بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی اور انٹرنیٹ
عام آدمی کو شہر آنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے
ملک کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) نے تمام یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کیں کہ تدریس کا سلسلہ برقرار رکھنے کے لیے Online Classes کا طریقہ اپنایا جائے۔ بلوچستان کے طلبہ اس فیصلہ پر چیخ اٹھے۔ بلوچستان میں جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال اب بھی ممنوع ہے، یوں بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے طلبہ Online Classes سے اسی طرح محروم رہ گئے جس طرح وہ تعلیم کے شعبہ میں باقی تینوں صوبوں سے محروم ہیں۔ بلوچستان 21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے اختتام تک تعلیمی سیکٹر میں انفرااسٹرکچر ، طالب علموں خاص طور پر طالبات کی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے اور اساتذہ اور ان کی اہلیت کے حوالہ سے بہت زیادہ پسماندہ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے تعلیم کے ادارہ یونیسیف کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں 60سے 70 فیصد بچے اسکول میں داخلہ نہیں لے پاتے ۔ تعلیم کے شعبہ میں بہتری کے لیے متحرک غیرسرکاری تنظیم ''الف اعلان ''کے سروے کے مطابق بلوچستان میں صرف 1,1627 اسکول رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 1,271 مڈل اور 947 ہائی اسکول ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جو 60سے 70 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے ان میں سے 78 فیصد لڑکیاں اور 67 فیصد لڑکے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ہر 30 کلومیٹر کے بعد ایک پرائمری اسکول ، 260 کلومیٹر کے فاصلہ پر مڈل اسکول اور ہر 360 کلومیٹر کے فاصلہ پر سیکنڈری اسکول قائم کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں گاؤں دور دور ہیں اور گاؤں اور شہروں میں فاصلہ بہت طویل ہے۔
عام آدمی کو شہر آنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ساری صورتحال کا نقصان بچوں کو ہوتا ہے۔ بچوں کے والدین کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو اتنا طویل فاصلہ طے کرا کے اسکول پہنچانے کے متحمل ہوسکیں۔ اس ساری صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان لڑکیوں کو ہوتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت کا ذہن لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں پسماندہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ والدین کسی طرح اپنے لڑکوں کو اسکول پہنچانے کا انتظام تو کر لیتے ہیں مگر لڑکیاں گھروں تک محدود رہتی ہیں۔ بلوچستان میں طالبات کے اسکول سے تعلیم مکمل کیے بغیر ڈراپ آؤٹ ہونے کی شرح پورے ملک سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ اسکولوں کا دور ہونا ہے۔ یہی صورتحال کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ہے۔ بلوچستان میں 70 کی دہائی تک نہ تو اپنا تعلیمی بورڈ تھا نہ کوئی یونیورسٹی تھی۔ جب 1972ء میں پہلی دفعہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور میر غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ بنے تو بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی کوئٹہ میں قائم کی گئی۔ بلوچستان کی حکومت نے معروف ماہر تعلیم پروفیسر کرار حسین کو پہلا وائس چانسلر مقرر کیا۔
عینی شاہدین کہتے ہیں کہ جب پروفیسر کرار حسین کراچی سے طیارہ کے ذریعے کوئٹہ ایئرپورٹ پہنچے تو گورنر غوث بخش بزنجو نے ان کا خود استقبال کیا اور ان کا بیگ خود سنبھال لیا۔ پروفیسر صاحب کو پہلے کوئٹہ کے گورنر ہاؤس لے جایا گیا جہاں سے وہ اپنی رہائش گاہ گئے۔ نیپ حکومت نے ہی بلوچستان کا پہلا بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں قائم کیا۔
2013 میں مکران سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان اشتراکی ڈاکٹر مالک بلوچ جن کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے صوبہ کے وزیر اعلیٰ بنے۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان کے تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے نیشنل پارٹی کے منشور پر عمل کرتے ہوئے تعلیم کا بجٹ 4فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد کردیا۔ پھر صوبہ کے لیے چھ یونیورسٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ یونیورسٹیاں سبی، خضدار، لورالائی، کچھ، گوادر اور نصیر آباد میں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر خضدار، لورالائی اور کچھ میں نئے میڈیکل کالج قائم ہوئے۔
