عیدالفطر کورونا وبا اور طیارہ حادثہ کے باعث شوبز انڈسٹری افسردہ
عید الفطر کا خوشیوں بھرا تہوار اس بار ہمیں بہت سادگی اور احتیاط سے منانا ہوگا، فنکاروں کی رائے
آپ کو دنیا بھر میں ہونیوالی فنون لطیفہ کی سرگرمیوں سے آگاہ رکھنا ہمیشہ سے ہی روزنامہ ایکسپریس کا خاصا رہا ہے۔ ہم نے ہمیشہ عید کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلموں کے بار میں اپنے قارئین کو مکمل معلومات فراہم کی اور فلموں کی پسندیدگی کے بارے میں بننے والے ٹرینڈز سے آگاہ رکھا لیکن اس عید پر ساری دنیا کی طرح پاکستان بھی انتہائی غیر معمولی حالات سے گذر رہا ہے۔ کوئی بھی ایسی سرگرمی جس میں لوگوں کا اجتماع ہو خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
کورونا وبا نے انسانی رہن سہن کے تمام عمومی رویے بدل کر رکھ دیے ہیں۔ ماضی میں جب بھی ماہ رمضان کے بعد عید الفطر کا خوشیوں بھرا تہوار آتا ہے تو ہر چہرہ مسکراتا دکھائی دیتا تھا۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد شیر خرما اور سیویوں سے منہ میٹھا کروایا جاتا اور ایک دوسرے کو گلے لگا کر تمام گلے شکوے بھلا دیے جاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا خاص تحفہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں پوری امت مسلمہ اسلامی تہوارں کو منانے کی یکساں روایات اور مذہبی رویوں کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے۔ مسلمان دنیا میں کہیں بھی بستا ہو عید الفطر کے روز اس کے دن کا آغاز مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ عید الفطر کی نماز کی ادائیگی سے ہی ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس خوشیوں بھرے تہوار کو چارچاند لگانے میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کا بھی کردار نمایاں رہا ہے۔ ماضی میں عید کے مواقع پر پاکستان کے سینما گھروں میں غیر معمولی رونق دکھائی دیا کرتی تھی۔ جس کی بڑی وجہ پاکستانی اور بالی ووڈ کی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ شائقین کی بڑی تعداد سینما گھروں کا رخ کیا کرتی تھی۔ کوئی اردو فلم کے شوق میں سنیما گھر پہنچتا تو کوئی پنجابی یا پشتو فلم کا طلبگار ہوتا۔ اسی طرح بہترین انگریزی اور بھارتی فلمیں بھی عید کے موقع پر ہی نمائش کے لئے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ عید میلہ پر لگنے والی فلمیں تمام عمر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتیں تھیں۔ خاص بات یہ تھی کہ عید الفطر کے موقع پر فیملیز کی بڑی تعداد بھی سینما گھروں کا رخ کیا کرتی تھی اور اعلی معیار کی فلمیں دیکھ کر پاکستانی فنکاروں، تکنیک کاروں کو خوب داد دیا کرتی تھی۔
جہاں تک بات علاقائی فلموں کی ہے تو ماضی میں پنجابی فلموں نے عید کے مواقع پر صوبہ پنجاب میں زبردست بزنس کیا ہے۔ پنجابی سینما کو پسند کرنے والے شائقین نے سینما گھروں کا رخ کیا اور معروف فنکاروں کی دل کو چھو لینے والی ایکٹنگ اور میوزک سے خوب لطف اٹھایا جبکہ پشتو زبان میں بننے والی فلموں نے جہاں خیبرپختونخوا میں اچھا بزنس کیا وہیں کراچی، بلوچستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں بھی ان فلموں کا بزنس منافع بخش رہا۔ اس کے علاوہ مڈل ایسٹ کی کچھ ریاستوں میں بھی پشتو فلم نمائش کے لئے پیش کی جاتی رہی ہیں اور وہاں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے ان فلموں کو دیکھا۔ بھارتی فلمیں بھی پاکستان میں اچھا بزنس کرتی رہی ہیں لیکن ان کی نمائش پر پابندی کی ذمہ داری خود بھارت پر عائد ہوتی ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کی بارے میں مخاصمانہ رویہ برقرار رکھا اور اب جو کچھ بھارت کشمیر میں کر گزرا ہے اُس کے بعد تو اس بات کی رتی برابر گنجائش باقی نہ رہی تھی کہ بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت دی جاتی۔
ماضی کی بات کریں تو عید الفطر جیسے اہم تہوار پر جب پاکستانی فلموں کے ساتھ بالی وڈ اسٹارز کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں تو متعدد بار ایسی شکایات موصول ہویں کہ سینما انتظامیہ پاکستانی فلموں کی بجائے صرف بالی وڈ اسٹارز کی فلموں کے شو دکھانے پر بضد تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو خاصا بڑا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ قدم خود پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنا معیار مزید بہتر بنانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ کورونا وبا نے ہمیشہ نہیں رہنا ۔ جلد یا بدیر زندگی اپنے معمول کی طرف لوٹ آئے گی لحاظہ شوبز سے وابستہ اداکاروں اور تیکنیک کاروں کو بھی ایک نئے جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ عید کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلموں کے لئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔بہترین فلموں کی تیاری میں یہ بات پیش نظر رکھی جاتی تھی کہیہ عید سے پہلے مکمل ہو جائیں تاکہ عید کے موقع پر انہیں پیش کیا جا سکے لیکن اس مرتبہ کورونا کی وبا نے روز مرہ زندگی کو اس بری طرح سے متاثر کیا ہے کہ معمول کی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔
یہ خالی عرصہ بھی ایک طرح سے موقع فراہم کرتا ہے کہ بڑے فلمی منصوبوں پر زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں آیا جائے۔ اس عرصہ کے دوران جب شوٹنگز اور دیگر ایسے کام نہیں ہو رہے جن میں زیادہ لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونا ناگزیر ہوتا ہے تو اس وقت کو منصوبوں کے دستاویزی کا کی تکمیل کے لئے صرف کیا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں تمام تر توجہ فلم کے معیار کو یقینی بنانے پر مرکوز کر دی جائے تو پاکستان کی مارکیٹ کو بھارتی فلموں کے سہارے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
کیونکہ ماضی میں پاکستان فلم انڈسٹری نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے ملک کے سپر اسٹارز اور تکنیک کاروں نے جس طرح سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار سلور سکرین پر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود ہمارے ہاں شاندار فلمیں پروڈیوس کی گئی۔
اس کے علاوہ فلموں کے میوزک کی بات کریں تو آج بھی پاکستانی فلم کا میوزک اپنی مثال آپ ہے ، لیکن موجودہ دور میں ہمارے نوجوان فلم میکرز نے منفرد کہانی ، لوکیشن اور جدید ٹیکنالوجی سے فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اگر وہ تھوڑی توجہ فلم کے میوزک پر بھی دیں تو فلموں کا بزنس کئی گنا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ اس کی بڑی مثال ہمارا پڑوسی ملک ہے جہاں پر اکثر میگا اسٹارز کی فلموں کی کہانیاں لوگوں کو سمجھ نہ آئیں مگر فلم کا میوزک تمام ریکارڈ بریک کردیتا ہے۔ اس لیے ہمارے نوجوان فلم میکرز کو یہ بات سمجھنا ہوگی اور اس پر توجہ دینا ہو گی کہ پاکستانی فلم کو اگر انٹرنیشنل مارکیٹ تک لے کر جانا ہے تو فلم کے میوزک پر خاص محنت کریں۔
دیکھا جائے تودنیا بھر میں اردو سینما کو پسند کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ اگر ہم بالی ووڈ کا ذکر کریں تو بالی وڈ میں بننے والی فلمیں زیادہ تر اردو زبان میں بنائی جاتی ہیں جس کا مقصد دیار غیر میں بسنے والی کمیونٹی کے قریب پہنچنا ہے ، اس میں وہ بہت زیادہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں لیکن ہم بھی اس سلسلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں اپنی ڈائریکشن اور میوزک کوبہتر بنانا ہوگا۔ اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو آنے والے پانچ سالوں میں پاکستان فلم انڈسٹری کے سٹارز ، موسیقار ، گلوکار ، ڈائریکٹر ، رائٹر اور پروڈیوسر، کوریوگرافر اور دیگر تکنیکی شعبوں کے لوگ بالی ووڈ کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
