طیارہ کا الم ناک سانحہ
مرنے والے واپس تو نہیں آسکتے مگر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی دستگیری اور ان کی مالی مدد لازمی ہے
YOKOHAMA:
مسافروں کو لاہور سے کراچی لانے والے پی آئی اے کے طیارہ کی بدنصیبی کا حوالہ دردانگیزی کی الم ناک داستان رقم کرگیا۔ اہل وطن کے دل غم واندوہ سے چھلنی ہوگئے۔ سفر کے انجام سے بے خبر مسافروں کو کورونا کی قید سے رہائی کیا ملی کہ وہ بیچارے قید حیات سے ہی آزاد ہوگئے، نہ جانے عید کی خوشیاں منانے اور اپنے پیاروں سے ملنے کے کیا کیا ارمان لے کر وہ عازم سفر ہوئے تھے، وہ سب آنسوؤں میں بہہ گئے، ایوی ایشن کی تاریخ میں اس سانحہ کو مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
طیارے کو پیش آنیوالا حادثہ اس وقت پیش آیا جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ اور جمعتہ الوداع کا مبارک دن تھا ۔ حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا تھا اور مساجد اہل ایمان سے بھری ہوئی تھیں کہ شہر قائد میں طیارہ کے حادثہ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور آناً فاناً پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا۔ ہر آنکھ پرنم تھی، حادثہ ایک دم ہوگیا ، جب کہ رن وے لب بام تھا اور کمند ٹوٹ گئی۔ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے نزدیک یہ قسمت کی خوبی نہیں طیارہ کے مشینی نظام کی ناکامی کا ناقابل یقین شاخسانہ تھا۔
دستیاب اطلاعات کے مطابق حادثے کا شکار پی آئی اے کا طیارہ ایئر بسA320کی ابتدائی رپورٹ ایوی ایشن ڈویژن کو بھجوادی گئی، دو مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچ گئے ۔ حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ تحقیقاتی ٹیم سیفٹی انوسٹی گیشن بورڈ اور ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انوسٹی گیشن نے ابتدائی رپورٹ پر تحقیقات شروع کردی، ایئرکموڈور عثمان غنی کی سربراہی میں قائم4 رکنی کمیٹی نے جہاز کا بلیک باکس ، لاگ بک او ر کوئیک ایکسس ریکارڈر سمیت جہاز سے متعلق اہم ریکارڈ تحویل میں لے لیا۔
کوئیک ایکسس ریکارڈر میں کاک پٹ اور ایئر ٹریفک کنڑول کے درمیان ہونے والے رابطے کا ریکارڈ موجود ہے ۔ بدقسمت طیارے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جہاز کا لینڈنگ گیئر اور فرنٹ ویل جام جب کہ دونوں انجنوں نے اچانک کام کرنا چھوڑ دیا، ابتدائی رپورٹ کے مطابق طیا رے کی عمر 10سے 11سال تھی جس کو2014 میں رجسٹریشن کے بعد پی آئی اے فلائٹ میں شامل کیا گیا۔
سول ایوی ایشن کے ایئر وردینس ڈیپارٹمنٹ نے6 بار جہاز کا مجموعی معائنہ کیا اور6 نومبر2019 کو معائنے کے بعد فٹنس سرٹیفکیٹ 5 نومبر 2020 تک موثر قرار دیا جب کہ پی آئی اے کے چیف انجیئنر کراچی ایئر پورٹ نے28 اپریل کو مینٹیننس اینڈ ریویو سرٹیفکیٹ جا ری کیا۔ طیارے نے1بجکر 10منٹ پر لاہور سے اڑان بھری اور2 بجکر 37 منٹ پر ایئر پورٹ سے 4 کلو میٹر کی دوری پر تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی۔
پالپا کے سربراہ کپتان ناریجو نے کہا کہ مکمل تحقیقات سامنے آنے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکے گا کہ طیارہ کو حادثہ کیوں اور کیسے پیش آیا۔ شہری حلقوں نے رن وے کے شہری علاقے سے قریب تر ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی ایئرپورٹ شہر سے کئی کلو میٹر دور بنائے گئے ہیں، مگر کراچی ایئر پورٹ سے متصل شہری آبادیوں اور ماڈل کالونی کی گنجان آبادی اور ایئر پورٹ کے درمیان کوئی بفر زون نہیں رکھا گیا، حالیہ سانحے سے قبل بھی پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے کے سیکڑوں واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، بدنصیب طیارہ جن عمارتوں سے ٹکراتے ہوئے گرا ہے، اس کی تشویش ناکی قابل غور ہے، طیاروں کو رن وے پر اترنے سے پہلے ایک کشادہ علاقہ درکار ہے ، ارباب اختیار اور ایوی ایشن حکام ایئر پورٹ کے رن وے والے محل وقوع کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی منصوبہ بندی میں اس امر کا خیال رکھیں کہ طیارے مکمل فول پروف طریقہ سے رن وے پر اتریں اور کریش لینڈنگ میں اوپن سپیس کی کافی گنجائش رکھی جانی چاہیے، یوں تنگ گلیوں میں بنی عمارتوں پر سے نیچی اڑان بھرنا خطرات سے خالی نہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ پائلٹ اور کنٹرول ٹاور میں ایک منٹ اور16سیکنڈ تک رابطہ رہا جس میں پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو جہاز کے لینڈنگ گیئر جام ہونے اور انجنوں میں تکنیکی خرابی سے متعلق آگاہ کیا اور کچھ دیر بعد ''مے ڈے ''کی کال بھی دی ۔ قواعد کے مطابق گراؤنڈ کرتے اونچائی 1800 فٹ تھی اور دونوں انجن ٹھیک تھے، اس دوران پائلٹ نے دوبارہ لینڈنگ گیئر کھولنے کی کوشش کی تو دونوں انجن جزوی طور پر کام کرنا چھوڑگئے اور جہاز اپنی بلندی برقرار نہ رکھ سکا۔
رپورٹ میں لینڈنگ گیئر جام ہونے کے بعد جہاز سے پرندہ ٹکرانے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ لینڈنگ گیئر کا انجن سے کوئی تعلق نہیں اور دونوں انجنوں کا اچانک خراب ہونا سوالیہ نشان ہے۔ جب طیارہ مکانات کی بالائی منزل سے ٹکرایا تو وہ گلائیڈ کر رہا تھا، ادھر وفاقی حکومت نے تحقیقاتی ٹیم کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے مطابق تحقیقاتی ٹیم چار ممبران پر مشتمل ہے ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ ایئر کموڈور محمد عثمان غنی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہونگے جب کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹیکینکل انویسٹی گیشن ونگ کمانڈر ملک محمد عمران ، آپریشن انوسٹی گیٹر پاکستان ایئر فورس سیفٹی بورڈ کامرہ گروپ کیپٹن توقیر اورجوائنٹ ڈائریکٹر ایئر ٹریفک کنٹرول ناصر مجید تحقیقاتی ٹیم میں شامل ہیں۔
حادثے میں دو مسافر معجزانہ طور پر بچ گئے جن میں بینک آف پنجاب کے سربراہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے، ظفر مسعود کے کولہے اور کالر کی ہڈی فریکچر ہوئی ان کے جسم پر جلنے کا کوئی زخم نہیں صرف خراشیں آئیں، ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
انھوں نے اسپتال سے فون پر اپنی والدہ کو خیریت سے آگاہ کیا جب کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے عیادت کی۔ محکمہ صحت سندھ کے مطابق طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر 2 مسافر زندہ بچ گئے جن میں 25 سالہ محمد زبیر اورصدر پنجاب بینک ظفر مسعود شامل ہیں جن کی حالت خطرے سے باہر ہے جب کہ ماڈل کالونی کی خاتون طیارہ گرنے سے زخمی ہوئیں ۔
کراچی سے اسٹاف رپورٹرکے مطابق بچ جانے والے مسافر زبیر کا ہاتھ اور ٹانگیں جھلس گئیں زبیر نے بتایا کہ لینڈنگ کے دوران جہاز کو جھٹکا لگا جب کہ جہاز رن وے پر چلا جس کے بعد دوبارہ فضا میں اڑ گیا اور پائلٹ نے کچھ دیر کے بعد دوبارہ لینڈنگ کا اعلان کیا تو 2 سے 3 منٹ کے بعد جہاز کریش کر گیا۔
پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل ارشد ملک نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ طیارہ تیکنیکی طور پر مکمل فٹ تھا، جہاز کی اہم انسپیکشن مارچ 2020 میں کی گئی تھی، جہاز کے لینڈنگ گیئر میں خرابی کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے، تحقیقات کے لیے بین الاقوامی ٹیم بلوائی جائے گی، ملکی سطح پر طیارہ حادثے کی تحقیقات سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ کرے گی، ایئر بس 320 ساختہ طیارہ سن 2014 میں گرنے والا طیارہ لیز پر حصول کے بعد پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاز کلیئر اور مکمل سرٹیفائیڈ تھا، اورسابقہ آپریشن کے دوران طیارے کے تمام ضروری چیکس کو بروقت مکمل کیا گیا تھا، مسافر ظفر مسعود کے علاوہ کپتانوں سمیت کسی کے بچ جانے کی کوئی اطلاع نہیں، ارشد ملک نے کہا کہ پائلٹ کو کنٹرول ٹاور سے پیغام دیا گیا کہ لینڈنگ کریں، رن وے خالی ہیں مگر انھوں گو راؤنڈ Go round کا فیصلہ کیا، اس کے بعد جو سانحہ ہوا اس کی تحقیقات کے بعد ساری صورتحال واضح ہو جائے گی۔
سجاد گل کے والد نے کہا کہ میرا بیٹا شہید ہوا ہے، تمام اداروں نے مکمل سپورٹ کا یقین دلایاہے، حادثے میں شہید لوگوں کے خاندان کے ساتھ ہیں، آج وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور ہمراہ ہونگے۔ سی ای او پی آئی اے نے کہا کہ ہم نے ایئر پورٹ ہوٹل خالی کرا لیا ہے تاکہ جو لواحقین آنا چاہیں وہ وہاں قیام کر سکتے ہیں، خوش قسمتی سے جہاز ایک گلی میں گرا جس سے قریب کے مکانات کو نقصان ضرور ہوا لیکن کوئی عمارت گری نہیں جب کہ اب وہاں کوئی لاش بھی موجود نہیں ہے۔ ریسکیو آپریشن جاری ہے جسے مکمل ہونے میں دو سے تین روز لگیں گے۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں 83 فضائی حادثات ہوئے جن میں 1039 افراد جاں بحق ہوئے، سو بڑے حادثات میں پاکستان کا 2010کریش شامل ہے جس میں 152مسافر جاں بحق ہوئے، ملکی فضائی تاریخ میں 2019 قدرے محفوظ سال رہا، 1972بدترین سال تھا، یاد رہے اگست 1989 میں گلگت میں پی آئی اے کا طیارہ لاپتا ہوا تھا جس کا ملبہ اور لاشیں کوشش بسیار کے باوجود آج تک نہ مل سکیں۔ پائلٹ سجاد گل کا تعلق لاہور سے تھا، وہ پانچ سال سے اے 320کو چلا رہا تھا۔ قسمت نے ایئر ہوسٹس مدیحہ ارم سے یاوری کی ان کی زندگی کے دن شاید باقی تھے ، انھیں پرواز پر جانا تھا مگر اچانک ڈیوٹی روسٹر میں تبدیلی کے باعث ان کی جگہ ایئر ہوسٹس انعم مقصود کو بھیجا گیا جو ان کی زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ایئر بس A320کے غم انگیز سانحہ کی شفاف تحقیقات کو یقینی بنائے وزیر اعظم عمران خان نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، ماضی کے برعکس اس طیارہ کی دلگداز اور الم ناک سانحہ کی مکمل غیر جانبدارانہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، حادثہ کی ابتدائی رپورٹ میں کئی پہلو مزید شفاف تکنیکی چھان بین تفصیل کے ساتھ قوم کے سامنے لائی جانی چاہیے۔
مرنے والے واپس تو بلاشبہ نہیں آسکتے مگر جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کی دستگیری اور ان کی مالی مدد لازمی ہے۔ جن کے گھر طیارہ کی کریش لینڈنگ سے متاثر ہوئے ان کی ہر ممکن مدد ہونی چاہیے۔ دکھ کی اس گھڑی میں متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑنا چاہیے۔