عید کورونا اور طیارہ حادثہ

قوم عیدکی خوشیاں مناتے ہوئے محروم طبقات کو فراموش نہ کریں۔


Editorial May 27, 2020
قوم عیدکی خوشیاں مناتے ہوئے محروم طبقات کو فراموش نہ کریں۔ (فوٹو: فائل / اے ایف پی)

پورے ملک میں ایک ہی روز عید الفطر منائی گئی۔ سائنس و ٹیکنالوجی اور رویت ہلال میں صائب ہم آہنگی کی ایک دل نشیں روایت قائم تو نہ ہوسکی، تاہم قوم نے طیارہ حادثہ اورکورونا کی ملک گیر وباء کی پیداشدہ گھمبیر صورتحال اور اندیشوں و خطرات کی درد انگیزی کے ساتھ عید سادگی سے منائی۔

چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مفتی منیب الرحمان کی سربراہی میں محکمہ موسمیات کراچی کمپلیکس میں ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان کے علاوہ زونل کمیٹی ممبران اور بحریہ کے ماہرین نے بھی شرکت کی، تکنیکی معاونت کے لیے محکمہ موسمیات، سپارکوکے ماہرین بھی اجلاس میں شامل ہوئے۔

مفتی منیب نے چاند کی رویت اور بروز اتوارچوبیس مئی کو عید الفطر منانے کا اعلان کیا، صدر مملکت عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو اپنے پیغام میں کہا کہ وہ روایت سے ہٹ کر عید منائیں۔ ان کے پیغام کی مقصدیت یہ اجتماعی اپیل تھی کہ وہ کورونا کے وبائی اثرات کو تہوارکی خوشیوں میں فراموش نہ کریں بلکہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ ابھی ملک کورونا کی دلدل سے نہیں نکلا اور پوری دنیا کورونا سے نمٹنے میں مصروف ہے۔

قوم عیدکی خوشیاں مناتے ہوئے محروم طبقات کو فراموش نہ کریں۔ یہ حقیقت ہے کہ اس بار عید قومی سطح پر غیر معمولی المیوں اور اندوہناک مسائل اور چیلنجوں کے ساتھ آئی ، ملک کو پہلی بار ایک ایسی وبا کا سامنا ہوا ہے جس نے دنیا بھرکی معیشتوں کی چولیں ہلادی ہیں، انتہائی ترقی یافتہ اور مستحکم اقتصادی نظام کی بنیادیں ہل چکی ہیں، اسٹاک مارکیٹوں میں مندی اور بیروزگاری ، مہنگائی اور معاشی اضمحلال کے آثار کورونا کے جانے کے بعد بھی عالمی اقتصادی نظام سے اپنا خراج لیتے رہیں گے، کمزور ممالک عالمی مالیاتی اداروں کے دست نگر رہنے پر مجبور ہونگے، کمزور جمہوریتیں اپنے آپ کو سنبھالنے میں اپنے بیشتر اہداف اور انتخابی منشور میں عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل سے قاصر نظر آئیں گی۔

ماہرین سیاست وصحت کے مطابق ایک نئی دنیا وجود میں آنے کو بے تاب ہوگی جس میں کورونا کے باعث انسان اپنے رسم و رواج ، میل جول، روزمرہ کے تعلقات، کاروباری طرز عمل، صحت سے متعلق روایتی اندازفکر اورحفظان صحت کے گمشدہ اصولوں سے لاتعلقی یا بے پروائی کے نقصانات کے ازالے پر زیادہ سنجیدہ ہونے پر مجبورہوچکا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا نے ایک کہنہ کلچر کی تدفین کرکے دوسرے یا بندہ کلچرکی بنیاد رکھنے کے لیے انسانی ذہن واعصاب کی آفرینش کا دروازہ کھول دیا ہے۔

انسان کورونا سے ڈر توگیا ہے، حکومتوں کی لغزشوں ،کوتاہیوں، نعرہ بازیوں اور غفلتوں سے نظام صحت کے ڈھول کا پول بے نقاب ہوچکا ہے مگر حکومتوں کے ضمیر بیدار ہونے جا رہے ہیں، ریاستوں کو انسانی نظام کی تعمیر نوکے لیے اپنے سود وزیاں کا اب زیادہ خیال رکھنا ہوگا، اس وبا نے پوشیدہ انتظامی خرابیوں کو طشت از بام کردیا ہے ، بڑے ملکوں کی سیاسی،مالیاتی اور معاشی رعونت خاک بسر ہوچکی ہے، وہ کورونا کے آگے ناک رگڑنے پر مجبور ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے انتباہ کا تسلسل جاری ہے، ادارہ کے سربراہ سمیت علاقائی حکام کہتے ہیں کہ کوئی کورونا کو غیر سنجیدہ نہ لے، ایس او پیز کی پابندی رکھیں، ماسک پہنیں ، سماجی فاصلہ کے اصولوں کو عادت بنالیں اور غیرضروری طور پر گھر سے باہر نہ نکلیں۔

میڈیا کے مطابق ملک بھر میں کورونا سے مزید 44اموات ہوئیں۔ مریض 54 ہزار تک پہنچ گئے، سندھ میں14 ، پنجاب میں 22 ، خیبر پختونخوا میں 8ہلاکتیں ریکارڈ پر آئیں جب کہ6653مریض صحت یاب ہوئے، صحتیابی کی اطلاعات کا خوش آیند پہلو کورونا کی روک تھام میں بہتر ٹیسٹنگ ، موثر علاج ، قابل عمل قرنطینہ اور ناگزیر ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے، مگر اب بھی ضرورت کورونا سے متعلق انتظامی معاملات کی شفافیت کی ہے۔کورونا کے متاثرین نے اپنے جن تجربات کی تفصیلات بتائی ہیں وہ قابل غور ہیں۔

کورونا کی آڑ میں ہر مریض کو زبردستی وبا زدہ بنانے کی روش سے اجتناب ناگزیر ہے، یہ کسی مریض یا علاقے کی بات نہیں، بقول شخصے تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی۔ وزیراعظم کے مشیرصحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے خبردارکیا ہے کہ حفاظتی انتظامات اور ہدایات پر سنجیدگی سے عمل کرنا خود عوام کے مفاد میں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں کورونا کی شدت میں کمی کی اطالاعات ہیں، یہ خیال رہے کہ وبا کی دوبارہ واپسی ہلاکت خیز بھی ہوسکتی ہے، اس اندیشہ کو انھوں نے ایک بڑی '' ٹریجیڈی '' قرار دیا ہے، اس تناظر میں ارباب اختیار سے التماس ہے کہ وہ دوسری لہر سے نمٹنے کی بھی ویسی ہی تیاری کریں جیسی پہلی بارکی تھی۔

یوں بھی عالمی ادارہ صحت کے احکام کا کہنا ہے کہ کورونا سے جان چھوٹنا اتنا آسان نہیں رہے گا،کورونا سے زندگی بھرکا رشتہ ہوگیا ہے یا جتنی دوسری بیماریاں ہمارے جسمانی، فکری، سماجی اور فزیالوجیکل سسٹم سے چمٹی ہوئی ہیں ان سے اب مابعدالطبیاتی رہ ورسم پیدا کرنا اور اسے نبھانا بھی ہے۔

ایشیائی بینک کے مطابق پاکستان کو دسمبر تک مزید 100 ارب کی غیر ملکی فنڈنگ کی ضرورت ہوگی، بینک ذرایع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رقم کورونا کے پھیلاؤکو روکنے، متاثرہ افراد کے علاج، میڈیکل آلات اور طبی عملہ کے حفاظتی سامان کی فراہمی کے لیے استعمال ہوگی۔

حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی دوسری لہرکا دورانیہ سر پر پہنچ چکا ہے، مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق ہمیں ایس او پیز پر عمل کرنے میں مستعدی اور ذمے داری دکھانی چاہیے، لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ اس دوسری لہر سے خوف کے عنصر کوکم صرف اس طرح ہی کیا جاسکتا ہے کہ قوم کو شعور اور بیداری مہیا کی جائے کہ واقعی خطرہ منڈلا رہا ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام کے سامنے ایسے حقائق اور شخصیات میڈیا پر بار بار نظر آتی ہیں جنھیں ماسک ، سماجی فاصلے اور ہجوم سے گریزکی کوئی پروا نہیں، ایسی پرہجوم خریداری عید پر ہوئی جو ہوش ربا تھی،مارکیٹوں میں سارے اصول بالائے طاق رکھ دیے گئے، جلوس نکلے، امدادی مراکز اور راشن کے حصول کے لیے عورت، مرد،بچے، بوڑھے سب ایک بھیڑکی صورت موجود رہے، کسی نے کوئی تشویش اور ہنگامی انتظامات کی ضرورت محسوس نہیں کی، لہٰذا اس دوعملی سے بھی عوام میں ایس او پیز سے بیزاری اور لاتعلقی جنم لے سکتی ہے۔

