ہر روز عید نیست…
بات تو صرف اتنی ہوتی ہے کہ عید کا چاند نظر آیا یا نہیں لیکن وہ پتہ نہیں کہاں سے بات شروع کرتے ہیں۔
ہمارے جیسے علماء کے مدح خواں اور پیروکار اس مخمصے میں پھنس گئے ہیں کہ عید الفطر کے چاند کی رویت کے معاملے میں علماء جو اس بات پر مصر رہے ہیں کہ چاند کی رویت کا ایک اسلامی طریقہ کار ہے اوروہ اس کو ہی اپنائیں گے اس معاملے میں وہ کسی سائنس کو نہیں مانتے جب کہ سائنس والے اس پر مصر رہے کہ عید کا چاند ان کے علم کے مطابق طلوع ہو گا جس کا اعلان فواد چوہدری نے دوپہر میں ہی کر دیا تھا اور قوم کو بتا دیا کہ عید اتوار کو ہی ہو گی لیکن قوم ہر عید کی طرح اس بار بھی ان بزرگ علماء کو ٹی وی کی اسکرین پر دیکھنے کی طلب گار تھی جو چند لفظوں کا اعلان چند جملوں میں بھی بمشکل کر پاتے ہیں۔
بات تو صرف اتنی ہوتی ہے کہ عید کا چاند نظر آیا یا نہیں لیکن وہ پتہ نہیں کہاں سے بات شروع کرتے ہیں اور کافی دیر سسپنس جاری رکھنے کے بعد اصل بات کو بیان کرتے ہیں ۔ یہ مان لیتے ہیں کہ یہ تو ان کا انداز گفتگو ہوا اور اس طرح گوارا کہ اس کے آخر میں اصل بات بیان کر ہی دی جاتی ہے ورنہ آپ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ جمعہ کے کئی خطبے اسی طرح ادھر ادھر کی باتوں سے شروع ہوتے ہیں اور وقت پورا ہونے پر نمازیوں کے اصرار پر خطبہ ختم کر کے نماز کی طرف توجہ دی جاتی ہے لیکن نمازیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ خطیب صاحب نے اپنے طویل خطبے میں کہا کیا ہے۔
ایسے ہی جیسے اس دفعہ حکومت نے عید کے موقعے پر طویل چھٹیاں دے کر قوم کو گھر میں بٹھا دیا ہے، ہماری حکومت خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی ہو وہ طویل عرصہ اقتدار کی خواہشمند ہوتی ہے، اس لیے موجودہ حکومت نے بھی اپنی پیشرو حکومتوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے طویل اقتدار خواہش کی طرح طویل چھٹیاں دے کر قوم کو خوش کیا ہے، ویسے تو قوم ہمیشہ سے ہی چھٹیوں پر رہتی ہے لیکن اب اس پر سرکار کی مہر بھی ثبت ہو گئی ہے ۔
ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ علماء کی طرح ہمارے ایک مہربان تھے آغا شورش کاشمیری جو دھواں دھار مقفع اور مسجع تقریر کیا کرتے تھے، آسمانوں اور زمینوں کو اپنی فقرہ بازی سے ایک کر دیا کرتے تھے اور تقریر کو خوبصورت جملوں اور اشعار سے آراستہ کرتے تھے لیکن ہم رپورٹروں کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آغا صاحب نے کہا کیا ہے اور خبر کیا بنتی ہے، شروع میں تو میں پریشان ہو جاتا تھا لیکن بعد میں ان کی تقریر کا عادی ہو گیا اور اس قدر سمجھدار کہ دوسرے دن اخبار پڑھتے ہی پہلے آغا صاحب مجھے اور پھر ایڈیٹر کوفون کر کے شکریہ ادا کرتے کہ ان کی تقریر کی خوب رپورٹنگ کی گئی۔
بات علماء کی گفتگو کی طوالت سے شروع ہوئی تھی، ان کو جب طویل گفتگو کا کوئی موقع مل جاتا ہے تو وہ پھر اس کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔نکاح و طلاق وغیرہ تو بہت ہی محدود سطح کے موقع ہیں، دو افراد یا دو خاندانوں کے بیچ کے لیکن عید تو قومی سطح کا مسئلہ ہوتا ہے چنانچہ علماء اپنی اہمیت کو قوم پر واضح کرنے کے لیے اس کے کسی نہ کسی نکتے پر اڑجاتے ہیں اور اپنی حیثیت کا احساس دلاتے ہیں ۔
