کراچی کے پارسی عاشق
سندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔
سیٹھ ایڈلجی ڈنشا 18 مئی 1842 کو کراچی میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق پارسی خاندان سے تھا۔ وہ برطانوی فوج کے لیے ٹھیکیداری کاکام کرتے تھے، ان کے کاروبار کو 1878 سے 1881 کے دوران ہونے والی دوسری افغان جنگ کے دوران عروج حاصل ہوا۔ اس کام سے جو دولت کمائی وہ انھوں نے زمینوں اور کارخانوں میں لگادی، وہ قسمت کے دھنی تھے۔
اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی آدھی زمینوں کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری رکھا۔
سندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوںنے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔
اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ سیٹھ شاپورجی ہرمزجی سپاری والا اور ان کا خاندان تھا جس نے 1859ء میں بائی ویرجی سپاری والا اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اسکول جو اس وقت پارسی بالک شالہ ( بچوں کا مکتب) کہلاتا تھا، دادا بھائی پالن جی پے ماسٹر کے گھر میں قائم کیا گیا تھا ، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بڑھی تو بالک شالہ کی عمارت چھوٹی پڑگئی ۔ شاپورجی ہرمزجی اپنی بیگم کے عاشق زار تھے۔ وہ 1869ء میں سورگ سدھار گئیں تو شاپورجی نے مئی 1870ء میں اسکول کو دس ہزار روپے کی خطیر رقم عطیہ کی ۔
شرط صرف یہ رکھی کہ اسکول ان کی سورگ باشی پتنی بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب ہوگا۔ اسکول کے ٹرسٹی حضرات کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔اُس وقت کے دس ہزار روپے آج کے لاکھوں روپوں کے برابر تھے۔
ستمبر 1870ء میں بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب اس تعلیمی ادارے کا افتتاح سندھ کے کمشنر سرولیم میری ویدر نے کیا اور پارسی کمیونٹی کے ایک محترم فرد جمشید جی فرام جی ماسٹر ،اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔اکتوبر 1904ء میں اس تعلیمی ادارے کے بنیاد گزار سیٹھ شاپورجی ہرمزجی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے کراچی کی مشہور سڑک وکٹوریہ روڈ پر اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس میں آج بھی یہ اسکول قائم ہے ۔
کراچی کی ترقی میں پارسیوں نے جو ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں مشہور محقق اور دانش ور اختر بلوچ نے ایک کمال مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے بابائے کراچی جمشید نسروان جی کا بڑی محبت سے ذکر کیا تھا۔ کراچی اور اس کے لوگوں سے ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔
کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب کراچی کی کہانی میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ''میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ حالیہ ایم اے جناح روڈسے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔
تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔
جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔سائیں جی ایم سید ،جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔
حاتم علوی اپنے ایک مضمون لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی اس وقت سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تار کول کی تہہ بچھائی گئی تھی، جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔
کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ''جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا ۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔
ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بناکر بھیجتے اور کراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی توانھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کردیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنالیا۔ ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔''
جمشید نے عمر بھر شادی نہیں کی، نہایت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ کینوس کے جوتے پہنے کیونکہ چمڑے کے جوتے پہننے کا مطلب کسی جانور کی توہین تھا۔ سندھ لیجیسیلٹو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ بہ مشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ کسی سے ووٹ نہیں مانگا جائے گا۔ انتخابی اخراجات مقررہ حد سے تجاوز نہیں کریں گے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔ وہ کامیاب ہوئے اور اتنی بھاری اکثریت سے کہ ان کے دوست بھی حیران رہ گئے۔
بات شروع ہوئی تھی ایڈلجی ڈنشا سے جو آج سے 172 سال پہلے 18 مئی کو پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔ انھوں نے 12 اسپتال تعمیر کرائے لیکن ڈنشا خاندان کا سب سے بڑا تحفہ نادر شا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جو این ای ڈی کے نام سے معروف ہے۔
اس ادارے کے زیادہ تر طالب علموں کو بھی یہ نہیں معلوم ہوگا کہ ان کا وہ کون محسن ہے جس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔ کراچی، تقسیم سے قبل بھی اس خطے کا ایک ترقی یافتہ شہر تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے رہنے والے ہندو، پارسی،عیسائی اور مسلمان سب اس کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اب اس شہر کو نظر لگ گئی ہے۔ پرانے وارث کب کے جاچکے ، سندھ کا جھومر کراچی ایسے وارثوں کا منتظر ہے جو اس کے عاشق بھی ہوں۔
اس کاروبار میں بھی انھیں خوب کامیابی حاصل ہوئی اور 19ویں صدی کے آخری دور میں اس وقت کے کراچی کی آدھی زمینوں کے وہ واحد مالک ہوا کرتے تھے۔ انھوں نے جو پیسہ کمایا اسے فلاحی اور خیراتی کاموں میں دل کھول کر خرچ کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1899 میں آرڈر آف دی انڈین ایمپائر دینے کا اعلان کیا گیا اورانھیں یہ ایوارڈ یکم مارچ 1900 میں ملکہ وکٹوریہ کی جانب سے دیا گیا۔ ان کے بیٹے نادر شا ایڈلجی ڈنشا نے بھی ان کے مشن کو جاری رکھا۔
سندھ کے جھومر کراچی کو ایک یادگار شہر بنانے میں پارسیوں کا حصہ ناقابلِ فراموش ہے۔ ان کی تعمیرات اوران کے بنائے ہوئے اداروں کے نام کی گونج آج بھی ہمیں سنائی دیتی ہے ۔پارسیوں کو جدید تعلیم کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ تھا۔ وہ اپنی کاروباری اور انتظامی صلاحیتوں کے سبب انگریزوں کا دل جیت چکے تھے اور جانتے تھے کہ اگر انھوںنے ابتدائی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہ دی تو ان کی نئی نسل ترقی نہ کرسکے گی ۔
اس بات کو محسوس کرتے ہوئے یہ سیٹھ شاپورجی ہرمزجی سپاری والا اور ان کا خاندان تھا جس نے 1859ء میں بائی ویرجی سپاری والا اسکول کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ اسکول جو اس وقت پارسی بالک شالہ ( بچوں کا مکتب) کہلاتا تھا، دادا بھائی پالن جی پے ماسٹر کے گھر میں قائم کیا گیا تھا ، کراچی میں پارسی کمیونٹی کی آبادی بڑھی تو بالک شالہ کی عمارت چھوٹی پڑگئی ۔ شاپورجی ہرمزجی اپنی بیگم کے عاشق زار تھے۔ وہ 1869ء میں سورگ سدھار گئیں تو شاپورجی نے مئی 1870ء میں اسکول کو دس ہزار روپے کی خطیر رقم عطیہ کی ۔
شرط صرف یہ رکھی کہ اسکول ان کی سورگ باشی پتنی بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب ہوگا۔ اسکول کے ٹرسٹی حضرات کو اس بات پر بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔اُس وقت کے دس ہزار روپے آج کے لاکھوں روپوں کے برابر تھے۔
ستمبر 1870ء میں بائی ویر بائی جی کے نام سے منسوب اس تعلیمی ادارے کا افتتاح سندھ کے کمشنر سرولیم میری ویدر نے کیا اور پارسی کمیونٹی کے ایک محترم فرد جمشید جی فرام جی ماسٹر ،اس کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ۔اکتوبر 1904ء میں اس تعلیمی ادارے کے بنیاد گزار سیٹھ شاپورجی ہرمزجی کے بیٹے سیٹھ خورشید جی سپاری والا نے کراچی کی مشہور سڑک وکٹوریہ روڈ پر اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا جس میں آج بھی یہ اسکول قائم ہے ۔
کراچی کی ترقی میں پارسیوں نے جو ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا اس کے بارے میں مشہور محقق اور دانش ور اختر بلوچ نے ایک کمال مضمون لکھا تھا جس میں انھوں نے بابائے کراچی جمشید نسروان جی کا بڑی محبت سے ذکر کیا تھا۔ کراچی اور اس کے لوگوں سے ان کی محبت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ کراچی کے باسیوں سے ان کی محبت کی دلیل ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔
کراچی شہر میں بسنے والے لوگوں کے لیے ان کی خدمات کا کوئی شمار نہیں۔ وہ نہ صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ کسی جانور کو بھی دکھ یا تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ معروف ادیب اجمل کمال اپنی مرتبہ کتاب کراچی کی کہانی میں جمشید کے بارے میں پیر علی احمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ''میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ حالیہ ایم اے جناح روڈسے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو لے کر جانوروں کے اسپتال کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔
تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔ چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرادی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب نہ ہو جائے اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہو جائے۔ اس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے۔
جناب یہ تو جمشید کے دور میں شہر میں جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے ایک حقیقت تھی۔ آج اسی کراچی میں حال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان کسی حادثے میں زخمی ہو جائے تو اسے اسپتال پہنچانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ کیا لوگ تھے جو کراچی شہر میں بیمار یا زخمی جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے۔سائیں جی ایم سید ،جمشید نسروانجی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سندھ کی بمبئی سے علیحدگی والی تحریک میں انھوں نے بھرپور حصہ لیا۔
حاتم علوی اپنے ایک مضمون لکھتے ہیں کہ جس وقت جمشید نے کراچی میونسپلٹی کی صدارت سنبھالی اس وقت سڑکوں کی لمبائی چودہ میل تھی لیکن جب جمشید نے اپنا عہدہ چھوڑا تو اس وقت کراچی میں 76 میل لمبی پکی سڑکیں موجود تھیں۔ ان سڑکوں پر تار کول کی تہہ بچھائی گئی تھی، جس کے سبب یہ سڑکیں چمکتی ہوئی نظر آتی تھیں۔
کبول موٹوانی جو کئی برس تک ان کے سیکریٹری رہے، انھوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے ''جمشید مذہب کے اعتبار سے زرتشتی تھے، لیکن ان کی داخلی اور خارجی زندگی تمام مذاہب کے ظاہری اختلافات سے بلند تھی۔ ان کا سادہ ذاتی فلسفہ محبت، اتحاد اور دوستی کی بنیادوں پر قائم تھا اور اس کا عملی اظہار اپنے ارد گرد کے تمام انسانوں کی خدمت سے ہوتا تھا ۔ ان کا فیض، ذات پات اور مذہب کی تخصیص کے بغیر سب لوگوں تک پہنچتا تھا۔ وہ سیکڑوں افراد اور خاندانوں کی متواتر مالی امداد کرتے تھے۔
ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو وہ اپنی دراز سے فہرست بر آمد کرتے، کراچی میں رہنے والے خاندانوں کے نام نقد روپوں کے لفافے بناکر بھیجتے اور کراچی اور ہندوستان کے باہر کے خاندانوں کو منی آرڈر اور چیک کے ذریعے رقمیں بھیجتے۔ جب میں نے ان کے سیکریٹری کی ذمے داری سنبھالی توانھوں نے کمال مہربانی سے اس کام کا انتظام میرے سپرد کردیا اور گویا مجھے بھی اپنی نیکیوں میں حصے دار بنالیا۔ ہندوستان اور باہر کے اداروں اور تنظیموں کو دی جانے والی رقمیں زیادہ بڑی ہوتی تھیں۔ لگ بھگ 50 لاکھ روپے کی۔ یہ تمام سخاوت اس قدر راز داری سے کی جاتی تھی کہ لوگوں کے دلوں میں محض تشکر کے جذبے کے سوا جمشید نے اس کا کوئی مادی نشان نہیں چھوڑا۔''
جمشید نے عمر بھر شادی نہیں کی، نہایت سادہ زندگی گزاری۔ ہمیشہ کینوس کے جوتے پہنے کیونکہ چمڑے کے جوتے پہننے کا مطلب کسی جانور کی توہین تھا۔ سندھ لیجیسیلٹو اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے وہ بہ مشکل اس شرط پر راضی ہوئے کہ کسی سے ووٹ نہیں مانگا جائے گا۔ انتخابی اخراجات مقررہ حد سے تجاوز نہیں کریں گے اور ان کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔ وہ کامیاب ہوئے اور اتنی بھاری اکثریت سے کہ ان کے دوست بھی حیران رہ گئے۔
بات شروع ہوئی تھی ایڈلجی ڈنشا سے جو آج سے 172 سال پہلے 18 مئی کو پیدا ہوئے تھے۔ جنھوں نے سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردیا تھا۔ انھوں نے 12 اسپتال تعمیر کرائے لیکن ڈنشا خاندان کا سب سے بڑا تحفہ نادر شا ایڈلجی ڈنشا انجینئرنگ یونیورسٹی ہے جو این ای ڈی کے نام سے معروف ہے۔
اس ادارے کے زیادہ تر طالب علموں کو بھی یہ نہیں معلوم ہوگا کہ ان کا وہ کون محسن ہے جس نے یہ ادارہ بنایا تھا۔ کراچی، تقسیم سے قبل بھی اس خطے کا ایک ترقی یافتہ شہر تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے رہنے والے ہندو، پارسی،عیسائی اور مسلمان سب اس کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اب اس شہر کو نظر لگ گئی ہے۔ پرانے وارث کب کے جاچکے ، سندھ کا جھومر کراچی ایسے وارثوں کا منتظر ہے جو اس کے عاشق بھی ہوں۔