مغرب آئیڈیل معاشرہ ہے
گزشتہ کالم ہم لکھ کر بیٹھے ہی تھے کہ جامعہ کراچی کے ہمارے ایک شاگرد نے یہ کالم پڑھ کر تنقیدی تقریر شروع کر دی...
گزشتہ کالم ہم لکھ کر بیٹھے ہی تھے کہ جامعہ کراچی کے ہمارے ایک شاگرد نے یہ کالم پڑھ کر تنقیدی تقریر شروع کر دی، ہم نے ان کی تقریر سکون و صبر سے سنی۔ ان کا موقف تھا کہ ساری ترقی اور خوبیاں تو مغرب میں موجود ہیں، ہم میں یا مسلم ممالک میں کیا خوبیاں ہیں کہ ہم اس کو مغرب کے سامنے پیش کریں؟ اس قسم کی باتیں اکثر اوقات نئی نسل سے سننے کو ملتی ہیں مگر راقم کا خیال ہے کہ ہر بات حقائق اور مضبوط دلائل کے ساتھ ہونی چاہیے۔
ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ مغرب میں صرف ایک خرابی ہے اور وہ ہے عریانیت و فحاشی کی، جب کہ باقی سب کچھ اچھا ہے۔ یہ خیال بھی قطعی درست نہیں ہے۔ راقم نے اپنے پچھلے کالم میں یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ مغربی معاشرے کی طے کردہ ''آزادی'' کے باعث وہاں کس قسم کے منفی اثرات معاشرے پر پڑ رہے ہیں اور انھی اثرات سے بچنے کے لیے ہمارے مشرق کے روشن خیال خاندان جب اپنی اولاد خاص کر بیٹی کو جوان ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے گھر کی راہ لیں یا بیٹی کا رشتہ کسی ہم وطن لڑکے سے کر دیں مبادہ وہ اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر بیٹھے۔
بات یہ ہے کہ ماڈرن ازم نے مذہب کو کاری ضرب لگانے کے لیے ریپیٹیشن (Repetation) کی مخالفت کی اور ''نیا پن'' (Novelty) کی حمایت کی۔ کسی بھی ناولٹی پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس کی پریکٹس اور تجربات کے نتائج کیا ہیں؟ آیا یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟ مغرب میں ناولٹی کے اپنانے سے جو خرابیاں سامنے آئی ہیں ان سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے اپنائی گئی ناولٹی سے ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ آج مغرب کی تقلید میں جو نیا پن ہم اپنانے پر بضد ہیں یا رجحان رکھتے ہیں جب اس کی منفی اثرات مکمل طور پر ہمارے معاشرے کو جکڑ لیں گے تو پھر واپسی کا کیا فائدہ ہو گا؟ آخر ہم مغرب کے تجربات سے سبق کیوں نہیں حاصل کر لیتے؟
اس کی ایک وجہ یقیناً یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے نقاد، مفکر، دانشور (ایک خاص طبقہ) اپنے دین اور معاشرے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ریڈیکلسٹ (Radicalist) بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ طبقہ مغرب سے اس قدر متاثر ہے کہ اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے کنفرمسٹ (Conformist) بن جاتے ہیں۔ یوں مغرب کی خامیوں پر جن مغربی مفکرین نے کڑی تنقید کی ہے وہ بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتی اور ہم دور سے سراب کا شکار ہو کر کڑی دھوپ کی چمک کو صحرا میں پانی کا تالاب سمجھ بیٹھتے ہیں۔
