ڈاکٹر صاحب اور پاکستان
پاکستان بن گیا اپنے ایک دشمن کو ساتھ لے کر جس کا نام بھارت تھا اور جس پر ہندو کی حکومت تھی
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جب تک ہمارے ساتھ موجود ہیں ان کا بار بار ذکر ایک طرح سے احسان مندی کا عوامی اظہار ہے اور میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کے متعلق ہماری نئی نسل کو بھی معلومات ہوں کہ وہ شخص کون ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت میں چین اور آرام کی نیند سوتے ہیں۔
نوجوان نسل کو یہ یاد دہانی بار بار کرانی انتہائی ضروری ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے اس کو اپنے محسنوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ۔ یہ ہم بزرگوں کا فرض اور ہم پر قرض ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اپنے محسنوں اور ان کے احسانوں کے بارے میں آگاہ کریں تا کہ وہ اپنی آیندہ نسلوں کو یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ کون لوگ تھے جن کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد، خودمختاراور باوقار ملک ہے ۔
پاکستان بن گیا اپنے ایک دشمن کو ساتھ لے کر جس کا نام بھارت تھا اور جس پر ہندو کی حکومت تھی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان دونوں قوموں کی طرح ایک تاریخی چپقلش مزید سخت ہو گئی ۔ جنگیں ہوئیں ، فوجی آمریتوں کی وجہ سے پاکستان وہ پاکستان نہ بن سکا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کا نقشہ قائد اعظم کے ذہن میں تھا اور جس میں انھوں نے رنگ بھرنے شروع کر دیے تھے۔
غیر جمہوری حکومتوں کی وجہ سے پاکستان چالاک اور سمجھدار ہندو کے مقابلے میںکمزور ہو کردولخت ہو گیا لیکن اس سانحہ نے ایک ایسا لیڈر پیدا کر دیا جس کو دنیا ڈاکٹر قدیر خان کے نام سے جانتی ہے بلکہ جانتی کیا لرزتی ہے اور ان کو پابند کرنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے ۔
اس لیڈر نے سقوط ڈھاکہ کے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ پاکستان پر پھر ایسا وقت نہیں آنے دے گا۔ ان کے اس نعرے کا جواب دینے کے لیے کوئی سیاسی ورکر تو موجود نہیں تھے جو واہ واہ کرتے لیکن اس نے اپنے ساتھی ایسے منتخب کیے جن کے ساتھ مل کر اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے وعدے اور اس کے لیے لگائے گئے نعرے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ چونکہ یہ نعرہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کو لگانے والا کوئی سیاسی لیڈر تھا جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرے لگاتے رہتے ہیں یہ ایک سچا پاکستانی تھا جس نے قوم کے ساتھ اپنی وفاداری کو ثابت کردکھایا۔
اس نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر اپنی قیادت میں ایٹم بم بنایا جس پر قوم نے اسے محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے اس کارنامے سے ٹوٹا ہوا پاکستان مہ کامل بن کر دنیا کے آسمان پر جگمگانے لگا اور پاکستانی قوم کیا بلکہ پوری مسلم اُمہ ان کے اس کارنامے سے سرشار ہو گئی اور مخالفوں کے سینوں میں یہ تیر بن کر اتر گیا انھوں نے اسے مسلمان دشمنی میں اسے ''مسلم بم'' کا نام دے دیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مورخ جب پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو پاکستان دو آدمیوں کے نام سے جانا جائے گا ایک قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن میں سے ایک نے پاکستان بنایا اور دوسرے نے اس کو اس کے پیدائشی دشمن کے مقابلے میں ناقابل تسخیر بنادیا۔ اسی لیے ایک کوہم بانی پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور دوسرے کو محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ جب سوویت یونین ختم ہوا تو نیٹو کے جنرل سیکریٹری سے سوال کیا گیا کہ اب نیٹو کو باقی رکھنے کا کیا فائدہ ہے اس کا مختصر جواب تھا کہ اسلام ابھی باقی ہے ۔ میں کئی بارعرض کر چکا ہوں کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں آج بڑا نہیں ہوا بلکہ شروع دن سے یہ ملک پاکستان سے بڑا تھا۔ رقبے کے لحاظ سے آبادی ، صنعت و حرفت ،مادی اور ترقی کے دوسرے تمام وسائل کے اعتبار سے پاکستان اس سے چھوٹا ملک تھا لیکن پاکستانی بھارتیوں سے چھوٹے ہر گز نہیں تھے اور یہی وہ طاقت تھی جس نے نہ صرف پاکستان کو زندہ رکھا بلکہ رفتہ رفتہ آگے بڑھایا اور ایک آسودہ ملک بنا دیا اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب یہ ملک ایٹمی طاقت رکھنے والے دنیا کے چند ملکوں میں شامل ہو گیا ۔
ہم پاکستانیوں کو اپنی موجودہ حکومت سے ایک گلہ ہے کہ اس نے کشمیر پر واویلا تو بہت مچایا اور ہمارے وزیر اعظم نے دنیا میں اپنے آپ کو کشمیریوں کا سفیر بھی بنا لیا لیکن پھر وہی روایتی سستی آڑے آگئی اورہم چند دن کے بعد کشمیریوں کو بھول گئے اور کشمیر پر بھارت کی بالادستی کو بلاوجہ تسلیم کر لیا ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کسی جنگ میں ہارنا یا جیتنا تقدیر کا کھیل ہے۔
امریکا جیسا طاقتور ملک افغانستان میں ہار کر واپس جارہا ہے جیسا کہ پہلے ایک اور سپر پاورسوویت یونین افغانیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی یعنی ہم نے اسی دنیا میں دیکھا کہ کمزور جیت گئے اور طاقتور ہار گئے اصل طاقت اس عزم کی ہے جو دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس طاقت کی ہے جسے ہم مسلمان ایمان اور یقین کے نام سے پہچانتے ہیں ۔
اس عزم اور ولولہ کومہمیز ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم کی صورت میں بخشی۔ مئی کا مہینہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی یاد دلاتا ہے ۔ مجھے علم نہیں کہ پاکستانی ایٹم بم کے متعلق ہمارے طالبعلموں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے یا نہیں لیکن مجھے یہ علم ضرور ہے کہ ہم نے ایٹم بم کے خالق کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایک تلخ داستان ہے ۔ جس کی تلخی مدتوں محسوس ہوتی رہے گی لیکن اس تلخی کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے پاکستان کا نام روشن رہے گا اور پاکستانی قوم انھیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔
نوجوان نسل کو یہ یاد دہانی بار بار کرانی انتہائی ضروری ہے کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ ہماری نوجوان نسل کسی اور ہی دنیا میں رہتی ہے اس کو اپنے محسنوں کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے ۔ یہ ہم بزرگوں کا فرض اور ہم پر قرض ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اپنے محسنوں اور ان کے احسانوں کے بارے میں آگاہ کریں تا کہ وہ اپنی آیندہ نسلوں کو یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ کون لوگ تھے جن کی وجہ سے پاکستان ایک آزاد، خودمختاراور باوقار ملک ہے ۔
پاکستان بن گیا اپنے ایک دشمن کو ساتھ لے کر جس کا نام بھارت تھا اور جس پر ہندو کی حکومت تھی ۔ دونوں ملکوں کے درمیان دونوں قوموں کی طرح ایک تاریخی چپقلش مزید سخت ہو گئی ۔ جنگیں ہوئیں ، فوجی آمریتوں کی وجہ سے پاکستان وہ پاکستان نہ بن سکا جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کا نقشہ قائد اعظم کے ذہن میں تھا اور جس میں انھوں نے رنگ بھرنے شروع کر دیے تھے۔
غیر جمہوری حکومتوں کی وجہ سے پاکستان چالاک اور سمجھدار ہندو کے مقابلے میںکمزور ہو کردولخت ہو گیا لیکن اس سانحہ نے ایک ایسا لیڈر پیدا کر دیا جس کو دنیا ڈاکٹر قدیر خان کے نام سے جانتی ہے بلکہ جانتی کیا لرزتی ہے اور ان کو پابند کرنے کے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے ۔
اس لیڈر نے سقوط ڈھاکہ کے وقت یہ نعرہ لگایا تھا کہ وہ پاکستان پر پھر ایسا وقت نہیں آنے دے گا۔ ان کے اس نعرے کا جواب دینے کے لیے کوئی سیاسی ورکر تو موجود نہیں تھے جو واہ واہ کرتے لیکن اس نے اپنے ساتھی ایسے منتخب کیے جن کے ساتھ مل کر اس نے پاکستان کے ساتھ اپنے وعدے اور اس کے لیے لگائے گئے نعرے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ چونکہ یہ نعرہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں تھا اور نہ ہی اس کو لگانے والا کوئی سیاسی لیڈر تھا جو عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے نعرے لگاتے رہتے ہیں یہ ایک سچا پاکستانی تھا جس نے قوم کے ساتھ اپنی وفاداری کو ثابت کردکھایا۔
اس نے اپنے ساتھی سائنس دانوں کے ساتھ مل کر اپنی قیادت میں ایٹم بم بنایا جس پر قوم نے اسے محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے اس کارنامے سے ٹوٹا ہوا پاکستان مہ کامل بن کر دنیا کے آسمان پر جگمگانے لگا اور پاکستانی قوم کیا بلکہ پوری مسلم اُمہ ان کے اس کارنامے سے سرشار ہو گئی اور مخالفوں کے سینوں میں یہ تیر بن کر اتر گیا انھوں نے اسے مسلمان دشمنی میں اسے ''مسلم بم'' کا نام دے دیا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مورخ جب پاکستان کی تاریخ لکھے گا تو پاکستان دو آدمیوں کے نام سے جانا جائے گا ایک قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن میں سے ایک نے پاکستان بنایا اور دوسرے نے اس کو اس کے پیدائشی دشمن کے مقابلے میں ناقابل تسخیر بنادیا۔ اسی لیے ایک کوہم بانی پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور دوسرے کو محسن پاکستان کا خطاب دیا گیا ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ جب سوویت یونین ختم ہوا تو نیٹو کے جنرل سیکریٹری سے سوال کیا گیا کہ اب نیٹو کو باقی رکھنے کا کیا فائدہ ہے اس کا مختصر جواب تھا کہ اسلام ابھی باقی ہے ۔ میں کئی بارعرض کر چکا ہوں کہ بھارت پاکستان کے مقابلے میں آج بڑا نہیں ہوا بلکہ شروع دن سے یہ ملک پاکستان سے بڑا تھا۔ رقبے کے لحاظ سے آبادی ، صنعت و حرفت ،مادی اور ترقی کے دوسرے تمام وسائل کے اعتبار سے پاکستان اس سے چھوٹا ملک تھا لیکن پاکستانی بھارتیوں سے چھوٹے ہر گز نہیں تھے اور یہی وہ طاقت تھی جس نے نہ صرف پاکستان کو زندہ رکھا بلکہ رفتہ رفتہ آگے بڑھایا اور ایک آسودہ ملک بنا دیا اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا جب یہ ملک ایٹمی طاقت رکھنے والے دنیا کے چند ملکوں میں شامل ہو گیا ۔
ہم پاکستانیوں کو اپنی موجودہ حکومت سے ایک گلہ ہے کہ اس نے کشمیر پر واویلا تو بہت مچایا اور ہمارے وزیر اعظم نے دنیا میں اپنے آپ کو کشمیریوں کا سفیر بھی بنا لیا لیکن پھر وہی روایتی سستی آڑے آگئی اورہم چند دن کے بعد کشمیریوں کو بھول گئے اور کشمیر پر بھارت کی بالادستی کو بلاوجہ تسلیم کر لیا ۔ میں یہ جانتا ہوں کہ کسی جنگ میں ہارنا یا جیتنا تقدیر کا کھیل ہے۔
امریکا جیسا طاقتور ملک افغانستان میں ہار کر واپس جارہا ہے جیسا کہ پہلے ایک اور سپر پاورسوویت یونین افغانیوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی یعنی ہم نے اسی دنیا میں دیکھا کہ کمزور جیت گئے اور طاقتور ہار گئے اصل طاقت اس عزم کی ہے جو دلوں میں پیدا ہوتا ہے اور اس طاقت کی ہے جسے ہم مسلمان ایمان اور یقین کے نام سے پہچانتے ہیں ۔
اس عزم اور ولولہ کومہمیز ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹم بم کی صورت میں بخشی۔ مئی کا مہینہ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی یاد دلاتا ہے ۔ مجھے علم نہیں کہ پاکستانی ایٹم بم کے متعلق ہمارے طالبعلموں کو کچھ پڑھایا جاتا ہے یا نہیں لیکن مجھے یہ علم ضرور ہے کہ ہم نے ایٹم بم کے خالق کے ساتھ جو سلوک کیا وہ ایک تلخ داستان ہے ۔ جس کی تلخی مدتوں محسوس ہوتی رہے گی لیکن اس تلخی کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے پاکستان کا نام روشن رہے گا اور پاکستانی قوم انھیں خراج تحسین پیش کرتی رہے گی۔