سروسز اسپتال کمرہ نمبر 10 اور کورونا کو شکست

اگر خدانخواستہ آپ کورونا وائرس کا شکار ہوجائیں تو اس کا مقابلہ کیسے کریں گے؟


کورونا میں مبتلا ہونے کے بعد سروسز اسپتال کے کمرہ نمبر دس میں گزرنے والا ایک ایک دن نیا تجربہ دے رہا تھا۔ (فوٹو: فائل)

وہ دن بھی عام دنوں جیسا تھا۔ سحری کرکے نماز فجر ادا کی اور تھوڑی دیر کےلیے آرام کرنے لگا۔ معمولی سا بخار تھا اور کے جسم میں ہلکا سا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔ دوستوں کے کہنے پر دفتر کے اندر ہی اپنا کورونا ٹیسٹ کرایا۔

اگلے دو دن بخار اور درد میں شدت آنے لگی۔ میں نے اس تکلیف کو گرمی اور روزوں کا اثر جانتے ہوئے نظر انداز کیا، لیکن تیسرے دن دفتر جانے کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ ڈائرئکٹر پروگرامنگ انصار نقوی کا فون آیا۔ انہوں نے پہلے حوصلے اور ہمت سے بھرپور نصحیتیں کیں، پھر مجھے خبر سنائی کہ میرا کورونا ٹیسٹ پازیٹیو آیا ہے، چند گھنٹوں تک ایمبولینس آئے گی اور تمھیں اسپتال لے جایا جائے گا۔ اپنی ضرورت کے کپڑے، کتب اور قرآن پاک ساتھ رکھنے کو کہا۔ قصہ مختصر افطاری کے بعد ریسیکو 1122 کی ایمبولینس آئی اور میں اپنے فلیٹ سے سروسز اسپتال کے کمرہ نمبر دس میں پہنچ گیا۔ جی ہاں اسی کمرے میں جہاں کئی صبر آزما دن گزارے۔ ان دنوں میں کئی بار موت کو قریب سے دیکھا، زندگی سے ناامید ہوا، لیکن اس سب کے باوجود اس جنگ میں سرخرو ہوا۔

اسپتال پہنچتے ہی تکالیف کا وہ سلسلہ شروع ہوگیا جسے شاید الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کمرہ، اس کے اندر پڑا آکسیجن سلینڈر، بیڈ، الماری اور میری کتابیں، یہی سب ہر وقت مجھے دکھائی دیتا۔ کمرے کے ساتھ ایک کھڑکی اور اس سے باہر بوہڑ کا بوڑھا درخت۔ درخت سے کبھی کبھار چڑیوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ تنہائی کا ایسا احساس تھا کہ گویا شہر خموشاں ہو، اور اس میں کوئی نیا مردہ دفن ہوا ہو، جسے قبر کی وحشت اور ہولناکیوں کا سامنا ہو۔ کتابوں کے اوراق پلٹتے ہوئے یوں لگ رہا تھا جیسے میں ان اوراق کی طرح دنیا سے جدا ہورہا ہوں۔ رگوں میں دوڑتا خون اور دل کی دھڑکنوں میں مجھے شور قیامت سنائی دے رہا تھا۔ اسی کمرے میں قید تنہائی کاٹتے ہوئے تین ایام گزر چکے تھے کہ ایک صبح فجر سے قبل میری آنکھ کھلی، مجھے ایسے محسوس ہورہا تھا گویا میرے حلق میں کوئی راڈ پھنسا ہوا ہے جو میری سانسوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

میں اپنی پوری طاقت صرف کرکے سانس لینے کی کوشش کرتا مگر ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ نرسز اور ڈاکٹرز کو بلانے کےلیے بھی باہر نہیں جاسکتا تھا۔ ایک احساس ذمے داری مجھے روکے ہوئے تھا کیونکہ کمرے سے باہر نکلنا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ صبح چھ بجے کے قریب نرس کمرے میں آئی، اس نے میرا معائنہ کیا، حالت دیکھ کر ڈاکٹرز کو بلایا، جنہوں نے فوری ایکسرے کیا۔ میرے پھیپھڑوں کا ایک بڑا حصہ سفید ہورہا تھا۔ سروسز اسپتال کے ڈاکٹرز نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا، ان کی کونسلنگ کا نتیجہ ہی تھا کہ میری سانسیں بحال ہونا شروع ہوگئیں اور اگلے تین ایام میں پھیپھڑے بالکل فعال ہوچکے تھے، رکتی اور اٹکتی سانسیں بحال ہونا شروع ہوگئیں۔ اس مصیبت سے نجات کے بعد اگلا تلخ مرحلہ آیا۔ میرے کندھوں اور جسم کے دیگر حصوں میں درد کی شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ یوں محسوس ہورہا تھا گویا مجھے زنجیروں سے جکڑا گیا ہے اور میرے جسم میں سویاں چبھوئی جارہی ہیں۔ لیکن الحمدللہ، اس درد سے نجات بھی مل گئی۔

سروسز اسپتال کے کمرہ نمبر دس میں گزرنے والا ایک ایک دن نیا تجربہ دے رہا تھا۔ بلاگرز، مضمون نگار اور تخلیق کار اچھی تحریر اور تخلیق کےلیے تنہائی کو ضروری قرار دیتے ہیں، لیکن مجھے مکمل تنہائی میسر ہونے کے باوجود بھی ایک لفظ تحریر کرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہوا۔ اس درد سے نجات میں میرے دوستوں نے مجھے حوصلہ دیا۔ ویڈیو کالز کے ذریعے دوستوں نے محافل سجائیں۔ ٹیلی فون کالز پر تمام دوست میرا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ نرسز اور ڈاکٹرز مسلسل ہمت دلاتی رہیں۔ لیکن اس کے باوجود کئی مواقع پر میں جینے کی امید چھوڑ چکا تھا۔ مجھے زندگی سے نفرت ہونے لگی تھی، مجھے محافل اور گفتگو سے اکتاہٹ ہونے لگی تھی۔ مجھے اپنے جسم سے گھن آرہی تھی۔ مجھے اپنے ماضی پر شرمندگی ہورہی تھی، اس شرمندگی کا اعتراف تنہائی میں اپنے رب سے کیا۔ کئی بار موت کی دعا مانگی، لیکن ہر بار مجھے دوستوں کی جانب سے کی جانے والی دعاؤں کا خیال آیا، جو رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں اپنے قیام اور سجود کے اندر میری سلامتی کےلیے دعاگو تھے۔ شاید یہی دعائیں تھیں کہ آج میں اپنی کہانی آپ سے بیان کررہا ہوں۔

اسپتال کے اندر قوت مدافعت بڑھانے کےلیے کھانے، پھلوں، دودھ اور انڈوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ ہمارے چینل کے سی ای او کی جانب سے روزانہ یخنی اور اس کے ساتھ انڈے بھجوائے جارہے تھے۔ نرسز دن میں پانچ دفعہ بلڈ پریشر، ٹمپریچر اور آکسیجن لیول کا معائنہ کرتیں۔ آج مجھے ان نرسز کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے فرض کی ادائیگی کےلیے موجود ہیں۔ دن میں دو دفعہ کمرے کی صفائی کی جاتی۔ اسی طرح وٹامنز اور کلوروکوئین فارمولہ کی ادویات کے ذریعے علاج کی کوشش کی جاتی۔ سارا دن بستر پر پڑے رہنے کے باعث خون منجمد ہونے کا خدشہ تھا، اس لیے ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق کمرے کے اندر موجود سات فٹ کے ٹریک پر واک اور وہیں ورزش کی کوشش کرتا۔ وہیں پڑی کرسی پر بیٹھ کر کتابوں کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتا۔ ابتدائی دنوں میں دس کتب پڑھ لیں اور اگلے ہفتوں میں دیگر کتب کو ہاتھ لگانے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔

اسپتال کے اندر میری دو رپورٹس مثبت آئیں جبکہ بعد میں دو رپورٹس منفی آئیں، جس کے بعد مجھے ڈسچارج کردیا گیا۔ یقین جانیے ہر مثبت رپورٹ آنے کے بعد میں، میرا کمرا اور میری تنہائی ہوتے تھے۔ دیواروں پر سر مارنے کو دل کرتا تھا، دیواریں توڑ کر بھاگ جانے کا خیال آتا ہے، لیکن رب کے حضور ندامت کے آنسو بہاتے ہیں دل کو قرار اور روح کو چین آجاتا تھا۔

اسپتال سے فارغ ہونے کے بعد پہلے ہی دن صبح کے وقت میں اپنے فلیٹ کی چھت پر کھڑا تھا۔ میرے سامنے اچھرہ بازار ہے، جہاں خواتین کا رش دیکھ کر میرا سر پیٹنے کو جی کر رہا ہے۔ میں دفتر کے اندر حفاظتی لباس، ماسک اور گلووز پہن کر بیٹھتا تھا، دفتر اور اپنے کمرے کے علاوہ کہیں بھی نہیں جاتا تھا، لیکن اس کے باوجود میں کورونا وائرس کا شکار ہوگیا۔ لیکن بازاروں میں خریداروں کا رش اور حفاظتی اقدامات کے بغیر وائرس سمیٹنے والے شہریوں کو دیکھ کر خوف آرہا ہے۔ مجھے عید کے بعد کے پاکستان کی خوفناک تصویر دکھائی دے رہی ہے۔ مجھے کمرہ نمبر دس کے آس پاس موجود دیگر کمروں میں زیر علاج لیڈی ڈاکٹرز اور نرسز کی حالت زار پر رحم آرہا ہے، جو لاک ڈاون اور پابندیوں کے باوجود کم تعداد میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے اس وائرس کا شکار ہوئیں اور اب زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ عید کے بعد جب ملک میں کورونا وبا تیزی سے پھیلے گی تو اس وقت مریضوں کو کون سنبھالے گا؟ کیا شہریوں کی اس بداحتیاطی کا خمیازہ ڈاکٹرز بھگتیں گے؟ کیا ہمارا نظام صحت ایک بڑے المیے کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہے؟

کیا 'موت کا ایک دن معین ہے' کہنے والے مفکرین موت کے احساس سے آشنا ہیں؟ کیا رکتی، اٹکتی اور حلق میں پھنسی ہوئی سانسوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً اس سب کا جواب ہم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا ماننا ہے کہ ہمیں وائرس کے ساتھ زندہ رہنا ہے، لیکن کیا ہم اس رویے کے ساتھ زندہ رہ پائیں گے؟

اگر خدانخواستہ آپ کورونا وائرس کا شکار ہوجائیں تو اس کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ یہ سوال یقیناً آج ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے۔ اس کےلیے سب سے اہم بات یہ کہ آپ کو گھبراہٹ کا شکار نہیں ہونا، قرنطینہ کے دوران خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے کی کوشش کیجئے۔ کتابیں پڑھیے، موبائل فون کے ذریعے دوستوں سے رابطے بڑھائیے، بھولے بسرے تعلقات کو دوبارہ سے بحال کیجئے، مسلسل وزرش کا اہتمام اور ڈاکٹرز کی ہدایات کے مطابق اپنی خوراک پر توجہ دیجئے۔ قوت مدافعت بڑھانے والی غذائیں کھانے کی کوشش کیجئے۔ ہاں اگر آپ کو سرکاری کورنٹائن سینٹر میں سہولیات نہیں مل رہیں تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے کیونکہ فائیو اسٹار ہوٹلز میں بھی گھر جیسا سکون میسر نہیں۔ آپ کا شکایتی رویہ اور ہر وقت گلے شکوے کرنے کی عادت آپ کو ذہنی طور پر اذیت میں مبتلا کردیتی ہے، آپ صحت مند ہونے کے باوجود بھی وائرس کےلیے جنگ نہیں لڑ سکتے۔

سب سے اہم بات اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کیجئے، کیونکہ وہی ہے جو بیماروں کا شفا عطا کرتا ہے۔ وہی ہے جو ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ وہی ہے جو آزمائش میں مبتلا کرکے اس سے نکلنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ قرآن پاک کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیے۔ اگر آپ ذہنی طور پر پرسکون ہیں تو قرآن پاک کی تفسیر پڑھنے کی کوشش کیجئے۔ کورونا سے بچنے کے لیے جہاں قوت مدافعت ضروری ہے وہیں مضبوط اعصاب بھی لازمی ہیں۔ اگر آپ کورونا کے خوف سے خود کو آزاد کرلیں گے تو اسے شکست دینے میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ سب سے اہم بات آپ خریداری کرتے ہیں تو بلاجھجک کیجئے، آپ بازاروں میں جاتے ہیں تو شوق سے جائیے، آپ لوگوں سے میل ملاپ رکھتے ہیں تو ضرور رکھیے، لیکن یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ کا ایک خاندان ہے، آپ سے پیار کرنے والے بھی ہیں۔ اگر آپ کو کورونا سے خطرہ نہیں ہے تو یہ درآمدی تحفہ آپ کے پیاروں کےلیے موت کا پیغام بھی ہوسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں