روزن جالب اور چیف منسٹر بلوچستان

ہر برس کی طرح امسال بھی اردو عالمی کانفرنس آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کی گئی، اس کانفرنس میں گزشتہ 5برس کے...

anisbaqar@hotmail.com

ہر برس کی طرح امسال بھی اردو عالمی کانفرنس آرٹس کونسل کراچی میں منعقد کی گئی، اس کانفرنس میں گزشتہ 5برس کے روایتی انداز تھے، مگر شرکا پرجوش تھے اور تمام حاضرین نشستوں پر دیر تلک بیٹھے رہے، مگر ماضی کی طرح بچوں کا ادب اور انشائیہ کا دامن کسی راقم نے نہ تھاما اور نہ ہی نفاذ اردو پر کوئی قرارداد منظور کی گئی، البتہ اس کانفرنس میں بلوچستان کے چیف منسٹر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا ایک پروگرام عوامی شاعر حبیب جالب کے حوالے سے منعقد کیا گیا، یہ نسبتاً پرجوش اور جمود شکن تھا۔ ہال حاضرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، روشنی بند کرکے اسٹیج منور کرکے جالب کی تصویر اور ان کی مخصوص انقلابی آواز میں نظم ''دستور'' کے اشعار سنائے جاتے رہے۔

جالب کے اہل خانہ کی خستہ حالی اور جالب کا انداز میر کہ:

خدا کے گھر بھی نہ جائیں گے بن بلائے ہوئے

اس سے ہر کس و ناکس واقف ہے کہ وہ حکمرانوں کی دہلیز پر کسی قیمت پر قدم رکھنے کو تیار نہ تھے اور خاص طور سے ان حکمرانوں کے در پر جو شاطران وطن تھے اور وطن کو دھن بٹورنے کا ذریعہ سمجھتے رہے جو سلسلہ آج بھی تیزی سے بلند پروازی پر رواں دواں ہے، کبھی یہ آمریت کے نام پر تو کبھی یہ جمہوریت کے نام پر جاری و ساری ہے، اس پروگرام میں جس کی وسعت تنگی وقت کا شکار تھی، بولنے والے کئی تھے مگر مجاہد بریلوی گاہے گاہے جالب کے اشعار سے محفل میں رنگ بھرتے رہے، اس تمام زبان دانی میں جو غور طلب بات تھی وہ خود وزیراعلیٰ بلوچستان کی تھی جس پر گفتگو کرنے اور حاصل گفتگو پر تجزیہ اور توجہ کی ضرورت ہے، جس بھی شخص کا تجزیہ اور اس کے افکار پر تبصرہ اس وقت ممکن ہے جب اس کی نمو، پرورش، رجحان، تعلیمی سفر احباب اور اس کی نظریاتی حدود و قیود پر نظر ڈالنا ضروری ہے، بعض اوقات گفتگو میں تاریخی اشارے بھی موجود ہوتے ہیں۔ تو آئیے چلیے ان کی تقریر کے ہر پہلو پر نظر ڈالیں۔ بقول ان کے وہ نظریاتی اور باشعور لوگوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ آرٹس کونسل آکر نہایت خوش ہوئے کیونکہ انھیں یہاں ادراک اور شعور ایک نظر میں محسوس ہوا۔

وزیر موصوف نے اپنے ساتھی حبیب جالب کے ساتھ جدوجہد کے دن یاد کیے، جب وہ جناح روڈ یا منان چوک پر جلسہ کیا کرتے تھے۔ حبیب جالب کے متعلق لوگوں کو ان کی شاعری کے متعلق معلوم ہے مگر ان کی شخصیت ان کے روز و شب اور نظریات کے متعلق بہت کم معلوم ہے، چونکہ راقم کا وقت بھی ان کے ساتھ گزرا ہے اس لیے کچھ حقائق بتاتا چلوں۔ جالب صاحب انقلاب روس سے بے حد متاثر تھے، لینن کی قیادت کو بلند نظری سے دیکھتے تھے، آپ برصغیر ہند و پاکستان کے ترقی پسند رہنما سجاد ظہیر، سوبھوگیان چندانی، دادا امیر حیدر، مرزا ابراہیم، شمیم اشرف ملک، اجمل خٹک، سید سبط حسن، حسن ناصر شہید، نازش امروہوی کے آدرشوں کے پیروکار تھے۔ مندرجہ بالا اسمائے گرامی میں تمام رفتگان ہیں ماسوائے سوبھوگیان چندانی کے، جو عمر کے ایسے دور میں ہیں کہ وہ لیڈری کے قابل نہیں۔ ظاہر ہے جالب صاحب اشرافیہ کی جمہوریت کے خلاف تھے، وہ محنت کشوں اور عوامی جمہوری انقلاب کے قائل تھے۔


قوموں کے حقوق، سرمائے کی تقسیم اور مساویانہ گردش کے حامی تھے مگر انقلاب کی یاد لیے اور عوام کی آسودگی کی تمنا لیے وہ بھی فیض صاحب اور سیکڑوں ہم خیالوں کی طرح پاکستان کی سیاست سے ناامید ہوتے چلے گئے۔ اب اگر ہم یہ کہیں کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ایک ایسی جمہوریت کا خواب پورا کرسکیں گے جو جالب کے ذہن میں تھا تو وہ خواب تو ابھی بہت دور ہے مگر یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ وہ چونکہ زمانہ طالب علمی سے سیاسی بصیرت رکھتے ہیں اور خاندانی لحاظ سے کسی سردار کے چشم و چراغ نہیں ہیں، اس لیے آسودگی کے معنی اور غربت کے مفہوم کو باآسانی سمجھ سکتے ہیں اور قومیت کی تنگ نظری، فکر اور نظریات کی وسعت سے بھی آشنا ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچستان میں کوئی انقلاب برپا ہوگیا ہے، البتہ یہ ایک رویہ ہے جو حکمرانوں کی روش میں تبدیلی کا مظہر بن سکتا ہے کیونکہ یہ ایک ملی جلی سرکار ہے۔

ایک اور اہم پہلو جو ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی گفتگو میں نمایاں نظر آیا وہ یہ کہ انھوں نے فرمایا کہ وہ بلوچستان کو (Intellectual Hub) یعنی دانشگاہ روشن خیالی بنانا چاہتے ہیں، جیساکہ 70 کی دہائی میں تھا۔ یہی وہ دور تھا جب غوث بخش بزنجو جو بلوچستان کے گورنر بنے جو علی گڑھ کے گریجویٹ تھے جو پروفیسر کرار حسین اور پروفیسر مجتبیٰ حسین کو کراچی سے لے کر گئے اور بلوچستان یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی، مختلف صوبوں کے اساتذہ کو لایا گیا، بولان میڈیکل کالج کی داغ بیل ڈالی گئی مگر قوم پرستی کی تنگ نظری کا ایک عنصر اور اسی کی آڑ میں مذہبی منافرت اور فرقہ پرستی کا عنصر بھی اس راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، مگر نگہ بلند اور سخن دلنواز تو نکلا، اس بات سے اس حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعلیٰ کو اندھیری رات میں جگنو کو تلاش کرنے کی عادت ہے۔ سو یہ کتنی بھلی ہے مگر یہ ایک اچھی خبر ہے خصوصاً صاحبان علم اور صاحبان جدوجہد کے لیے، مگر 70کی دہائی کی وہ پرامن فضا کی تلاش بھی لوگوں کو یاد ہے۔

لباس، رنگ و نسل اور عقائد کی بنیاد پر کوئٹہ کو چھوڑ کر ہندو آبادی کے بعض بااثر افراد کئی مرتبہ 80 اور 90 کی دہائی میں لوٹے گئے اور آخر کار صوبے کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ملک میں صاحبان علم و ہنر کو مسلسل بلانے کا پروگرام بنا رکھا ہے، بلکہ صوبہ بلوچستان کو کہنا تو بے کار ہوگا پورے ملک سے دماغ اور زر دونوں فرار ہورہے ہیں، یہ ایک ملکی المیہ ہے مگر جس خلوص اور جرأت سے انھوں نے زبان، بیان کے تانے بانے جوڑ کر علم اور ہنر سے اخوت دکھائی ہے وہ قابل تعریف ہے، یہ قلم جو امانت ہے میرے اسلاف کی، آسانی سے جنبش نہیں کرتا وہ ایک الگ بات ہے کہ ابھی عمل کا پیمانہ زیر امتحان نہیں آیا ایک اور مشکل مرحلہ جو خصوصاً اردو زبان کی کتابوں کی اشاعت کا ہے وہ بوجھ گوکہ آرٹس کونسل نے کسی حد تک اٹھالیا ہے، وہ ادبا، شعرا، فلسفی اور قلم کار کو اکثر درپیش رہتا ہے، اس مسئلے پر بھی وزیراعلیٰ نے بڑی ہمت اور واضح الفاظ میں کہا کہ وہ قلم کاروں کی کتابوں کی چھپائی میں ان کی معاونت کریں گے۔

یہ بھی ایک بڑا قدم ہے، البتہ اس کام کو اگر بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ اردو یا کسی اور ڈپارٹمنٹ کے سپرد کردیا جائے یا وہاں کے معتبر ادیب شاہ محمد مری یا جمالدینی صاحب کو یہ ذمے داری سپرد کی جائے تو یہ عمل سعی رائیگاں نہ ہوگا،پروفیسر صبا دشتیاری تھے سو ابدی نیند سو گئے، اس طرح دونوں صوبوں کے مابین محبت کا ایک نیا چمن آباد ہوگا جو آنے والی نسلوں کے مابین سیاسی رشتوں کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور سماجی تعلقات میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ غوث بخش بزنجو نے ایسا ہی چمن آباد کرنے کا خواب دیکھا تھا مگر تنگ نظر نیشنلسٹوں نے ان کی موت کے بعد یہ قدم نہ بڑھانے دیا اگر عبدالمالک صاحب سابق نیشنل عوامی پارٹی کی نبض پر ہاتھ رکھ کر جام شفا سے عوام کی پیاس بجھائیں گے تو یقیناً ان کی طرف امید کی نگاہیں اٹھیں گی کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی کا مرکز صوبہ کے پی کے اور بلوچستان رہا مگر اس کی سیاست ایسی تھی کہ جس پر مشرقی پاکستان والوں کو اعتماد تھا بلکہ مجیب کے اندرونی حلقوں کا خیال تھا کہ اگر پاکستان دولخت نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی کو مشترکہ ایوان میں حزب اختلاف میں رہنا پڑتا اور مجیب نے نیشنل عوامی پارٹی اور متفرق جماعتوں سے مل کر حکومت بنانی تھی مگر جو گزر گئی سو گزر گئی۔

اب مفروضوں سے کیا فائدہ البتہ مجھے یاد ہے کہ جب نیشنل عوامی پارٹی جلسے کرتی تو پہلے حبیب جالب اپنا کلام پڑھتے اور جلسہ گاہ جم جاتی تھی لوگوں پر سکتہ طاری ہوجاتا تھا اور جب 45 منٹ کا یہ پروگرام جو جالب کے لیے ایک روزن در کا کام کرتا تھا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم سے بچھڑے ہوئے جالب کو کتنا عرصہ ہوگیا، مگر 30 نومبر کو لگا کہ جالب جلسہ گاہ میں داخل ہورہے ہیں اور بڑے طمطراق سے وہی آواز، وہی للکار، اسی طرح ان کے ساتھی ہم رکاب وہی جنوں، گھر کے دوست ابھی تک ان سے مخلص ہیں کیونکہ جالب کا ذوق جنوں نہ کل کم تھا اور نہ آج کم ہے، جالب کی آواز ایک پرہجوم آہنگ ہے، اگر جلسہ کامیاب کرنا ہو تو بس ایک روزن جالب کھولیے اور ان کے ساتھیوں کو لائیے جیساکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اپنے ساتھ جالب کو لے کر آرٹس کونسل آئے تھے۔
Load Next Story