’ ’حمد و نعت ‘‘

نعت میں بھی مناجات کے انداز کے علاوہ کئی ایسی باتیں در آئی ہیں جنھیں شائد اس سے پہلے اس طرح سے نہیں لکھا جاتا تھا۔


Amjad Islam Amjad May 21, 2020
[email protected]

کل ایک محفل میں رمضان کے آخری عشرے اور لیلتہ القدر کے حوالے سے باتیں ہورہی تھیں کہ ایک دم مجھے خیال آیا کہ جب سے میں نے کالم نگاری شروع کی (اور یہ عرصہ اب تقریباً تیسری دہائی کے آخری حصے میں ہے) ہے یہ شائد پہلا رمضان ہوگا جس میں حمدیہ اور نعتیہ شاعری کے حوالے سے ایک بھی کالم نہیں لکھا گیا۔

اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو بات کورونااور تعزیتی کالموں کے درمیان آکر رک گئی کہ دونوں کے مشترکہ دبائو نے قلم اور دماغ کو اس بُری طرح سے گھیر رکھا تھا کہ کسی تیسری طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہ مل سکی۔

آج ایک ٹی وی پروگرام میں ایک تازہ حمد اور اُس سے بھی تازہ تر نعت پڑھنے کا موقع ملا تو خیال آیا کہ کیوں نہ ان ہی کے حوالے سے بات کی جائے جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان شاعروں کے ہاں حمد اور نعت کو ایک خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے اور دنیا کی بیشتر زبانوں میں یہ دونوں اصناف کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ کئی غیر مسلم شاعر بھی ان موضوعات پر اظہارعقیدت کرتے دکھائی دیتے ہیں بالخصوص اُردو زبان میں غیر مسلم شعرا کا حمدیہ اور نعتیہ کلام خاصی افراط سے پایا جاتا ہے۔

گزشتہ تقریباً ڈیڑھ صدی میں یا یوں کہیئے کہ 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی ا ور مغل حکومت کے رسمی خاتمے کے بعد حمدیہ اور نعتیہ کلام پر مشتمل جتنے مجموعے شایع ہوئے ہیں یا ان موضوعات پر جتنا کچھ لکھا گیا ہے وہ شائد گزشتہ تیرہ صدیوں میں لکھے گئے ادب سے مقدار کے حوالے سے کہیں زیادہ ہے کہ پرانے وقتوں میں زیادہ تر حمدیں اور نعتیں شعری دیوانوں کے آغازمیں برکت کے لیے شامل کی جاتی تھیں کربلا سے لے کر سلطنتِ عثمانیہ کے زوال تک یوں تو اسلامی تاریخ میں بہت سے ایسے موڑ آئے ہیں جہاں صرف آنسوئوں ہی کی زبان میں بات ہوسکتی تھی مگر ایسا مکمل زوال کہ کرہ ارض پر ایک بھی آزاد مسلمان ملک نہ ہو شائد گزشتہ صدی میں اور بالخصوص ترکی میں عثمانی سلطنت کے انہدام کے بعد میں آیا تھا کہ کہیں سے بھی روشنی کا گزر نہیں ہو رہا تھا جس صورتِ حال کے ردِّعمل میں نہ صرف مسلمان ملکوں کے شاعروں میں نہ صرف حمد اور نعت کی طرف غیر معمولی جھکائو کی صورت میں ظاہر ہوا بلکہ اس میں مناجات کے رنگ نے بھی فروغ پایا ۔ برصغیر کی حد تک ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ مولانا حالی کی شاعری بالخصوص ان کے مسدس سے شروع ہوا اور پھر یہ پھیلتا ہی چلا گیا۔

