تاریخ میں پہلی بار تاجروں کا عید سیزن برباد کاروبار 86 فیصد کم رہا

 11 سے 23 مئی تک صرف 10 دن دکانیں کھل سکیں، دکانداروں نے بمشکل 6 ارب کی اشیا فروخت کیں

سحری تک بازار کھولنے کی اجازت نہ دی گئی، خریداروں کی گہما گہمی ونڈو شاپنگ ثابت ہوئی۔ فوٹو : ایکسپریس

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے ملک کے دیگر شہروں کی طرح کراچی کے چھوٹے تاجروں کے عید میں فروخت کے سیزن کو بری طرح متاثر کیا۔

عید سیزن میں تجارتی مراکز صرف 10 یوم کے لیے اور محدود اوقات کے دوران کھولے گئے اور اس دوران تاجروں نے بمشکل 6 ارب روپے کی اشیا فروخت کیں اس طرح رواں سال عید سیزن میں گزشتہ سال کی نسبت کاروبار میں تقریباً 86 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

سال 2020 میں عیدالفطر کا سیل سیزن ملکی تاریخ کا بدترین عید سیل سیزن رہا، دو ماہ لاک ڈاؤن کے بعد کراچی کی مارکٹیں 11مئی تا 23 مئی تین تعطیلات کے باعث صرف 10 دن کھل سکیں، گرمی کی شدت اور تاجر نمائندوں کے سخت دباؤ کے باوجود حکومت سندھ نے افطار کے بعد بازار کھولنے کی اجازت نہیں دی اور دکانیں 4 بجے بند کرنے کی پابندی عید سے ایک روز قبل تک برقرار رہی، گذشتہ سال عید سیل کا تخمینہ 35ارب روپے جبکہ رواں سال بمشکل 5 تا 6 ارب روپے کی فروخت کا حجم رہاہے۔

اگر حکومت سندھ افطار سے سحری تک کاروبار کرنے کی اجازت دیتی تو کاروباری حجم 10 تا 12 ارب روپے تک پہنچ سکتاتھا، دو ماہ کی کاروباری بندش اور لاک ڈاؤن سے عوام کی قوت خرید شدید متاثر ہوئی، بیشتر والدین نے استطاعت نہ ہونے کے سبب عید کی خریداری سرگرمیوں کو صرف اپنے بچوں تک محدود رکھی، 80فیصد خریداری بچوں کے ملبوسات، جوتے، پرس، کھلونے، ہوزری وغیرہ کی مد میں کی گئی، عید کے حوالے سے شناخت رکھنے والی اہم مارکیٹوں میں توقعات کے برعکس خریداری نہ ہوسکی۔

لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد مارکیٹوں میں امڈ آنے والا خریداروں کا ریلا مصنوعی ثابت ہوا، بیشتربازاروں میں نظر آنے والی گہما گہمی ونڈو شاپنگ ثابت ہوئی، قیمتوں میں اوسطاً 20تا 25فیصد اضافے سے خریداروں کی اور تاجروں کی اکثریت نے پچھلے سال کے بچے ہوئے اسٹاک کا مال فروخت کیا، رہی سہی قوت خرید بھی ختم ہوگئی رمضان میں گراں فروشوں نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچاکر غریب طبقے کی کمر توڑ دی۔


کورونا وائرس ملکی معیشت کو بھی نگلنے لگا، عتیق میر

آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے موجودہ صورتحال کو ملکی معیشت اور تجارت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا وائرس انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی نگل رہا ہے، سال کے سب سے بڑے سیل سیزن میں بھی دو ماہ لاک ڈاؤن کے نقصانات کا ازالہ نہ ہوسکا۔

انھوں نے کہا کہ ہوشربا مہنگائی، بیروزگاری اور قوت خرید میں کمی کے باعث خریداروں کے ارمانوں اور دکانداروں کی امیدوں پر پانی پھرگیا، تجارتی مراکز میں چہل پہل کا سب سے زیادہ فائدہ ٹریفک پولیس کو ہوا، کاغذات کی جانچ پڑتال کے بہانے رشوت ستانیوں کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا، جیب کتروں کی بھی چاندی ہوگئی، حفاظتی پولیس نے اسنیپ چیکنگ کی آڑ میں جی بھر کر عیدی بنائی، بیشتر دکانوں میں اسٹاک کیا گیا60 فیصد سے زائد مال فروخت نہ ہوسکا۔

گزشتہ سال کے مقابلے میں فروخت میں مجموعی طور پر86فیصد تک کمی رہی، تاجروں کو عید بعد کاریگروں اور کارخانے داروں کو رقوم کی ادائیگی کے لالے پڑگئے، بڑی مارکیٹوں میں لگائی جانے والی رعایتی سیل بھی خریداروں کو متوجہ نہ کرسکی، مارکٹوں میں درآمدی اشیا کے اسٹاک کم ہونے سے مقامی مصنوعات کی فروخت میں تیزی رہی، شہروں کے مابین ٹرانسپورٹ بند ہونے سے سامان کی فراہمی بھی متاثر ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ ریڈی میڈ گارمنٹس کی بہترین ورائٹی بھی استطاعت سے محروم خریداروں کو متوجہ نہ کرسکی کپڑے کی مارکیٹیں بند ہونے سے درزیوں کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوا، خریداری ریڈی میڈ گارمنٹس، جوتے، مصنوعی زیورات اور زیبائش کے سامان تک محدود رہی۔

 
Load Next Story