ماضی میں عید الفطر کے موقع پر ہونے والے زبردست بزنس کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی فلموں کے معیار کو مزید بہتر کرنا ہوگا، ہمیں اس سلسلہ میں ہالی ووڈ جیسی بڑی فلم انڈسٹری کے تکنیکاروں کی خدمات حاصل کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھے لکھے نوجوان تکنیک کاروں کو بھی تربیت دلوانا ہو گی جس سے پاکستان فلم انڈسٹری کو فائدہ پہنچے گا اور ہم ایک ایسی مثال بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے کہ پھر ہر کوئی بالی وڈ نہیں بلکہ پاکستانی فلموں کو دیکھنا چاہے گا۔
دوسری طرف تھیٹر کی بات کریں تو صوبہ پنجاب کے تمام تھیٹروں میں عید پر سٹیج ڈرامے پیش کئے جانے کی روایت سے بھی سب آگاہ ہیں جنہیں دیکھنے کیلئے آنے والے قہقہے لگا کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے، مزاحیہ فقروں اور مقبول گیتوں پر پرفارمنس سے عید کا لطف دو بالا ہو جایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی چینلز پر بھی عید کی خصوصی ٹرانسمیشنز براہ راست پیش کی جایا کرتی ہیں جو اس عید پر بھی یقیناً پیش کی جائیں گی جن میں بھی معروف فنکار اور گلوکار اپنی پرفارمنس سے سماں باندھ دیں گے۔
کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہیں پاکستان بھی اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد شدید مالی مشکلات سے دو چار ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ عید الفطر جیسے تہوار کو چار چاند لگانے کیلئے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد بھر پور تیاریاں کرتے تھے۔
ایک طرف عید کی مناسبت سے خصوصی فلمیں بنائی جاتیں تو دوسری جانب ٹی وی ڈرامے بنتے، جہاں سٹیج ڈرامے تیار ہوتے وہیں میوزک پروگرام بھی پیش کئے جاتے، ہر طرف رونق ہوتی اور ہر کوئی خوشیوں کے ان لمحات سے محظوظ ہوتا۔ لیکن اس بار تو جیسے ساری خوشیاں چھن سی گئی ہیں۔ ایک طرف کورونا وائرس کا خوف اور اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر ہیں اور دوسری جانب پی آئی اے کا طیارہ حادثہ نے بھی لوگوں کو بہت افسردہ کیا ہے۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے فلم، ٹی وی، تھیٹر اور فیشن سمیت دیگر شعبوں کے معروف فنکاروں ، گلوکاروں اور پروڈیوسروں نے کہا ہے کہ عید الفطر کا خوشیوں بھرا تہوار اس بار ہمیں بہت سادگی اور احتیاط سے منانا ہوگا، کیونکہ جس طرح کورونا وائرس نے امریکہ اور یورپ کو نشانہ بنایا ہے، اسی طرح اگر ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو پھر بہت بڑے نقصان سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ہمارے ملک میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں اور ابھی بھی کورونا متاثرین کی تعداد پچاس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں ہمارے سینما گھر اور تھیٹر بند ہونے سے بلاشبہ بھاری مالی نقصان ہورہا ہے ، لیکن اس وقت ان اقدامات کے علاوہ کوئی اور چارا نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ، اس پر عملدرآمد کرنے میں ہی سب کی بہتری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں افراد دیہاڑی دار ہیں اور وہ شدید مالی مشکلات میں ہیں، اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کو حکومتی ایس او پیز کے مطابق کام کرنے کی اجازت مل جانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا، جس پر بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیں۔ مگر ہمیں بے صبری دکھانے کی بجائے تھوڑا اور انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ ہونے پر بھرپور انداز سے شوبز انڈسٹری کو ٹریک پر لانے کے بعد لوگوں کو تفریح کے بہترین مواقع فراہم کرسکیں۔۔۔
ہمیں اس وقت آللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر بس یہ دعا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اور اس کے باسیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، کیونکہ ہمارے پاس وسائل کی بے پناہ کمی ہے ،دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک بے بس دکھائی دے رہے ہیں ، جن کی ترقی اور کامیابی کی مثال دی جاتی تھیں، اس لئے ہمیں بھی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اس بار نہیں تو انشاء اللہ آئندہ برس ہم دھوم دھام سے عید منائیں گے، سینما گھروں اور تھیٹروں میں لوگوں کی قطاریں ہونگی اور ان کو دیکھ کر شائقین داد دیئے بغیر نہ رہ پائیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ آللہ تعالیٰ کورونا وائرس سے پوری دنیا کو نجات دلائے اور جو لوگ پی آئی اے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے ہیں، ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین
کورونا وبا نے انسانی رہن سہن کے تمام عمومی رویے بدل کر رکھ دیے ہیں۔ ماضی میں جب بھی ماہ رمضان کے بعد عید الفطر کا خوشیوں بھرا تہوار آتا ہے تو ہر چہرہ مسکراتا دکھائی دیتا تھا۔ عید کی نماز پڑھنے کے بعد شیر خرما اور سیویوں سے منہ میٹھا کروایا جاتا اور ایک دوسرے کو گلے لگا کر تمام گلے شکوے بھلا دیے جاتے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا خاص تحفہ ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا بھر میں پوری امت مسلمہ اسلامی تہوارں کو منانے کی یکساں روایات اور مذہبی رویوں کے باعث ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہے۔ مسلمان دنیا میں کہیں بھی بستا ہو عید الفطر کے روز اس کے دن کا آغاز مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ عید الفطر کی نماز کی ادائیگی سے ہی ہوتا ہے۔
پاکستان میں اس خوشیوں بھرے تہوار کو چارچاند لگانے میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں کا بھی کردار نمایاں رہا ہے۔ ماضی میں عید کے مواقع پر پاکستان کے سینما گھروں میں غیر معمولی رونق دکھائی دیا کرتی تھی۔ جس کی بڑی وجہ پاکستانی اور بالی ووڈ کی فلموں کی نمائش ہوا کرتی تھی۔ شائقین کی بڑی تعداد سینما گھروں کا رخ کیا کرتی تھی۔ کوئی اردو فلم کے شوق میں سنیما گھر پہنچتا تو کوئی پنجابی یا پشتو فلم کا طلبگار ہوتا۔ اسی طرح بہترین انگریزی اور بھارتی فلمیں بھی عید کے موقع پر ہی نمائش کے لئے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ عید میلہ پر لگنے والی فلمیں تمام عمر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتیں تھیں۔ خاص بات یہ تھی کہ عید الفطر کے موقع پر فیملیز کی بڑی تعداد بھی سینما گھروں کا رخ کیا کرتی تھی اور اعلی معیار کی فلمیں دیکھ کر پاکستانی فنکاروں، تکنیک کاروں کو خوب داد دیا کرتی تھی۔
جہاں تک بات علاقائی فلموں کی ہے تو ماضی میں پنجابی فلموں نے عید کے مواقع پر صوبہ پنجاب میں زبردست بزنس کیا ہے۔ پنجابی سینما کو پسند کرنے والے شائقین نے سینما گھروں کا رخ کیا اور معروف فنکاروں کی دل کو چھو لینے والی ایکٹنگ اور میوزک سے خوب لطف اٹھایا جبکہ پشتو زبان میں بننے والی فلموں نے جہاں خیبرپختونخوا میں اچھا بزنس کیا وہیں کراچی، بلوچستان اور افغانستان کے کچھ علاقوں میں بھی ان فلموں کا بزنس منافع بخش رہا۔ اس کے علاوہ مڈل ایسٹ کی کچھ ریاستوں میں بھی پشتو فلم نمائش کے لئے پیش کی جاتی رہی ہیں اور وہاں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے ان فلموں کو دیکھا۔ بھارتی فلمیں بھی پاکستان میں اچھا بزنس کرتی رہی ہیں لیکن ان کی نمائش پر پابندی کی ذمہ داری خود بھارت پر عائد ہوتی ہے جس نے ہمیشہ پاکستان کی بارے میں مخاصمانہ رویہ برقرار رکھا اور اب جو کچھ بھارت کشمیر میں کر گزرا ہے اُس کے بعد تو اس بات کی رتی برابر گنجائش باقی نہ رہی تھی کہ بھارتی فلموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت دی جاتی۔
ماضی کی بات کریں تو عید الفطر جیسے اہم تہوار پر جب پاکستانی فلموں کے ساتھ بالی وڈ اسٹارز کی فلمیں نمائش کیلئے پیش کی جاتی تھیں تو متعدد بار ایسی شکایات موصول ہویں کہ سینما انتظامیہ پاکستانی فلموں کی بجائے صرف بالی وڈ اسٹارز کی فلموں کے شو دکھانے پر بضد تھے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی فلموں کو خاصا بڑا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ قدم خود پاکستانی فلم انڈسٹری کو اپنا معیار مزید بہتر بنانے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ کورونا وبا نے ہمیشہ نہیں رہنا ۔ جلد یا بدیر زندگی اپنے معمول کی طرف لوٹ آئے گی لحاظہ شوبز سے وابستہ اداکاروں اور تیکنیک کاروں کو بھی ایک نئے جذبے کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے۔
ہمارے ہاں ہمیشہ سے یہ روایت رہی ہے کہ عید کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلموں کے لئے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔بہترین فلموں کی تیاری میں یہ بات پیش نظر رکھی جاتی تھی کہیہ عید سے پہلے مکمل ہو جائیں تاکہ عید کے موقع پر انہیں پیش کیا جا سکے لیکن اس مرتبہ کورونا کی وبا نے روز مرہ زندگی کو اس بری طرح سے متاثر کیا ہے کہ معمول کی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔
یہ خالی عرصہ بھی ایک طرح سے موقع فراہم کرتا ہے کہ بڑے فلمی منصوبوں پر زیادہ بہتر تیاری کے ساتھ میدان میں آیا جائے۔ اس عرصہ کے دوران جب شوٹنگز اور دیگر ایسے کام نہیں ہو رہے جن میں زیادہ لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونا ناگزیر ہوتا ہے تو اس وقت کو منصوبوں کے دستاویزی کا کی تکمیل کے لئے صرف کیا جا سکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان میں تمام تر توجہ فلم کے معیار کو یقینی بنانے پر مرکوز کر دی جائے تو پاکستان کی مارکیٹ کو بھارتی فلموں کے سہارے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
کیونکہ ماضی میں پاکستان فلم انڈسٹری نے جو کارنامے سرانجام دیے وہ سب کے سامنے ہیں۔ ہمارے ملک کے سپر اسٹارز اور تکنیک کاروں نے جس طرح سے اپنی صلاحیتوں کا اظہار سلور سکرین پر کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود ہمارے ہاں شاندار فلمیں پروڈیوس کی گئی۔
اس کے علاوہ فلموں کے میوزک کی بات کریں تو آج بھی پاکستانی فلم کا میوزک اپنی مثال آپ ہے ، لیکن موجودہ دور میں ہمارے نوجوان فلم میکرز نے منفرد کہانی ، لوکیشن اور جدید ٹیکنالوجی سے فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اگر وہ تھوڑی توجہ فلم کے میوزک پر بھی دیں تو فلموں کا بزنس کئی گنا زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ اس کی بڑی مثال ہمارا پڑوسی ملک ہے جہاں پر اکثر میگا اسٹارز کی فلموں کی کہانیاں لوگوں کو سمجھ نہ آئیں مگر فلم کا میوزک تمام ریکارڈ بریک کردیتا ہے۔ اس لیے ہمارے نوجوان فلم میکرز کو یہ بات سمجھنا ہوگی اور اس پر توجہ دینا ہو گی کہ پاکستانی فلم کو اگر انٹرنیشنل مارکیٹ تک لے کر جانا ہے تو فلم کے میوزک پر خاص محنت کریں۔
دیکھا جائے تودنیا بھر میں اردو سینما کو پسند کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ اگر ہم بالی ووڈ کا ذکر کریں تو بالی وڈ میں بننے والی فلمیں زیادہ تر اردو زبان میں بنائی جاتی ہیں جس کا مقصد دیار غیر میں بسنے والی کمیونٹی کے قریب پہنچنا ہے ، اس میں وہ بہت زیادہ کامیابی حاصل کرچکے ہیں لیکن ہم بھی اس سلسلے میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں اپنی ڈائریکشن اور میوزک کوبہتر بنانا ہوگا۔ اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو آنے والے پانچ سالوں میں پاکستان فلم انڈسٹری کے سٹارز ، موسیقار ، گلوکار ، ڈائریکٹر ، رائٹر اور پروڈیوسر، کوریوگرافر اور دیگر تکنیکی شعبوں کے لوگ بالی ووڈ کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
ماضی میں عید الفطر کے موقع پر ہونے والے زبردست بزنس کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی فلموں کے معیار کو مزید بہتر کرنا ہوگا، ہمیں اس سلسلہ میں ہالی ووڈ جیسی بڑی فلم انڈسٹری کے تکنیکاروں کی خدمات حاصل کرنا ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے پڑھے لکھے نوجوان تکنیک کاروں کو بھی تربیت دلوانا ہو گی جس سے پاکستان فلم انڈسٹری کو فائدہ پہنچے گا اور ہم ایک ایسی مثال بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے کہ پھر ہر کوئی بالی وڈ نہیں بلکہ پاکستانی فلموں کو دیکھنا چاہے گا۔
