محبت دہشت گردی اور منافقت

قومی رہنما کہلانے کا حق ان ہی افراد کو حاصل ہوتا ہے جو حقیقتاً اپنی قوم کے افراد کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں پر...


نجمہ عالم December 05, 2013

قومی رہنما کہلانے کا حق ان ہی افراد کو حاصل ہوتا ہے جو حقیقتاً اپنی قوم کے افراد کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں پر خلوص رہنمائی کریں۔ سیاستداں ہونا ایک الگ بات ہے اور رہنما ہونا الگ۔ ہر سیاستدان رہنما نہیں ہوتا۔ مگر وہ سیاستداں جو میدان سیاست میں قدم بھی اسی ارادے سے رکھتا ہے کہ وہ قوم کو اس کے حقوق دلوائے گا وہ صحیح حکمرانوں ثابت ہو گا۔

جب ہم اپنے ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میدان سیاست کے اہم افراد پر نظر ڈالتے ہیں تو دور دور تک کوئی رہنما (لیڈر) نظر نہیں آتا۔ سب کے سب محض سیاستداں ہی ہوتے ہیں۔ اپنی سیاسی پارٹی، اس کے منشور، ظاہری و باطنی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا سیاسی کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا نقطہ نظر اور مقاصد یکساں نہیں ہوتے۔ بظاہر تو سب ہی عوام کے لیے منصوبے پیش کرتے ہیں مگر وہ عوام سے زیادہ ان کے ووٹ پر نظر رکھتے ہیں اور اپنا منشور عوامی فلاح و بہبود سے متعلق بنا کر معصوم عوام سے ان کے ووٹ تو حاصل کر لیتے ہیں مگر جب عنان حکومت ہاتھ میں آ جاتی ہے یا اسمبلی کی سیٹ مل جاتی ہے تو پھر عوام ان کے لیے بے وقعت ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری بیشتر سیاسی جماعتیں میرٹ یا عوامی خدمت پر ٹکٹ دینے کے بجائے پارٹی کا ٹکٹ خاصی کثیر رقم کے عوض دیتی ہیں اور جب کوئی لاکھوں روپے دے کر ٹکٹ حاصل کرے گا تو وہ اسمبلی میں پہنچ کر سب سے پہلے اپنی لگائی ہوئی رقم کے حصول کی کوشش شروع کر دے گا اور پھر اس کے بعد لگائی گئی رقم سے دگنا بلکہ کئی گنا مزید حاصل کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس نے ٹکٹ خرید کر گھاٹے کا سودا تو کیا نہیں ہوتا۔ اب ایسے میں اگر وہ عوام کی خدمت کرنے لگے تو اس کو کیا فائدہ ہو گا؟ یہ ہے ہماری ملکی سیاست کا محور اور المیہ۔

بات ہو رہی تھی لیڈر یا رہنما کی تو دراصل رہنما وہ ہوتا ہے جو قوم (عوام) کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر ان کی ضروریات کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے اور وہ یہ خدمت بلاامتیاز رنگ و نسل اور بلاتفریق عقائد و علاقائیت ہر فرد کے لیے ہی نہیں بلکہ بنی نوع انسان کے لیے انجام دیتا ہے۔

افق سیاست پر بے شمار ایسے افراد ابھرے ہیں جنھوں نے استحصال زدہ کچلے ہوئے بے وسیلہ انسانوں پر طاقتور اور صاحبان اقتدار کے مظالم کے لیے یکساں طور پر آواز اٹھائی، ان میں کچھ کافی حد تک اور کچھ جزوی طور پر کامیاب بھی رہے۔ کچھ نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے قید و بند کے علاوہ تختہ دار پر چڑھنا یا زہر کا پیالہ پینا بھی قبول کیا، کچھ کو اپنے لوگوں اور ملک سے دور جلاوطنی کے صدمے کو برداشت کرنا پڑا مگر وہ حق پرستی کے جرم سے باز نہ آئے۔ ایسے ہی رہنماؤں میں ایک الطاف حسین بھی ہیں جو جرم حق پرستی کی پاداش میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مگر وہ دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی لیاقت آباد، کھارادر، اورنگی، لانڈھی، کورنگی، عزیز آباد اور نیو کراچی کے علاوہ پشاور، ہنگو، ڈی آئی جی خان، سکھر، ملتان، پنڈی، لاہور غرض ملک کے چپے چپے اور ہر گلی کوچے کے حالات سے ہر گھڑی اور ہر لمحہ اس طرح باخبر رہتے ہیں کہ ان کے یہاں موجود نہ ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔ دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، مہنگائی کسی بھی طرح کا کسی پر بھی ظلم و جبر اور تمام سیاسی ایشوز کسی بھی سیاسی جماعت کے کسی فرد کے ذاتی صدمات سے لے کر اپنے کارکنان کے اعزا کی گرفتاری، موت، خوشی، حقوق انسانی کے معاملات سے لے کر ملکی سالمیت کے ہر پہلو اور ہر اہم واقعے پر سب سے پہلے پیغام تہنیت، اظہار افسوس اور اظہار یکجہتی پر بعض لیڈروں کا بیان اس قدر جلد آتا ہے کہ عوام اس صورت حال سے پوری طرح باخبر بھی بیاں پڑھ کر یا سن کر ہی ہوتے ہیں۔

