طیارہ حادثہ فوجی افسران کی واپسی سے اہلخانہ لاعلم تھے
حادثے کے بعد بھائی کے دوست نے فون کرکے بتایا، بھائی لیفٹیننٹ بالاچ
حادثے کا شکار پی آئی اے کے طیارے میں سوار افراد کے اہلخانہ اس بات سے یکسر لاعلم تھے کہ وہ گھر واپسی کے لیے طیارے میں سوار ہوچکے ہیں۔
ان سب سے عید کے موقع پر گھر والوں کو اپنے اچانک پہنچنے کی خوشی دینے کے لیے اپنی واپسی کو ان سے راز رکھا تھا۔ تاہم انھیں علم نہیں تھا کہ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوپائے گی اور گھر والوں کے چہروں پر ان کی اچانک واپسی کی خوشی دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کے لیے ادھوری رہ جائے گی۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی بدقسمت فلائٹ پی کے 8303 پر سوار 6 فوجی افسران اسکواڈرن لیڈر ذین العارف، میجر شہریار، کیپٹن احمدمجتبیٰ، لیفٹیننٹ بالاچ بگٹی، لیفٹیننٹ شہیر اور سیکنڈلیفٹیننٹ حمزہ یوسف اس وقت جام شہادت نوش کرگئے جب یہ بدقسمت طیارہ جمعے کے روز سہ پہر ڈھائی بجے کے لگ بھگ کراچی ایئرپورٹ کی قریبی آبادی پر جاگرا۔ لیفٹیننٹ بالاچ کے 25 سالہ بھائی شائی حق شیر Shaihaq Sher نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ عید پر گھر واپس آرہے تھے۔ ہمیں اس وقت پتا چلا کہ جب حادثے کے بعد ان کے دوست نے بہاولپور سے ہمیں فون کیا۔ ہم میں سے کوئی اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے تصدیق کے لیے بھائی کے بٹ مین کو فون کیا۔ تب معلوم ہوا کہ بھائی اچانک پہنچ کر ہمیں سرپرائز دینا چاہتے تھے۔
انھوں نے بٹ مین کو ہمیں کچھ بھی بتانے سے سختی سے منع کردیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سیکنڈ لیفٹیننٹ حمزہ یوسف کمیشنڈ افسر کی حیثیت سے گھر لوٹ رہے تھے۔ آخری بار انھوں نے گھر والوں کو اپنی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے پہلے دیکھا تھا۔ حمزہ کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا کہ ان کے والدین انھیں دیکھنے کے لیے بہت بے چین تھے۔ کورونا کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اس لیے وہ بڑی بے تابی سے اپنے ہونہار بیٹے کا انتظار کررہے تھے۔
عید کے موقع پر اپنے پیاروں کے کھونے کا غم ہی کیا کم تھا کہ حادثے میں لاشوں کے سوختہ ہوکر بے شناخت ہوجانے کی وجہ سے لواحقین کو اپنے پیاروں کی شناخت میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ لیفٹیننٹ بالاچ کے چچا اور معروف گلوکار وحیدلاشاری نے بتایا کہ انھوں نے اپنے بھتیجے کی لاش کو گلے میں موجود نیکلس سے پہچانا۔ انھوں نے کہا کہ بالاچ کے والدین اس کی منگنی کی تیاریاں کررہے تھے، مگر اس حادثے نے ہم سب کو دہلا دیا ہے۔ خاص طور سے بالاچ کے والدین کا بہت برا حال ہے۔
ان سب سے عید کے موقع پر گھر والوں کو اپنے اچانک پہنچنے کی خوشی دینے کے لیے اپنی واپسی کو ان سے راز رکھا تھا۔ تاہم انھیں علم نہیں تھا کہ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوپائے گی اور گھر والوں کے چہروں پر ان کی اچانک واپسی کی خوشی دیکھنے کی خواہش ہمیشہ کے لیے ادھوری رہ جائے گی۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کی بدقسمت فلائٹ پی کے 8303 پر سوار 6 فوجی افسران اسکواڈرن لیڈر ذین العارف، میجر شہریار، کیپٹن احمدمجتبیٰ، لیفٹیننٹ بالاچ بگٹی، لیفٹیننٹ شہیر اور سیکنڈلیفٹیننٹ حمزہ یوسف اس وقت جام شہادت نوش کرگئے جب یہ بدقسمت طیارہ جمعے کے روز سہ پہر ڈھائی بجے کے لگ بھگ کراچی ایئرپورٹ کی قریبی آبادی پر جاگرا۔ لیفٹیننٹ بالاچ کے 25 سالہ بھائی شائی حق شیر Shaihaq Sher نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ وہ عید پر گھر واپس آرہے تھے۔ ہمیں اس وقت پتا چلا کہ جب حادثے کے بعد ان کے دوست نے بہاولپور سے ہمیں فون کیا۔ ہم میں سے کوئی اس بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے تصدیق کے لیے بھائی کے بٹ مین کو فون کیا۔ تب معلوم ہوا کہ بھائی اچانک پہنچ کر ہمیں سرپرائز دینا چاہتے تھے۔
انھوں نے بٹ مین کو ہمیں کچھ بھی بتانے سے سختی سے منع کردیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب سیکنڈ لیفٹیننٹ حمزہ یوسف کمیشنڈ افسر کی حیثیت سے گھر لوٹ رہے تھے۔ آخری بار انھوں نے گھر والوں کو اپنی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے پہلے دیکھا تھا۔ حمزہ کے ایک دوست نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا کہ ان کے والدین انھیں دیکھنے کے لیے بہت بے چین تھے۔ کورونا کی وجہ سے وہ اپنے بیٹے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اس لیے وہ بڑی بے تابی سے اپنے ہونہار بیٹے کا انتظار کررہے تھے۔
عید کے موقع پر اپنے پیاروں کے کھونے کا غم ہی کیا کم تھا کہ حادثے میں لاشوں کے سوختہ ہوکر بے شناخت ہوجانے کی وجہ سے لواحقین کو اپنے پیاروں کی شناخت میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ لیفٹیننٹ بالاچ کے چچا اور معروف گلوکار وحیدلاشاری نے بتایا کہ انھوں نے اپنے بھتیجے کی لاش کو گلے میں موجود نیکلس سے پہچانا۔ انھوں نے کہا کہ بالاچ کے والدین اس کی منگنی کی تیاریاں کررہے تھے، مگر اس حادثے نے ہم سب کو دہلا دیا ہے۔ خاص طور سے بالاچ کے والدین کا بہت برا حال ہے۔