ٹارگٹڈ آپریشن کو نتیجہ خیز بنایا جائے
کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن اپنی شد و مد کے ساتھ جاری ہے لیکن ساتھ ہی بدامنی کی ملک گیر لہر منی پاکستان میں بھی...
کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن اپنی شد و مد کے ساتھ جاری ہے لیکن ساتھ ہی بدامنی کی ملک گیر لہر منی پاکستان میں بھی کسی صورت تھمتی نظر نہیں آتی۔ گزشتہ روز بھی فائرنگ کے واقعات میں پولیس اہلکار سمیت 2افراد جاں بحق جب کہ دیگر واقعات میں 13 افراد زخمی ہوگئے۔ شہر میں ہونے والی اموات روز 10-15 کا ٹارگٹ حاصل کر ہی لیتی ہیں ایسے میں ٹارگٹڈ آپریشن کے نتائج اس قدر کارگر ہوتے نظر نہیں آتے جتنی توقع کی جارہی تھی۔ دوسری جانب وزیراعظم نوازشریف نے کراچی میں امن و امان کی تیزی کے ساتھ بگڑتی صورتحال کا سخت نوٹس لیتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری نثار کو سندھ حکومت سے رابطہ کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو از سر نو حکمت عملی مرتب کرکے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے، کراچی میں تمام سیاسی جماعتوںکے ساتھ رابطے کرکے از سر نو اتفاق رائے حاصل کرکے ٹارگٹڈ آپریشن تیزکرنے کا حکم دے دیا ہے۔
وزیرداخلہ نے بدھ کی شب وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے وزیراعظم کی تشویش سے آگاہ کیا اور انھیں وفاقی حکومت کی جانب سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس موقع پر کراچی میں آیندہ 24 گھنٹوں میں امن و امان کی صورتحال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ ہم پرامید ہیں کہ اس اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد راست اقدامات کرتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن کو مزید نتیجہ خیز بنایا جائے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ ہائوس میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس پر عمل درآمدکرنے کے احکامات جاری کیے ہیں، جب کہ محکمہ داخلہ سندھ کو ہدایت کی ہے کہ دہشت گردی میں پولیس کو مطلوب دہشتگردوں کے سروںکی قیمتیں رکھی جائیں اور ان کی گرفتاری کے لیے میڈیا میں تشہیری مہم چلائی جائے، دہشت گردی میں شہید ہونے والے اہلکاروں کے ورثا کو پلاٹ، نوکری اور 20 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی جی پولیس شاہد ندیم کے مطابق ستمبر 2013 میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے سے اب تک مختلف مقامات پر 7376 چھاپے مارے گئے، جن میں 509 پولیس مقابلے ہوئے، ان مقابلوں میں81 دہشت گرد مارے گئے ہیں جب کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران 10179 جرائم پیشہ افرادگرفتار کیے گئے، جن میں 3572 اشتہاری اور مفرور مجرم بھی شامل ہیں، 246 ملزمان ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جب کہ 619 ملزمان ڈکیتی میں ملوث تھے ،اس طرح 5742 ملزمان غیر قانونی اسلحہ ، منشیات اور دیگر جرائم میں ملوث تھے۔ اس قدر گنجلک اعداد و شمار کے باوجود بھی جب ہم نتائج پر غور کرتے ہیں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور دہشت گردی کا عفریت بے قابو دکھائی دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فوج کے سپہ سالار کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس ادارے دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنائیں۔
گزشتہ روز بھی کراچی کے علاقے عزیزآباد میں رینجرز سندھ کی بھاری نفری نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو کے اطراف کئی گھنٹوں تک سرچ آپریشن کیا اور متحدہ رہنمائوں کی گاڑیوں کی اسنیپ چیکنگ بھی کی، خارجی اور داخلی راستے سیل کرکے بعض عمارتوں کی تلاشی بھی لی۔ ملک بھر میں امن و امان کی خراب ہوتی صورتحال اور خصوصاً کراچی کے حالات پر ہنگامی بنیادوں پر راست اقدامات کی ضرورت ہے۔ سید قائم علی شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں امن و امان 15دن یا ایک ماہ میں بہتر ہونے کی امید نہیں۔ لیکن اس آگ کو جلتے اب دن یا مہینے تو کیا برسوں بیت چکے۔ آخر وہ اسٹرٹیجی کب بنائی جائے گی جس میں امن کی بحالی کے واضح امکانات نظر آنے لگیں۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے صائب مشورہ ہے کہ دہشت گردی کو محض واقعاتی تناظر میں دیکھنے اور سلجھانے کے بجائے اس کے محرکات اور جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے، وقتی کارروائیاں دہشت گردوں کو بظاہر پسپا ضرور کردیتی ہیں لیکن کچھ عرصے بعد یہ عناصر مزید فعال ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ جب تک دہشت گردی کا اس کی جڑوں سے خاتمہ نہیں ہوگا، صحیح اور حقیقی نتائج کا ملنا ناممکن ہے۔