پہلے تو خیبر پختونخوا کی وجہ سے قوم اس حیثیت سے مانوس تھی لیکن اس دفعہ باقی پاکستان کے علماء نے بھی اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے چاند کے نظر آنے کا اعلان کر دیا اور یوں ایک مدت کے بعد ملک بھر میں ایک ہی دن عید منائی گئی البتہ اس طرح علماء کی اہمیت قومی سطح پر ثابت ہو گئی کہ آخری فیصلہ ان کا ہی گا اور مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ وہ روزے تو رکھ سکتے ہیں، عبادات میں بھی آزاد ہیں لیکن ان کا اختتام کسی اور کی مرضی ہے۔
آسان پہلو تو یہ ہے کہ چاند ایک ایسا سیارہ ہے جس کی رفتار میںمدتوں بعد ایک سیکنڈ کے کسی حصے کا فرق پڑتا ہے اور ماہرین فلکیات اور ان کی رصد گاہیں آسانی کے ساتھ چاند کی تاریخ سے مطلع کر سکتی ہیں بلکہ صدیوں کی عیدوں کی تاریخ بھی بتا سکتی ہیں ۔ جب ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں سائنس سے مستفید ہوتے ہیں تو کیا چاند کے سلسلے میں کوئی ممانعت ہے ۔
میں خلفائے راشدین کے ایسے فیصلوں کی مثالیں دیتے ہوئے ڈرتا ہوں جو ہمارے علماء کو پسند نہیں آتیں ۔ اجتہاد تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا تھا ہم نے ختم کر دیا ہے ۔ ایک عورت حضرت عمرؓ کے پاس آئی اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس کی وجہ بھی بیان کردی۔ حضرت عمرؓ سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کروں۔ حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے ۔ عورت نے بتا یا کہ وہ سخت پیاسی تھی اور اس کی اونٹنی خشک تھی، اس نے فلاں سے پینے کے لیے دودھ مانگا تو اس نے شرط لگا دی کہ پہلے اپنے آپ کو میرے حوالے کرو۔ میں نے صبر کیا اور تین بار انکار کیا مگر پیاس نے نڈھال کر دیا اور جان کے لالے پڑ گئے، میں اس کی بات مان گئی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا، عمر اسے جانے دو، یہ مجبور تھی گناہ گار نہیں ہے ۔ مگر آج کے زمانے میں ایسی باتیں بعض لوگوں کو پسند نہیں آتیں ۔ آسان ترین اجتہاد چاند کی تاریخ کا ہے اور بالکل واضح بھی ہے اس میں کوئی الجھن نہیں مگر اجتہاد کون کرے۔
آخر میں فارسی کی ایک ضرب المثل یاد آگئی ہے جس کا ذکر علمائے کرام اور آئمہ مساجد جب اپنی بے تکلف مجلسوں میں گپ شپ لڑاتے ہیں تو کرتے ہیں۔
ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے
بات تو صرف اتنی ہوتی ہے کہ عید کا چاند نظر آیا یا نہیں لیکن وہ پتہ نہیں کہاں سے بات شروع کرتے ہیں اور کافی دیر سسپنس جاری رکھنے کے بعد اصل بات کو بیان کرتے ہیں ۔ یہ مان لیتے ہیں کہ یہ تو ان کا انداز گفتگو ہوا اور اس طرح گوارا کہ اس کے آخر میں اصل بات بیان کر ہی دی جاتی ہے ورنہ آپ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ جمعہ کے کئی خطبے اسی طرح ادھر ادھر کی باتوں سے شروع ہوتے ہیں اور وقت پورا ہونے پر نمازیوں کے اصرار پر خطبہ ختم کر کے نماز کی طرف توجہ دی جاتی ہے لیکن نمازیوں کو پتہ نہیں چلتا کہ خطیب صاحب نے اپنے طویل خطبے میں کہا کیا ہے۔
ایسے ہی جیسے اس دفعہ حکومت نے عید کے موقعے پر طویل چھٹیاں دے کر قوم کو گھر میں بٹھا دیا ہے، ہماری حکومت خواہ وہ کسی بھی پارٹی کی ہو وہ طویل عرصہ اقتدار کی خواہشمند ہوتی ہے، اس لیے موجودہ حکومت نے بھی اپنی پیشرو حکومتوں کی تقلید کرتے ہوئے اپنے طویل اقتدار خواہش کی طرح طویل چھٹیاں دے کر قوم کو خوش کیا ہے، ویسے تو قوم ہمیشہ سے ہی چھٹیوں پر رہتی ہے لیکن اب اس پر سرکار کی مہر بھی ثبت ہو گئی ہے ۔
ایک اور واقعہ یاد آگیا کہ علماء کی طرح ہمارے ایک مہربان تھے آغا شورش کاشمیری جو دھواں دھار مقفع اور مسجع تقریر کیا کرتے تھے، آسمانوں اور زمینوں کو اپنی فقرہ بازی سے ایک کر دیا کرتے تھے اور تقریر کو خوبصورت جملوں اور اشعار سے آراستہ کرتے تھے لیکن ہم رپورٹروں کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ آغا صاحب نے کہا کیا ہے اور خبر کیا بنتی ہے، شروع میں تو میں پریشان ہو جاتا تھا لیکن بعد میں ان کی تقریر کا عادی ہو گیا اور اس قدر سمجھدار کہ دوسرے دن اخبار پڑھتے ہی پہلے آغا صاحب مجھے اور پھر ایڈیٹر کوفون کر کے شکریہ ادا کرتے کہ ان کی تقریر کی خوب رپورٹنگ کی گئی۔
بات علماء کی گفتگو کی طوالت سے شروع ہوئی تھی، ان کو جب طویل گفتگو کا کوئی موقع مل جاتا ہے تو وہ پھر اس کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔نکاح و طلاق وغیرہ تو بہت ہی محدود سطح کے موقع ہیں، دو افراد یا دو خاندانوں کے بیچ کے لیکن عید تو قومی سطح کا مسئلہ ہوتا ہے چنانچہ علماء اپنی اہمیت کو قوم پر واضح کرنے کے لیے اس کے کسی نہ کسی نکتے پر اڑجاتے ہیں اور اپنی حیثیت کا احساس دلاتے ہیں ۔
پہلے تو خیبر پختونخوا کی وجہ سے قوم اس حیثیت سے مانوس تھی لیکن اس دفعہ باقی پاکستان کے علماء نے بھی اپنی عزت کی حفاظت کرتے ہوئے چاند کے نظر آنے کا اعلان کر دیا اور یوں ایک مدت کے بعد ملک بھر میں ایک ہی دن عید منائی گئی البتہ اس طرح علماء کی اہمیت قومی سطح پر ثابت ہو گئی کہ آخری فیصلہ ان کا ہی گا اور مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ وہ روزے تو رکھ سکتے ہیں، عبادات میں بھی آزاد ہیں لیکن ان کا اختتام کسی اور کی مرضی ہے۔
آسان پہلو تو یہ ہے کہ چاند ایک ایسا سیارہ ہے جس کی رفتار میںمدتوں بعد ایک سیکنڈ کے کسی حصے کا فرق پڑتا ہے اور ماہرین فلکیات اور ان کی رصد گاہیں آسانی کے ساتھ چاند کی تاریخ سے مطلع کر سکتی ہیں بلکہ صدیوں کی عیدوں کی تاریخ بھی بتا سکتی ہیں ۔ جب ہم اپنی زندگی کے ہر پہلو میں سائنس سے مستفید ہوتے ہیں تو کیا چاند کے سلسلے میں کوئی ممانعت ہے ۔
میں خلفائے راشدین کے ایسے فیصلوں کی مثالیں دیتے ہوئے ڈرتا ہوں جو ہمارے علماء کو پسند نہیں آتیں ۔ اجتہاد تو جیسے میں نے پہلے عرض کیا تھا ہم نے ختم کر دیا ہے ۔ ایک عورت حضرت عمرؓ کے پاس آئی اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور اس کی وجہ بھی بیان کردی۔ حضرت عمرؓ سوچ میں پڑ گئے کہ کیا کروں۔ حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ کیا کیا جائے ۔ عورت نے بتا یا کہ وہ سخت پیاسی تھی اور اس کی اونٹنی خشک تھی، اس نے فلاں سے پینے کے لیے دودھ مانگا تو اس نے شرط لگا دی کہ پہلے اپنے آپ کو میرے حوالے کرو۔ میں نے صبر کیا اور تین بار انکار کیا مگر پیاس نے نڈھال کر دیا اور جان کے لالے پڑ گئے، میں اس کی بات مان گئی ۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا، عمر اسے جانے دو، یہ مجبور تھی گناہ گار نہیں ہے ۔ مگر آج کے زمانے میں ایسی باتیں بعض لوگوں کو پسند نہیں آتیں ۔ آسان ترین اجتہاد چاند کی تاریخ کا ہے اور بالکل واضح بھی ہے اس میں کوئی الجھن نہیں مگر اجتہاد کون کرے۔
آخر میں فارسی کی ایک ضرب المثل یاد آگئی ہے جس کا ذکر علمائے کرام اور آئمہ مساجد جب اپنی بے تکلف مجلسوں میں گپ شپ لڑاتے ہیں تو کرتے ہیں۔
ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے