قصور مقتول نوجوان کو انصاف دلوانے کے لیے سوشل میڈیا پر آوازیں بلند
ملزم پولیس کانسٹیبل سمیع الرحمن کو ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا ناکامی پر قتل کردیا، ابتدائی رپورٹ
کھڈیاں خاص میں پولیس کانسٹیبل کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان سمیع الرحمن کو انصاف کی فراہمی کے لیے سوشل میڈیا پر آوازیں اٹھنے لگیں۔
ایک صارف نے مقتول کی نعتیہ کلام پڑھتے ہوئے ویڈیو شیئر کی اور بتایا کہ سمیع الرحمن نے اس برس رمضان المبارک میں نماز تراویح کی امامت کراوئی تھی۔ پولیس کانسٹیبل اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن مزموم عزائم میں ناکامی کے بعد عید کے پہلے دن نوجوان کو قتل کردیا۔ ٹوئٹر صارف اسد فخر الدین نے جنسی استیصال کے واقعات کی روک تھام اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے خصوصی قانون سازی کا مطالبہ بھی کیا۔
ٹوئٹر کے ایک صارف انجینیئر ابو سفیان انجم کا، جو اکاؤنٹ کی تفصیلات کے مطابق سرکاری ملازم ہیں، کہنا ہے کہ سمیع الرحمن نے میٹرک کے امتحان میں نوے فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے تھے۔ مستقبل کے حوالےسے اس مشاورت بھی کی تھی اور اسے چند مشورے بھی دیے تھے۔ 'میرا یقین کیجیے آج ہم نے ایک ہیرا کھو دیا ہے۔ باصلاحیت نوجوان ، حافظ قرآن اور نعت خوان بھی تھا۔'
ٹوئٹر کے ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ قصور بچوں کے جنسی استیصال کا مرکز بن چکا ہے۔ ایسی وارداتوں کی ذمے داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے اگر اس واقعے کے ملزم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات ہوسکتے ہیں کیوں کہ حکومت سو رہی ہے۔
علاوہ ازیں متعدد ٹوئٹر صارفین نے وزیرا عظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی واقعہ کا فوری نوٹس لے کے مقتول کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات
عید کے پہلے روز اتوار کو علی الصباح قصور کے علاقے کھڈیاں خاص میں پیٹرولنگ پولیس کے معصوم نامی کانسٹیبل نے 18 سالہ حافظ قرآن نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ملزم کانسٹیبل معصوم مقتول سے ناجائز تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا لیکن اپنے مزموم عزائم میں ناکامی کے بعد اس نے نوجوان کو عید کے پہلے روز علی الصباح گولیاں مار کر قتل کردیا۔ نوجوان کا تعلق کھڈیاں خاص کے ایک غریب خاندان سے ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس کے والد مسجد کے پیش امام ہیں۔ اتوار کے روز سمیع الرحمن کی تدفین ہوچکی ہے اور اسی روز واقعے کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ تدفین کے موقعے پر بھی اہل علاقہ نے مقتول کو انصاف کی فراہم کی اپیل کی تھی۔
مقامی پولیس نے ملزم کے خلاف دفعہ 302 کا مقدمہ درج کر دیا ہے۔ تھانہ کھڈیاں پولیس نے کانسٹیبل کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ علاقے میں سوگ کی فضاء قائم ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ سیاسی و سمجاجی شخصیات مقتول کے گھر آمد کا سلسہ جاری ہے۔ اس سلسلہ میں جب پولیس تھانہ کھڈیاں کے ایس ایچ او چوہدری محمد اشرف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی تفتیش جاری ہے بہت جلد میڈیا کو مکمل حقائق کے ساتھ آگاہ کیا جائے گا۔
ایک صارف نے مقتول کی نعتیہ کلام پڑھتے ہوئے ویڈیو شیئر کی اور بتایا کہ سمیع الرحمن نے اس برس رمضان المبارک میں نماز تراویح کی امامت کراوئی تھی۔ پولیس کانسٹیبل اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن مزموم عزائم میں ناکامی کے بعد عید کے پہلے دن نوجوان کو قتل کردیا۔ ٹوئٹر صارف اسد فخر الدین نے جنسی استیصال کے واقعات کی روک تھام اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے خصوصی قانون سازی کا مطالبہ بھی کیا۔
ٹوئٹر کے ایک صارف انجینیئر ابو سفیان انجم کا، جو اکاؤنٹ کی تفصیلات کے مطابق سرکاری ملازم ہیں، کہنا ہے کہ سمیع الرحمن نے میٹرک کے امتحان میں نوے فیصد سے زائد نمبر حاصل کیے تھے۔ مستقبل کے حوالےسے اس مشاورت بھی کی تھی اور اسے چند مشورے بھی دیے تھے۔ 'میرا یقین کیجیے آج ہم نے ایک ہیرا کھو دیا ہے۔ باصلاحیت نوجوان ، حافظ قرآن اور نعت خوان بھی تھا۔'
ٹوئٹر کے ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ قصور بچوں کے جنسی استیصال کا مرکز بن چکا ہے۔ ایسی وارداتوں کی ذمے داری مقامی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے اگر اس واقعے کے ملزم کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات ہوسکتے ہیں کیوں کہ حکومت سو رہی ہے۔
علاوہ ازیں متعدد ٹوئٹر صارفین نے وزیرا عظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے بھی واقعہ کا فوری نوٹس لے کے مقتول کو نشان عبرت بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات
عید کے پہلے روز اتوار کو علی الصباح قصور کے علاقے کھڈیاں خاص میں پیٹرولنگ پولیس کے معصوم نامی کانسٹیبل نے 18 سالہ حافظ قرآن نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ملزم کانسٹیبل معصوم مقتول سے ناجائز تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا لیکن اپنے مزموم عزائم میں ناکامی کے بعد اس نے نوجوان کو عید کے پہلے روز علی الصباح گولیاں مار کر قتل کردیا۔ نوجوان کا تعلق کھڈیاں خاص کے ایک غریب خاندان سے ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس کے والد مسجد کے پیش امام ہیں۔ اتوار کے روز سمیع الرحمن کی تدفین ہوچکی ہے اور اسی روز واقعے کی ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے۔ تدفین کے موقعے پر بھی اہل علاقہ نے مقتول کو انصاف کی فراہم کی اپیل کی تھی۔
مقامی پولیس نے ملزم کے خلاف دفعہ 302 کا مقدمہ درج کر دیا ہے۔ تھانہ کھڈیاں پولیس نے کانسٹیبل کو حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ علاقے میں سوگ کی فضاء قائم ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ سیاسی و سمجاجی شخصیات مقتول کے گھر آمد کا سلسہ جاری ہے۔ اس سلسلہ میں جب پولیس تھانہ کھڈیاں کے ایس ایچ او چوہدری محمد اشرف سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی تفتیش جاری ہے بہت جلد میڈیا کو مکمل حقائق کے ساتھ آگاہ کیا جائے گا۔