’’عید … پھر سہی‘‘
اس سال نہ سہی آیندہ برسوں میں ہم ایسی عیدیں گزارسکیں جو سچ مچ کی خوشی، انصاف اور روشنی سے معمور اور بھرپور ہوں
NEW YORK CITY:
کورونا وائرس نے جس طرح سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور کم و بیش تین ماہ سے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی کوئی مثال حالیہ تو کیا قدیم تاریخ میں بھی نہیں ملتی یہ اوربات ہے کہ گزشتہ تقریباً ایک ہفتے میں جب سے لاک ڈاؤن اسمارٹ کی حدوں سے نکل کر ایک میلے کی سی شکل اختیار کر گیا ہے اب اس وائرس کی تباہ کاریاں تو بے شک بڑھ گئی ہیں مگر اُس کا رُعب اور دبدبہ عملی طور پر ختم ہو گیا ہے جو اپنی جگہ پر ایک بہت خطرناک بات ہے۔
اب ظاہر ہے اس طرح کی صورت حال میں عید کی روائتی اور اجتماعی خوشیوں کا ذکر اُسی بھرپور اور بے ساختہ انداز میں کرنا تو ممکن نہیں تھا جس کے ہم لوگ عادی چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خیال بار بار اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا کہ لوگوں کو لاک ڈاؤن اور کورونا کی وباء کے درمیان موجود فرق سے آگاہ کرتے رہنا ضروری ہے، چاہے اس سے عید کا کالم اپنے کتنے ہی روائتی رنگوں سے محروم ہو جائے اور شاید ایسا ہو بھی جاتا مگر کراچی ائیر پورٹ کے قریب ہونے والے اس روح فرسا ہوائی حادثے کی خبر نے دل کو اس طرح سے دہلا کر رکھ دیا ہے کہ نہ زبان ساتھ دے رہی ہے اور نہ ہی قلم کو کچھ لکھنے کا یارا ہو رہا ہے۔
کہنے کو تو کووڈ 19 اور اس حادثے میں انتقال کر جانے والے اہلِ وطن کی کل تعداد ہزار بارہ سو سے بھی کم ہو گی جب کہ عام حالات میں اور طبعی وجوہات کی بنا پر اس دنیا سے پردہ کر جانے والوں کی اوسط تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ا ور کم و بیش یہی فرق ان احباب کے پسماندگان کی تعداد میں بھی ہے مگر اصل مسئلہ اور فرق تعداد نہیں اُس کی نوعیت اور دہشت کا ہے جس نے ہر آنکھ کو خوشیوں اور آنسوؤں سے بھر دیا ہے ۔
ربِ کریم نے نہ صرف موت کو حیات کا لازمی جزو اور انجام بنا دیا ہے بلکہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر انسان کے اس زمین پر زندہ رہنے کی اوسط عمر بھی مقرر کر دی ہے اگرچہ کچھ ملکوں میں 80 برس سے زیادہ کے لوگ خاصی بڑی تعداد میں صحت مند زندگی گزار رہے ہیں لیکن بات کو سمجھنے کے لیے اگر اسے ایک حد یا معیار تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی ہر جانے والے اور اس کے لواحقین کو یہ بہت کم محسوس ہوتا ہے لیکن عملی اور نفسیاتی طور پر یہ خاموش سمجھوتا ساری دنیا میں رائج اور جاری ہے کہ جو کچھ کھیل تماشہ ہے بس انھی آٹھ دہائیوں میں ہے ایسے میں جب کوئی وبا مشینی یا قدرتی حادثہ واضح طور پر اس ترتیب میں خلل ڈالتا ہے تو بات اعداد و شمار کی حد سے نکل کر ایک ایسے جذباتی اور فطری ردِّعمل کی طرف نکل جاتی ہے جہاں موت سے زیادہ اُس کا تصور خطرناک اور پریشان کن ہو جاتا ہے۔