ڈاکٹر مالک کے دور میں تربت یونیورسٹی کا گوادر کیمپس بنایا گیا۔ پھر ثناء اﷲ زہری کے دور میں اس کیمپس کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا مگر موجودہ حکومت کے دور میں اس یونیورسٹی کی تعمیر مسلسل التواء کا شکار ہے۔ ثناء اﷲ زہری وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر مالک کی پالیسیوں کو جاری رکھا مگر باپ پارٹی کی حکومت آئی اور جام کمال وزیر اعلیٰ بنے تو تعلیم کے شعبہ کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ گذشتہ حکومتوں کے کئی پروجیکٹ مختلف وجوہات کی بناء پر التواء کا شکار ہوئے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل نے خضدار کے علاقہ میں یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے اپنی زمین عطیہ کے طور پر دی مگر یہ یونیورسٹی اب تک تعمیر نہیں ہوسکی۔ اب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختر مینگل نے اپنے ایک گھر میں پرائمری اسکول قائم کیا ۔بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ کا شمار پاکستان کے واحد خوش نصیب شخص کی حیثیت سے ہوتا ہے کہ ان کے دادا جام غلام قادر اور پھر والد جام یوسف وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہے۔ ان کے دادا کو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ طویل ترین وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل ہے مگر اس خاندان نے کبھی تعلیم کو عام کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اسی تناظر میں موجودہ وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کہ ایک یونیورسٹی تو سنبھل نہیں رہی ہے مزید یونیورسٹیاں کیسے قائم ہوسکتی ہیں۔
بلوچستان کے ایک رہنما جان بلیدی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے خاتمہ کی کوئی امید نہیں ہے اور اس کی بناء پر تعلیمی ادارے بند ہیں۔ پختون خوا، پنجاب اور سندھ میں اسکولوں و کالجوں کے طلبہ کو تدریس سے منسلک کرنے کے لیے Online کلاسوں کو رائج کیا جارہا ہے۔ ان صوبوں کے بڑے چھوٹے شہروں میں بچے کسی حد تک اس جدید طریقہ سے کچھ سیکھ رہے ہیں مگر بلوچستان میں ابھی انٹرنیٹ ہی نایاب ہے۔ بلوچستان میں جنگوں سے ہمدردی رکھنے والے ایک صحافی جو کراچی میں مقیم ہیں نے بتایا کہ مکران ڈویژن کے علاوہ کئی اور علاقوں میں سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی بناء پر 3G اور 4G کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔
بلوچستان کے بیشتر طلبہ کے والدین معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ ان کے لیے اپنے بچوں کے لیے کتابیں کاپیاں فراہم کرنا مشکل ہے۔ اس صورتحال میں وہ لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کی سہولت فراہم کر ہی نہیں سکتے۔ بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ برسر اقتدار حکومتوں نے سوائے نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومتوں کے کبھی بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے بارے میں کسی حکومت نے عملی اقدامات نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت سے پہلے ہر حکومت کا تعلیمی بجٹ انتہائی کم رہا۔ کوئٹہ میں مقیم دانشوروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی حکومتیں کبھی بھی بجٹ بنانے میں مکمل طور پر خودمختار نہیں رہیں۔ اسلام آباد سے تقرر کیے جانے والے بیوروکریٹ بجٹ تیار کرتے رہے۔
ان بیوروکریٹس نے کبھی اس حقیقت کو محسوس نہیں کیا کہ بلوچستان تعلیمی طور پر پسماندہ ہے اور بلوچستان میں نجی شعبہ نے صرف کوئٹہ میں تعلیمی ادارے قائم کرنے میں دلچسپی لی ہے۔ اس صورت میں بلوچستان کا تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ ہونا چاہیے تھا ۔ ایک سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ اگر 1972 میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم نہ ہوتی تو بلوچستان میں نہ تو یونیورسٹی نہ میڈیکل کالج قائم ہوتا۔ بقول ایک سیاسی کارکن کے بلوچستان کے لوگوں نے سخت جدوجہد کرکے ہی تعلیمی سہولتیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان کے کچھ اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے دیہاڑی دار مزدوروں کی بہبود کے لیے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی ۔ وہ تعلیم کے لیے برسوں سے کام کررہے ہیں ۔
دنیا بھر سے ملنے والے عطیات کے ذریعے میانوالی میں ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی قائم کرچکے ہیں۔ انھیں بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم کے ادارہ نے یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے Online کلاسوں کا نسخہ تجویز کیا۔ وزیر اعظم کی پسندیدہ حکومت بلوچستان میں قائم ہے۔ انھیں بلوچستان کی حکومت کو ہدایت کرنی چاہیے کہ بجٹ کا 40 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرے ، اور آن لائن کلاسوں سے استفادہ کے لیے طلبہ میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی اسکیم شروع کی جائے۔ وزیر اعظم کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولت پر عائد پابندی ختم کردی گئی ہے۔ شاید بلوچستان کے طلبہ کو اس فیصلہ سے کوئی تشفی ہوسکے۔
اقوام متحدہ کے تعلیم کے ادارہ یونیسیف کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلوچستان میں 60سے 70 فیصد بچے اسکول میں داخلہ نہیں لے پاتے ۔ تعلیم کے شعبہ میں بہتری کے لیے متحرک غیرسرکاری تنظیم ''الف اعلان ''کے سروے کے مطابق بلوچستان میں صرف 1,1627 اسکول رجسٹرڈ ہیں جن میں سے 1,271 مڈل اور 947 ہائی اسکول ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں جو 60سے 70 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے ان میں سے 78 فیصد لڑکیاں اور 67 فیصد لڑکے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ہر 30 کلومیٹر کے بعد ایک پرائمری اسکول ، 260 کلومیٹر کے فاصلہ پر مڈل اسکول اور ہر 360 کلومیٹر کے فاصلہ پر سیکنڈری اسکول قائم کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں گاؤں دور دور ہیں اور گاؤں اور شہروں میں فاصلہ بہت طویل ہے۔
عام آدمی کو شہر آنے کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس ساری صورتحال کا نقصان بچوں کو ہوتا ہے۔ بچوں کے والدین کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اپنے بچوں کو اتنا طویل فاصلہ طے کرا کے اسکول پہنچانے کے متحمل ہوسکیں۔ اس ساری صورتحال کا سب سے زیادہ نقصان لڑکیوں کو ہوتا ہے۔ بلوچستان کے لوگوں کی اکثریت کا ذہن لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں پسماندہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ والدین کسی طرح اپنے لڑکوں کو اسکول پہنچانے کا انتظام تو کر لیتے ہیں مگر لڑکیاں گھروں تک محدود رہتی ہیں۔ بلوچستان میں طالبات کے اسکول سے تعلیم مکمل کیے بغیر ڈراپ آؤٹ ہونے کی شرح پورے ملک سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ اسکولوں کا دور ہونا ہے۔ یہی صورتحال کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ہے۔ بلوچستان میں 70 کی دہائی تک نہ تو اپنا تعلیمی بورڈ تھا نہ کوئی یونیورسٹی تھی۔ جب 1972ء میں پہلی دفعہ بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور میر غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ بنے تو بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی کوئٹہ میں قائم کی گئی۔ بلوچستان کی حکومت نے معروف ماہر تعلیم پروفیسر کرار حسین کو پہلا وائس چانسلر مقرر کیا۔
عینی شاہدین کہتے ہیں کہ جب پروفیسر کرار حسین کراچی سے طیارہ کے ذریعے کوئٹہ ایئرپورٹ پہنچے تو گورنر غوث بخش بزنجو نے ان کا خود استقبال کیا اور ان کا بیگ خود سنبھال لیا۔ پروفیسر صاحب کو پہلے کوئٹہ کے گورنر ہاؤس لے جایا گیا جہاں سے وہ اپنی رہائش گاہ گئے۔ نیپ حکومت نے ہی بلوچستان کا پہلا بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں قائم کیا۔
2013 میں مکران سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان اشتراکی ڈاکٹر مالک بلوچ جن کا تعلق متوسط طبقہ سے ہے صوبہ کے وزیر اعلیٰ بنے۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان کے تعلیمی شعبہ میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوئیں۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے نیشنل پارٹی کے منشور پر عمل کرتے ہوئے تعلیم کا بجٹ 4فیصد سے بڑھا کر 24 فیصد کردیا۔ پھر صوبہ کے لیے چھ یونیورسٹیاں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ یونیورسٹیاں سبی، خضدار، لورالائی، کچھ، گوادر اور نصیر آباد میں قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پھر خضدار، لورالائی اور کچھ میں نئے میڈیکل کالج قائم ہوئے۔
ڈاکٹر مالک کے دور میں تربت یونیورسٹی کا گوادر کیمپس بنایا گیا۔ پھر ثناء اﷲ زہری کے دور میں اس کیمپس کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا مگر موجودہ حکومت کے دور میں اس یونیورسٹی کی تعمیر مسلسل التواء کا شکار ہے۔ ثناء اﷲ زہری وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے تعلیم کے بارے میں ڈاکٹر مالک کی پالیسیوں کو جاری رکھا مگر باپ پارٹی کی حکومت آئی اور جام کمال وزیر اعلیٰ بنے تو تعلیم کے شعبہ کو نظرانداز کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ گذشتہ حکومتوں کے کئی پروجیکٹ مختلف وجوہات کی بناء پر التواء کا شکار ہوئے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل نے خضدار کے علاقہ میں یونیورسٹی میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے اپنی زمین عطیہ کے طور پر دی مگر یہ یونیورسٹی اب تک تعمیر نہیں ہوسکی۔ اب سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اختر مینگل نے اپنے ایک گھر میں پرائمری اسکول قائم کیا ۔بلوچستان کے موجودہ وزیر اعلیٰ کا شمار پاکستان کے واحد خوش نصیب شخص کی حیثیت سے ہوتا ہے کہ ان کے دادا جام غلام قادر اور پھر والد جام یوسف وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہے۔ ان کے دادا کو ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ طویل ترین وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز حاصل ہے مگر اس خاندان نے کبھی تعلیم کو عام کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اسی تناظر میں موجودہ وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کہ ایک یونیورسٹی تو سنبھل نہیں رہی ہے مزید یونیورسٹیاں کیسے قائم ہوسکتی ہیں۔
بلوچستان کے ایک رہنما جان بلیدی کہتے ہیں کہ کورونا وائرس کے خاتمہ کی کوئی امید نہیں ہے اور اس کی بناء پر تعلیمی ادارے بند ہیں۔ پختون خوا، پنجاب اور سندھ میں اسکولوں و کالجوں کے طلبہ کو تدریس سے منسلک کرنے کے لیے Online کلاسوں کو رائج کیا جارہا ہے۔ ان صوبوں کے بڑے چھوٹے شہروں میں بچے کسی حد تک اس جدید طریقہ سے کچھ سیکھ رہے ہیں مگر بلوچستان میں ابھی انٹرنیٹ ہی نایاب ہے۔ بلوچستان میں جنگوں سے ہمدردی رکھنے والے ایک صحافی جو کراچی میں مقیم ہیں نے بتایا کہ مکران ڈویژن کے علاوہ کئی اور علاقوں میں سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے کی بناء پر 3G اور 4G کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔
بلوچستان کے بیشتر طلبہ کے والدین معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ ان کے لیے اپنے بچوں کے لیے کتابیں کاپیاں فراہم کرنا مشکل ہے۔ اس صورتحال میں وہ لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون کی سہولت فراہم کر ہی نہیں سکتے۔ بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ برسر اقتدار حکومتوں نے سوائے نیشنل عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کی حکومتوں کے کبھی بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی کو ختم کرنے کے بارے میں کسی حکومت نے عملی اقدامات نہیں کیے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت سے پہلے ہر حکومت کا تعلیمی بجٹ انتہائی کم رہا۔ کوئٹہ میں مقیم دانشوروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی حکومتیں کبھی بھی بجٹ بنانے میں مکمل طور پر خودمختار نہیں رہیں۔ اسلام آباد سے تقرر کیے جانے والے بیوروکریٹ بجٹ تیار کرتے رہے۔
ان بیوروکریٹس نے کبھی اس حقیقت کو محسوس نہیں کیا کہ بلوچستان تعلیمی طور پر پسماندہ ہے اور بلوچستان میں نجی شعبہ نے صرف کوئٹہ میں تعلیمی ادارے قائم کرنے میں دلچسپی لی ہے۔ اس صورت میں بلوچستان کا تعلیمی بجٹ سب سے زیادہ ہونا چاہیے تھا ۔ ایک سیاسی کارکن کا کہنا ہے کہ اگر 1972 میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم نہ ہوتی تو بلوچستان میں نہ تو یونیورسٹی نہ میڈیکل کالج قائم ہوتا۔ بقول ایک سیاسی کارکن کے بلوچستان کے لوگوں نے سخت جدوجہد کرکے ہی تعلیمی سہولتیں حاصل کی ہیں۔ بلوچستان کے کچھ اضلاع میں سیکیورٹی کی صورتحال خراب ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے دیہاڑی دار مزدوروں کی بہبود کے لیے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی ۔ وہ تعلیم کے لیے برسوں سے کام کررہے ہیں ۔
دنیا بھر سے ملنے والے عطیات کے ذریعے میانوالی میں ایک بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی قائم کرچکے ہیں۔ انھیں بلوچستان کی تعلیمی پسماندگی پر فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کی زیر نگرانی کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم کے ادارہ نے یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے Online کلاسوں کا نسخہ تجویز کیا۔ وزیر اعظم کی پسندیدہ حکومت بلوچستان میں قائم ہے۔ انھیں بلوچستان کی حکومت کو ہدایت کرنی چاہیے کہ بجٹ کا 40 فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کرے ، اور آن لائن کلاسوں سے استفادہ کے لیے طلبہ میں مفت لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی اسکیم شروع کی جائے۔ وزیر اعظم کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ پورے بلوچستان میں انٹرنیٹ کی سہولت پر عائد پابندی ختم کردی گئی ہے۔ شاید بلوچستان کے طلبہ کو اس فیصلہ سے کوئی تشفی ہوسکے۔