تحویل قبلہ کا حکم

تاریخ اسلام کا ایک عظیم واقعہ

تاریخ اسلام کا ایک عظیم واقعہ ۔ فوٹو : فائل

تحویل قبلہ سمجھنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبلے کی تاریخ پر ایک مختصر سی نظر ڈال لی جائے۔

کعبہ، یہ نام کعبہ کی تعکیب یعنی مربع ہونے کی وجہ سے پڑ گیا لغوی اعتبار سے ہر بلند اور مربع عمارت کو کعبہ کہتے ہیں۔ قرآن حکیم کی سورۂ آل عمران آیت96میں اس کا پرانا نام بکّہ آیا ہے جس کے معنی توڑ دینے کے ہیں۔ گویا کعبہ کو بکہ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ یہ سرکش لوگوں کی گردن توڑ دیتا ہے۔ بعد میں یہی نام شہر مکہ کا بھی پڑ گیا۔

کعبہ کی تعمیر کے سلسلے میں مختلف روایات آئی ہیں۔ ارزقی لکھتے ہیں کہ کعبہ کی تعمیر فرشتوں نے کی تھی۔ اس وقت حضرت آدم ؑ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس کے اثبات میں حضرت زین ؓ العابدین سے منقول ایک روایت اور ایک روایت حضرت ابن عباسؓ سے نقل کی ہے۔ النودی نے بھی تہذیب الاسماء واللغات میں فرشتوں کی تعمیر کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد حضرت آدم ؑ نے کعبہ کی تعمیر کروائی۔ ایک اور روایت میں حضرت نوحؑ کے حج کا ذکر ملتا ہے۔ پھر اس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ نے کی جس کا ذکر ہمیں قرآن حکیم میں سورۂ بقرہ میں ملتا ہے۔ یہاں بھی تعمیر سے قبل چند تاریخی حوالات کا ذکر برمحل ہوگا۔

جدالانبیاء حضرت ابراہیم ؑ کی دو بیویاں تھیں (۱) حضرت ہاجرہ ؓ(۲) حضرت سارہؓ۔ حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑپیدا ہوئے تھے یہ آپؑ کے پہلے بیٹے تھے جب حضرت اسماعیل ؑ13برس کے ہوگئے تو حضرت سارہ ؓ کے بطن سے حضرت اسحٰق پیدا ہوئے۔ حضرت سارہ ؓ نے حضرت ابراہیم ؑ کو قسم دلائی کہ ہاجرہ ؓ اور اسماعیل ؑ کو لے کر کہیں چلے جائیں۔

یعنی انہیں اپنے گھر سے نکال دیں۔ چناںچہ حکم الٰہی ہوا کہ انہیں مکہ کی طرف لے جاؤ۔ آپؑ حکم الٰہی کے عین مطابق دونوں کو اس جگہ لے آئے، جہاں آج مکہ مکرمہ یعنی بیت الحرام ہے۔ یہ بے آب و گیا صحرا تھا۔ آپؑ نے ان دونوں کے قریب کھجور کا ایک تھیلا اور پانی کا مشکیزہ رکھ دیا اور شام کی جانب چل دیے۔ بی بی ہاجرہ ؓ دوڑتی ہوئی آئیں اور پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں؟ اور ہمیں کس پر چھوڑے جا رہے ہیں؟ آپؑ نے جواب دیا ''اللہ پر۔'' پھر پوچھا کیا اللہ نے آپؑ کو حکم دیا ہے؟ فرمایا ''ہاں '' تب وہ یوں گویا ہوئیں ''پھر تو ہمیں وہ ضائع نہیں کرے گا۔'' اور یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ آئیں۔

حضرت ابراہیم ؑکچھ آگے بڑھ کر دعا گو ہوئے ''اے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کو ایک بنجر زمین (وادی) میں چھوڑ دیا ہے جو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ہے کہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انہیں پھل عطا فرما کہ وہ تیرا شکر ادا کرسکیں۔'' (سورۂ ابراہیم آیت 37) نبی کی دعا تھی اثر کیوں نہ ہوتا؟ فوراً ہی قبیلۂ بنو جرہم کا قافلہ وہاں سے گزا۔ انہوں نے بی بی ہاجرہؓ سے وہاں قیام کی اجازت چاہی جو منظور کرلی گئی۔

پھر حضرت ہاجرہؓ نے اسی قبیلے میں حضرت اسماعیل ؑ کی شادی کردی، جس کے بعد حضرت ہاجرہ ؓ کا انتقال ہوگیا۔ اس دوران دو مرتبہ حضرت ابراہیم ؑمکہ مکرمہ تشریف لائے تھے مگر یہاں قیام نہیں فرمایا تھا، مگر جب تیسری مرتبہ تشریف لائے تو آپؑ کو حکم ہوا ''ابراہیم کعبہ کی تعمیر کرو۔'' آپؑ نے حکم خداوندی کا اظہار اپنے پیارے بیٹے اسماعیل ؑ سے کیا۔ بیٹے نے عرض کیا، ابا جان! حکم خداوندی کی اطاعت کیجیے۔

کعبہ کی ابتدائی تعمیر کے آثار مٹ چکے تھے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے بیٹے کے ساتھ مل کر اسے از سرنو تعمیر کیا۔ آپؑ نے اس کی تعمیر میں نہ مٹی استعمال کی اور نہ چونا۔ بس حضرت اسماعیل ؑ پتھر اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے اور حضرت ابراہیم ؑ ایک پر ایک پتھر رکھتے جا رہے تھے اور اس کی چھت بھی نہیں بنائی تھی۔ جب تعمیر بلند ہوگئی تو دونوں باپ اور بیٹے دعا کررہے تھے۔

''اے پروردگار! ہم سے (یہ) قبول فرما تو سننے والا اور جاننے والا ہے۔'' (سورہ بقرہ آیت 127) جب ابراہیم ؑ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو جبرئیل ؑ آئے اور انہوں نے تمام مقامات حج دکھائے پھر حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لیے بلاؤ ''اعلان کر دیجیے لوگوں کو حج کے لیے۔ وہ آئیں گے پیدل اور دبلی اونٹنیوں پر سوار جو آئیں گی ہر وسیع گہرے راستے سے۔'' (سورہ الحج آیت27) مجاہد لکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ ہر سال پیدل حج فرماتے تھے۔ ان کے علاوہ دیگر 75انبیاء بھی حج کی سعادت حاصل کر چکے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ہر نبی نے حج کیا تھا۔

کعبہ کی تعمیر 11بار ہوئی تھی جس میں 8بار قبل از اسلام اور 3 مرتبہ بعثت نبوی کے بعد مختلف ادوار میں ہوئی۔ قبل از اسلام تعمیر میں یہ نام آتے ہیں (۱) فرشتے (۲) حضرت آدم ؑ (۳) شیث ؑ(۴) حضرت ابراہیم ؑ (۵) عمالقہ (۶) بنو جرہم (۷) قصّی (۸) قریش۔


بعدازسلام یہ نام تعمیر کروانے میں شریک ہوئے (۹) عبداللہ ابن زبیرؓ(۱۰) حجاج (۱۱) سلطان مراد رابع۔ ان تعمیرات میں صرف ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر حضرت آدم ؑ کی بنیاد پر تعمیر تھی گویا پیغمبر نے پیغمبر کی تقلید کی۔

کعبہ سے متعلق ایک دل چسپ حقیقت یہ ہے کہ اسے کسی بھی فرد یا بادشاہ نے ذاتی ملکیت قرار نہیں دیا بلکہ عرب کے بت پرست اور مشرکین بھی اسے بیت اللہ ہی کہہ کر پکارتے تھے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ

دنیا کے بت کدے میں پہلا وہ گھر خدا کا

ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

ہر قوم اور ہر مذہب میں عبادات کے خاص امتیازی شعائر ہوتے ہیں جن کے بغیر ان کی شناخت مشکل سے ہوتی ہے ۔ یہ شعائر اکثر مستقل ہوتے ہیں۔ چناںچہ اسلام کے بھی کچھ شعائر ہیں جو قرآن سے ثابت ہیں (۱) کوہ صفاء و مروہ (سورہ بقرہ آیت158)(۲) مشعر حرام (مزدلفہ میں ) سورہ بقرہ آیت 198)(۳) خدا کے نام کی چیزیں ان کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے۔ (سورہ مائدہ آیت2) (۴) خدا کی مقرر کی ہوئی ادب کی چیزیں ان کی عظمت رکھنا (سورہ الحج آیت32) (۵) قربانی کے اونٹ (سورہ حج آیت36) شعائر میں کوہ صفا و مروہ کے ساتھ خدا کے نام کی چیزوں میں بیت اللہ بھی شامل ہے، جو اس وقت کم وبیش ایک ارب مسلمانوں کا قبلہ ہے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک بیت المقدس پہلے سے موجود تھا تو دوسرے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہاں اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کی عبادت میں سب سے پہلی عبادت نماز ہے جو ہر روز پنجگانہ ادا کی جاتی ہے۔ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ اجتماعی طور پر امام کی اقتدا میں جسکی تمام حرکات وسکنات کی مقتدی پیروی کرتا ہے۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر مقتدی ایسا نہیں کریگا تو اس کی نماز ہی ادا نہیں ہوگی بشرطیکہ مقتدی کو کوئی شرعی عذر نہ ہو۔ ادائیگی نماز سے قبل نیت شرط ہے اور پھر قبلہ رو ہوکر زبان سے الفاظ ادا کرنا بس یہی ایک اصول ہے کہ جس کی بنا پر مسلمانوں کو ایک علیحدہ قبلہ دیا گیا جو حضرت ابراہیم ؑ کی یاد تازہ کرنے کے لیے توحید کا خاص مظہر بنا۔

یہودی اور عیسائی بیت المقدس کو قبلہ سمجھتے تھے۔ مشرکین مکہ اور کفار، کعبہ کو قبلہ سمجھتے تھے۔ آنحضور ؐ مقام ابراہیم کے سامنے نماز ادا فرماتے تھے جس کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا۔ اس طرح آپؐ کی پیش نظر دونوں قبلے رہتے تھے اس طرح آپؐ نے 16ماہ تک نمازیں ادا فرمائی ہیں اور جب اسلام زیادہ پھیل گیا تو ضرورت کے تحت حکم ہوا ''تم اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیرو اور جہاں کہیں رہو اسی طرف منہ پھیرو۔'' (سورہ بقرہ آیت 142) یہ عظیم واقعہ وحی کی شکل میں نماز کے دوران مدینہ منورہ کی ایک مسجد میں پیش آیا جو آج کل مسجد قبلتین کے نام سے مشہور ہے، یعنی (دو قبلوں کی مسجد) اس میں چند سال قبل تک دو محرابیں تھیں جو دو قبلوں کی نشان دہی کر رہی ہیں۔ واضح ہوکہ اب مسجد اقصٰی کی سمت والی محراب ہٹا دی گئی ہے صرف اس کی سمت پر محراب کا نشان لگا دیا گیا ہے۔ تاکہ شناخت رہے کہ یہ قبلہ رخ تھا۔ معتمرو حجاج کرام پورے سال اس کی زیارت کرتے ہیں۔

تحویل قبلہ کے حکم نے یہودیوں کو چراغ پا کردیا۔ وہ اپنے آپ کو نصرانیوں سے بلند سمجھتے تھے۔ وہ منتیں مانتے تھے کہ بچہ زندہ رہے گا تو ہم اسے یہودی بنائیں گے (ابوداؤد)۔ مسلمانوں کا بھی قبلہ اب تک بیت المقدس ہی تھا۔ اس لیے وہ یہ بھی فخر کرتے تھے کہ مسلمانوں کا بھی یہی قبلہ ہے۔ لیکن جب کعبہ قبلہ بنا تو وہ برہم ہوگئے اور کہنے لگے محمدﷺ کو تو ہماری ہر بات کی مخالفت مقصود ہے۔

اس لیے قبلہ بھی بدل لیا۔ اس ضمن میں پھر وحی نازل ہوئی،''سفہاء یہ اعتراض کریں گے کہ مسلمانوں کا جو قبلہ تھا اس سے ان کو کس نے پھیر دیا، کہہ دو کہ مشرق و مغرب سب خدا ہی کا ہے تیرا جو پہلے قبلہ تھا اس سے ان کو کس نے پھیر دیا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ معلوم ہو جائے کہ پیغمبر کا پیرو کون ہے اور پیچھے پھر جانے والا کون ہے اور بلاشبہہ یہ قبلہ نہایت گراں اور ناگوار ہے بجز ان لوگوں کے جن کو خدا نے ہدایت کی ہے۔'' (بقرہ آیت142) پھر دوسری جگہ ارشاد ہوا: ''مشرق اور مغرب رخ کرنا یہی کوئی ثواب کی بات نہیں ثواب تو یہ ہے کہ آدمی خدا پر قیامت پر ملائکہ پر خدا کی کتابوں پر پیغمبروں پر ایمان لائے اور خدا کی محبت میں عزیزوں کو یتیموں کو، مسکینوں کو، مسافروں کو، سائلوں کو، غلاموں کو آزاد کرانے میں اپنی دولت دے۔'' (سورہ بقرہ آیت 177)۔ یہودی منافقت کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کر رہے تھے تو جب سورۂ بقرہ کی یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ اپنے قبلے کی طرف بھاگے۔ یوں ان کی منافقت کا راز تحویل قبلہ کی شکل میں فاش ہوگیا۔

اسی سورہ بقرہ کی آیات ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ان تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے پیغمبر اسلامﷺ کے سچے پیروکار بنیں۔
Load Next Story