وزیرداخلہ نے بدھ کی شب وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے وزیراعظم کی تشویش سے آگاہ کیا اور انھیں وفاقی حکومت کی جانب سے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اس موقع پر کراچی میں آیندہ 24 گھنٹوں میں امن و امان کی صورتحال پر اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا جس میں اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ ہم پرامید ہیں کہ اس اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد راست اقدامات کرتے ہوئے ٹارگٹڈ آپریشن کو مزید نتیجہ خیز بنایا جائے گا۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ ہائوس میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے تحفظ پاکستان آرڈیننس پر عمل درآمدکرنے کے احکامات جاری کیے ہیں، جب کہ محکمہ داخلہ سندھ کو ہدایت کی ہے کہ دہشت گردی میں پولیس کو مطلوب دہشتگردوں کے سروںکی قیمتیں رکھی جائیں اور ان کی گرفتاری کے لیے میڈیا میں تشہیری مہم چلائی جائے، دہشت گردی میں شہید ہونے والے اہلکاروں کے ورثا کو پلاٹ، نوکری اور 20 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی جی پولیس شاہد ندیم کے مطابق ستمبر 2013 میں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے سے اب تک مختلف مقامات پر 7376 چھاپے مارے گئے، جن میں 509 پولیس مقابلے ہوئے، ان مقابلوں میں81 دہشت گرد مارے گئے ہیں جب کہ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران 10179 جرائم پیشہ افرادگرفتار کیے گئے، جن میں 3572 اشتہاری اور مفرور مجرم بھی شامل ہیں، 246 ملزمان ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان جب کہ 619 ملزمان ڈکیتی میں ملوث تھے ،اس طرح 5742 ملزمان غیر قانونی اسلحہ ، منشیات اور دیگر جرائم میں ملوث تھے۔ اس قدر گنجلک اعداد و شمار کے باوجود بھی جب ہم نتائج پر غور کرتے ہیں تو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور دہشت گردی کا عفریت بے قابو دکھائی دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ فوج کے سپہ سالار کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل راحیل شریف نے گزشتہ روز پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ انٹیلی جنس ادارے دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنائیں۔
گزشتہ روز بھی کراچی کے علاقے عزیزآباد میں رینجرز سندھ کی بھاری نفری نے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو کے اطراف کئی گھنٹوں تک سرچ آپریشن کیا اور متحدہ رہنمائوں کی گاڑیوں کی اسنیپ چیکنگ بھی کی، خارجی اور داخلی راستے سیل کرکے بعض عمارتوں کی تلاشی بھی لی۔ ملک بھر میں امن و امان کی خراب ہوتی صورتحال اور خصوصاً کراچی کے حالات پر ہنگامی بنیادوں پر راست اقدامات کی ضرورت ہے۔ سید قائم علی شاہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کراچی میں امن و امان 15دن یا ایک ماہ میں بہتر ہونے کی امید نہیں۔ لیکن اس آگ کو جلتے اب دن یا مہینے تو کیا برسوں بیت چکے۔ آخر وہ اسٹرٹیجی کب بنائی جائے گی جس میں امن کی بحالی کے واضح امکانات نظر آنے لگیں۔ یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے صائب مشورہ ہے کہ دہشت گردی کو محض واقعاتی تناظر میں دیکھنے اور سلجھانے کے بجائے اس کے محرکات اور جڑوں تک پہنچنے کی کوشش کی جائے، وقتی کارروائیاں دہشت گردوں کو بظاہر پسپا ضرور کردیتی ہیں لیکن کچھ عرصے بعد یہ عناصر مزید فعال ہو کر سامنے آجاتے ہیں۔ جب تک دہشت گردی کا اس کی جڑوں سے خاتمہ نہیں ہوگا، صحیح اور حقیقی نتائج کا ملنا ناممکن ہے۔