موجودہ دہائی سے باہر پچھلی جانب دیکھیں تو پاکستان سمیت پوری اسلامی سوسائٹی کی تاریخ میں دنیا بھر میں سب سے کم طلاقیں واقع ہوئی ہیں لیکن امریکا و یورپ میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ ان طلاقوں کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے جب سخت قوانین بنائے گئے تو مردوں نے طلاقیں دینا چھوڑ دیں۔ اسی طرح شادی کے بجائے رسمی طور پر زندگی گزارنے کا راستہ بھی اپنا لیا گیا تا کہ قانونی مسائل سے جان چھڑائی جا سکے۔ یوں قانون بنانے کے باوجود شادی کے ادارے کو بچایا نہ جا سکا، دوسری طرف دنیا میں جہاں سب سے زیادہ آسان طلاق دینا تھا وہاں شرح طلاق بھی سب سے کم رہی۔
روایتی معاشروں میں ماں باپ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور جرائم کو کنٹرول کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے مگر مغرب میں باپ کی طاقت کو بھی کم کر کے ریاست کی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کی گئی، جس کے منفی اثرات پڑے۔ ہمارے ہاں آج بھی باپ اپنی اولاد کو تربیت کی خاطر سزا دے سکتا ہے، مار پیٹ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اولاد اپنے کردار کو درست رکھتی ہے، ہمارے معاشرے میں وہ وقت بھی تھا کہ جب گلی محلے کے بچے محلے کے بزرگ سے بھی ڈرتے تھے اور کوئی بھی بزرگ غلط کام پر کسی بچے کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا ہے۔ ایسے ہی ماحول میں معاشرتی امن اور ماحول مغرب کے مقابلے میں کہیں مثالی تھا۔ آج اگر کسی باپ کو یہ خوف ہو کہ اس کا مارا ہوا ایک تھپڑ بیٹے کی جانب سے ریاستی مشینری کو حرکت میں لا سکتا ہے تو وہ بھلا اولاد کی تربیت اور انھیں کنٹرول کیسے کر سکتا ہے؟
کتنی عجیب بات ہے کہ ماڈرن ازم کے تمام آفاقی دعوئوں کو پوسٹ ماڈرن ازم نے اپنی تنقید سے حرف غلط قرار دے دیا مگر ہمارے ہاں کے روشن خیال دانشور صرف اسلام اور ہمارے معاشرے پر ہی تنقید کرتے نظر آتے ہیں گویا یہ صرف اسلام اور روایت پسندی پر ریڈیکلسٹ (Radicalist) ہیں اور مغرب کے معاملے پر کنفرمسٹ (Conformist) ہیں۔
راقم نے اپنے ایک کالم میں اس جانب بھی توجہ دلائی تھی کہ مغربی معاشرے نے ''نیاپن'' کے حوالے سے جو کلچر متعارف کرایا اس میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ گھر سے باہر ''خدمت'' انجام دینے پر سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈے کیئر سینٹر متعارف کرائے گئے، نتیجتاً منفی اثرات پڑے تو پھر خود بخود ''اولڈ ہائوسز'' بھی منظر عام پر آ گئے۔ مادہ پرستی کے اس کلچر نے اس خاندانی نظام کو تباہ کر دیا کہ جس میں ایک باپ ریٹائرڈ ہو کر گھر پر آرام کرتا ہے اور اولاد والدین کی خدمت کرتی ہے۔ اس تباہی نے سال میں کسی مذہبی تہوار پر بھی اولاد کو والدین سے ملنے میں دشواری کی دیوار حائل کر دی اور ریاستوں کو قوانین بنانے پڑ گئے کہ ''اولاد اگر بزرگ والدین کو وقت نہیں دے گئی یا ملاقات نہیں کرے گی تو ان کے خلاف ریاست کارروائی کرے گی''۔
روایتی اور مشرقی یا اسلامی کلچر میں لڑکی کے لیے جو شادی کی ''آئیڈیل عمر'' ہوا کرتی تھی، نئی مغربی تہذیب نے اس کو بھی اس طرح برباد کر دیا کہ عین شادی کی عمر میں لڑکی اپنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیمی مقصد کے لیے مزید تعلیم حاصل کرنے لگتی ہے اور پھر تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت بھی اختیار کر لیتی ہے اور پھر آخر میں رشتہ کی تلاش یعنی شادی کے لیے توجہ دی جاتی ہے یوں جو عمر شادی کی ہوتی ہے وہ نکل جاتی ہے جس سے رشتے کے حصول میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید وقت ضایع کرا دیتی ہے اور بالآخر شادی ہو بھی جائے تو اولاد ہونے کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ بحیثیت صنف نازک اولاد کی نعمت کا مناسب وقت بھی نکل جاتا ہے۔ یہی مسئلہ آج ہمارے ہاں ان گھرانوں کو درپیش ہے جن میں لڑکیاں اپنی اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنانے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کر دیتی ہیں۔
ہمارے ایک شاگرد کا خیال ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور پھر ملازمت یعنی مردوں کے شانہ بشانہ زندگی گزارنے کا حق عورت کو حاصل ہے۔ ان کا کہنا یقیناً درست ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے ایسے مرد ہیں جو اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہونے والی کسی 40 یا 45 سالہ باروزگار صنف نازک سے نہ صرف شادی کریں گے، بلکہ ہنسی خوشی آئیڈیل لائف بھی گزاریں کہ برابری یا مساوات کے حصول کے تحت جب میاں گھر آ کر روٹی، کھانا تیار نہ کرے اور بیوی بھی یہ کام نہ کرے کیونکہ وہ بھی 8 گھنٹے کسی دفتر میں گزار کر آئی ہے۔
اگر ہمارے ہاں ایسے آئیڈیل مرد بکثرت موجود ہوں اور ایسے مثالی گھرانے بھی بکثرت موجود ہوں اور ایسی مثالی ساس بھی بکثرت موجود ہوں جو بہو سے کام کاج نہ کرائے تو یقیناً ہمیں بھی ایسی ہی راہ اپنانی چاہیے لیکن اگر ایسا نہ ہو اور بیوی کو 8 گھنٹے کام کر کے گھر آنے پر پھر دوبارہ سے نہ صرف شوہر کی بلکہ پورے سسرال کی خدمت کرنا ہو تو پھر ہمیں یا تو یہ تحریک چلانی چاہیے کہ ملازمت کرنے والی کوئی بیوی شوہر کی خدمت اور گھر کا کام نہیں کرے گی کیوں کہ یہ اس کے حقوق کے خلاف ہے، مساوی حقوق کے بھی خلاف ہے یا پھر ہمیں اس کلچر کو اپنانے سے ہی معذرت کر لینی چاہیے۔ غور کیجیے کیا مغرب آئیڈیل معاشرہ ہے؟ اس کی تقلید درست ہے؟
ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ مغرب میں صرف ایک خرابی ہے اور وہ ہے عریانیت و فحاشی کی، جب کہ باقی سب کچھ اچھا ہے۔ یہ خیال بھی قطعی درست نہیں ہے۔ راقم نے اپنے پچھلے کالم میں یہ بات بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ مغربی معاشرے کی طے کردہ ''آزادی'' کے باعث وہاں کس قسم کے منفی اثرات معاشرے پر پڑ رہے ہیں اور انھی اثرات سے بچنے کے لیے ہمارے مشرق کے روشن خیال خاندان جب اپنی اولاد خاص کر بیٹی کو جوان ہوتا دیکھتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے گھر کی راہ لیں یا بیٹی کا رشتہ کسی ہم وطن لڑکے سے کر دیں مبادہ وہ اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر بیٹھے۔
بات یہ ہے کہ ماڈرن ازم نے مذہب کو کاری ضرب لگانے کے لیے ریپیٹیشن (Repetation) کی مخالفت کی اور ''نیا پن'' (Novelty) کی حمایت کی۔ کسی بھی ناولٹی پر عمل کرنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ اس کی پریکٹس اور تجربات کے نتائج کیا ہیں؟ آیا یہ قابل قبول بھی ہے یا نہیں؟ مغرب میں ناولٹی کے اپنانے سے جو خرابیاں سامنے آئی ہیں ان سے بچنے کے لیے ان کی جانب سے اپنائی گئی ناولٹی سے ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ آج مغرب کی تقلید میں جو نیا پن ہم اپنانے پر بضد ہیں یا رجحان رکھتے ہیں جب اس کی منفی اثرات مکمل طور پر ہمارے معاشرے کو جکڑ لیں گے تو پھر واپسی کا کیا فائدہ ہو گا؟ آخر ہم مغرب کے تجربات سے سبق کیوں نہیں حاصل کر لیتے؟
اس کی ایک وجہ یقیناً یہ ہے کہ ہمارے ہاں بہت سے نقاد، مفکر، دانشور (ایک خاص طبقہ) اپنے دین اور معاشرے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ریڈیکلسٹ (Radicalist) بن جاتے ہیں۔ لیکن وہ طبقہ مغرب سے اس قدر متاثر ہے کہ اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے بجائے کنفرمسٹ (Conformist) بن جاتے ہیں۔ یوں مغرب کی خامیوں پر جن مغربی مفکرین نے کڑی تنقید کی ہے وہ بھی ہم تک نہیں پہنچ پاتی اور ہم دور سے سراب کا شکار ہو کر کڑی دھوپ کی چمک کو صحرا میں پانی کا تالاب سمجھ بیٹھتے ہیں۔
موجودہ دہائی سے باہر پچھلی جانب دیکھیں تو پاکستان سمیت پوری اسلامی سوسائٹی کی تاریخ میں دنیا بھر میں سب سے کم طلاقیں واقع ہوئی ہیں لیکن امریکا و یورپ میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ ان طلاقوں کی شرح کو کنٹرول کرنے کے لیے جب سخت قوانین بنائے گئے تو مردوں نے طلاقیں دینا چھوڑ دیں۔ اسی طرح شادی کے بجائے رسمی طور پر زندگی گزارنے کا راستہ بھی اپنا لیا گیا تا کہ قانونی مسائل سے جان چھڑائی جا سکے۔ یوں قانون بنانے کے باوجود شادی کے ادارے کو بچایا نہ جا سکا، دوسری طرف دنیا میں جہاں سب سے زیادہ آسان طلاق دینا تھا وہاں شرح طلاق بھی سب سے کم رہی۔
روایتی معاشروں میں ماں باپ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور جرائم کو کنٹرول کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے مگر مغرب میں باپ کی طاقت کو بھی کم کر کے ریاست کی طاقت کو بڑھانے کی کوشش کی گئی، جس کے منفی اثرات پڑے۔ ہمارے ہاں آج بھی باپ اپنی اولاد کو تربیت کی خاطر سزا دے سکتا ہے، مار پیٹ کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اولاد اپنے کردار کو درست رکھتی ہے، ہمارے معاشرے میں وہ وقت بھی تھا کہ جب گلی محلے کے بچے محلے کے بزرگ سے بھی ڈرتے تھے اور کوئی بھی بزرگ غلط کام پر کسی بچے کو بھی ڈانٹ ڈپٹ کر سکتا ہے۔ ایسے ہی ماحول میں معاشرتی امن اور ماحول مغرب کے مقابلے میں کہیں مثالی تھا۔ آج اگر کسی باپ کو یہ خوف ہو کہ اس کا مارا ہوا ایک تھپڑ بیٹے کی جانب سے ریاستی مشینری کو حرکت میں لا سکتا ہے تو وہ بھلا اولاد کی تربیت اور انھیں کنٹرول کیسے کر سکتا ہے؟
کتنی عجیب بات ہے کہ ماڈرن ازم کے تمام آفاقی دعوئوں کو پوسٹ ماڈرن ازم نے اپنی تنقید سے حرف غلط قرار دے دیا مگر ہمارے ہاں کے روشن خیال دانشور صرف اسلام اور ہمارے معاشرے پر ہی تنقید کرتے نظر آتے ہیں گویا یہ صرف اسلام اور روایت پسندی پر ریڈیکلسٹ (Radicalist) ہیں اور مغرب کے معاملے پر کنفرمسٹ (Conformist) ہیں۔
راقم نے اپنے ایک کالم میں اس جانب بھی توجہ دلائی تھی کہ مغربی معاشرے نے ''نیاپن'' کے حوالے سے جو کلچر متعارف کرایا اس میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ گھر سے باہر ''خدمت'' انجام دینے پر سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈے کیئر سینٹر متعارف کرائے گئے، نتیجتاً منفی اثرات پڑے تو پھر خود بخود ''اولڈ ہائوسز'' بھی منظر عام پر آ گئے۔ مادہ پرستی کے اس کلچر نے اس خاندانی نظام کو تباہ کر دیا کہ جس میں ایک باپ ریٹائرڈ ہو کر گھر پر آرام کرتا ہے اور اولاد والدین کی خدمت کرتی ہے۔ اس تباہی نے سال میں کسی مذہبی تہوار پر بھی اولاد کو والدین سے ملنے میں دشواری کی دیوار حائل کر دی اور ریاستوں کو قوانین بنانے پڑ گئے کہ ''اولاد اگر بزرگ والدین کو وقت نہیں دے گئی یا ملاقات نہیں کرے گی تو ان کے خلاف ریاست کارروائی کرے گی''۔
روایتی اور مشرقی یا اسلامی کلچر میں لڑکی کے لیے جو شادی کی ''آئیڈیل عمر'' ہوا کرتی تھی، نئی مغربی تہذیب نے اس کو بھی اس طرح برباد کر دیا کہ عین شادی کی عمر میں لڑکی اپنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیمی مقصد کے لیے مزید تعلیم حاصل کرنے لگتی ہے اور پھر تعلیم کے حصول کے بعد ملازمت بھی اختیار کر لیتی ہے اور پھر آخر میں رشتہ کی تلاش یعنی شادی کے لیے توجہ دی جاتی ہے یوں جو عمر شادی کی ہوتی ہے وہ نکل جاتی ہے جس سے رشتے کے حصول میں مزید مشکلات پیش آتی ہیں اور یہ مشکلات مزید وقت ضایع کرا دیتی ہے اور بالآخر شادی ہو بھی جائے تو اولاد ہونے کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ بحیثیت صنف نازک اولاد کی نعمت کا مناسب وقت بھی نکل جاتا ہے۔ یہی مسئلہ آج ہمارے ہاں ان گھرانوں کو درپیش ہے جن میں لڑکیاں اپنی اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنانے میں اپنا قیمتی وقت ضایع کر دیتی ہیں۔
ہمارے ایک شاگرد کا خیال ہے کہ اعلیٰ تعلیم اور پھر ملازمت یعنی مردوں کے شانہ بشانہ زندگی گزارنے کا حق عورت کو حاصل ہے۔ ان کا کہنا یقیناً درست ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے ایسے مرد ہیں جو اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہونے والی کسی 40 یا 45 سالہ باروزگار صنف نازک سے نہ صرف شادی کریں گے، بلکہ ہنسی خوشی آئیڈیل لائف بھی گزاریں کہ برابری یا مساوات کے حصول کے تحت جب میاں گھر آ کر روٹی، کھانا تیار نہ کرے اور بیوی بھی یہ کام نہ کرے کیونکہ وہ بھی 8 گھنٹے کسی دفتر میں گزار کر آئی ہے۔
اگر ہمارے ہاں ایسے آئیڈیل مرد بکثرت موجود ہوں اور ایسے مثالی گھرانے بھی بکثرت موجود ہوں اور ایسی مثالی ساس بھی بکثرت موجود ہوں جو بہو سے کام کاج نہ کرائے تو یقیناً ہمیں بھی ایسی ہی راہ اپنانی چاہیے لیکن اگر ایسا نہ ہو اور بیوی کو 8 گھنٹے کام کر کے گھر آنے پر پھر دوبارہ سے نہ صرف شوہر کی بلکہ پورے سسرال کی خدمت کرنا ہو تو پھر ہمیں یا تو یہ تحریک چلانی چاہیے کہ ملازمت کرنے والی کوئی بیوی شوہر کی خدمت اور گھر کا کام نہیں کرے گی کیوں کہ یہ اس کے حقوق کے خلاف ہے، مساوی حقوق کے بھی خلاف ہے یا پھر ہمیں اس کلچر کو اپنانے سے ہی معذرت کر لینی چاہیے۔ غور کیجیے کیا مغرب آئیڈیل معاشرہ ہے؟ اس کی تقلید درست ہے؟