کورونا کے بعد ممالک کی ترجیحات
یہ وائرس ایسے تازہ خون کی طرح اقوام کے جسم میں داخل ہوگا جو انہیں نئی زندگی بھی بخش سکتا ہے اور تباہ بھی کرسکتا ہے
دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں نمودار ہونے والے انوکھے وائرس نے، جسے ''ناول کورونا وائرس'' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں کورونا کے پہلے مریض کی تشخیص فروری کے مہینے میں ہوئی اور آج یعنی 26 مئی 2020 تک ملک بھر میں اس وبا سے 57,705 افراد متاثر جبکہ 1,197 افراد جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ جس طرح اس وبا نے پوری دنیا میں ہل چل مچا رکھی ہے، بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی صورت حال مختلف زاویوں سے سنگین رُخ اختیار کرچکی ہے۔ وہ تمام افراد جو اس وبا کو محض چین تک محدود سمجھتے تھے، وہ اٹلی، اسپین، جرمنی، برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک میں اس کی تباہ کاریوں کے باعث اسے عالمی حقیقت سمجھنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ معاشروں کی اقدار سے ہوتے ہوئے حکومتوں کے طرز عمل اور بالخصوص صحت عامہ کے پہلوؤں پر گہری چھاپ چھوڑے گا۔ دراصل قدرت نے تمام انسانیت کو جھنجھوڑ کر اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کا موقع دیا ہے۔ بقول عالمی شہرت یافتہ پرماٹولوجسٹ جین گوڈال، کورونا وائرس دراصل انسانوں کا قدرتی عوامل کی بے قدری اور ظلم کا نتیجہ ہے جو سالہاسال جنگلات کی بےدریغ کٹائی سے ہوتے ہوئے، حیات پر ظلم (مصنوعی تولید یا ظالمانہ طریقے سے غذا کے مقصد سے مارنے) پر محیط ہے۔
کورونا کے معاشرتی و سماجی اثرات
معاشرتی طور پر محض پیسے اور طاقت کے گرد گھومتی زندگی کو اس وائرس نے احساسں کی اہمیت سے روشناس کروایا ہے۔ اس وائرس کے ختم ہونے کی بعد: اوّل، لوگوں کے تعلقات میں روحانیت کا عنصر قدرے بڑھ جائے گا؛ دوم، لوگ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کو بھی اپنا سرمایہ سمجھنے لگیں گے؛ سوم، عوام الناس خود کے ساتھ وقت گزار کر اپنے اندرونی سکون کو مختلف مشاغل جیسے کہ باغبانی، مصوری، کتب بینی سے حاصل کرنے کا فن بھی سیکھیں گے؛ اور چہارم، اس وائرس سے سماجی فاصلے کو جس طرح سے ضروری قرار دیا گیا ہے، آنے والے دنوں میں بھی اس کا اثر خاصی دیر تک معاشروں میں پایا جائے گا۔ یہ خاص طور پر ان معاشروں کےلیے مثبت ثابت ہوگا جہاں پرائیویسی ایک منفی صفت سمجھی جاتی ہے، جیسے کہ پاکستان۔
کورونا کے داخلی و خارجی اثرات
پہلے ایٹمی ہتھیاروں، اعلی درجے کی جنگی سہولیات اور ماہر فوجیوں کے دستوں سے طاقت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ اب صحت کی بہترین سہولیات، کارآمد منصوبہ بندی اور فوری اقدامات ممالک کی صلاحیت طے کریں گے۔ جس طرح چین سمیت جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے بروقت ہنگامی بنیادوں پر اس وائرس سے بچانے میں کئی ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکا، اسپین اور جرمنی وغیرہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اس سے طاقت ناپنے کے نئے پیمانے استوار ہوں گے۔ ممالک اس وائرس کے ختم ہونے کے بعد، صحت کی سہولیات کا باقاعدہ جائزہ لیں گے اور اپنے بجٹ کا معقول حصہ صحت کے شعبے کےلیے مختص کریں گے۔ عالمی منظر نامے پر ممالک کی درجہ بندی خاصی حد تک وائرس اور مختلف وباؤں سے لڑنے کی اہلیت اور دوسرے ممالک کی اس ضمن میں مدد سے طے ہوگی۔ داخلی طور پر ممالک اپنے عوامی اداروں کو، جن میں بالخصوص تعلیم اور صحت شامل ہیں، مستحکم کریں گے۔ خارجی طور پر جیسے ہی کورونا وائرس کی ویکسین تیار ہوئی، تو غیر ملکی سفر سے پہلے یہ لگوانا پاسپورٹ کی طرح لازمی قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن اس میں اب بھی ایک طویل عرصہ درکار ہوسکتا ہے۔ البتہ فوری حل کےلیے عین ممکن ہے کہ بیرونی سفر کی غرض سے کورونا ٹیسٹ منفی ہونے کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا جائے۔
کورونا کے معاشی و اقتصادی اثرات
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم ایک ایسے دور کی طرف جارہی ہیں جس میں اقتصادی طور پر ہر ملک کو معاشی عدم استحکام کا سامنا ہوگا۔ لیکن اقتصادی بحران ان ممالک میں شدید نوعیت کا ہوگا جو پہلے ہی سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے معاشروں میں غربت بڑھنے کا خدشہ ہے جو پہلے ہی شدید غربت کا شکار ہیں۔ مثلاً پاکستان کی بات کریں تو یہاں 2017-2018 کے معاشی اعداد و شمار کے مطابق 24.3 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کیونکہ جب امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں شرح بے روزگاری بڑھنے کی خبریں آرہی ہیں، تو ترقی پذیر ممالک کےلیے یہ وائرس معاشی تنگ دستی کا نیا باب رقم کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
کورونا کے ٹیکنالوجی پر اثرات
البتہ، کورونا وائرس نے ٹیکنالوجی کی اشد ضرورت پر زور ڈالا ہے۔ اس وبا نےصحت کے آلات کی، جن میں بالخصوص وینٹی لیٹر، ماسک، دستانے اور تشخیصی کٹس شامل ہیں، تعداد بڑھانے کےلیے ہر ملک کو اپنے وسائل پر انحصار کی ترغیب دی ہے۔ آنے والے دنوں میں ممالک کی حکمت عملی میں خود انحصاری کا عنصر قدرے غالب ہوگا۔ جس طرح وائرس کے آتے ہی دفاتر و تعلیمی ادارے بند ہوگئے اور نجی اداروں اور دفاتر نے سماجی رابطوں کی آن لائن ویب سائٹس کا سہارا لیا، اس سے آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی کوالٹی پر بھی کام ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ نوکریوں کی اہلیت کے خانے میں آن لائن تکنیکی صلاحیتوں کا ہونا شامل کیا جائے اور بھرتی کرنے کے بعد بھی ڈیجیٹل تکنیکی کورسز لازمی قرار دے دیئے جائیں۔
آخر میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ اس وائرس کے منفی و مثبت اثرات ترقی پذیر اور ترقی یافتہ، دونوں ممالک پر پڑیں گے اور یہ ایک ایسے تازہ خون کی طرح اقوام کے جسم میں داخل ہوگا جو انہیں نئی زندگی بھی بخش سکتا ہے اور تباہ بھی کرسکتا ہے۔ اب یہ جسم کی صلاحیت پر ہے کہ اس میں کتنا جذب کرنے کی اہلیت ہے۔ فوائد کا حصول ممالک کی اہلیت پر منحصر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ معاشروں کی اقدار سے ہوتے ہوئے حکومتوں کے طرز عمل اور بالخصوص صحت عامہ کے پہلوؤں پر گہری چھاپ چھوڑے گا۔ دراصل قدرت نے تمام انسانیت کو جھنجھوڑ کر اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کا موقع دیا ہے۔ بقول عالمی شہرت یافتہ پرماٹولوجسٹ جین گوڈال، کورونا وائرس دراصل انسانوں کا قدرتی عوامل کی بے قدری اور ظلم کا نتیجہ ہے جو سالہاسال جنگلات کی بےدریغ کٹائی سے ہوتے ہوئے، حیات پر ظلم (مصنوعی تولید یا ظالمانہ طریقے سے غذا کے مقصد سے مارنے) پر محیط ہے۔
کورونا کے معاشرتی و سماجی اثرات
معاشرتی طور پر محض پیسے اور طاقت کے گرد گھومتی زندگی کو اس وائرس نے احساسں کی اہمیت سے روشناس کروایا ہے۔ اس وائرس کے ختم ہونے کی بعد: اوّل، لوگوں کے تعلقات میں روحانیت کا عنصر قدرے بڑھ جائے گا؛ دوم، لوگ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کو بھی اپنا سرمایہ سمجھنے لگیں گے؛ سوم، عوام الناس خود کے ساتھ وقت گزار کر اپنے اندرونی سکون کو مختلف مشاغل جیسے کہ باغبانی، مصوری، کتب بینی سے حاصل کرنے کا فن بھی سیکھیں گے؛ اور چہارم، اس وائرس سے سماجی فاصلے کو جس طرح سے ضروری قرار دیا گیا ہے، آنے والے دنوں میں بھی اس کا اثر خاصی دیر تک معاشروں میں پایا جائے گا۔ یہ خاص طور پر ان معاشروں کےلیے مثبت ثابت ہوگا جہاں پرائیویسی ایک منفی صفت سمجھی جاتی ہے، جیسے کہ پاکستان۔
کورونا کے داخلی و خارجی اثرات
پہلے ایٹمی ہتھیاروں، اعلی درجے کی جنگی سہولیات اور ماہر فوجیوں کے دستوں سے طاقت کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔ اب صحت کی بہترین سہولیات، کارآمد منصوبہ بندی اور فوری اقدامات ممالک کی صلاحیت طے کریں گے۔ جس طرح چین سمیت جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے بروقت ہنگامی بنیادوں پر اس وائرس سے بچانے میں کئی ترقی یافتہ ممالک مثلاً امریکا، اسپین اور جرمنی وغیرہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، اس سے طاقت ناپنے کے نئے پیمانے استوار ہوں گے۔ ممالک اس وائرس کے ختم ہونے کے بعد، صحت کی سہولیات کا باقاعدہ جائزہ لیں گے اور اپنے بجٹ کا معقول حصہ صحت کے شعبے کےلیے مختص کریں گے۔ عالمی منظر نامے پر ممالک کی درجہ بندی خاصی حد تک وائرس اور مختلف وباؤں سے لڑنے کی اہلیت اور دوسرے ممالک کی اس ضمن میں مدد سے طے ہوگی۔ داخلی طور پر ممالک اپنے عوامی اداروں کو، جن میں بالخصوص تعلیم اور صحت شامل ہیں، مستحکم کریں گے۔ خارجی طور پر جیسے ہی کورونا وائرس کی ویکسین تیار ہوئی، تو غیر ملکی سفر سے پہلے یہ لگوانا پاسپورٹ کی طرح لازمی قرار دے دیا جائے گا۔ لیکن اس میں اب بھی ایک طویل عرصہ درکار ہوسکتا ہے۔ البتہ فوری حل کےلیے عین ممکن ہے کہ بیرونی سفر کی غرض سے کورونا ٹیسٹ منفی ہونے کا سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا جائے۔
کورونا کے معاشی و اقتصادی اثرات
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقوام عالم ایک ایسے دور کی طرف جارہی ہیں جس میں اقتصادی طور پر ہر ملک کو معاشی عدم استحکام کا سامنا ہوگا۔ لیکن اقتصادی بحران ان ممالک میں شدید نوعیت کا ہوگا جو پہلے ہی سے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایسے معاشروں میں غربت بڑھنے کا خدشہ ہے جو پہلے ہی شدید غربت کا شکار ہیں۔ مثلاً پاکستان کی بات کریں تو یہاں 2017-2018 کے معاشی اعداد و شمار کے مطابق 24.3 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کیونکہ جب امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں شرح بے روزگاری بڑھنے کی خبریں آرہی ہیں، تو ترقی پذیر ممالک کےلیے یہ وائرس معاشی تنگ دستی کا نیا باب رقم کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔
کورونا کے ٹیکنالوجی پر اثرات
البتہ، کورونا وائرس نے ٹیکنالوجی کی اشد ضرورت پر زور ڈالا ہے۔ اس وبا نےصحت کے آلات کی، جن میں بالخصوص وینٹی لیٹر، ماسک، دستانے اور تشخیصی کٹس شامل ہیں، تعداد بڑھانے کےلیے ہر ملک کو اپنے وسائل پر انحصار کی ترغیب دی ہے۔ آنے والے دنوں میں ممالک کی حکمت عملی میں خود انحصاری کا عنصر قدرے غالب ہوگا۔ جس طرح وائرس کے آتے ہی دفاتر و تعلیمی ادارے بند ہوگئے اور نجی اداروں اور دفاتر نے سماجی رابطوں کی آن لائن ویب سائٹس کا سہارا لیا، اس سے آنے والے دنوں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی کوالٹی پر بھی کام ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ نوکریوں کی اہلیت کے خانے میں آن لائن تکنیکی صلاحیتوں کا ہونا شامل کیا جائے اور بھرتی کرنے کے بعد بھی ڈیجیٹل تکنیکی کورسز لازمی قرار دے دیئے جائیں۔
آخر میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گی کہ اس وائرس کے منفی و مثبت اثرات ترقی پذیر اور ترقی یافتہ، دونوں ممالک پر پڑیں گے اور یہ ایک ایسے تازہ خون کی طرح اقوام کے جسم میں داخل ہوگا جو انہیں نئی زندگی بھی بخش سکتا ہے اور تباہ بھی کرسکتا ہے۔ اب یہ جسم کی صلاحیت پر ہے کہ اس میں کتنا جذب کرنے کی اہلیت ہے۔ فوائد کا حصول ممالک کی اہلیت پر منحصر ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