حال ہی میں ''محبت'' جیسے آفاقی موضوع پر جناب الطاف حسین کے لیکچرز کو کتابی شکل میں ''فلسفہ محبت'' کے نام سے شایع کیا گیا ہے۔ جس کی تقریب رونمائی مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ کئی مقتدر شخصیات نے کتاب اور مصنف کے بارے میں اظہار خیال کیا اور کتاب میں بھی کئی افراد کے خیالات شامل ہیں۔ اس کتاب کی تقریب رونمائی میں پیرزادہ قاسم صاحب نے بھی اظہار خیال کیا، انھوں نے کہا کہ جن نامساعد حالات میں الطاف حسین نے انسان دوستی اور حق پرستی کی شمع روشن کر رکھی ہے وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ لائق تقلید بھی اور یہ ان ہی کی ہمت و جرأت ہے کہ وہ اپنی راہ عشق پر والہانہ انداز میں گامزن ہیں۔

کالم یہاں تک تحریر ہوا تھا کہ ایکسپریس کے دفتر پر بم دھماکوں اور فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ سب کچھ چھوڑ کر ہم ٹی وی کے سامنے جا بیٹھے۔ ایکسپریس کے چینل سے تقریباً براہ راست صورت حال پیش کی جا رہی تھی اور ابتدائی خبروں سے صرف یہ پتہ چل رہا تھا کہ ایکسپریس کے دفتر پر شام سوا سات بجے دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے جس کے نتیجے میں سیکیورٹی گارڈز زخمی ہوا، ملازم بال بال بچے، عمارت کے باہر کھڑی گاڑیوں کو کافی نقصان پہنچا اور یہ کہ اس سے قبل بھی اس دفتر پر حملہ ہو چکا تھا۔ اس کے باوجود حکومت کی طرف سے سیکیورٹی کا نہ صرف کوئی معقول بندوبست تھا بلکہ پہلے سے موجود پولیس موبائل بھی بغیر کسی اطلاع اور وجہ کے ہٹا لی گئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔

ایکسپریس ٹی وی پر تو یہ سب کچھ آ رہا تھا، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ ذرا دوسرے چینلز پر تو دیکھیے وہ کس طرح یہ خبر دے رہے ہیں۔ ایک بے حد نامی گرامی چینل سے بتایا جا رہا تھا کہ قیوم آباد میں بم دھماکے اور فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے، لیکن ایکسپریس کا ذکر نہ تھا۔ گویا لمحے لمحے کی خبر دینے اور سب پر سبقت لے جانے کے دعویدار یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ حملہ کس جگہ کس عمارت پر ہوا ہے یا شاید جان بوجھ کر نام لینے سے گریز کیا جا رہا تھا۔ مزید کئی چینلز بدل بدل کر دیکھے تو وہاں مختلف پروگرام جاری تھے، کہیں سے بھی کوئی ''بریکنگ نیوز'' یا خصوصی اطلاع نہیں دی جا رہی تھی ( اگرچہ بعد میں اوروں نے بھی اپنے اپنے زاویہ نظر کے تحت خبر دی) مگر خبر دینے کی گھڑ دوڑ میں جو جلدی مچائی جاتی ہے کہ پوری طرح اطلاع موصول بھی نہیں ہوئی کہ بم دھماکے، قتل اور آتشزدگی کی بریکنگ نیوز چلنا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر فخریہ بتایا جاتا ہے کہ سب سے پہلے یہ خبر ہم نے عوام تک پہنچائی، اس صورت حال کا فقدان نظر آیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ ہمارا میڈیا جب اپنے آپس کے معاملات پر چشم پوشی کا رویہ اپناتا ہے تو پھر وہ قومی ایشوز پر کیسے ہم خیال اور یک زبان ہو سکتے ہیں۔ اپنے ادارے کے ایک کیمرہ مین سے کیمرہ چھن جانے تک کی خبر چوبیس گھنٹے نشر کرنے والے دوسرے چینل پر حملے کو بھی واضح طور پر پیش کرنے سے گریز کرتے ہوں تو کیا یہ منافقت نہیں؟ کیا یہ دہرے کردار کی عکاسی نہیں کرتا؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں