رمضان الکریم الوداع
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے
رمضان المبارک ہم سے بچھڑنے کو ہے۔ رمضان کے بعد دیکھتے ہیں کہ آپ کم کھاتے، کم سوتے، کم بولتے اور کیا اپنے نفس کی چوکی داری کرتے ہیں یا پہلے کی طرح پھر ویسے ہی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔ ؟
یاد رکھیے! اﷲ تعالی نے سورہ العمران میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اﷲ کی راہ میں نہ دے دو۔ کھانا، پینا، آرام اور نفس کی بے لگام آزادی سے بڑھ کر انسان کی پسندیدہ چیز اور کیا ہوگی۔۔۔ ؟ کم کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ ضروری غذائیت کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔ کم کھانے کا مطلب یہ کہ آپ نفس کے اندر موجود، زیادہ سے زیادہ کھانے کے ندیدے پن اور اس حوالے سے حرام و حلال دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کو لگام ڈالتے ہیں یا نہیں ؟ ضرورت کے مطابق مال و دولت کا تو حکم ہے مگر دراصل یہ مال و دولت کی بے لگام ہوس ہے جو اﷲ انسانی زندگی سے منہا کرنا چاہتے ہیں۔
جب ایک انسان پورا مہینہ بہت کچھ نہ کھا پی کر بھی زندہ رہ سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کی ہوس کیا معنی رکھتی ہے ؟ کم سونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ جسمانی آرام کو اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیں بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو کس طرح بہترین استعمال کرکے عبادت میں اہتمام کرتے ہیں اور اﷲ کی خاطر کس قدر اپنے آرام اور بے سر و پا محفلوں سے دامن بچاتے ہوئے، اﷲ کے سامنے حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کم بولنا زیادہ غور کرنے سے عبارت ہے۔ روزے کے دوران، شدید بھوک اور پیاس ہمیں خود بہ خود خاموش کرا دیتی ہے۔
رمضان المبارک میں اعتکاف میں آپ دنیا و مافیہا سے الگ اپنے اﷲ سے لو لگا لیتے ہیں اور اس دنیا اور اخروی دنیا سے متعلق سوالات پر غور کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نفس کی چوکی داری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ نفس کی نگرانی کی پورے مہینے عملی مشق کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ غیر رمضان اپنی زندگی کے لمحات کیسے گزارتے ہیں۔۔۔؟
اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔ تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قریب جانے سے مراد ان افعال، حالات اور افراد سے دور رہنا ہے جو زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔
دیکھنا یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک نے آپ کو نفس کی جس چوکی داری کا درس دیا ہے آپ زبان اور زنا کے حوالے سے کس قدر اہتمام کے ساتھ اس کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غیبت، گالی، بہتان، فحش گفت گو اور لایعنی باتوں میں الجھا کر آپ کے وقت اور مستقبل دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔ ؟
رمضان المبارک نے آپ کو یہ درس بھی تو دیا ہے کہ بھوک، پیاس اور مادی آسائشوں کی کمی انسانی زندگی پر کس قدر شدید اثرات مرتب کرتی ہے؟ یوں آپ کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بہتر رویّوں اور احسان کی روش قائم رکھنے کا امتحان شروع ہونے کو ہے۔ یقیناً تمہارے اموال اور نفس سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ آپؐ کی حدیث کے مطابق تو ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپؐ کی صورت ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔
علوم ِ قرآن و حدیث کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دو راہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسّر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔
ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمر تک اور پھر بڑھاپے تک ، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں۔ درس ہائے رمضان المبارک بے شمار ہیں مگر ان سب کا مقصد و منتہا یہی ہے کہ آپ انہیں کس قدر اہتمام اور شوق سے اپنی عملی زندگی میں جاری کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ جب بڑے شیطان رمضان کے بعد آزاد ہوں گے تو ہمیں اپنے نفس کی زبردست نگرانی کرنا ہوگی یوں ہمارا امتحاں اور بھی سخت اور محتاط رویّوں کا متقاضی ہوگا۔
یاد رکھیے! اﷲ تعالی نے سورہ العمران میں ارشاد فرمایا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اﷲ کی راہ میں نہ دے دو۔ کھانا، پینا، آرام اور نفس کی بے لگام آزادی سے بڑھ کر انسان کی پسندیدہ چیز اور کیا ہوگی۔۔۔ ؟ کم کھانے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مطلوبہ ضروری غذائیت کو ہی فراموش کر بیٹھیں۔ کم کھانے کا مطلب یہ کہ آپ نفس کے اندر موجود، زیادہ سے زیادہ کھانے کے ندیدے پن اور اس حوالے سے حرام و حلال دولت اکٹھا کرنے کی ہوس کو لگام ڈالتے ہیں یا نہیں ؟ ضرورت کے مطابق مال و دولت کا تو حکم ہے مگر دراصل یہ مال و دولت کی بے لگام ہوس ہے جو اﷲ انسانی زندگی سے منہا کرنا چاہتے ہیں۔
جب ایک انسان پورا مہینہ بہت کچھ نہ کھا پی کر بھی زندہ رہ سکتا ہے تو زیادہ سے زیادہ کی ہوس کیا معنی رکھتی ہے ؟ کم سونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ جسمانی آرام کو اپنی زندگی سے خارج ہی کر دیں بل کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے نظام الاوقات کو کس طرح بہترین استعمال کرکے عبادت میں اہتمام کرتے ہیں اور اﷲ کی خاطر کس قدر اپنے آرام اور بے سر و پا محفلوں سے دامن بچاتے ہوئے، اﷲ کے سامنے حاضر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کم بولنا زیادہ غور کرنے سے عبارت ہے۔ روزے کے دوران، شدید بھوک اور پیاس ہمیں خود بہ خود خاموش کرا دیتی ہے۔
رمضان المبارک میں اعتکاف میں آپ دنیا و مافیہا سے الگ اپنے اﷲ سے لو لگا لیتے ہیں اور اس دنیا اور اخروی دنیا سے متعلق سوالات پر غور کرتے ہیں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے نفس کی چوکی داری کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ نفس کی نگرانی کی پورے مہینے عملی مشق کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ غیر رمضان اپنی زندگی کے لمحات کیسے گزارتے ہیں۔۔۔؟
اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ کیوں کہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ ہے۔ تفاسیر کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قریب جانے سے مراد ان افعال، حالات اور افراد سے دور رہنا ہے جو زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔
دیکھنا یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک نے آپ کو نفس کی جس چوکی داری کا درس دیا ہے آپ زبان اور زنا کے حوالے سے کس قدر اہتمام کے ساتھ اس کی خبر رکھتے ہیں کہ وہ لوگ کون ہیں جو آپ کو غیبت، گالی، بہتان، فحش گفت گو اور لایعنی باتوں میں الجھا کر آپ کے وقت اور مستقبل دونوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔۔۔ ؟
رمضان المبارک نے آپ کو یہ درس بھی تو دیا ہے کہ بھوک، پیاس اور مادی آسائشوں کی کمی انسانی زندگی پر کس قدر شدید اثرات مرتب کرتی ہے؟ یوں آپ کو اپنے آس پاس کے لوگوں کے ساتھ بہتر رویّوں اور احسان کی روش قائم رکھنے کا امتحان شروع ہونے کو ہے۔ یقیناً تمہارے اموال اور نفس سے تمہاری آزمائش کی جائے گی۔ آپؐ کی حدیث کے مطابق تو ایمان مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ہم اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔
ہماری زندگی کا مقصد حقوق اﷲ اور حقوق العباد کی معیاری تکمیل ہے۔ حقوق اﷲ اور حقوق العباد واضح ہیں اور آپؐ کی صورت ان حقوق کی ادائی کا معیار بھی واضح ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو قسم کے حقوق کی تکمیل کے حوالے سے دنیاوی زندگی میں اپنے اختیار اور شیاطین کی موجودی میں، ایک آزمائش سے دوچار کردیا گیا ہے۔
علوم ِ قرآن و حدیث کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ عام لوگوں کو یہ صراط ِ مستقیم، ان کی اپنی زندگی کے تناظر میں بالکل صاف نظر آئے اور یوں زندگی میں پیش آمدہ کسی دو راہے پر صراط ِ مستقیم طے کرنے کا امکان میسّر رہے۔ لیکن صراط ِ مستقیم پر چلنے کے بعد بھی کام یابی اﷲ کی مرضی پر منحصر ہے۔
ہم مسلمان، بچپن سے لڑکپن اور جوانی سے ادھیڑ عمر تک اور پھر بڑھاپے تک ، صراط ِ مستقیم کو طے کرنے کے عمل سے دوچار رہتے ہیں۔ درس ہائے رمضان المبارک بے شمار ہیں مگر ان سب کا مقصد و منتہا یہی ہے کہ آپ انہیں کس قدر اہتمام اور شوق سے اپنی عملی زندگی میں جاری کرتے ہیں ۔۔۔ ؟ جب بڑے شیطان رمضان کے بعد آزاد ہوں گے تو ہمیں اپنے نفس کی زبردست نگرانی کرنا ہوگی یوں ہمارا امتحاں اور بھی سخت اور محتاط رویّوں کا متقاضی ہوگا۔