آئی جی ایف سی کا غیرمشروط معافی سے ہی بچاؤ ممکن
توہین عدالت میں سزا اخلاقی جرم ہے، ملزم سرکاری ملازمت کیلیے نا اہل ہو جاتا ہے
لاپتہ افراد کے کیس میں اگر سپریم کورٹ آئندہ سماعت پرآئی جی ایف سی کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئی توان پرفردجرم عائد ہوجائے گی۔
فردجرم عائدہونے کے بعدملزم صرف غیرمشروط معافی مانگ کر جان خلاصی کرسکتاہے لیکن معافی دینے یانہ دینے کااختیار پھر بھی عدالت کے پا س ہوتا ہے۔ توہین عدالت میںسزا اخلاقی جرائم میں شمارہوتی ہے جسکا دھبہ تاحیات رہتاہے اورملزم سرکاری ملازمت کیلیے نااہل ہو جاتا ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ آئی جی ایف سی کوپیش ہوکر عدالت کو یقین دلانا ہوگا تاکہ توہین عدالت نوٹس کامعاملہ ابتدائی سماعت میں ہی حل ہو جائے ۔سپریم کورٹ بارکے صدرکامران مرتضیٰ نے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ لاپتہ افرادکا معاملہ انتہائی حساس ہے لیکن ایک منظم ادارے کے اعلیٰ افسرکو توہین عدالت کے نوٹس سے اداروںکے درمیان تنائو پیدا ہوسکتا ہے۔آئی جی ایف سی کوپیش ہوکرسننے کا بھرپور موقع دینا چاہیے تاکہ معا ملے کاآبرومندانہ حل نکل آئے۔
انھوں نے کہا ٹکرائو سے خرابیاں پیدا ہونگی ،ایک منظم ادارے کو اس صورتحال سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا سپریم کورٹ کو نوٹس دینے سے پہلے انھیں پیش ہونے کا ایک اور موقع دینا چاہیے تھا، ہو سکتا ہے واقعی بیماری کی وجہ سے وہ پیش ہونے کے قابل نہ ہوں۔ سینئر ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے آئین کے سامنے سرنگوں ہوجائیں، آئین و قانون کی عملداری کیلیے توہین عدالت کا نوٹس ضروری ہوگیا تھا۔ بلوچستان کے لاپتہ افرادکے بارے جوڈیشل انکوائری اور خود حکومت بلوچستان کی رپورٹ میں ایف سی اہلکاروں پر الزامات لگے ہیں،عدالت کے پاس ایف سی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ٹھوس مواد موجود ہیں۔ آئی جی ایف سی اس لیے پیش نہیں ہورہے تھے کہ ان کے پاس عدالت کو مطمئن کرنے کیلیے کچھ نہیں تھا ۔
فردجرم عائدہونے کے بعدملزم صرف غیرمشروط معافی مانگ کر جان خلاصی کرسکتاہے لیکن معافی دینے یانہ دینے کااختیار پھر بھی عدالت کے پا س ہوتا ہے۔ توہین عدالت میںسزا اخلاقی جرائم میں شمارہوتی ہے جسکا دھبہ تاحیات رہتاہے اورملزم سرکاری ملازمت کیلیے نااہل ہو جاتا ہے۔ قانونی ماہرین کی رائے ہے کہ آئی جی ایف سی کوپیش ہوکر عدالت کو یقین دلانا ہوگا تاکہ توہین عدالت نوٹس کامعاملہ ابتدائی سماعت میں ہی حل ہو جائے ۔سپریم کورٹ بارکے صدرکامران مرتضیٰ نے ایکسپریس سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ لاپتہ افرادکا معاملہ انتہائی حساس ہے لیکن ایک منظم ادارے کے اعلیٰ افسرکو توہین عدالت کے نوٹس سے اداروںکے درمیان تنائو پیدا ہوسکتا ہے۔آئی جی ایف سی کوپیش ہوکرسننے کا بھرپور موقع دینا چاہیے تاکہ معا ملے کاآبرومندانہ حل نکل آئے۔
انھوں نے کہا ٹکرائو سے خرابیاں پیدا ہونگی ،ایک منظم ادارے کو اس صورتحال سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا سپریم کورٹ کو نوٹس دینے سے پہلے انھیں پیش ہونے کا ایک اور موقع دینا چاہیے تھا، ہو سکتا ہے واقعی بیماری کی وجہ سے وہ پیش ہونے کے قابل نہ ہوں۔ سینئر ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ تمام ادارے آئین کے سامنے سرنگوں ہوجائیں، آئین و قانون کی عملداری کیلیے توہین عدالت کا نوٹس ضروری ہوگیا تھا۔ بلوچستان کے لاپتہ افرادکے بارے جوڈیشل انکوائری اور خود حکومت بلوچستان کی رپورٹ میں ایف سی اہلکاروں پر الزامات لگے ہیں،عدالت کے پاس ایف سی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ٹھوس مواد موجود ہیں۔ آئی جی ایف سی اس لیے پیش نہیں ہورہے تھے کہ ان کے پاس عدالت کو مطمئن کرنے کیلیے کچھ نہیں تھا ۔