سیاسی لڑائیاں اور کورونا
حالات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاستدان اپنی صلاحیتیں کورونا کے خاتمے اور متاثر مریضوں کی مدد میں لگا دیں
ویسے تو ہر نیادن ہی غریب عوام کے لیے مشکلات کے پہاڑ لاتا ہے لیکن اس بار تو ایسی معاشی ابتریوں سے عوام کو روشناس کرایا گیاہے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔دنیا کی بدترین وباؤں میں سے ایک بدترین وبا کورونا وائرس رمضان سے پہلے ہی عوام پر مسلط ہوگئی ہے اور ہزاروں پاکستانی اس وبا کے نذر ہوگئے ہیں اور اموات کا سلسلہ جاری ہے۔
غریب طبقات کے لیے ہر ماہ ہی مشکلات لے آتا ہے لیکن اس رمضان نے کورونا کے خوف سے کاروبار پر اتنا برا اثر ڈالا ہے کہ ویسے تو تمام ملازم پیشہ افراد ہی مشکلات کا شکار ہیں لیکن لاکھوں دیہاڑی دار طبقات کا سب سے برا حشر ہوا، ان کا کام بند ہو گیا ہے اور وہ بے روزگاری کا شکار ہیں۔
اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسی کچھ ہے اور صوبائی پالیسی کچھ اور ، مرکز لاک ڈاؤن کے خلاف ہے کہ لاک ڈاؤن سے غریب عوام خاص طور پر دیہاڑی دار عوام ناقابل بیان مشکلات کا شکار ہو جائیں گے اور ان لاکھوں بھوکوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا، ملک میں جرائم بڑھ جائیں گے اور بھوکے عوام مایوسی کا شکار ہوکر سڑکوں پر آجائیں گے اور لااینڈ آرڈر کا گمبھیر مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ غریب مزدور روزانہ مزدوری کرتے ہیں، روزانہ دیہاڑی حاصل کرتے ہیں، ایسے روزانہ کے دیہاڑی دار طبقے کو فاقوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
دوسری طرف سندھ حکومت کا کہنا یہ ہے کہ اگر لاک ڈاؤن نہیں کیا گیا تو جانی نقصان بہت ہوگا اس لیے لاک ڈاؤن ضروری ہے۔ دونوں ہی حکومتوں کا موقف درست ہے لیکن مرکز کا موقف زیادہ بہتر یوں ہے کہ لاک ڈاؤن سے وبا کے اثرات تو کچھ کم ہوسکتے ہیں لیکن ملک میں جرائم کی بھرمار ہوگی، بھوکے لوگوں کے پاس جب روٹی حاصل کرنے کے جائز طریقے نہیں رہیں گے تو وہ مجبوراً ناجائز طریقوں کا سہارا لیں گے۔
اچھا ہوا کہ ہماری سپریم کورٹ نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کی پابندی نہ صرف ختم کردی ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کو چلانے کا حکم بھی دے دیا ہے، اب روڈ ٹرانسپورٹ بھی کھلے گا اور ریل کا پہیہ چل پڑا ہے۔ اس حکم سے بے روزگاروں کے لیے روزگار کے دروازے تو کھل جائیں گے لیکن کورونا کی بڑھوتری کے امکانات بہرحال پیدا ہوں گے، جن پر احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے قابو پانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ اچھا ہوا کہ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ دے کر اس مسئلے کو حل کردیا ،یہ نہ مرکز کی فتح ہے نہ سندھ حکومت کی شکست بلکہ زندگی کو رواں رکھنے کی ایک منطقی کوشش ہے، اگر مرکزی اور سندھ حکومت خلوص دل سے سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کریں تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔
بدقسمتی سے مرکز اور سندھ حکومت کے درمیان اختلافات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل پڑا ہے۔ اس کی ظاہری وجوہات کچھ ہی کیوں نہ ہوں اصل مسئلہ بلاول کی یہ خواہش ہے کہ وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی حاصل کرے ،یہ خواہش نہ غیر قانونی ہے، نہ غیر دستوری ،نہ غیر اخلاقی لیکن سیاست کے کچھ اصول ہوتے ہیں کچھ پروسیس ہوتے ہیں جنھیں فالو کرکے ہی سیاستدان کسی بھی منصب کی خواہش کر سکتاہے۔ رائج الوقت سیاست میں انتخابات ہی وہ راستہ ہے جو امیدواروں کو وزارت عظمیٰ تک لے جاتا ہے، بدقسمتی سے ہمارے ملک کے سیاستدانوں نے ایک طریقہ اپنالیا ہے کہ اگر وہ انتخابات میں ناکام ہوجاتے ہیں تو انتخابات جیتنے والے پر دھاندلی کا الزام لگا کر اسے سیاست بدر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عمران خان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے اور ہماری 72 سالہ روایت کے مطابق الیکشن جیتنا اور حکومت بنانا اشرافیہ کا حق ہے اور بدقسمتی سے اس حق کو حاصل کرنے کے لیے اشرافیہ عوام کے ووٹ کی بجائے دولت کو ذریعہ بنا لیتی ہے اس روایت پر دہائیوں سے عمل ہو رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو اشرافیہ اپنا خاندانی حق سمجھتی ہے اور اس حق کو حاصل کرنے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقے استعمال کرتی ہے اسی طرز سیاست نے ہمارے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔
ہم نے کورونا کے قاتلانہ اثرات سے اپنے کالم کا آغاز کیا تھا۔ اس وبا نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، ہمارے سیاستدانوں کی بہادری کا عالم یہ ہے کہ وہ کورونا کو نظرانداز کرکے اختلافی سیاست میں مصروف ہیں۔ کورونا وائرس ایک انتہائی خطرناک وبا ہے، کورونا جس انسان پر حملہ آور ہوتا ہے، اس کی جان لے کر چھوڑتا ہے۔ اب تک دنیا میں لاکھوں انسان کورونا کے شکار ہو چکے ہیں۔ وائرس کے شکار ہونے والوں کا تعلق عموماً غریب طبقات سے ہے کیونکہ وہ محنت مزدوری کے ساتھ احتیاط نہیں کرسکتے ،کورونا سے بچنے کے لیے جس احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، دن بھر ریت اور سیمنٹ کو اوڑھنا اور بچھونا سمجھنے والے مزدوروں کو دن میں پچیس مرتبہ صابن سے ہاتھ دھونے کا موقعہ مل سکتا ہے؟
حالات کی اس ستم ظریفی اور خطرناکی کا تقاضا یہ ہے کہ سارے سیاستدان آپس کی لڑائیوں کو فی الوقت بھلا کر اپنی ساری صلاحیتیں کورونا کے خاتمے اور کورونا سے متاثر مریضوں کی مدد کرنے میں لگا دیں۔ اس اہم کام بلکہ فرض کو نظرانداز کرکے اپنا وقت اور صلاحیتیں لڑائی جھگڑوں میں لگا دیں تو ملے گا کچھ نہیں ،کورونا کی زد میں آنے کے امکانات ضرور پیدا ہوسکتے ہیں۔ اب یہ سیاستدانوں پر منحصر ہے کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہیں یا کورونا کے خلاف جنگ کریں۔