بھارت اور بنگلا دیش میں سمندری طوفان کی تباہ کاریوں سے 84 ہلاکتیں

دونوں ممالک کے سیکڑوں دیہات زیر آب، کروڑوں افراد بجلی اور مواصلاتی رابطے سے محروم ہوگئے


ویب ڈیسک May 21, 2020
ماہرین نے 20 سالہ تاریخ کے خوفناک سمندری طوفان سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔(فوٹو، رائٹرز)

بھارت اور بنگلا دیش میں سمندری طوفان کی تباہ کاریوں سے 84 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جمعرات کو مشرقی بھارت اور بنگلادیش میں طاقتور سمندری طوفان نے متعدد ساحلی دیہات کو شدید متاثر کیا ہے۔ طوفان کے باعث وسیع رقبہ زیر آب آچکا ہے اور بجلی کی فراہمی بھی معطل ہوگئی ہے۔

بھارت کےساحلی شہر کلکتہ کو طوفان سےسب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ سڑکیں تالاب بن گئیں اور درجنوں کچے مکانوں کی چھتیں اڑ گئیں ہیں اور سیکڑوں عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب کے باعث ہزاروں درخت اُکھڑ گئے ہیں اور ڈیڑھ کروڑ افراد بجلی سے محروم ہیں۔ فون لائنزخراب ہونے اورموبائل فون ٹاورزگرنےسےکروڑوں افراد کا بیرونی دنیا سے رابطہ کٹ گیا۔ طوفان سےمتاثر علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی کے مطابق ریاست میں 72 افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر افراد کرنٹ لگنے اور 185 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز ہواؤں کے باعث اکھڑنے والے درختوں کی زد میں آکر ہلاک ہوئے۔ طوفان سے 400 کلومیٹر پر محیط علاقے میں شدید تباہی آئی ہے۔

بنگلا دیش میں ابتدائی طورپر 10 اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔ بنگلا دیش کے ضلع ستخیرا سے تعلق رکھنے والے 49 سالہ ایک شہری نے غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ''میں نے زندگی میں ایسا طوفان نہیں دیکھا۔ محسوس ہوتا تھا کہ دنیا ختم ہونے والی ہے۔ میں صرف دعا کرسکتا ہے اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے۔''

تفصیلات کے لیے پڑھیے: بھارت اور بنگلا دیش خطرناک ترین سمندری طوفان کی زد میں

واضح رہے کہ خطرناک ترین سمندری طوفان 'امفین' بدھ کو بھارت کی مشرقی ریاستوں اور بنگلا دیش کے ساحل سے ٹکرایا تھا۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ 1999 کے بعد خلیج بنگال میں آنے والا خطرناک ترین سمندری طوفان ہے۔ اس کے بعد تیز اور موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جب کہ مٹی کے بڑے تودے گرنے کے واقعات بھی رونما ہوئے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 20 سالہ تاریخ کے خوفناک سمندری طوفان سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں