لٹیروں کے درمیان سفر
پاکستان میں اکثریت کے سفر کا ذریعہ ملک کی سڑکیں اور پاکستان ریلوے ہے اور استطاعت رکھنے والے ہوائی جہاز کے...
پاکستان میں اکثریت کے سفر کا ذریعہ ملک کی سڑکیں اور پاکستان ریلوے ہے اور استطاعت رکھنے والے ہوائی جہاز کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان ریلوے کی ٹرینیں عوام کی اکثریت کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں سستے سفر کا ذریعہ تھیں جو ریلوے میں کرپشن کے باعث ختم ہوتی گئیں اور سابق حکومت کے وزیر ریلوے نے تو ریلوے کو تباہ کر کے بند کرانے کی پوری کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی اور موجودہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی کوشش سے ٹرینیں چلنے لگی ہیں اور محکمہ ریلوے کے کرایوں میں کمی کر کے عوام کو ریلوے کے سفر کی طرف راغب کرنے کی کو شش کافی حد تک کامیاب ہو رہی ہے۔ ٹرینوں کے انجن خراب ہونے کی شکایات میں کافی حد تک کمی آئی ہے مگر ریلوں کی تاخیر کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جب کہ مسافر بوگیوں کی حالت پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ گزشتہ دور میں ریلوے کی بدحالی کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کے سفر میں اضافہ ہوا اور لوگ مجبور ہو کر لمبے فاصلوں کے لیے بھی بسوں، کوچز اور ویگنوں سے سفر کرنے لگے۔
بذریعہ سڑک سفر ریلوے کے مقابلے میں پریشان کن ہوتا ہے اور آرام دہ نہیں ہوتا مگر کئی عشروں سے کراچی سے کوئٹہ، چمن، لاہور، پشاور بلکہ دور دراز خیبر پختونخوا کے علاقوں اور گلگت بلتستان تک کے دشوار گزار علاقوں تک کئی کئی روز کا سفر سڑکوں کے ذریعے لوگ کرنے پر مجبور ہیں جو دن بہ دن مہنگا ہوتا جا رہا ہے۔
ریلوے اور سڑک کے سفر میں کافی فرق ہے مگر دونوں میں بڑی حد تک ایک مماثلت ہے کہ دونوں سفر لٹیروں کے درمیان کرنے پڑتے ہیں اور مسافر لٹنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان ریلوے اپنے ہر اسٹال ٹھیکے پر دیتی ہے اور ریلوے اسٹیشنوں پر مختلف اسٹال ہوتے ہیں اور ٹرینوں میں لگنے والی ڈائننگ کاریں بھی ٹھیکے پر دی جاتی ہیں، اسٹیشنوں پر زیادہ تر اسٹالز کھانے پینے کی اشیاء کے ہوتے ہیں جہاں معیار اور قیمتوں پر کوئی چیک نہیں ہوتا اور مضر صحت کھانے پینے کی اشیاء اسٹیشنوں پر سب سے زیادہ فروخت کی جاتی ہیں، کہنے اور دکھانے کی حد تک ریلوے اسٹیشنوں پر چائے، روٹی، کولڈ ڈرنکس کے نرخ کبھی کبھی لکھے نظر آتے ہیں جو کبھی کبھی کسی ریلوے افسر کی آمد پر لگائے جاتے ہیں، مگر عارضی طور پر ان نرخوں پر فروخت ہونے والی اشیا غیر معیاری ہوتی ہیں اور ریلوے اسٹیشنوں پر معیاری کھانے پینے کے سامان کی فروخت کا تصور ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
غیر معیاری خوراک اور چائے کے خوف سے مسافر اپنے گھروں سے یہ اشیاء لے کر آتے ہیں مگر طویل سفر کے باعث لوگوں کو ریلوے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں خریداری کرنا پڑتی ہے۔ ریلوے کی ڈائننگ کار اور کینٹین کے کھانے کچھ بہتر مگر انتہائی مہنگے ہوتے ہیں۔
ریلوے سفر میں فراہم کیے جانے والے تکیے اور چادریں میلی اور مہنگی ہوتی ہیں جب کہ کولڈ ڈرنکس اصلی نہیں بلکہ دو نمبر ہوتی ہیں، منرل واٹر بھی غیر معیاری اور بازار کے مقابلے میں پانچ سے دس روپے مہنگا ہوتا ہے اور دیگر اشیاء بھی انتہائی مہنگی ہوتی ہیں۔
ہر اسٹیشن اور ٹرین میں ریلوے کے عملے اور افسروں کو تو یہ اشیا معیاری اور مفت میں مل جاتی ہیں مگر اس کی کسر ریلوے کے مسافروں سے پوری کر لی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے مگر کبھی حکومت یا محکمہ ریلوے نے ان لٹیروں پر کوئی توجہ نہیں دی۔
ملک بھر میں قومی شاہراہوں پر جگہ جگہ کھانے پینے کے ہوٹل اور دکانیں بنی ہوئی ہیں جو لوگ خود قائم کرتے ہیں اور ریلوے کی طرح ان ہوٹلوں اور دکانوں کے ٹھیکے نہیں ہوتے اور یہاں بھی بذریعہ سڑک سفر کرنے والوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے اور ان لٹیروں نے تو ریلوے کے لٹیروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ قومی شاہراہوں پر بسوں اور کاروں کے ذریعے سفر کرنے والوں کے الگ الگ ہوٹل اور نرخ مختلف ہیں۔ بسوں اور ویگنوں کے ڈرائیوروں نے اپنے اپنے روٹس پر ہوٹل والوں سے معاملہ طے کر رکھا ہوتا ہے جہاں ٹھہرنے کی صورت میں انھیں کھانا، چائے اور مشروبات مفت، معیاری اور آرام دہ کمروں میں بٹھا کر خوشامد سے فراہم کی جاتی ہے اور گاڑیوں کے ڈرائیور اپنے مسافروں کو ان لٹیروں کے رحم و کرم پر لٹنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں اور ہوٹل والے ان ڈرائیوروں کو کھلائے جانے والے مال کی رقم مسافروں سے سود سمیت وصول کر لیتے ہیں۔
قومی شاہراہوں پر ان ہوٹلوں میں غیر معیاری خوراک اور دیگر اشیاء نہایت گراں قیمت پر فروخت ہوتی ہیں اور جن پیک اشیاء پر نرخ پرنٹ ہوتے ہیں ان نرخوں پر کوئی چیز فروخت نہیں کی جاتی اور بڑی ڈھٹائی سے زیادہ نرخ وصول کیے جاتے ہیں۔ قومی شاہراہوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کے عملے اور پولیس کو معیاری اشیاء مفت ملتی ہیں اور ان ہوٹلوں پر فروخت ہونے والی خوراک کے معیار اور نرخوں کو چیک کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔
شہروں میں تو سرکاری افسران کبھی کبھی یہ زحمت کر لیتے ہیں مگر قومی شاہراہوں پر مسافروں کو لوٹنے والے ان لٹیروں پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔
نامور کمپنیوں کے جعلی مشروبات، منرل واٹر، دو نمبر مال بنانے والوں کے بسکٹوں کے پیکٹ ریلوے اسٹیشنوں اور قومی شاہراہوں پر واقع دکانوں اور ہوٹلوں پر عام فروخت ہو رہے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
قومی شاہراہوں پر ہوٹل والوں نے مسافروں کی رفع حاجت کے لیے بیت الخلاء بھی بنا رکھے ہیں جو گندے ہوتے ہیں مگر یہ بھی ا کثر کمائی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، چھوٹے بڑے پیشاب کے لیے مسافروں سے دس روپے فی مسافر چارجز وصول کیے جاتے ہیں اور ان لٹیروں کا بس چلے تو یہ ان ہوٹلوں کے پاس بنی مساجد میں نماز پڑھنے کے بھی چارجز وصول کرنا شروع کر دیں۔ اس طرح لٹیروں کے درمیان مسافر لٹ رہے ہیں اور مسافروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