دوا دعا اور احتیاط
احتیاط و دعا سے کورونا اور دیگر امراض سے بچاؤ کیا جاسکتا ہے۔
ہم زندگی میں کئی بار سنتے ہیں کہ شیرخوار بچے روتے ہیں تو انہیں ماں سے دودھ ملتا ہے، اگر بچوں کو کھیلتے ہوئے چوٹ لگ جائے یا کوئی دوسرا انہیں مارے تو اس صورت میں بھی وہ اپنی ماں کی طرف دوڑتے اور اس کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
ہر معاشرے میں ماں باپ کی محبت سود و زیاں سے بے نیاز ہوتی ہے اور لوگ اس والہانہ محبت کی مثال دیتے ہیں۔ ہمارا قادر و کارساز اﷲ رب العزت اپنے بندوںسے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کی مضبوطی ہمارے فائدے میں ہے، زندگی بھر ہر حال میں اسے پُکارنا بندگی کا تقاضا ہے۔ ہر امتحان میں اﷲ تعالیٰ سے امان طلب کریں، بے شک اس کے سوا کوئی شافی اور قادر و کارساز نہیں۔
احتیاط و دعا سے کورونا اور دیگر امراض سے بچاؤ کیا جاسکتا ہے۔ معبود برحق اپنے بندوں کو زندگی بھر نوازتا اور آزماتا رہتا ہے، وہ ہمیں نہیں ہم اسے جواب دہ ہیں۔ ہمارا خالق ہمیں آزمائے یہ اس کا حق ہے، دعا ہے الرحمن کے رحم و کرم سے ہم ہر امتحان میں کام یاب و کام ران رہیں۔
یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور مختلف امراض درحقیقت اہل اسلام کو آزمانے اور ان کے درجات بلند کرنے کے لیے ہیں۔ جس حادثے کے بعد انسان اﷲ تعالیٰ کے مزید قریب ہوجائے وہ امتحان ہے اور جو سانحہ اﷲ رب العزت سے دُور کردے وہ سزا ہے۔ اس اعتبار سے کورونا قدرت کی طرف سے انسانیت کا امتحان ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے محبوب اور انسانیت کے طبیب سرورکونین حضرت محمد ﷺ سمیت دوسرے پیغمبر اور صحابہ اکرام بھی علیل اور بعد ازاں رُو بہ صحت ہوتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ کے کئی اولیاء اگر بیمار نہ ہوتے تو یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے شاید ان کا معبود ان سے ناراض ہوگیا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کے فرمان ذی شان کا مفہوم ہے کہ بیماری مانگنا حرام لیکن اگر آجائے تو پھر رحمت ہے، بیماری سے تن درست ہونے والے انسان ایسے ہو تے ہیں جس طرح آج ہی پیدا ہوئے ہوں ۔ جس کا کسی وبائی بیماری کے سبب انتقال ہو وہ شہید ہے۔
کورونا وبا آنے سے دنیا بدل گئی ہے اور زیادہ تر لوگ اس کرب کے بعد معبود برحق کا قُرب تلاش کررہے ہیں۔ لیکن اب بھی اس عہد حاضر کے کئی مسلمان اپنے اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب سرورکونین حضرت محمد ﷺ کے دوٹوک احکامات پر حرام نہیں چھوڑتے مگر ڈاکٹرز کی نصیحت اور ان کے نسخے پر حلال بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ انسان میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے لیے ویسا ہی ہوں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں اور ایک دوسرے کے ساتھ وفا کا وقت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے رحم کا راستہ صلۂ رحمی سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس آزمائش کے وقت ہمیں صلۂ رحمی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اﷲ تعالی کے قُرب کا طلب گار ہونا چاہیے۔
ہر معاشرے میں ماں باپ کی محبت سود و زیاں سے بے نیاز ہوتی ہے اور لوگ اس والہانہ محبت کی مثال دیتے ہیں۔ ہمارا قادر و کارساز اﷲ رب العزت اپنے بندوںسے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کی مضبوطی ہمارے فائدے میں ہے، زندگی بھر ہر حال میں اسے پُکارنا بندگی کا تقاضا ہے۔ ہر امتحان میں اﷲ تعالیٰ سے امان طلب کریں، بے شک اس کے سوا کوئی شافی اور قادر و کارساز نہیں۔
احتیاط و دعا سے کورونا اور دیگر امراض سے بچاؤ کیا جاسکتا ہے۔ معبود برحق اپنے بندوں کو زندگی بھر نوازتا اور آزماتا رہتا ہے، وہ ہمیں نہیں ہم اسے جواب دہ ہیں۔ ہمارا خالق ہمیں آزمائے یہ اس کا حق ہے، دعا ہے الرحمن کے رحم و کرم سے ہم ہر امتحان میں کام یاب و کام ران رہیں۔
یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور مختلف امراض درحقیقت اہل اسلام کو آزمانے اور ان کے درجات بلند کرنے کے لیے ہیں۔ جس حادثے کے بعد انسان اﷲ تعالیٰ کے مزید قریب ہوجائے وہ امتحان ہے اور جو سانحہ اﷲ رب العزت سے دُور کردے وہ سزا ہے۔ اس اعتبار سے کورونا قدرت کی طرف سے انسانیت کا امتحان ہے۔
اﷲ تعالیٰ کے محبوب اور انسانیت کے طبیب سرورکونین حضرت محمد ﷺ سمیت دوسرے پیغمبر اور صحابہ اکرام بھی علیل اور بعد ازاں رُو بہ صحت ہوتے رہے۔ اﷲ تعالیٰ کے کئی اولیاء اگر بیمار نہ ہوتے تو یہ سوچ کر پریشان ہوجاتے شاید ان کا معبود ان سے ناراض ہوگیا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ کے فرمان ذی شان کا مفہوم ہے کہ بیماری مانگنا حرام لیکن اگر آجائے تو پھر رحمت ہے، بیماری سے تن درست ہونے والے انسان ایسے ہو تے ہیں جس طرح آج ہی پیدا ہوئے ہوں ۔ جس کا کسی وبائی بیماری کے سبب انتقال ہو وہ شہید ہے۔
کورونا وبا آنے سے دنیا بدل گئی ہے اور زیادہ تر لوگ اس کرب کے بعد معبود برحق کا قُرب تلاش کررہے ہیں۔ لیکن اب بھی اس عہد حاضر کے کئی مسلمان اپنے اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب سرورکونین حضرت محمد ﷺ کے دوٹوک احکامات پر حرام نہیں چھوڑتے مگر ڈاکٹرز کی نصیحت اور ان کے نسخے پر حلال بھی چھوڑ دیتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ انسان میرے بارے میں جیسا گمان رکھتا ہے میں اس کے لیے ویسا ہی ہوں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاؤں اور ایک دوسرے کے ساتھ وفا کا وقت ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے رحم کا راستہ صلۂ رحمی سے ہو کر گزرتا ہے۔ اس آزمائش کے وقت ہمیں صلۂ رحمی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اﷲ تعالی کے قُرب کا طلب گار ہونا چاہیے۔