کورونا وائرس جاں بحق افراد کے لواحقین
یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ ماضی میں کورونا کی وبا سے پاکستان متاثر ہو چکا ہے۔
انسانی تاریخ کا ایک بھیانک دور جو صرف چار،پانچ ماہ کے دوران دنیا کے تین لاکھ سے زائد انسانوں کو کھا گیا اور ابھی اس کا بھیانک سلسلہ جاری ہے، تین لاکھ انسانوں کی تو اس وبا نے جانیں لے لیں ،اس کے علاوہ 42 لاکھ امریکا میں، اسپین میں 26 ہزار سے زائد انسان کورونا کے متاثرین میں شامل ہیں۔
ہم نے یہاں صرف دو ملکوں کے اعداد و شمار دیے ہیں ابھی درجنوں ملک ہیں جہاں لاکھوں انسان ہلاک اور لاکھوں متاثرین میں شامل ہیں۔ اتنا بڑا نقصان ہو چکا ہے اور ابھی نقصانات کا سلسلہ جاری ہے ،ہر ملک میں خوف اور دہشت کا راج ہے، گھروں کے اندر اور باہر ایک حیرت انگیز ماحول ہے۔ لوگ اس بلائے عظیم سے سخت خوفزدہ ہیں۔
ہماری مہربان حکومت نے لاک ڈاؤن کے مارے ہوئے لاکھوں مزدوروں کی مدد کی جو دیہاڑی پر زندگی گزار رہے ہیں اور کام نہ ملنے پر بھوکے رہتے ہیں، فی خاندان بارہ بارہ ہزار روپے بطور مدد دو مرتبہ دے کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ چونکہ اب لاک ڈاؤن ختم ہو گیا ہے، لہٰذا مزدور کام پر جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن برقرار رکھتے ہیں تو ملک بھر میں بے روزگاری کا زہر پھیل جاتا ہے ،اگر لاک ڈاؤن ختم کرتے ہیں تو عوام کے جانی نقصان کا خطرہ رہتا ہے، اس صورتحال سے حکومتیں پریشان ہیں۔
اس نازک ترین موقع پر ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی بیان بازی کی جنگ جاری ہے۔ پسماندہ ترین ملک ہوں یا ترقی یافتہ اس قسم کے نازک موقع پر اتحاد اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے عجیب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان انتخابات جیت کر برسر اقتدار آئے ہیں اور انھیں قانون اور آئین کے حوالے سے پانچ سال برسر اقتدار رہنے کا حق ہے لیکن ہماری اپوزیشن اس حق کو جھٹلا کر عمران خان کو حکومت چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جو ایک افسوسناک رویہ ہے۔
ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کی یہ خوبی ہے کہ ملک میں کوئی ایک ایسا الیکشن نہیں ہوا جس پر دھاندلی کا الزام نہ لگا ہو۔ عمران خان پر دھاندلی کا الزام کوئی نئی بات نہیں، اس حوالے سے عمران حکومت پر جو لوگ دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں یہ وہی ہیں جو دس سال تک ملک میں عوام کی محنت کی کمائی کو لوٹتے رہے اور اربوں روپوں کی لوٹ مار کے الزامات پیشانیوں پر سجا کر اس حکومت کو گرانے کی باتیں کر رہے ہیں جس پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں۔
یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ ماضی میں کورونا کی وبا سے پاکستان متاثر ہو چکا ہے اگر یہ درست ہے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج پاکستان جس کورونا کا سامنا کر رہا ہے، کیا ماضی کے کورونا سے مماثلت رکھتا ہے۔ کیا آج کا کورونا زیادہ ہیبت ناک ہے یا ماضی کا کورونا زیادہ ہیبت ناک تھا۔ اگر ان دو کوروناؤں کی حقیقت سامنے آجائے تو ان کے مطالعے سے بہت مدد مل سکتی ہے مثلاً کیا ماضی میں آنے والی اس وبا سے ایسا ہی نقصان ہوا تھا جیسا آج ہو رہا ہے۔ کیا ماضی میں اس کا کوئی علاج دریافت کیا جاسکا تھا؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ ماضی اور حال کے کورونا میں کیا فرق ہے؟
ہمیں نہیں معلوم کہ ماضی کی اس وبا کو آئے کتنا عرصہ ہوا اور اس وبا نے کتنا نقصان پہنچایا تھا۔ ان ساری باتوں کو جاننے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کا حالیہ وبا سے مقابلہ کرکے دیکھا جائے کہ ماضی اور حال کی وباؤں میں کیا فرق ہے۔ اگر ممکن ہو تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ کیا ماضی میں آنے والی اس وبا کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کی گئی اگر کی گئی تو اس کے نتائج کیا نکلے۔ اس وقت یعنی ماضی میں اس کا کوئی علاج استعمال میں رہا اگر رہا تو فائدے کی کیا صورت رہی۔
دنیا کی تاریخ میں صرف کینسر ہی ایک ایسی بیماری ہے جس کا باوجود مسلسل کوشش کے اب تک علاج دریافت نہیں کیا جاسکا لیکن امید ہے کہ مستقبل میں اس کا بھی علاج دریافت کرلیا جائے گا۔ آج سرجری کے شعبے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے جا رہے ہیں ان پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ دل، دماغ، جسم کے دو ایسے اعضا ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان دو پارٹس آف باڈی کو چھیڑنا بہت خطرناک ہے لیکن اب اس حوالے سے کامیابی کا حال یہ ہے کہ دماغ کے آپریشن کیے جا رہے ہیں دل بدلے جا رہے ہیں ابھی کل کی بات ہے کراچی کے ایک معروف نیورو سرجن نے سر میں سوئی جتنا باریک سوراخ کرکے سرنج کے ذریعے وہ مواد نکال لیا جو تکلیف کا سبب بنا ہوا تھا۔
آخر میں ایک اہم مسئلے کی طرف ایک نظر۔ حکومت غریب عوام کی بہت مدد کر رہی ہے لیکن غالباً کورونا سے انتقال کر جانے والے لوگوں کے ایسے ورثا کی طرف توجہ نہیں دی گئی جن کا مرحوم کے علاوہ کوئی معاشی سہارا نہیں ہے ،اس حوالے سے فوری توجہ کی ضرورت ہے اور ایک سروے کی ضرورت ہے کہ کورونا کا شکار ہونے والوں کا کوئی معاشی سہارا ہے اگر نہیں ہے تو ان کی ضرورت کے مطابق مدد کی جانی چاہیے یہ بہت ضروری ہے۔
ہم نے یہاں صرف دو ملکوں کے اعداد و شمار دیے ہیں ابھی درجنوں ملک ہیں جہاں لاکھوں انسان ہلاک اور لاکھوں متاثرین میں شامل ہیں۔ اتنا بڑا نقصان ہو چکا ہے اور ابھی نقصانات کا سلسلہ جاری ہے ،ہر ملک میں خوف اور دہشت کا راج ہے، گھروں کے اندر اور باہر ایک حیرت انگیز ماحول ہے۔ لوگ اس بلائے عظیم سے سخت خوفزدہ ہیں۔
ہماری مہربان حکومت نے لاک ڈاؤن کے مارے ہوئے لاکھوں مزدوروں کی مدد کی جو دیہاڑی پر زندگی گزار رہے ہیں اور کام نہ ملنے پر بھوکے رہتے ہیں، فی خاندان بارہ بارہ ہزار روپے بطور مدد دو مرتبہ دے کر ایک اچھا کام کیا ہے۔ چونکہ اب لاک ڈاؤن ختم ہو گیا ہے، لہٰذا مزدور کام پر جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ لاک ڈاؤن برقرار رکھتے ہیں تو ملک بھر میں بے روزگاری کا زہر پھیل جاتا ہے ،اگر لاک ڈاؤن ختم کرتے ہیں تو عوام کے جانی نقصان کا خطرہ رہتا ہے، اس صورتحال سے حکومتیں پریشان ہیں۔
اس نازک ترین موقع پر ایک بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی بیان بازی کی جنگ جاری ہے۔ پسماندہ ترین ملک ہوں یا ترقی یافتہ اس قسم کے نازک موقع پر اتحاد اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن ہمارے سیاستدان اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ اس حوالے سے عجیب صورتحال یہ ہے کہ عمران خان انتخابات جیت کر برسر اقتدار آئے ہیں اور انھیں قانون اور آئین کے حوالے سے پانچ سال برسر اقتدار رہنے کا حق ہے لیکن ہماری اپوزیشن اس حق کو جھٹلا کر عمران خان کو حکومت چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں جو ایک افسوسناک رویہ ہے۔
ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کی یہ خوبی ہے کہ ملک میں کوئی ایک ایسا الیکشن نہیں ہوا جس پر دھاندلی کا الزام نہ لگا ہو۔ عمران خان پر دھاندلی کا الزام کوئی نئی بات نہیں، اس حوالے سے عمران حکومت پر جو لوگ دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں یہ وہی ہیں جو دس سال تک ملک میں عوام کی محنت کی کمائی کو لوٹتے رہے اور اربوں روپوں کی لوٹ مار کے الزامات پیشانیوں پر سجا کر اس حکومت کو گرانے کی باتیں کر رہے ہیں جس پر ایک پائی کی کرپشن کا الزام نہیں۔
یہ بات بڑی توجہ طلب ہے کہ ماضی میں کورونا کی وبا سے پاکستان متاثر ہو چکا ہے اگر یہ درست ہے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج پاکستان جس کورونا کا سامنا کر رہا ہے، کیا ماضی کے کورونا سے مماثلت رکھتا ہے۔ کیا آج کا کورونا زیادہ ہیبت ناک ہے یا ماضی کا کورونا زیادہ ہیبت ناک تھا۔ اگر ان دو کوروناؤں کی حقیقت سامنے آجائے تو ان کے مطالعے سے بہت مدد مل سکتی ہے مثلاً کیا ماضی میں آنے والی اس وبا سے ایسا ہی نقصان ہوا تھا جیسا آج ہو رہا ہے۔ کیا ماضی میں اس کا کوئی علاج دریافت کیا جاسکا تھا؟ یہ ایسے سوال ہیں جن کے جواب حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ ماضی اور حال کے کورونا میں کیا فرق ہے؟
ہمیں نہیں معلوم کہ ماضی کی اس وبا کو آئے کتنا عرصہ ہوا اور اس وبا نے کتنا نقصان پہنچایا تھا۔ ان ساری باتوں کو جاننے کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کا حالیہ وبا سے مقابلہ کرکے دیکھا جائے کہ ماضی اور حال کی وباؤں میں کیا فرق ہے۔ اگر ممکن ہو تو یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ کیا ماضی میں آنے والی اس وبا کا علاج دریافت کرنے کی کوشش کی گئی اگر کی گئی تو اس کے نتائج کیا نکلے۔ اس وقت یعنی ماضی میں اس کا کوئی علاج استعمال میں رہا اگر رہا تو فائدے کی کیا صورت رہی۔
دنیا کی تاریخ میں صرف کینسر ہی ایک ایسی بیماری ہے جس کا باوجود مسلسل کوشش کے اب تک علاج دریافت نہیں کیا جاسکا لیکن امید ہے کہ مستقبل میں اس کا بھی علاج دریافت کرلیا جائے گا۔ آج سرجری کے شعبے میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے جا رہے ہیں ان پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ دل، دماغ، جسم کے دو ایسے اعضا ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان دو پارٹس آف باڈی کو چھیڑنا بہت خطرناک ہے لیکن اب اس حوالے سے کامیابی کا حال یہ ہے کہ دماغ کے آپریشن کیے جا رہے ہیں دل بدلے جا رہے ہیں ابھی کل کی بات ہے کراچی کے ایک معروف نیورو سرجن نے سر میں سوئی جتنا باریک سوراخ کرکے سرنج کے ذریعے وہ مواد نکال لیا جو تکلیف کا سبب بنا ہوا تھا۔
آخر میں ایک اہم مسئلے کی طرف ایک نظر۔ حکومت غریب عوام کی بہت مدد کر رہی ہے لیکن غالباً کورونا سے انتقال کر جانے والے لوگوں کے ایسے ورثا کی طرف توجہ نہیں دی گئی جن کا مرحوم کے علاوہ کوئی معاشی سہارا نہیں ہے ،اس حوالے سے فوری توجہ کی ضرورت ہے اور ایک سروے کی ضرورت ہے کہ کورونا کا شکار ہونے والوں کا کوئی معاشی سہارا ہے اگر نہیں ہے تو ان کی ضرورت کے مطابق مدد کی جانی چاہیے یہ بہت ضروری ہے۔