بادشاہ کی ادھوری فقیر کی پوری

روزمرہ زندگی میں اکثر اوقات آپ کا واسطہ ایسے پیشہ ور بھیک مانگنے والوں سے پڑ تا ہے جو ہٹے کٹے لیکن ’’کام کے نہ کاج...


احمد خان December 05, 2013

روزمرہ زندگی میں اکثر اوقات آپ کا واسطہ ایسے پیشہ ور بھیک مانگنے والوں سے پڑ تا ہے جو ہٹے کٹے لیکن ''کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے'' کی عملی تفسیر ہوا کرتے ہیں، ان کو چند سکے دینے کے بجائے جب آپ ڈھنگ کا کام یا محنت مزدوری کی تلقین شروع کرتے ہیں تو آپ کے اس ''بے محل'' وعظ پر وہ ناک بھوں چڑھاتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ بھیک نہیں دینی تو نہ دیں لیکن ایسی ''فضول'' باتیں بھی نہ کریں۔ غصہ میں ابلتے یہ ہٹے کٹے پیشہ ور بھکاری زبان کو دانتوں تلے دبا کر آپ کی ''ہجو'' پڑھتے کسی دوسرے کی ''رحم دلی'' کیش کرانے کے لیے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ جیب گرم رکھنے اور تن آسانی سے گزر بسر کا سب سے آسان طریقہ فی زمانہ بھیک مانگنا ہے اور جس فرد یا قوم کو ''بھیک مانگنے'' کی لت پڑ جائے سمجھو وہ ہر کا م سے گیا۔ بحیثیت قوم ''ہٹے کٹے'' فقیر کا یہی کردار ہمارے ارباب اختیار کی حد تک ہم پر صد فیصد صادق آتا ہے۔ غیروں کی اختیار کردہ ''غیر دستوری'' اور غیر آئینی غلامی میں اسی بھیک منگی عادت نے ہی ہمیں بری طرح سے جکڑ رکھا ہے۔ غیروں سے ملنے والے قرضے، غیروں سے ملنے والے عطیات اور غیروں سے ملنے والی امداد جسے ''خیرات'' کہنا بر محل ہو گا کہ ہم ''میر'' سے زیادہ اسیر ہو چکے ہیں۔

ڈرون حملوں سے بے اعتناعی رویے کے پیچھے پاکستانی حکومتوں کی ''ڈرپوکی'' کارفرما نہیں، اس کے پیچھے اصل قصہ یہ کارفرما ہے کہ امریکا سے ''بگاڑ'' کی راہ پر چلنے سے ہم ان ''چند ٹکوں'' سے محروم ہو جائیں گے جن کے بل پر طبقہ اشرافیہ کی تمام تر عیاشیوں کا انحصار ہے۔ عرق ریزی سے تمام سرکاری شعبوں میں جھانک کر ڈیٹا جمع کرنے کی زحمت فرما لیجیے، ملک کا ہر سرکاری شعبہ کسی نہ کسی صورت میں غیر ملکی ڈالروں کے ''آسرے'' پر سانس لے رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے کو ''ٹیسٹ کیس'' بنا کر اس میں جھانک لیں، ڈالروں کی جھنکار بلکہ اب تو اس حساس ترین اور قوم کی ''مادری'' شعبے میں غیروں کی بودوباش اور من مرضی پالیسیوں کی ''مہکار'' آپ کو دور سے ہی محسوس ہو گی۔ حکومت کے دیگر اداروں میں کم و بیش یہی صورت احوال کارفرما ہے۔ ہو کیا رہا ہے؟ غیر ملکی آقائوں سے منت ترلوں اور مختلف شعبوں کی زبوں حالی اور ترقی پذیری کا رونا رو کر قرضے اور امداد بٹوری جاتی ہے اور جب طوعاً و کرھاً وہ مل جاتی ہے، اس کے بعد اس غیر ملکی امداد کا کثیر حصہ حکمرانوں اور افسر شاہی کے ذاتی ہوس کے اکائونٹ میں منتقل ہو جایا کرتا ہے۔ ہاں! منہ دکھاوے کے لیے اس غیر ملکی امداد کا ''چند فیصد'' متعلقہ سرکاری اداروں اور شعبوں کو دے دیا جاتا ہے۔ یہ مہربانی بھی اس لیے کی جاتی ہے کہ غیر ملکی آقائوں کی باز پرس کرنے پر آخر انھیں مطمئن بھی تو کرنا ہوتا ہے۔

ڈرون حملوں کے بارے میں حکومت کی معذرت خواہانہ پالیسی کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا جاتا ہے کہ ''سر اونچا'' رکھنے کی جرات رندانہ سے ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہو جائے گی۔ آ ج سے بیس سال قبل بھی تو ''کیکروں'' کی چھائوں میں استاد پڑھاتے رہے اور طالب علم پڑھتے رہے، آج سے بیس سال قبل تو غیر ملکی ڈالر کی جھنکار نہ تھی، اس وقت بھی قوم روکھی سوکھی کھا کر چین کی نیند سوتی رہی۔ اصل ماجرا نہ ملکی معیشت کی بہتری ہے اور نہ عوام کی سہولت سے سروکار، بالادست طبقے کے دل کے کاغذ پر جو کہانی رقم ہے وہ ہے طبقہ اشرافیہ کی اپنی عیاشیوں بھری بود و باش جو طاقت ور طبقہ کسی طور ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک لمحے کے لیے حکمرانوں کی ''ڈالر وصولی'' کی منطق سے اتفاق کر لیتے ہیں۔ بتائیے! ان ڈالروں سے 98 فیصد عوام کی زندگیوں میں کتنی معاشی اور سماجی خوشحالی آئی؟ ان غیر ملکی ڈالروں سے کتنی لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی؟ ان غیر ملکی ڈالروں کی آمد سے تعلیم کے شعبے میں بہتری کا کتنا ''بھونچال'' آیا؟ غریب آج بھی ننگ دھڑنگ اور بھوکا پیاسا ہے۔ ملک میں آج بھی لوڈ شیڈنگ کا دور دورہ اور بجلی کی قیمتوں کا ستارہ محمود کے نصیب کی مانند بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اسے منافقت کہیں، اس کو ارباب اختیار کا ''حسن سیاست'' کا نام دیں، یا اسے ''قلیل فیصد'' کے مفادی سیاست کا نام دیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے عوام کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنے بچائو اور سدھار کے لیے ہو رہا ہے۔

عوام کے حقوق کا پرچم اٹھا کر اقتدار میں آنے والے ہر حکمران نے اقتدار میں آنے کے بعد صرف اپنے اور اپنے حواریوں کے مفادات کو مقدم رکھا اور آج بھی یہی منافقانہ کھیل پورے جاہ و جلال کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ وجہ کہ ہمارے بادشاہ زندگیاں ضرورت کے مطابق نہیں خواہش کے مطابق گزارنے کی لت میں مبتلا ہیں۔ لیکن فقیر کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے لیکن بادشاہوں کی خواہشات ہمیشہ ادھوری رہا کرتی ہیں۔ بادشاہ مر جاتے ہیں لیکن سادہ سی یہ دنیاوی حقیقت ان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ہمارے ملک میں نوے فیصد مسائل ختم ہو سکتے ہیں، اگر ہمارے ارباب اختیار اور ارباب سیاست خواہشات کے بے لگام گھوڑے کو لگام دے دیں اور ''ضرورت'' کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں