پانچ بڑی ریاستوں کے انتخابات
ملک کی پانچ بڑی ریاستوں مدھیہ پردیش‘ راجستھان‘ چھتیس گڑھ‘ میزو رام اور دہلی میں قانون سازوں کے انتخابات...
ملک کی پانچ بڑی ریاستوں مدھیہ پردیش' راجستھان' چھتیس گڑھ' میزو رام اور دہلی میں قانون سازوں کے انتخابات میں عوام کے موڈ کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بہت سے سوالات بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو آیندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔
ریاستی انتخابات کے نتیجے میں دو رجحانات سامنے آئے ہیں ایک مثبت ہے اور دوسرا منفی۔ مثبت رجحان یہ ہے کہ اس مرتبہ رائے دھندگان کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تقریباً 75 فیصد افراد نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیلٹ باکس پر عوام کے اعتماد کو فروغ حاصل ہوا ہے جو کہ جمہوری حکمرانی کا لازمی تقاضا ہے۔
منفی پہلو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا ہے۔ میں آزادی کے بعد سے تمام انتخابی مہموں کا بغور جائزہ لیتا رہا ہوں۔ بسا اوقات بہت پُر خطر مقابلے بھی ہوئے، بالخصوص چھٹی دہائی کے اواخر میں۔ لیکن اس کے باوجود نہ کسی نے انفرادی طور پر اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی نے کبھی بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ زیادہ سے زیادہ ایک سوشلسٹ لیڈر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے جو کہ اندرا گاندھی کا شدید مخالف تھا، اندرا گاندھی کو ''گونگی گڑیا'' کا خطاب دیا تھا۔ یہ بھی اخلاق سے گری ہوئی بات نہیں تھی۔ گالم گلوچ اور دوسروں کی ذات پر رکیک حملے کرنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد سے اخلاقیات اور غیر اخلاقی باتوں کے درمیان جو بہت باریک سی حد فاصل قائم تھی وہ بتدریج مٹ گئی۔ اور اب سب چلنے لگا ہے۔
حالیہ ریاستی انتخابات کو پارلیمانی انتخابات کا سیمی فائنل سمجھا جا رہا ہے۔ اب مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ مئی 2014ء میں منعقد ہونیوالے لوک سبھا کے حتمی انتخابات میں معیار کس حد تک تنزل پذیر ہو جائے گا۔ میری تمنا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو انتخابات کے حوالے سے کسی ضابطہ اخلاق پر متفق ہو جانا چاہیے تا کہ انتخابی امیدوار بازاری لوفروں کی سطح پر نہ گر جائیں۔
میرا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن ضرورت سے زیادہ نرم روی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ میں نے ایسی رپورٹیں دیکھی ہیں جن میں انتخابی امیدواروں سے باز پرس تو کی گئی ہے لیکن ابھی تک کسی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کی گئی۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اور انتخابی امیدواروں نے باہم ساز باز کر لی ہے جو کہ آزادانہ انتخابات کے انعقاد کے منافی ہے۔ مجھے انتخابات کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن انتخابی عمل کا صاف و شفاف ہونا برابر کی اہمیت رکھتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ تشویش معاشرے کو تقسیم در تقسیم کا شکار ہوتے دیکھنے میں ہے۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ممکن ہے کہ براہ راست ہندو کارڈ کا استعمال نہ کریں لیکن ان کی تمام تقاریر کے بین السطور ہندو قومیت کا پرچار واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو کہ اجتماعیت کے فلسفے کے منافی ہے جس پر ہمارے ملک کی بنیادیں استوار کی گئی تھیں۔
آر ایس ایس نے اعتدال پسند بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر زبردستی اپنا امیدوار مسلط کر دیا ہے اور یہ بات قابل فہم ہے لیکن سُشما سوراج اور ارون جیٹلی جو کہ بی جے پی میں بائیں بازو کے آزاد خیال سمجھے جاتے ہیں وہ مودی کے ساتھ کیوں تقریریں کرتے پھرتے ہیں۔ ایل کے ایڈوانی جو کئی سال سے خاصے نرم خُو رہے ہیں انھوں نے اپنے طرز عمل سے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ ان کا مودی کی فرقہ پرستانہ سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
بی جے پی نے خود اپنے پائوں پر چوٹ لگائی ہے۔ یہ پارٹی مسلم دشمن رویے کو مدھم کر کے اپنی بنیاد کو وسیع کرنے کی کوشش کر سکتی ہے لیکن اس نے آگرہ میں بی جے پی کے ان دو اراکین اسمبلی کو اعزاز سے نوازا ہے جو گجرات میں 2002ء میں ہونیوالے مسلم کُش فسادات میں ملوث تھے۔ تاہم عدالت میں ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت میسر نہ آنے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ البتہ ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت ضرور آشکار ہو گئی ہے۔
پانچ ریاستوں میں ہونیوالے قانون سازوں کے انتخاب کا لوک سبھا کے مجوزہ انتخاب پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ریاستی انتخابات سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ پارلیمانی انتخابات بھی اسی انداز میں ہوں گے۔ ووٹر مرکز میں کانگریس حکومت کی ناقص حکمرانی اور کرپشن سے بری طرح تنگ آئے ہوئے ہیں۔ مالیاتی سیکنڈلز جو ہزاروں کروڑوں روپے سے متجاوز ہیں انھوں نے عوام کو دہشت زدہ کر کے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بے پناہ اضافہ بھی کانگریس کی مخالفت میں جائے گا۔ لہذا بی جے پی کے حق میں جو ووٹ پڑیں گے وہ منفی ووٹ ہونگے۔ ابھی تک کانگریس اور بی جے پی کے مقابلے میں کوئی تیسری ملک گیر جماعت معرض وجود میں نہیں آ سکی۔ لہذا لوگ خواہ ان دونوں سے کتنے ہی نالاں کیوں نہ ہوں انھی کو ووٹ دینے پر مجبور ہونگے۔ سب سے زیادہ خلفشار میں مبتلا کرنیوالی بات جو روز بروز خطرناک صورت اختیار کرتی جا رہی ہے وہ پیسے کا بے دریغ استعمال ہے۔ روپیہ تو سیاسی معاملات میں شروع ہی سے اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن اس دفعہ اس نے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پانچ ریاستوں میں امیدواروں کی مجموعی تعداد 6454 تھی مدھیہ پردیش میں 231 نشستوں کے لیے 2586 امیدوار میدان میں تھے (جن کی تعداد مقابلتاً دیگر ریاستوں سے زیادہ تھی) اس کے بعد راجستھان میں 200 نشستوں کے لیے امیدواروں کی تعداد 2087 تھی۔ چھتیس گڑھ میں 91 نشستوں پر 834 امیدوار کھڑے ہوئے جب کہ میزو رام کی 40 نشستوں کے لیے 42 امیدوار تھے اور دلی کی 70 نشستوں کے لیے 796 امیدوار میدان میں اترے جنہوں نے ہزاروں کروڑ کی رقوم کے خرچے کیے۔
مختلف جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ لوک سبھا کی ایک نشست کے لیے کم از کم دس کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا جب کہ لوک سبھا کی ایک نشست میں سات سے آٹھ انتخابی حلقے شامل ہوتے ہیں اور ایک انتخابی حلقے پر سوا کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ اسمبلی کی ایک نشست پر کم سے کم خرچہ دو کروڑ روپے ہے اگر تمام امیدواروں کے اخراجات کو جمع کیا جائے تو یہ تیرہ ہزار نو سو آٹھ (13908) کروڑ روپے بنتے ہیں۔ چیف ایکشن آفیسر (سی ای او) نے وضاحت کی ہے کہ ہم تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد امیدوار نریندر مودی کی انتخابی مہم کی مالی مدد کارپوریٹ سیکٹر کر رہا ہے۔ پارٹی کے مختلف دھڑے اتنا بہت سا روپیہ آنے پر بہت خوش ہیں۔ احمد آباد میں صنعتی اداروں کے سربراہوں کے اجلاس میں انھوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے نریندر مودی کی نامزدگی کی بھرپور طریقے سے حمایت کی کیونکہ ان کے خیال میں مودی نے جو انتخابی تقاریر کی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد صنعت کاروں کو کاروبار کے لیے مکمل آزادی دیدیں گے۔ حکومت کے سیکیورٹی اداروں کی طرف سے جس میں انسداد دہشت گردی کے اہلکار بھی شامل ہیں مسلسل نگرانی کر رہے ہیں۔ تاہم انھیں اپنے طرز عمل میں نظرثانی کرنی چاہیے۔ ریاستی تحقیقاتی کمیٹی تو ایک ڈھونگ ہے۔ اصل میں تو کرپشن کی عدالتی تفتیش ہونی چاہیے۔ جب کہ انتخابی اصلاحات صاف اور شفاف انتخابات کے لیے ناگزیر ہیں۔ اس حوالے سے بہت سی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں جنہوں نے اصلاحات کی سفارشات کی ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ گاندھی جی کے پیروکار جے پرکاش نرائن نے بھی بہت سی سفارشات تیار کی تھیں۔ حقیقت میں جنتا پارٹی نے بھی جو کہ جے پرکاش نرائن ہی کی تخلیق تھی ان کی سفارشات پر عمل نہ کیا کیونکہ وزیر اعظم مرار جی ڈیسائی کے خیالات بالکل مختلف تھے۔ اگرچہ ان کی شخصی عظمت شک و شبہ سے بالاتر تھی اس کے باوجود میں انتخابات میں ان کے کردار کو کم نہ کر سکے جس کی وجہ سے آج بھی انتخابات میں ان اثرات کو زائل نہیں کیا جا سکا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)