دوسری طرف تھیٹر کی بات کریں تو صوبہ پنجاب کے تمام تھیٹروں میں عید پر سٹیج ڈرامے پیش کئے جانے کی روایت سے بھی سب آگاہ ہیں جنہیں دیکھنے کیلئے آنے والے قہقہے لگا کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے، مزاحیہ فقروں اور مقبول گیتوں پر پرفارمنس سے عید کا لطف دو بالا ہو جایا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ سرکاری اور نجی چینلز پر بھی عید کی خصوصی ٹرانسمیشنز براہ راست پیش کی جایا کرتی ہیں جو اس عید پر بھی یقیناً پیش کی جائیں گی جن میں بھی معروف فنکار اور گلوکار اپنی پرفارمنس سے سماں باندھ دیں گے۔
کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہیں پاکستان بھی اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ زندگی کے تمام شعبوں سے وابستہ افراد شدید مالی مشکلات سے دو چار ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ عید الفطر جیسے تہوار کو چار چاند لگانے کیلئے فنون لطیفہ سے وابستہ افراد بھر پور تیاریاں کرتے تھے۔
ایک طرف عید کی مناسبت سے خصوصی فلمیں بنائی جاتیں تو دوسری جانب ٹی وی ڈرامے بنتے، جہاں سٹیج ڈرامے تیار ہوتے وہیں میوزک پروگرام بھی پیش کئے جاتے، ہر طرف رونق ہوتی اور ہر کوئی خوشیوں کے ان لمحات سے محظوظ ہوتا۔ لیکن اس بار تو جیسے ساری خوشیاں چھن سی گئی ہیں۔ ایک طرف کورونا وائرس کا خوف اور اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر ہیں اور دوسری جانب پی آئی اے کا طیارہ حادثہ نے بھی لوگوں کو بہت افسردہ کیا ہے۔
ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے فلم، ٹی وی، تھیٹر اور فیشن سمیت دیگر شعبوں کے معروف فنکاروں ، گلوکاروں اور پروڈیوسروں نے کہا ہے کہ عید الفطر کا خوشیوں بھرا تہوار اس بار ہمیں بہت سادگی اور احتیاط سے منانا ہوگا، کیونکہ جس طرح کورونا وائرس نے امریکہ اور یورپ کو نشانہ بنایا ہے، اسی طرح اگر ہم نے احتیاط سے کام نہ لیا تو پھر بہت بڑے نقصان سے دو چار ہونا پڑے گا۔ ہمارے ملک میں ہزاروں خاندان اپنے پیاروں سے محروم ہوچکے ہیں اور ابھی بھی کورونا متاثرین کی تعداد پچاس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ایسے میں ہمارے سینما گھر اور تھیٹر بند ہونے سے بلاشبہ بھاری مالی نقصان ہورہا ہے ، لیکن اس وقت ان اقدامات کے علاوہ کوئی اور چارا نہیں ہے۔ حکومت کی جانب سے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ، اس پر عملدرآمد کرنے میں ہی سب کی بہتری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ شوبز انڈسٹری سے وابستہ ہزاروں افراد دیہاڑی دار ہیں اور وہ شدید مالی مشکلات میں ہیں، اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کو حکومتی ایس او پیز کے مطابق کام کرنے کی اجازت مل جانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا، جس پر بہت سے لوگوں کے تحفظات ہیں۔ مگر ہمیں بے صبری دکھانے کی بجائے تھوڑا اور انتظار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ ہونے پر بھرپور انداز سے شوبز انڈسٹری کو ٹریک پر لانے کے بعد لوگوں کو تفریح کے بہترین مواقع فراہم کرسکیں۔۔۔
ہمیں اس وقت آللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر بس یہ دعا کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اور اس کے باسیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، کیونکہ ہمارے پاس وسائل کی بے پناہ کمی ہے ،دنیا کے وہ ترقی یافتہ ممالک بے بس دکھائی دے رہے ہیں ، جن کی ترقی اور کامیابی کی مثال دی جاتی تھیں، اس لئے ہمیں بھی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اس بار نہیں تو انشاء اللہ آئندہ برس ہم دھوم دھام سے عید منائیں گے، سینما گھروں اور تھیٹروں میں لوگوں کی قطاریں ہونگی اور ان کو دیکھ کر شائقین داد دیئے بغیر نہ رہ پائیں گے۔ ہماری دعا ہے کہ آللہ تعالیٰ کورونا وائرس سے پوری دنیا کو نجات دلائے اور جو لوگ پی آئی اے طیارہ حادثے میں جاں بحق ہوئے ہیں، ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین