بد قسمت پرواز
پی آئی اے کا یہ طیارہ بھی بظاہر ٹھیک تھا لیکن اگر ایسا تھا تو پھر یہ حادثہ کیونکر ہوا۔
یہ 22مئی 2020کا واقعہ ہے۔رمضان کریم کی 28تاریخ،سہ پہر کا تقریباً وقت۔جب پی آئی اے کی پرواز PK-8303,AIR BUS 320 نے لاہور سے کراچی 99مسافروں اور عملے کے سات ارکان سمیت اڑان بھری۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق کراچی ایئر پورٹ سے چند ناٹیکل میل کے فاصلے پر ایئر کنٹرول ٹاور سے رابطہ ہونے پر پتہ چلا کہ جہاز ابھی تک بہت بلندی پر ہے اور جہاز کی رفتار بھی بہت زیادہ ہے۔ پائلٹ کو یہ بتایا گیا لیکن اس نے جواب میں کہا کہ وہ comfortableہے۔
اتنی بلندی اور تیز رفتاری سے لینڈنگ نہیں ہو سکتی لیکن پھر SOPکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرواز کو لینڈنگ کی اجازت دی گئی۔وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا جہاز لینڈ نہ کر سکا اور پائلٹ نے دوبارہ لینڈنگ کے لیے آنے کا فیصلہ کیا۔اس دوران جہازتھوڑا سا ڈُوبا اور اوپر اٹھنے سے پہلے اس کے انجن رن وے پر شدید رگڑ کھا گئے جس سے دونوں انجنوں کوشدید نقصان پہنچا۔ اس کے بعد جہاز نے دوبارہ چکر لگا کر رن وے پر اترنے کی کوشش کی لیکن انجن ناکارہ ہو جانے کی وجہ سے مے ڈے ،مے ڈے کی صدا لگاتے ہوئے، رن وے تک پہنچنے کی کوشش کی۔طیارہ رن وے سے صرف چند سو میٹر شاید چالیس پچاس سیکنڈ کی دوری پر اپنے راستے میں آنے والی ایک رہائشی بستی پر گر گیا۔
ایک رپورٹ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ راستے میں آنے والی ایک بلند عمارت کی غیر قانونی تعمیر شدہ پانی کی ٹینکی سے جہاز کا ایک پر ٹکرا گیا۔اس جانکاہ حادثے میں پائلٹ، معاون پائلٹ ،عملے کے تمام افراد اور 97 معصوم شہری یکدم لقمہء اجل بن گئے۔صرف دو انتہائی خوش قسمت مرد حضرات بچ سکے۔طیارہ آبادی کے جن گھروں کے اوپر گرا وہاں آگ لگ گئی اور بہت جانی و مالی نقصان ہوا۔ کئی گاڑیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔ابھی تک سرکاری ذرایع نے آبادی کی اموات اور نقصان کی تفصیلات جاری نہیں کیں البتہ اخباری رپورٹوں سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آبادی کے کافی لوگ غائب ہیں مل نہیں رہے۔
ایک اور دکھ کی خبر یہ ملی کہ کچھ لوگوں نے مرنے والے مسافروں اور جلتے گھروں میں خوب لُوٹ مار کی۔ ہمارے کچھ لوگوں کا یہ برتائو انتہائی دکھ دینے والا ہے۔ اس سے پہلے Air Blue کی پرواز جب مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا کر کریش کر گئی تھی تب بھی جہاں مدد کرنے کی خوبصورت مثالیں سامنے آئیں وہیں یہ دکھ بھری واردات بھی سامنے آئی کہ کچھ لوگوں نے مرنے والے مسافروں کے سامان کو لوٹا اور ایک مرحومہ جس نے کلائی پر جیولری پہن رکھی تھی ایک سفاک شقی القلب اس کلائی کو ہی کاٹ کر لے گیا۔کسی بھی انسان سے اس سے زیادہ بھیانک اور غلیظ حرکت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
پی آئی اے کی یہ پرواز ایئر بس 320 میں ہو رہی تھی ، یہ جہاز اس وقت دنیا کا محفوظ ترین طیارہ گردانا جاتا ہے ،پی آئی اے کا یہ طیارہ کوئی بہت پرانا بھی نہیں تھا ویسے ایئر انڈسٹری سے متعلقہ ماہرین کی رائے میں کوئی بھی جہاز خواہ وہ کتنا ہی عرصہ چل چکا ہو پرانا نہیں ہوتا۔ اپنی سروس کے دوران مِڈ کیریئر لیول پر قومی اسمبلی میں خدمات انجام دیتے ہوئے کامرہ میراج ری بلڈ فیکٹری جانے کا موقع ملا۔ مرحوم رائو سکندر اقبال اسٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین تھے اور راقم الحروف اس کمیٹی کا سیکریٹری۔
کامرہ میں دی گئی Presentationکے دوران یہ کہا گیا کہ جہاز کبھی پرانا نہیں ہوتا۔پوچھا وہ کیسے تو جواب دیا گیا کہ کسی بھی جہاز کے ہر پُرزے کی زیرِ استعمال ہونے کی ایک عمر ہوتی ہے جب کوئی پرزہ اپنی افادیت کی عمر پوری کر لیتا ہے تو اس کو ایک بالکل نئے یا قابلِ استعمال پرزے سے بدل دیا جاتا ہے اس لیے اگر مرمت اور پرزے بدلنے کا یہ عمل اپنے ٹھیک وقت پر ماہرین کے ہاتھوں تکمیل پاتا رہے تو جہاز کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا۔
پی آئی اے کا یہ طیارہ بھی بظاہر ٹھیک تھا لیکن اگر ایسا تھا تو پھر یہ حادثہ کیونکر ہوا۔ہمیں ماننا پڑے گا کہ موجودہ وقت میں ہماری قومی ائیر لائن کی حالت بہت نا گفتہ بہ ہے۔ سب مانتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب پی آئی اے دنیا کی بہترین ہوائی کمپنی گردانی جاتی تھی اور ایک یہ وقت! اس وقت دنیا کی شاید ہی چند اور ایسی ایئر لائنز ہوں جن کا اتنا برا حال ہو جتنا ہماری قومی ہوائی کمپنی کا ہے۔
سروس کے دوران ایک وفاقی وزیر جو اس وقت بھی وزیر ہیں انھوں نے بتایا کہ ایک موقع پر جب وہ وزیر نہیں تھے تو شمالی کوریا اپنے بزنس کے سلسلے میں جانا ہوا،کہنے لگے کہ جب شمالی کوریا کے دارالحکومت سے واپسی کا سفر ہونے لگا تو شمالی کورین ایئر لائن کے طیارے کے فیول ٹینک سے پرواز سے چند منٹ پہلے جب کہ مسافر جہاز میں بیٹھ چکے تھے تیل رِسنا شروع ہو گیا۔ شمالی کوریا پر تب شدید پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ طیارے کے عملے نے صابن کی دو ٹکیاںمنگوائیں اور تیل رسنے والی جگہ پر صابن گچ کر کے لگا دیا۔ تیل رسنا بند ہو گیا اور جہاز اُڑا دیا گیا۔شاید ہم بھی ایسے ہی کام چلا رہے ہیں۔
جناب نور الہدیٰ شاہ نے ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ" کچھ سال پہلے جدہ میں ہماری طرح کی ایک بدحال ائیر لائن کے ایک افسر سے سنا کہ طیارے کے کسی پرزے کے خراب ہو جانے پر اس کو بدلنے کے لیے ایک خطیر رقم منظور کروائی جاتی ہے پھر وہ رقم چند جیبوں میں چلی جاتی ہے اور ویسا ہی پرزہ کسی کباڑ مارکیٹ سے ڈھونڈ لیا جاتا یا بنوا لیا جاتا ہے جو معمولی رقم میں بن جاتا ہے۔بقول اس افسر کے طیارے کا کوئی ایک سکریو بھی کمپنی کے علاوہ کہیں اور سے نہیں لے سکتے کیونکہ اس کی فٹنگ کا معیار وہی سمجھتے ہیں۔پھر انھی افسر سے ایک دلچسپ واقعہ سنا۔
ایک بدحال ائیر لائن کا ایک جہاز رمضان میں عمرے والوں کو لے کر جدہ پہنچا۔لینڈنگ کے وقت پتہ چلا کہ آگے کا پہیہ ڈھیلا ہے اور کسی بھی وقت نکل سکتا ہے۔جہاز لینڈ تو کر گیا۔ عملے نے رسی کی ڈوریوں سے اس پہیے کو مضبوط کیا اور واپس اس کے ملک روانہ کر دیا۔پھر انھوں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہاکہ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی ڈوریوں بندھا جہاز واپس جدہ بھی آیا اور پھر دوبارہ واپس اپنے ملک روانہ ہو گیا۔
کباڑ مارکیٹ سے یاد آیا کہ کراچی میں شیر شاہ مارکیٹ کی بھی ایسی ہی شہرت ہے یہاں سے بھی ہر قسم کے پرزہ جات مل جاتے ہیں۔پھر ایک اور صاحب سے یہ بھی سنا کہ جہازوں کے اندر جو تار ہیں وہ بھی جگہ جگہ سے ٹیپ لگا کر جوڑے جاتے ہیں۔اس معاملے میں کتنی سچائی ہے تحقیقات کرتے وقت ان امور کو بھی مد نظر رکھا جائے۔
ایسی بھی اطلاعات آتی رہتی ہیں کہ عین ٹیک آف سے قبل معلوم ہوتا ہے کہ طیارے کا صرف ایک انجن کام کر رہا ہے ۔ ایسا ہی واقعہ ٹورنٹو ائیر پورٹ پر بھی سننے میں آیا۔ایک اور بات جو ہر حادثے ، ہر جنگی معرکے اور ہر میچ میں دیکھی گئی ہے کہ ہم صورتحال منفی ہونے پر یعنی ایمر جنسی کی صورتحال میں حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں ایمر جنسی سے نبٹنے کی تربیت بھی نہیں دی گئی اور شاید یہ ہمارے Genesجینز میں بھی نہیں۔اﷲ ہماری حفاظت کرے،خیر رکھے اور قومی سطح پر کسی اصل ایمرجنسی سے دور رکھے۔ ہماری کوتاہیوں کے باوجوداﷲ ہمارے پیارے وطن کا اور ہمارا نگہبان ہو ،آمین۔