تھی، جاری اعلامیے کے مطابق معاشی ترقی کی شرح منفی0.38 فیصد رہی، معاشی ترقی کی شرح کا ہدف4 فیصد تھا، زرعی شعبے میں شرح نمو2.67 فیصد رہی، زرعی شعبے میں شرح نمو کا ہدف2.9 فیصد تھا، کپاس کی پیداوار میں 6.92 اور گنے کی پیداوار میں0.44 فیصد منفی گروتھ ہوئی، پیاز، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کی پیداوار میں4.5 فیصد اضافہ ہوا، لائیو اسٹاک میں شرح نمو2.5 فیصد رہی، جنگلات میں شرح نمو2.29 فیصد رہی، صنعتی ترقی کی شرح منفی2.64 رہی، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ میں7.7 فیصد کمی آئی، ٹیکسٹائل سیکٹر میں منفی2.7 فیصد کمی، فوڈ مشروبات اور تمباکو سیکٹر میں منفی2.3 فیصد کمی۔

کوک اور پیٹرولیم مصنوعات میں منفی17.4، فارماسیوٹیکل منفی5.3، کیمیکل مصنوعات میں منفی2.3 فیصد کمی ہوئی، الیکٹرونکس مصنوعات منفی 13.5 فیصد، انجینئرنگ میں منفی7 فیصد کمی ہوئی، تعمیراتی سرگرمیوں میں 8.6 فیصد اضافہ ہوا، فنانس اور انشورنس سیکٹر کی گروتھ میں0.79 فیصد اضافہ ہوا،2019-20 میں فی کس آمدنی2 لاکھ 14ہزار539 روپے رہی۔ فی کس آمدنی میں گزشتہ سال کی نسبت8.3 فیصد اضافہ ہوا، اس سال جی ڈی پی 41 ہزار772 ارب روپے رہی۔

مشیر خزانہ شیخ عبدالحفیظ نے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان 72 سالہ اقتصادی تاریخ میں کبھی بھی برآمدات نہیں بڑھا سکا، حکومت کو ورثے میں 20 ارب ڈالرز کا مالی خسارہ ملا جسے کم کرکے3 ارب ڈالر تک لے آئے، امپورٹ بل بھی کم کیا گیا، زرمبادلہ کے ذخائر بھی 7 ارب ڈالر سے12 ارب ڈالر تک لے گئے، حفیظ شیخ نے کہا کہ کورونا کی وجہ سے عالمی جی ڈی پی میں 3 فیصد کمی آئیگی، دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی ڈیمانڈ کم رہی، تو کوشش کے باوجود برآمدات ضرورت کے مطابق نہیں بڑھ سکیں۔

لیکن حکومت نے نئے اقدامات کیے، احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ20 لاکھ خاندانوں کو بارہ بارہ ہزار روپے امداد دی جارہی ہے، کسانوں سے 82 ٹن گندم خریدی جارہی ہے، اس سے280 ارب روپے ان تک پہنچیں گے۔ یہ پیسہ اشیائے خورونوش اور ٹریکٹرز کی ڈیمانڈ پیدا کریگا جس سے باقی معیشت میں طلب پیدا ہوگی، انھوں نے کہا کہ کورونا سے متاثرہ 40 لاکھ کارکنوں کو بھی امداد ملنا شروع ہوگئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کیش ایمرجنسی پروگرام کا اجرا کردیا ہے، اسی طرح معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مختلف شعبوں کو کھول دیا گیا ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ معاشی بحالی دنیا بھر کے تمام ملکوں کے لیے اولین ترجیحی مسئلہ بن گیا ہے، اربوں روپے کے فنڈز ترقی یافتہ ممالک اور مالیاتی ادارے کورونا کی تحقیقات، وبا کی روک تھام اور متاثرہ مریضوں کے علاج معالجے کے لیے مختص کیے جارہے ہیں، مگر حکومتی حکمت عملی میں عملی دشواریاں بھی سامنے آئی ہیں، پاکستان میں کورونا سے نمٹنے میں وفاق اور صوبوں کی پالیسیوں میں ابھی تک کوئی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکی۔ حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی جنگ ٹھنی ہوئی ہے، وفاق اور سندھ حکومت میں18 ویں ترمیم اور فنانشل معاملات پر تنازعات چل رہے ہیں، ایس او پیز کے تضادات نے مکالمہ کے راستے بھی بند کردیے ہیں، ساری لڑائی میڈیا کے ذریعے جاری ہے اور قوم ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔


چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے قراردیا کہ کاروبار بند رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہے، کیس کی سماعت پانچ رکنی بینچ کر رہا تھا، چیف جسٹس نے کورونا اور لاک ڈاؤن کے وسیع تر تناظر میں چشم کشا ریمارکس دیے، انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کورونا وبا نہیں، اس پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کا کیا جواز ہے؟ کیا وائرس نے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ہفتہ اتوارکو نہیں آئیگا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ مارکیٹیں، شاپنگ مالز ساتوں دن کام کریں گے، پولیس لوگوں کی تضحیک نہ کرے اور نہ ان سے رشوتیں لے، عدلیہ نے سیل دکانیں بھی کھولنے کا حکم دیا، چیف جسٹس نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا، عدلیہ نے کہا کہ صوبے پابندیوں پر عمل کرائیں، شاپنگ مالز کھولنے کے لیے وفاق سے فوراً اجازت لیں، دکانیں نہ کھلیں تو لوگ بھوک سے مرجائیں گے یا سڑکوں پر آجائیں گے چیف جسٹس نے کہا کہ 500 ارب کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے۔

اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری126 فیصد اضافہ سے2 ارب 23 کروڑ 14 لاکھ ڈالر رہی۔ دس ماہ کی پورٹ فولیو سرمایہ کاری میں 18کروڑ 27 لاکھ ڈالر کا انخلا ریکارڈ کیا گیا، غیر ملکی پبلک انویسٹمنٹ دس ماہ میں منفی23 کروڑ45 لاکھ ڈالر رہی، جو گزشتہ مالی سال منفی ایک ارب ڈالر رہی تھی جو غیر ملکی سرمایہ کاری بانڈز کا نتیجہ تھی، حکومتی تمسکات اور اسٹاک مارکیٹ سرمایہ کاری کے انخلا کے سبب اپریل 2020 میں مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری منفی51 کروڑ 15 لاکھ ڈالر رہی۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق اپریل2020 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اپریل 2019 کے مقابلے میں قدرے بہتر رہی۔

پاکستان کے مرکزی بینک کے سیاق و سباق میں ذرا عالمی مالیاتی منظر نامہ پر بھی اگر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ عالمی معیشت بھی ڈانوا ڈول ہے، امریکا میں بدترین بیروزگاری جب کہ جرمنی کی سکڑتی معیشت سے ان حکومتوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔

عالمی معاشی اعشاریے اور اقتصادی صورتحال ترقی پذیر اور پاکستان جیسے کمزور معیشت کے حامل ملک کے لیے سبق آموز ہی ہوسکتی ہے۔ عالمی میڈیا کے مطابق یورپی معیشت کی بحالی کے لیے جرمنی اور فرانس کا 500 ارب یورو فنڈ پر اتفاق ہوا ہے، کورونا کے باعث جاپان میں5 سال کے بعد معاشی کساد بازاری، جی ڈی پی میں3.4 فی صد کمی ریکارڈ ہوئی ہے، بھارت میں کورونا کیسز ایک لاکھ تک تجاوز کرگئے، ترکی نے عید کے دن کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کردیا، روس کے علاقے داغستان میں کورونا بے قابو ہوگیا، روس نے امداد طلب کرلی۔

یہ خوش آئند پیش رفت ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے ایک خصوصی اجلاس میں کورونا پیدائش کی تحقیقات کی حمایت کی ہے، قرارداد یورپی یونین نے پیش کی، آسٹریلیا نے اس کی حمایت جب کہ چین نے خیر مقدم کیا، چینی صدر شی نے کہا کہ جب ووہان میں وبا پھوٹ پڑی تو چین نے شفافیت اور ذمے داری کا مظاہرہ کیا، شی نے اعلان کیا کہ اگر چین نے ویکسین تیار کرلی تو وہ دنیا میںمفت پیش کردی جائے گی۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردارکیا ہے کہ موسم سرما میں کورونا کی دوسری لہر بھی آسکتی ہے، پاکستان نے دوسری لہر کا اندیشہ بلا ضرورت رواں ماہ میں پیش کردیا تھا اور مئی میں ہلاکتوں اور وبا کے پھیلاؤ پر عوام کو تشویش اور خوف میں مبتلا کیا، اب اس وبا کے strike back کے لیے جون کے مہینے کی پیشگوئی کی جارہی ہے، حکومتی صحت حلقے اب کورونا کی ڈیڈ باڈیز کو ان کے ورثا اور لواحقین کو لوٹانے پر تیار نظر آتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی تدفین مقامی قبرستانوں میں کی جاسکے گی۔

کیونکہ ماہرین کے مطابق کورونا سے مرنے والوں سے کسی کو ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں، تاہم گزشتہ تین ماہ سے کورونا سے ہلاک ہونے والوں کی جو دیومالائی کہانیاں پھیلائی گئیں ان سے ہلاک ہونے والوں کی میتیں پراسراریت کا شکار ہوئیں، نجی اور سرکاری اسپتالوں نے کورونا ٹیرر پھیلایا۔ ڈیڈ باڈیز کا کاروبار شروع ہوگیا، لوگ خوف کے مارے اپنے دیگر امراض بھول گئے، یہ المیہ ہے کہ کورونا نے پاکستان میں امراض قلب، ہیپا ٹائٹس، دمہ، ٹی بی۔ بلڈ پریشر، نزلہ زکام، بخار، گردوں اور ضیابیطس کے امراض پر عجیب غلبہ پالیا اور کورونا کے پھیلاؤ کے بعد یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ گویا پاکستان میں کورونا کے سوا کوئی انسان کسی دوسری طبعی بیماری سے ہلاک نہیں ہورہا۔ بس ایک مرگ ناگہانی کورونا ہی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ارباب اختیار، سیاسی اسٹیک ہولڈرز، اپوزیشن اور حکومت میں'' چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد'' کا جو تماشا لگا رہا، اب تقریباً چار ماہ کی کشمکش، محاذ آرائی، ٹکراؤ، الزام تراشیوں اور سپریم کورٹ کے ریمارکس کے نتیجہ میں اس کا ڈراپ سین قوم کو نظر آنا چاہیے۔

آج کورونا کے نام پر میڈیا وار کا سلسلہ ترک کرکے عوام کو ذہنی طور پر کورونا کی تباہ کاریوں سے محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت میں کورونا سے وطن عزیز میںاتنی تباہی اور ہلاکت آفرینی نہیں دیکھی گئی جتنا شور وغل طرز حکمرانی کی بے سمتی اور غیریقینیت نے مچایا ہے، اب جب کہ عدالت عظمیٰ نے شرح صدر کے ساتھ حقائق کھول کر رکھ دیے۔ ارباب اختیار اور عوام خود پر اور ملک پر رحم کریں، کورونا کے خاتمہ کے لیے مسیحائی کی سائنسی اور روحانی سوچ سے کام لیں، اسی میں سب کا فائدہ ہے۔
Load Next Story