فیملی پلاننگ کی مثال
گل زمان کیانی نے جیسی فیملی پلاننگ کی وہ ایک قابل فخر مثال ہے
آج کل اپنے اردگرد بیوروکریٹس کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کا ادراک ہوتا ہے تو یقین کے ساتھ حیرت ہوتی ہے کہ دس پندرہ سال قبل ملازمت سے ریٹائر ہونیوالے گزیٹڈ کلاس ون افسران جن سے اکثر ملاقات رہتی ہے ان کی تنخواہ تب چار سو پچاس روپے ماہانہ ہوا کرتی تھی اور وہ نہ کبھی مالی تنگی کی شکایت کرتے تھے نہ ہی کبھی ان پر کرپٹ ہونے کا الزام لگتا تھا۔ راولپنڈی میرے گھر کا کام کرنیوالا گل زماں کیانی مظفر آباد کا رہائشی تھوڑی سی تنخواہ پر میرا کھانا بنانے، کپڑے دھونے اور دیگر کاموں پر مامور تھا۔
کچھ عرصے کے بعد اس نے اپنے چھ سال کے بچے کو گاؤں سے لاکر راولپنڈی تعلیم دلانے کی اجازت چاہی۔ وہ بچہ محنتی اور لائق تھا لیکن اسکول کے اخراجات کے پیش نظر میں نے گل زماں کا گھریلو کام کم کر دیا اور اسے محکمہ انکم ٹیکس میں نائب قاصد کی ملازمت دلوا دی۔ بچے کی تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے گل زماں میرے لیے دوپہر کا کھانا بھی صبح ہی بنا کر کام پر چلا جاتا، مجھے دقت تو ہوئی لیکن ان باپ بیٹے کی سہولت مجھے زیادہ عزیز تھی۔
گل زماں نے اپنے بیٹے کی تعلیم اور اپنی مجبوری کے پیش نظر میرے کچن کا کام اور سرکاری ملازمت ہر دو جگہ خود کو Adjust تو کر لیا لیکن چونکہ ایماندار تھا اس لیے ایک دن پریشان حالی میں مجھ سے کہا کہ وہ انکم ٹیکس محکمے میں کام نہیں کرنا چاہتا، اسے کسی ارر جگہ نوکری دلوا دوں، مجھے حیرت ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کو پریشانی اس وجہ سے ہے کہ قریب سے گزرتا ہوا ہر دوسرا تیسرا شخص اسے چند روپے پکڑانے پر اصرار کرتا ہے جب کہ گل زماں اس کو رشوت سے تعبیر کرتے ہوئے لینے سے انکار کر کے تنگ ہوتا رہتا ہے۔ مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ گل زماں اپنی دیانت داری کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔
گل زماں کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا کہ مجھے اس محکمے سے تبدیل کروا دو، میں نے PTV کے چیف اکاؤنٹنٹ سے درخواست کی تو وہ بھی حیران ہوا لیکن پھر اس نے ٹیلی وژن میں نائب قاصد کی ملازمت دے دی۔ اس کے بیٹے طارق زماں کو میں نے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔ یہ بات نہ صرف میرے لیے بلکہ جس نے بھی سنی باعث حیرت اور انوکھی تھی کہ گل زماں ایک ایماندار نائب قاصد ہے جب کہ ایک ایسے محکمے کو چھوڑنے پر بضد ہے جس میں جانے کے لیے لوگ تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔
میرے علم میں اسی محکمے کا ایک نائب قاصد بھی تھا جو اپنے افسر اعلیٰ کا فرنٹ مین تھا۔ اس کے افسر کے پاس وکلاء نے اپنے بزنس مینوں کے کیس پیش کرنے ہوتے تھے لیکن وہ پیش نہ ہوتے، ان کی جگہ مذکورہ نائب قاصد ان کی فائلیں پیش کرکے ان پر وکلاء سے طے شدہ فیس لے کر مطلوبہ آرڈر لکھوا لیتا۔ اس Arrangement کا مجھے شاید کبھی پتہ نہ چلتا، یہ بھی مجھے گل زماں کیانی ہی سے پتہ چلا جب گل زماں نے مذکورہ نائب قاصد سے پارٹنر شپ سے انکار کرنے کے علاوہ وہاں سے ملازمت بھی چھوڑ دی۔
گل زماں سے میرا رابطہ میری ٹرانسفر کے بعد منقطع ہو گیا لیکن چونکہ اب وہ PTV کے چیف اکاؤنٹنٹ مطیع الرحمن کا نائب قاصد تھا اس کے بارے میں اور خاص طور پر اس کے بیٹے طارق زماں کی بابت جسکی تعلیم کی تکمیل میں میری خاص دلچسپی تھی میں ان سے رابطے میں رہا۔
گل زماں نے کم تنخواہ کی وجہ سے اوورٹائم کام شروع کردیا تا کہ بچے کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں لے آیا تا کہ وہ بھی تعلیم حاصل کریں۔ اسکی اولاد چار لڑکوں اور چار لڑکیوں پر مشتمل تھی، میں نے گل زماں کو صرف انگریزی میں اپنا نام لکھنا سکھایا اور اس کی اتنی پریکٹس کرائی کہ اس کے دستخط Printed معلوم ہوتے تھے۔
اسکی توجہ اب طارق زماں کے علاوہ باقی بچوں کی تعلیم کی طرف منتقل ہو گئی۔ چار لڑکیوں کو اسکول داخل کیا۔ تین لڑکوں کو بھی اسکول بھیجا جب کہ طارق زماں اب آرمی کے مختلف مراحل میں تھا۔ ہمارے اکثر کم حیثیت لوگ بچے پیدا کر کے ان سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
ان کی اولاد بڑی ہونے کے ساتھ والدین کے لیے گداگری کرتی اور ذریعہ معاش بن جاتی ہے جب کہ نائب قاصد گل زماں کی فیملی خود تعلیم حاصل کرتے ہوئے ٹیوشنز پڑھا کر باپ کی مالی مدد ہی نہیں کر رہی تھی بلکہ گھر کا خرچ چلانے کا ذریعہ بھی بن چکی تھی۔ حیرت اور خوشی کا مقام کہ کسی حد تک طارق زماں کیانی بھی اس گھرانے کے لیے مالی اور ذہنی ترقی کا ذریعہ بن رہا تھا۔ چند بڑے بچے مارکیٹ میں سنڈے بازار لگا کر اتوار کی چھٹی کو ذریعہ معاش میں تبدیل کرتے رہتے تھے۔مذکورہ بالا Activities کا میں عینی شاہد نہیں تھا لیکن صرف اپنے سابق ملازم اور پھر اس کے باوردی بیٹے کے ذریعے اس فیملی کی ترقی سے باخبر رہتا تھا۔
گل زماں نیک سیرت اور محنتی ہونے کے علاوہ ایمانداری کی زندہ مثال تھا جس نے میرے گھریلو ملازم سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ یہاں اہم یہ بات کہ میں نے اسے اپنے پانچ سال کے بڑے بچے کو گاؤں سے لا کر اپنے پاس رکھ کر اچھے اسکول میں داخل کرایا جو گل زماں کی شدید خواہش تھی۔
میری پروموشن اور ٹرانسفرز ہوتی رہیں۔ گل زماں کی چار بیٹیوں اور چار بیٹوں کی تعلیم گل زماں کی زندگی کی سب سے بڑی ترجیح تھی۔ پاکستان کا ایک اہم ترین محکمہ Family Planning تھا۔ اس پر عمل کرنیوالوں میں گل زماں کیانی تھا جو 4 اپریل کو فوت ہو گیا۔ اس کا بڑا لڑکا طارق زماں کیانی فوج میں کرنل ہے۔ دوسرا لڑکا بھی کمشنڈ افسر ہے۔ دو بیٹیاں PHD تیسری قانون دان ہے۔ باقی بچے بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ گل زمان کیانی نے جیسی فیملی پلاننگ کی وہ ایک قابل فخر مثال ہے۔
کچھ عرصے کے بعد اس نے اپنے چھ سال کے بچے کو گاؤں سے لاکر راولپنڈی تعلیم دلانے کی اجازت چاہی۔ وہ بچہ محنتی اور لائق تھا لیکن اسکول کے اخراجات کے پیش نظر میں نے گل زماں کا گھریلو کام کم کر دیا اور اسے محکمہ انکم ٹیکس میں نائب قاصد کی ملازمت دلوا دی۔ بچے کی تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے گل زماں میرے لیے دوپہر کا کھانا بھی صبح ہی بنا کر کام پر چلا جاتا، مجھے دقت تو ہوئی لیکن ان باپ بیٹے کی سہولت مجھے زیادہ عزیز تھی۔
گل زماں نے اپنے بیٹے کی تعلیم اور اپنی مجبوری کے پیش نظر میرے کچن کا کام اور سرکاری ملازمت ہر دو جگہ خود کو Adjust تو کر لیا لیکن چونکہ ایماندار تھا اس لیے ایک دن پریشان حالی میں مجھ سے کہا کہ وہ انکم ٹیکس محکمے میں کام نہیں کرنا چاہتا، اسے کسی ارر جگہ نوکری دلوا دوں، مجھے حیرت ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کو پریشانی اس وجہ سے ہے کہ قریب سے گزرتا ہوا ہر دوسرا تیسرا شخص اسے چند روپے پکڑانے پر اصرار کرتا ہے جب کہ گل زماں اس کو رشوت سے تعبیر کرتے ہوئے لینے سے انکار کر کے تنگ ہوتا رہتا ہے۔ مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ گل زماں اپنی دیانت داری کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔
گل زماں کا اصرار بڑھتا جا رہا تھا کہ مجھے اس محکمے سے تبدیل کروا دو، میں نے PTV کے چیف اکاؤنٹنٹ سے درخواست کی تو وہ بھی حیران ہوا لیکن پھر اس نے ٹیلی وژن میں نائب قاصد کی ملازمت دے دی۔ اس کے بیٹے طارق زماں کو میں نے ایک انگلش میڈیم اسکول میں داخلہ دلوا دیا۔ یہ بات نہ صرف میرے لیے بلکہ جس نے بھی سنی باعث حیرت اور انوکھی تھی کہ گل زماں ایک ایماندار نائب قاصد ہے جب کہ ایک ایسے محکمے کو چھوڑنے پر بضد ہے جس میں جانے کے لیے لوگ تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔
میرے علم میں اسی محکمے کا ایک نائب قاصد بھی تھا جو اپنے افسر اعلیٰ کا فرنٹ مین تھا۔ اس کے افسر کے پاس وکلاء نے اپنے بزنس مینوں کے کیس پیش کرنے ہوتے تھے لیکن وہ پیش نہ ہوتے، ان کی جگہ مذکورہ نائب قاصد ان کی فائلیں پیش کرکے ان پر وکلاء سے طے شدہ فیس لے کر مطلوبہ آرڈر لکھوا لیتا۔ اس Arrangement کا مجھے شاید کبھی پتہ نہ چلتا، یہ بھی مجھے گل زماں کیانی ہی سے پتہ چلا جب گل زماں نے مذکورہ نائب قاصد سے پارٹنر شپ سے انکار کرنے کے علاوہ وہاں سے ملازمت بھی چھوڑ دی۔
گل زماں سے میرا رابطہ میری ٹرانسفر کے بعد منقطع ہو گیا لیکن چونکہ اب وہ PTV کے چیف اکاؤنٹنٹ مطیع الرحمن کا نائب قاصد تھا اس کے بارے میں اور خاص طور پر اس کے بیٹے طارق زماں کی بابت جسکی تعلیم کی تکمیل میں میری خاص دلچسپی تھی میں ان سے رابطے میں رہا۔
گل زماں نے کم تنخواہ کی وجہ سے اوورٹائم کام شروع کردیا تا کہ بچے کے تعلیمی اخراجات پورے ہوتے رہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں لے آیا تا کہ وہ بھی تعلیم حاصل کریں۔ اسکی اولاد چار لڑکوں اور چار لڑکیوں پر مشتمل تھی، میں نے گل زماں کو صرف انگریزی میں اپنا نام لکھنا سکھایا اور اس کی اتنی پریکٹس کرائی کہ اس کے دستخط Printed معلوم ہوتے تھے۔
اسکی توجہ اب طارق زماں کے علاوہ باقی بچوں کی تعلیم کی طرف منتقل ہو گئی۔ چار لڑکیوں کو اسکول داخل کیا۔ تین لڑکوں کو بھی اسکول بھیجا جب کہ طارق زماں اب آرمی کے مختلف مراحل میں تھا۔ ہمارے اکثر کم حیثیت لوگ بچے پیدا کر کے ان سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
ان کی اولاد بڑی ہونے کے ساتھ والدین کے لیے گداگری کرتی اور ذریعہ معاش بن جاتی ہے جب کہ نائب قاصد گل زماں کی فیملی خود تعلیم حاصل کرتے ہوئے ٹیوشنز پڑھا کر باپ کی مالی مدد ہی نہیں کر رہی تھی بلکہ گھر کا خرچ چلانے کا ذریعہ بھی بن چکی تھی۔ حیرت اور خوشی کا مقام کہ کسی حد تک طارق زماں کیانی بھی اس گھرانے کے لیے مالی اور ذہنی ترقی کا ذریعہ بن رہا تھا۔ چند بڑے بچے مارکیٹ میں سنڈے بازار لگا کر اتوار کی چھٹی کو ذریعہ معاش میں تبدیل کرتے رہتے تھے۔مذکورہ بالا Activities کا میں عینی شاہد نہیں تھا لیکن صرف اپنے سابق ملازم اور پھر اس کے باوردی بیٹے کے ذریعے اس فیملی کی ترقی سے باخبر رہتا تھا۔
گل زماں نیک سیرت اور محنتی ہونے کے علاوہ ایمانداری کی زندہ مثال تھا جس نے میرے گھریلو ملازم سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ یہاں اہم یہ بات کہ میں نے اسے اپنے پانچ سال کے بڑے بچے کو گاؤں سے لا کر اپنے پاس رکھ کر اچھے اسکول میں داخل کرایا جو گل زماں کی شدید خواہش تھی۔
میری پروموشن اور ٹرانسفرز ہوتی رہیں۔ گل زماں کی چار بیٹیوں اور چار بیٹوں کی تعلیم گل زماں کی زندگی کی سب سے بڑی ترجیح تھی۔ پاکستان کا ایک اہم ترین محکمہ Family Planning تھا۔ اس پر عمل کرنیوالوں میں گل زماں کیانی تھا جو 4 اپریل کو فوت ہو گیا۔ اس کا بڑا لڑکا طارق زماں کیانی فوج میں کرنل ہے۔ دوسرا لڑکا بھی کمشنڈ افسر ہے۔ دو بیٹیاں PHD تیسری قانون دان ہے۔ باقی بچے بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ گل زمان کیانی نے جیسی فیملی پلاننگ کی وہ ایک قابل فخر مثال ہے۔