اس حادثے کے براہ راست متاثرین تو شائد چند ہزار ہی ہوں مگر اس غم کو محسوس کرنے والے دلوں اور آنسو بہانے والوں کی تعداد شائد کروڑوں سے بھی زیادہ کورونا میں جاں بحق ہونے والوں کے براہِ راست متاثرین کی تعداد بھی شائد کوئی بہت زیادہ نہ ہو مگر اس وبا کی دہشت اور نوعیت کی وجہ سے صرف پاکستان میں ہی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً چھ کروڑ ایسے لوگ بیروزگار ہوئے ہیں جن کے ماہانہ اخراجات دس سے تیس ہزار روپے کے درمیان تھے بلکہ ان میں سے 90% لوگ دیہاڑی دار تھے اب اگر حکومت اور فلاحی ادارے مل کر بھی ان لوگوں کی مدد کریں تب بھی بمشکل ان کو دو وقت کی روٹی ہی مل سکے گی یعنی فی الوقت بازاروں اور دکانوں پر خریداروں کا یہ بے پناہ رش اصل میں صرف اُس 10% آبادی کا ہے جو کسی نہ کسی طرح سے اس سطح سے اوپر زندگی گزار رہی ہے یا گزار سکتی ہے ۔
خیال یہ تھا کہ کاروبار اور روزگار کے وسائل کھلنے کے بعد طبعی نہ سہی کم از کم معاشی اور معاشرتی حوالے سے صورتِ حال بہتر ہو جائے گی اور ہم اس بات کی تلقین اور اہتمام کر سکیں گے کہ لوگ ممکنہ حد تک احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے بھرپور طور پر نہ سہی محدود حد تک عید کی خوشیوں سے بہرہ ور ہو سکیں گے اور عید کے بعد کورونا سے لڑنے ، ڈرنے اور بچنے کے نعروں کے ساتھ ساتھ رہنے اور جینے کا ڈھنگ بھی ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا اور یوں ہم اس وبا کے پہلے حملے سے جس میں ہمارے یہاں پائے جانے والے وائرس کی نوعیت اورحالات اور فطرت کی پیدا کردہ غیر معمولی قوتِ مدافعت کے باعث ہم بہت بڑی تباہی سے بچ جائیں گے اور اس دوران میں مغرب والے اس کا کوئی نہ کوئی موثر علاج ضرور ڈھونڈ لیں گے اور اس طرح ہم اس طوفان کی شدت سے بچ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اب اس تصور میں کتنی حقیقت ہے اور کورونا سے متعلق مختلف سازشی یا تحقیقی تھیوریوں میں کس قدر سچائی ہے اس کا ٹیسٹ تو آنے والے چند مہینوں میں ہی ہو گا مگراس کی آڑ میں عید کے جوش و خروش کا کچھ نہ کچھ حساب کتاب صورت پذیر ہو ہی رہا تھا کہ ا س ہوائی حادثے کی خبر نے ایک دفعہ پھر وقتی طور پر ہی سہی ہر فرد و بشر کو ہلا کر رکھ دیا ہے وقتی طور پر میں نے اس لیے کہا کہ ہم لوگ عمومی طور پر شاک پروف یا بے حس ہونے میں اپنی مثال آپ بن چکے ہیں اور عملی طور پر اس نظریئے سے اتفاق کر چکے ہیں کہ امیر اور غریب یا کمزور اور طاقتور کے احتساب کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اور یوں ہمارے لیے کسی غریب یا بے گناہ کی موت ایک ایسی روائت کی شکل اختیارکر چکی ہے کہ ہم اُس پر دو آنسو تو بہا لیتے ہیں مگر اُن لوگوں ، روّیوں یا نظام کو بدلنے یا اس کا احتساب کرنے کی کوشش نہیں کرتے جن کی وجہ سے بے انصافی پنپ رہی ہے۔
اگرچہ ہماری تاریخ ظلم کی ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جس میں ظالم کی نشاندہی کرنے اور اُس کو سزا دینے کا اختیار کسی بھی بظاہر یا با اختیار ادارے یا کمیٹی کے پاس نہیں ہوتا مگر ایک خوش کن خواب دیکھنے والے کے طور پر میں ایک بار پھر اس امید کو خریدنے پر تیار ہوں کہ شائد اس بار صورتِ حال کچھ مختلف ہو اور اس سال نہ سہی آیندہ برس اور اس کے بعد ہم ایسی عیدیں گزار سکیں جو سچ مچ کی خوشی ، انصاف اور روشنی سے معمور اور بھر پور ہوں۔
کورونا وائرس نے جس طرح سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور کم و بیش تین ماہ سے ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس کی کوئی مثال حالیہ تو کیا قدیم تاریخ میں بھی نہیں ملتی یہ اوربات ہے کہ گزشتہ تقریباً ایک ہفتے میں جب سے لاک ڈاؤن اسمارٹ کی حدوں سے نکل کر ایک میلے کی سی شکل اختیار کر گیا ہے اب اس وائرس کی تباہ کاریاں تو بے شک بڑھ گئی ہیں مگر اُس کا رُعب اور دبدبہ عملی طور پر ختم ہو گیا ہے جو اپنی جگہ پر ایک بہت خطرناک بات ہے۔
اب ظاہر ہے اس طرح کی صورت حال میں عید کی روائتی اور اجتماعی خوشیوں کا ذکر اُسی بھرپور اور بے ساختہ انداز میں کرنا تو ممکن نہیں تھا جس کے ہم لوگ عادی چلے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ خیال بار بار اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا کہ لوگوں کو لاک ڈاؤن اور کورونا کی وباء کے درمیان موجود فرق سے آگاہ کرتے رہنا ضروری ہے، چاہے اس سے عید کا کالم اپنے کتنے ہی روائتی رنگوں سے محروم ہو جائے اور شاید ایسا ہو بھی جاتا مگر کراچی ائیر پورٹ کے قریب ہونے والے اس روح فرسا ہوائی حادثے کی خبر نے دل کو اس طرح سے دہلا کر رکھ دیا ہے کہ نہ زبان ساتھ دے رہی ہے اور نہ ہی قلم کو کچھ لکھنے کا یارا ہو رہا ہے۔
کہنے کو تو کووڈ 19 اور اس حادثے میں انتقال کر جانے والے اہلِ وطن کی کل تعداد ہزار بارہ سو سے بھی کم ہو گی جب کہ عام حالات میں اور طبعی وجوہات کی بنا پر اس دنیا سے پردہ کر جانے والوں کی اوسط تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے ا ور کم و بیش یہی فرق ان احباب کے پسماندگان کی تعداد میں بھی ہے مگر اصل مسئلہ اور فرق تعداد نہیں اُس کی نوعیت اور دہشت کا ہے جس نے ہر آنکھ کو خوشیوں اور آنسوؤں سے بھر دیا ہے ۔
ربِ کریم نے نہ صرف موت کو حیات کا لازمی جزو اور انجام بنا دیا ہے بلکہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ہر انسان کے اس زمین پر زندہ رہنے کی اوسط عمر بھی مقرر کر دی ہے اگرچہ کچھ ملکوں میں 80 برس سے زیادہ کے لوگ خاصی بڑی تعداد میں صحت مند زندگی گزار رہے ہیں لیکن بات کو سمجھنے کے لیے اگر اسے ایک حد یا معیار تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی ہر جانے والے اور اس کے لواحقین کو یہ بہت کم محسوس ہوتا ہے لیکن عملی اور نفسیاتی طور پر یہ خاموش سمجھوتا ساری دنیا میں رائج اور جاری ہے کہ جو کچھ کھیل تماشہ ہے بس انھی آٹھ دہائیوں میں ہے ایسے میں جب کوئی وبا مشینی یا قدرتی حادثہ واضح طور پر اس ترتیب میں خلل ڈالتا ہے تو بات اعداد و شمار کی حد سے نکل کر ایک ایسے جذباتی اور فطری ردِّعمل کی طرف نکل جاتی ہے جہاں موت سے زیادہ اُس کا تصور خطرناک اور پریشان کن ہو جاتا ہے۔
اس حادثے کے براہ راست متاثرین تو شائد چند ہزار ہی ہوں مگر اس غم کو محسوس کرنے والے دلوں اور آنسو بہانے والوں کی تعداد شائد کروڑوں سے بھی زیادہ کورونا میں جاں بحق ہونے والوں کے براہِ راست متاثرین کی تعداد بھی شائد کوئی بہت زیادہ نہ ہو مگر اس وبا کی دہشت اور نوعیت کی وجہ سے صرف پاکستان میں ہی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً چھ کروڑ ایسے لوگ بیروزگار ہوئے ہیں جن کے ماہانہ اخراجات دس سے تیس ہزار روپے کے درمیان تھے بلکہ ان میں سے 90% لوگ دیہاڑی دار تھے اب اگر حکومت اور فلاحی ادارے مل کر بھی ان لوگوں کی مدد کریں تب بھی بمشکل ان کو دو وقت کی روٹی ہی مل سکے گی یعنی فی الوقت بازاروں اور دکانوں پر خریداروں کا یہ بے پناہ رش اصل میں صرف اُس 10% آبادی کا ہے جو کسی نہ کسی طرح سے اس سطح سے اوپر زندگی گزار رہی ہے یا گزار سکتی ہے ۔
خیال یہ تھا کہ کاروبار اور روزگار کے وسائل کھلنے کے بعد طبعی نہ سہی کم از کم معاشی اور معاشرتی حوالے سے صورتِ حال بہتر ہو جائے گی اور ہم اس بات کی تلقین اور اہتمام کر سکیں گے کہ لوگ ممکنہ حد تک احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے بھرپور طور پر نہ سہی محدود حد تک عید کی خوشیوں سے بہرہ ور ہو سکیں گے اور عید کے بعد کورونا سے لڑنے ، ڈرنے اور بچنے کے نعروں کے ساتھ ساتھ رہنے اور جینے کا ڈھنگ بھی ہماری زندگیوں کا حصہ بنتا جائے گا اور یوں ہم اس وبا کے پہلے حملے سے جس میں ہمارے یہاں پائے جانے والے وائرس کی نوعیت اورحالات اور فطرت کی پیدا کردہ غیر معمولی قوتِ مدافعت کے باعث ہم بہت بڑی تباہی سے بچ جائیں گے اور اس دوران میں مغرب والے اس کا کوئی نہ کوئی موثر علاج ضرور ڈھونڈ لیں گے اور اس طرح ہم اس طوفان کی شدت سے بچ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
اب اس تصور میں کتنی حقیقت ہے اور کورونا سے متعلق مختلف سازشی یا تحقیقی تھیوریوں میں کس قدر سچائی ہے اس کا ٹیسٹ تو آنے والے چند مہینوں میں ہی ہو گا مگراس کی آڑ میں عید کے جوش و خروش کا کچھ نہ کچھ حساب کتاب صورت پذیر ہو ہی رہا تھا کہ ا س ہوائی حادثے کی خبر نے ایک دفعہ پھر وقتی طور پر ہی سہی ہر فرد و بشر کو ہلا کر رکھ دیا ہے وقتی طور پر میں نے اس لیے کہا کہ ہم لوگ عمومی طور پر شاک پروف یا بے حس ہونے میں اپنی مثال آپ بن چکے ہیں اور عملی طور پر اس نظریئے سے اتفاق کر چکے ہیں کہ امیر اور غریب یا کمزور اور طاقتور کے احتساب کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اور یوں ہمارے لیے کسی غریب یا بے گناہ کی موت ایک ایسی روائت کی شکل اختیارکر چکی ہے کہ ہم اُس پر دو آنسو تو بہا لیتے ہیں مگر اُن لوگوں ، روّیوں یا نظام کو بدلنے یا اس کا احتساب کرنے کی کوشش نہیں کرتے جن کی وجہ سے بے انصافی پنپ رہی ہے۔
اگرچہ ہماری تاریخ ظلم کی ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جس میں ظالم کی نشاندہی کرنے اور اُس کو سزا دینے کا اختیار کسی بھی بظاہر یا با اختیار ادارے یا کمیٹی کے پاس نہیں ہوتا مگر ایک خوش کن خواب دیکھنے والے کے طور پر میں ایک بار پھر اس امید کو خریدنے پر تیار ہوں کہ شائد اس بار صورتِ حال کچھ مختلف ہو اور اس سال نہ سہی آیندہ برس اور اس کے بعد ہم ایسی عیدیں گزار سکیں جو سچ مچ کی خوشی ، انصاف اور روشنی سے معمور اور بھر پور ہوں۔