اصول سب پر لاگو ہونے چاہئیں، سماجی فاصلہ ، ماسک اور ہجوم سے دوری کہیں بھی نظر نہ آئے تو اسے حسن تدبر سے دورکیا جانا چاہیے، سارے کام ڈنڈے سے نہیں ہوسکتے، پولیس اور عوام کے درمیان خیراندیشی اور مروت و وضع داری شرط ہے، انتظامی سطح پر ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے دوطرفہ اعتماد ناگزیر ہے۔

پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے سانحہ کا تحقیقاتی ارتعاش جاری ہے، ذرایع کے مطابق فرانسیسی ماہرین ہوابازی پاکستان پہنچ رہے ہیں، وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور نے کہا ہے کہ کراچی طیارہ حادثے کی مکمل غیرجانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں گی، اس کی رپورٹ تین ماہ میں مکمل ہوگی، اگر میری کوتاہی ثابت ہوگئی تو مستعفی ہوجاؤں گا، میرا وعدہ ہے کہ رپورٹ عوام کے سامنے لائی جائے گی۔

تاہم طیارہ حادثے نے قوم کو جذباتی طور پر نڈھال کردیا ہے، ملک کورونا سے جنگ میں مصروف تھا اور عید کی آمد آمد تھی کہ یہ دردناک واقعہ ہوگیا ، طیارہ کے حادثہ کے اسباب پر بہت سارے سوالات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں، سنگین سوالات اٹھائے جارہے ہیں، متعلقہ ماہرین اورسول ایوی ایشن اتھارٹی کی رن وے انسپکشن ٹیم نے جو رپورٹ دی ہے، اسے متعلقہ ذرایع نے میڈیا کے سپردکردیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق حادثہ کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کو حتمی طور پر اس رائے کا تعین کرنا ہوگا کہ یہ پائلٹ کی غلطی تھی، غفلت یا فنی خرابی کا شاخسانہ تھا۔ ذرایع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی لینڈنگ کے انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے، دوسری لینڈنگ تک فوم بھی نہیں بچھایا گیا، پائلٹ نے پہلی ہنگامی لینڈنگ کی اور پھر ٹیک آٓف کیا، یہ ٹیک آف کس کے حکم پر ہوا؟

مذکورہ رپورٹ کے مطابق پہیے کھولنے کے لیے پائلٹ نے آخری کوشش کے طور پورے سسٹم کو متحرک کیا لیکن ایک انجن فیل ہوگیا۔ کپتان نے ایئرکنٹرول کو صورتحال سے آگاہ کردیا اورطیارہ کو ہرممکن طریقہ سے ایئر پورٹ اور رن تک لانے کی کوشش کی، مگر اس دوران دوسرا انجن بھی فیل ہوگیا، رپورٹ کے مطابق طیارہ کا انجن رن وے سے ٹکرایا اوراس کی رگڑکے نشانات بھی واضح تھے۔

رپورٹ کے مطابق اس رگڑ سے انجن کے متاثر ہونے اور اس میں خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ ظاہرکیا گیا۔ بہرکیف حتمی رپورٹ آنے تک اس پینڈورا بکس کو بند ہونے کا کوئی امکان نہیں، تین مہینے ویسے بھی ایک لمبی میعاد ہے،کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک !

امید کی جانی چاہیے کہ حادثہ کی تحقیقات کسی افراط وتفریط، محاذ آرائی، بحث وتکرارکے بغیر مکمل کی جائے گی ۔ قوم کو تحقیقاتی رپورٹ کی شفافیت اور منظر عام پر آنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی انتظار ہے کہ اس دردناک حادثہ مکمل سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے اور حتمی رپورٹ آنے تک قیاس آرائیوں سے مکمل گریزکیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں