کورونا کی آڑ میں سیاسی کھیل
اب کورونا کے سلسلے میں وفاق سے ناراضگی ظاہر کرنے سے بھی کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے
یہ ہمارا قومی نعرہ بن گیا ہے ''ہمیں کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے''۔ ہر طرف سے کورونا سے نہ ڈرنے کا درس دیا جا رہا ہے۔ ہمارے اخبار ٹی وی اور ریڈیو مسلسل عوام کو اس وبا سے مردانہ وار مقابلہ کرنے کی تلقین کر رہے ہیں تو پھر ہم کورونا سے کیوں ڈریں اور اس کے خوف سے گھروں میں چھپ کر بیٹھیں۔ حکومت چاہے وفاقی ہو یا صوبائی ہمیں گھروں میں محدود رہنے کی تلقین کر کر کے تھک گئی ہیں مگر ہم سے گھروں میں مستور نہیں رہا جا رہا تاہم اسے کورونا سے بغاوت بھی نہ سمجھا جائے۔
دراصل گھروں میں بند رہنا ہماری جبلت کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری قوم ستر برس سے بڑے بڑے طوفانوں اور بحرانوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے کرتے اب کسی مشکل کو خاطر میں نہیں لاتی، پھر کورونا جیسا حقیر کیڑا ہمارے سامنے کیا چیز ہے۔ ہم آزاد فضاؤں کے پنچھی ہیں آزادی ہماری فطرت ہے۔
ہمیں گھروں میں رہنے سے گھٹن محسوس ہوتی ہے ہم مردوں کا تو ہمیشہ سے یہ معمول ہے ہم صرف رات بسر کرنے گھروں کا رخ کرتے ہیں اور سارا دن گھروں سے باہر دفتروں، دکانوں، بازاروں اور ہوٹلوں میں وقت گزارتے ہیں اور کچھ ایسا ہی حال ہماری خواتین خانہ کا بھی ہے وہ بھی ہم سے کم نہیں ہیں جیسے ہی ہم لوگ اپنے دفتروں، دکانوں اور فیکٹریوں کا رخ کرتے ہیں وہ گھروں سے نکل پڑتی ہیں اگر شاپنگ مالز کا رخ نہیں کرتیں تو کم سے کم اپنی ماؤں، خالاؤں، سہیلیوں یا پھر کسی اور قریب یا دور کے رشتے داروں کی خبر گیری کے لیے ان کے گھروں کا رخ کر لیتی ہیں۔ ہم جیسے آزاد فضاؤں کے باسیوں کو تقریباً دو ماہ تک گھروں کے پنجروں میں بند رکھا گیا یہ وقت ہم نے کیسے گزارا بس ہم ہی جانتے ہیں۔
ہم گھروں میں بند رہ کر پورے نہیں تو آدھے نفسیاتی ضرور بن گئے ہیں۔ بیویوں کے سروں پر ہمارے چوبیس گھنٹے مسلط رہنے کی وجہ سے ان کی تو نفسیات ہی بدل گئے ہیں۔ جن گھروں میں میاں بیوی میں کبھی تو تو میں میں تک نہیں ہوئی تھی وہاں سنگین جھڑپوں تک نوبت پہنچ گئی تھی بچوں کی بلاوجہ شامت آتی رہی۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے ہم کورونا فوبیا کا شکار ہو چکے ہیں یہ نئی بیماری ہے جو ہمارے تقریباً پورے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس کے سخت مضر اثرات لوگوں پر مرتب ہو رہے ہیں اس بیماری نے ایک دوسرے پر شک کرنے کی عادت پکی کر دی ہے۔
بعض دفعہ تو بیویوں پر بھی شک ہونے لگتا ہے جب وہ کھانستی یا چھینک مارتی ہیں لگتا ہے انھیں بھی کورونا لاحق ہو گیا ہے اس لیے کہ کورونا کا سب سے پلا سمٹم کھانسی اور چھینک آنے کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ نزلے سے بچنے کے لیے ٹھنڈی چیزوں سے پرہیز کی تلقین کی جا رہی ہے اس وقت گرمی بھی ہے اور رمضان بھی چل رہا ہے۔
افطار میں اگر یخ شربت نہ ملے تو پیاس ہی نہیں بجھتی۔ ٹھنڈا شربت پینے سے بڑوں کو نہ سہی بچوں کو تو نزلہ کھانسی ہو ہی جاتی ہے مگر اس کورونا زدہ ماحول میں انھیں کسی اسپتال لے جانا کورونا کو خوامخواہ دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کتنے بوڑھوں کو نہ ہوتے ہوئے بھی کورونا پازیٹیو قرار دیا جا چکا ہے اور پھر جو ان کا حال ہوا وہ عبرت ناک ہے ان کی اپنی سگی اولادوں نے ان سے دوری اختیار کر لی ہے۔ اسی وجہ سے آج کل لوگ سخت بیماری کی حالت میں بھی اسپتالوں کو جانے سے گریز کر رہے ہیں کہ کہیں انھیں کورونا پازیٹیو قرار نہ دے دیا جائے۔
جہاں تک کورونا ٹیسٹ کا تعلق ہے اس کا سندھ میں معیار کس قسم کا ہے اس کی مثال پیر جو گوٹھ کے مریضوں سے دی جا سکتی ہے۔ چند دن قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ پیر جو گوٹھ میں صرف ایک دن میں چار سو سے زیادہ افراد کورونا پازیٹیو پائے گئے جب کہ تیسرے دن تمام اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ ان ہی لوگوں نے جب دوسری جگہ ٹیسٹ کرایا تو چند کے سوا باقی تمام کورونا سے محفوظ تھے۔ لگتا ہے سندھ میں اسی طرح کورونا متاثرین کی تعداد اتنی بڑھائی گئی کہ وہ پنجاب جیسے بڑے صوبے سے بھی آگے نکل گئی حالانکہ سندھ میں کورونا سے عوام کو محفوظ بنانے کے اقدامات پنجاب سے بہت پہلے اٹھائے گئے تھے مگر اس وقت کورونا متاثرین کی تعداد سندھ میں پنجاب سے زیادہ ہے۔
سندھ حکومت کورونا کے سلسلے میں اتنا محتاط رویہ اختیار کرتی رہی ہے کہ چھوٹی دکانوں کو بھی کھولنے کی اجازت بڑی مشکل سے ملی ہے وہ تو بھلا ہو کہ اب عدالت کی جانب سے تمام ہی چھوٹی بڑی دکانیں کیا شاپنگ مالز کو بھی پورے ہفتے کھلے رہنے کا حکم صادر کر دیا گیا ہے ورنہ سندھ حکومت کے موڈ سے تو لگ رہا تھا کہ وہ بڑی دکانوں اور شاپنگ مالز کو عید کا سیزن نکلنے کے بعد ہی کھولنے کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس وقت سندھ حکومت کی جانب سے معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں دیر لگانے پر ہر طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت سندھ کا معاشی سرگرمیاں بحال نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت ضرور قابل قبول اور معتبر سمجھا جاتا اگر اس سلسلے میں اسے عوامی اور تاجر برادری کی تائید حاصل ہوتی مگر تاجر اور صنعتکار ہی نہیں عوام بھی اس کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ اس وقت عوام کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنی تنگ دستی کے مقابلے میں کورونا کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سندھ حکومت کورونا کی آڑ میں وفاق سے اپنے کچھ مطالبات منوانا چاہتی ہے۔
یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست حالیہ عام انتخابات کے بعد سراسر تحریک انصاف کی حکومت کے حق میں تھی۔ اسی نے سینیٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرایا پھر صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیپلز پارٹی نے ناکام بنائی مگر اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی وہ اپنے مطالبات نہ منوا سکی، اب کورونا کے سلسلے میں وفاق سے ناراضگی ظاہر کرنے سے بھی کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، البتہ وفاق سے الجھنے سے کہیں 18 ویں ترمیم پر ضرب نہ پڑ جائے اور پھر پیپلز پارٹی نے اسے پاس کرانے میں جو محنت کی تھی وہ رائیگاں چلی جائے۔
لاک ڈاؤن کو طویل کرنے کی سندھ حکومت کی کوشش کو اگرچہ عوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی مگر اس کوشش سے اس کی عوام سے محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے اب اسے اسی عوامی محبت کے جذبے کو آگے بڑھاتے ہوئے پھر سے راشن تقسیم کرنا چاہیے اور سندھ کے تمام اسپتالوں میں کتے اور سانپ کے کاٹنے سے بچاؤ کی ویکسینز کی دستیابی یقینی بناکر عوام کی بھرپور دعائیں سمیٹنا چاہیے۔
دراصل گھروں میں بند رہنا ہماری جبلت کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہماری قوم ستر برس سے بڑے بڑے طوفانوں اور بحرانوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے کرتے اب کسی مشکل کو خاطر میں نہیں لاتی، پھر کورونا جیسا حقیر کیڑا ہمارے سامنے کیا چیز ہے۔ ہم آزاد فضاؤں کے پنچھی ہیں آزادی ہماری فطرت ہے۔
ہمیں گھروں میں رہنے سے گھٹن محسوس ہوتی ہے ہم مردوں کا تو ہمیشہ سے یہ معمول ہے ہم صرف رات بسر کرنے گھروں کا رخ کرتے ہیں اور سارا دن گھروں سے باہر دفتروں، دکانوں، بازاروں اور ہوٹلوں میں وقت گزارتے ہیں اور کچھ ایسا ہی حال ہماری خواتین خانہ کا بھی ہے وہ بھی ہم سے کم نہیں ہیں جیسے ہی ہم لوگ اپنے دفتروں، دکانوں اور فیکٹریوں کا رخ کرتے ہیں وہ گھروں سے نکل پڑتی ہیں اگر شاپنگ مالز کا رخ نہیں کرتیں تو کم سے کم اپنی ماؤں، خالاؤں، سہیلیوں یا پھر کسی اور قریب یا دور کے رشتے داروں کی خبر گیری کے لیے ان کے گھروں کا رخ کر لیتی ہیں۔ ہم جیسے آزاد فضاؤں کے باسیوں کو تقریباً دو ماہ تک گھروں کے پنجروں میں بند رکھا گیا یہ وقت ہم نے کیسے گزارا بس ہم ہی جانتے ہیں۔
ہم گھروں میں بند رہ کر پورے نہیں تو آدھے نفسیاتی ضرور بن گئے ہیں۔ بیویوں کے سروں پر ہمارے چوبیس گھنٹے مسلط رہنے کی وجہ سے ان کی تو نفسیات ہی بدل گئے ہیں۔ جن گھروں میں میاں بیوی میں کبھی تو تو میں میں تک نہیں ہوئی تھی وہاں سنگین جھڑپوں تک نوبت پہنچ گئی تھی بچوں کی بلاوجہ شامت آتی رہی۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ گھروں میں بند رہنے کی وجہ سے ہم کورونا فوبیا کا شکار ہو چکے ہیں یہ نئی بیماری ہے جو ہمارے تقریباً پورے معاشرے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ اس کے سخت مضر اثرات لوگوں پر مرتب ہو رہے ہیں اس بیماری نے ایک دوسرے پر شک کرنے کی عادت پکی کر دی ہے۔
بعض دفعہ تو بیویوں پر بھی شک ہونے لگتا ہے جب وہ کھانستی یا چھینک مارتی ہیں لگتا ہے انھیں بھی کورونا لاحق ہو گیا ہے اس لیے کہ کورونا کا سب سے پلا سمٹم کھانسی اور چھینک آنے کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ نزلے سے بچنے کے لیے ٹھنڈی چیزوں سے پرہیز کی تلقین کی جا رہی ہے اس وقت گرمی بھی ہے اور رمضان بھی چل رہا ہے۔
افطار میں اگر یخ شربت نہ ملے تو پیاس ہی نہیں بجھتی۔ ٹھنڈا شربت پینے سے بڑوں کو نہ سہی بچوں کو تو نزلہ کھانسی ہو ہی جاتی ہے مگر اس کورونا زدہ ماحول میں انھیں کسی اسپتال لے جانا کورونا کو خوامخواہ دعوت دینے کے مترادف ہے۔ کتنے بوڑھوں کو نہ ہوتے ہوئے بھی کورونا پازیٹیو قرار دیا جا چکا ہے اور پھر جو ان کا حال ہوا وہ عبرت ناک ہے ان کی اپنی سگی اولادوں نے ان سے دوری اختیار کر لی ہے۔ اسی وجہ سے آج کل لوگ سخت بیماری کی حالت میں بھی اسپتالوں کو جانے سے گریز کر رہے ہیں کہ کہیں انھیں کورونا پازیٹیو قرار نہ دے دیا جائے۔
جہاں تک کورونا ٹیسٹ کا تعلق ہے اس کا سندھ میں معیار کس قسم کا ہے اس کی مثال پیر جو گوٹھ کے مریضوں سے دی جا سکتی ہے۔ چند دن قبل وزیر اعلیٰ سندھ نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا تھا کہ پیر جو گوٹھ میں صرف ایک دن میں چار سو سے زیادہ افراد کورونا پازیٹیو پائے گئے جب کہ تیسرے دن تمام اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ ان ہی لوگوں نے جب دوسری جگہ ٹیسٹ کرایا تو چند کے سوا باقی تمام کورونا سے محفوظ تھے۔ لگتا ہے سندھ میں اسی طرح کورونا متاثرین کی تعداد اتنی بڑھائی گئی کہ وہ پنجاب جیسے بڑے صوبے سے بھی آگے نکل گئی حالانکہ سندھ میں کورونا سے عوام کو محفوظ بنانے کے اقدامات پنجاب سے بہت پہلے اٹھائے گئے تھے مگر اس وقت کورونا متاثرین کی تعداد سندھ میں پنجاب سے زیادہ ہے۔
سندھ حکومت کورونا کے سلسلے میں اتنا محتاط رویہ اختیار کرتی رہی ہے کہ چھوٹی دکانوں کو بھی کھولنے کی اجازت بڑی مشکل سے ملی ہے وہ تو بھلا ہو کہ اب عدالت کی جانب سے تمام ہی چھوٹی بڑی دکانیں کیا شاپنگ مالز کو بھی پورے ہفتے کھلے رہنے کا حکم صادر کر دیا گیا ہے ورنہ سندھ حکومت کے موڈ سے تو لگ رہا تھا کہ وہ بڑی دکانوں اور شاپنگ مالز کو عید کا سیزن نکلنے کے بعد ہی کھولنے کی اجازت دینے کا ارادہ رکھتی تھی۔ اس وقت سندھ حکومت کی جانب سے معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے میں دیر لگانے پر ہر طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت سندھ کا معاشی سرگرمیاں بحال نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت ضرور قابل قبول اور معتبر سمجھا جاتا اگر اس سلسلے میں اسے عوامی اور تاجر برادری کی تائید حاصل ہوتی مگر تاجر اور صنعتکار ہی نہیں عوام بھی اس کے فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ اس وقت عوام کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنی تنگ دستی کے مقابلے میں کورونا کو خاطر میں نہیں لا رہے ہیں ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ سندھ حکومت کورونا کی آڑ میں وفاق سے اپنے کچھ مطالبات منوانا چاہتی ہے۔
یہ بات بھی کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کی سیاست حالیہ عام انتخابات کے بعد سراسر تحریک انصاف کی حکومت کے حق میں تھی۔ اسی نے سینیٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرایا پھر صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بھی پیپلز پارٹی نے ناکام بنائی مگر اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی وہ اپنے مطالبات نہ منوا سکی، اب کورونا کے سلسلے میں وفاق سے ناراضگی ظاہر کرنے سے بھی کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے، البتہ وفاق سے الجھنے سے کہیں 18 ویں ترمیم پر ضرب نہ پڑ جائے اور پھر پیپلز پارٹی نے اسے پاس کرانے میں جو محنت کی تھی وہ رائیگاں چلی جائے۔
لاک ڈاؤن کو طویل کرنے کی سندھ حکومت کی کوشش کو اگرچہ عوامی حمایت حاصل نہ ہو سکی مگر اس کوشش سے اس کی عوام سے محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے اب اسے اسی عوامی محبت کے جذبے کو آگے بڑھاتے ہوئے پھر سے راشن تقسیم کرنا چاہیے اور سندھ کے تمام اسپتالوں میں کتے اور سانپ کے کاٹنے سے بچاؤ کی ویکسینز کی دستیابی یقینی بناکر عوام کی بھرپور دعائیں سمیٹنا چاہیے۔