گزشتہ صدی کی چوتھی اور آٹھویں دہائیوں میں علیحدہ علیحدہ وجوہات کے باعث اس کے موضوعات اور اظہار کی شدت میں غیر معمولی تیزی اور تبدیلی دیکھنے میں آئی اور فی الوقت بھی روائتی اور غیر روائتی حمد و نعت لکھنے کا سلسلہ نہ صرف زور و شور سے جاری ہے بلکہ مناجات کے رنگ میں بھی کمال کی اختراعات دیکھنے میں آرہی ہیں۔

جہاں تک اس کی ہیئت یا فارم کا تعلق ہے اس میں بھی نئے اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں اور بالخصوص آزاد نظم کی ہیئت میں تو کئی ایسے مضامین بھی بہت خوب صورتی سے آمیز کیے جارہے ہیں جن کی طرف اس سے پہلے کم ، بہت ہی کم توجہ دی جاتی تھی ۔ مزید تفصیل میں جائے بغیر میں اپنی ایک تازہ حمد آپ سے شیئر کرتا ہوں جس میں آپ اس تبدیلی کو زیادہ واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔

لوگ کہتے تو ہیں

ڈھونڈنے کے بنا کچھ بھی ملتا نہیں

یہ حقیقت سہی

اُس کی رحمت مگر

ہر طرح کے اصولوں سے آزاد ہے

خالقِ کُل ہے وہ

جو بھی چاہے کرے

ایک لمحے میں دونوں جہاں بخش دے

ہم کو ڈھونڈے بنا اور مانگے بنا!

ایسے رحمن کا شکر کیسے کریں

حق ہو کیسے ادا؟

اس میں شک ہو اگر

صاحبانِ نظر

دیکھو اپنی طرف ۔۔۔دیکھو میری طرف

اسی طرح سے نعت میں بھی مناجات کے انداز کے علاوہ کئی ایسی باتیں در آئی ہیں جنھیں شائد اس سے پہلے اس طرح سے نہیں لکھا جاتا تھا۔ زیرِ نظر نعت کسی طرح کے سیاسی یا مقامی حوالے سے ہٹ کر بلکہ اس سے اوپر اُٹھ کر لکھی گئی ہے سو اگر اسے پڑھا بھی ایسے ہی بے لاگ انداز میں جائے تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے پیارے رسولؐ نہ صرف زیادہ خوش ہوں گے بلکہ ان کی چشمِ توجہ سے ہمیں بھی دنیا میں سر اُٹھا کر زندہ رہنے کا ایک سہارا مل جائے گا۔

لُطف کی ہو نظر یا نبیؐ یا نبیؐ

آپ کے حکم سے! اپنے انجام سے!

لوگ ہیں بے خبر، یا نبیؐ یا نبیؐ

...............

کوئی دنیا میں ان کا نہیں ہے مقام

ایک جیسے ہیں سب کوئی دن ہو کہ شام

ہیں نکمے بہت آپ کے یہ غلام!

آپ کا یہ مگر نام لیتے تو ہیں

آپ ہی پر یہ سب جان دیتے تو ہیں

آپ کے اِک اشارے پہ قربان ہیں

ان کے بچے بھی اور ان کے ماں باپ بھی

ہر مسافت میں ہیں آپ ہی راہ بر

آپ ہی کے لیے ہیں دُرود و سلام

...............

تابہ حدِّ نظر کوئی رستا نہیں

آپ کے اب سوا کوئی اپنا نہیں

...............

جس کے چاروں طرف خیر ہی خیر ہو

رب اُسی راستے پر چلائیں ہمیں

رحمت العالمین ہے لقب آپ کا

پھر سے رحمت کا منظر دکھائیں ہمیں

اُس جہاں میں ہمیں کیجیے سرخرو

اور شفاعت کے لائق بنائیں ہمیں

...............

التجا کے سِوا اب بچا کچھ نہیں

آپ ہیں ناظرِ سدرۃ المنتہیٰ

آپ کی آنکھ سے تو چھپا کچھ نہیں

ہوگئی اب تو حدّ یا نبیؐ یا نبیؐ

المدد المدد! یا نبیؐ یا نبیؐ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں