چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا منظم ترین معاشرہ ہے
اقوام متحدہ میں ویٹوپاور رکھنے والوں میں چین واحدطاقت ہے جو نوآبادیاں بنانے کی بجائے خودنوآبادیاتی استحصال کاشکاررہا
( قسط نمبر16)
چین کی یہ انفرادیت بھی ہے کہ اقوام متحد ہ کی سیکورٹی کونسل کی یہ واحد ویٹو پاور ہے جو دوسری عالمی طاقتوں کے برعکس، نوآبادیات کی مالک ہونے کے بجائے خود استحصالی قوتوں کی نوآبادی رہی۔ اس بات نے چیئرمین ماوء کو ایک تاریخ ساز شخصیت کی حیثت دی۔ چیئرمین ماوء کی بہت سی پالیسیوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن یہ سب تسلیم کر تے ہیں کہ چین پر ماوء زے تنگ کے احسانات ان کی غلطیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
سب سے اہم یہ کہ اُنہوں نے چین کو دنیا کا سب سے منظم معاشرہ اور منظم قوم بنا دیااور ایک ایسا انداز دیا کہ اس کے بعد آنے والی چینی قیادت نے وقت کے تقاضوں کے مطابق چین کے لیے مفید اور اہم فیصلے کئے۔ چیئرمین ماوء کے ساتھ دوسرے اہم ترین رہنما وزیر اعظم چو این لائی تھے لیکن چو این لائی کے بعد کو ئی بھی وزیر اعظم اہم نہیں رہا بلکہ اختیارات کے اعتبار سے جیسے جیسے آئینی اصلاحات ہو تی رہیں وزیر اعظم کے اختیارات کم ہو تے چلے گئے۔
چین میںیکم اکتوبر 1949 ہی سے ون پارٹی سسٹم نافذ ہے اور اقتدار اعلیٰ کے لیے سیاسی طور پر اِن کے ہاں جمہوریت اور جمہوری عمل کو اس کے مطابق یوں چلایا جاتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی کیمو نسٹ پارٹی کے ساڑھے آٹھ کروڑ افراد اس کے رکن ہیں۔ شہر ی اس کی رکنیت کے لیے درخوست دیتے ہیں اور پھر معیار کے مطابق درخواست گذاروں کو رکنیت دی جاتی ہے۔ 1976 کے بعد سے وقت کے تقاضوں اور بدلتے عالمی حالات کے مطابق چین میں اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے مگر اِن اصلاحات کوچین اپنے سیاسی ،اقتصادی نکتہ نظر سے دیکھتا ہے، اِور اصلاحات کو قومی مفاد میں رکھنے کے لیے کمو نسٹ پارٹی باوجود معاشی اقتصادی صنعتی ترقی اور آزادی کے ،اِن کے ہاں آزاد معیشت کا وہ تصور نہیں جو دوسرے ممالک میں ہے۔
چین میں اِس وقت معاشی آزادی ہے آپ اپنا کارو بار کر کے ارب پتی کھرب پتی بن سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ کاروبار کی بڑھوتری کے ایک خاص ہجم یا سطح پر کمپنی میں کیمو نسٹ پا رٹی کی حکومت کی جانب سے ایک ماہر ایگزیکٹو کی حیثیت سے تعینات کر دیا جا تا ہے۔ وہ کمپنی کے کا روبار کو کسی طرح بھی متا ثر نہیں کرتا مگر نظر ضرور رکھتا ہے کہ یہ کار و بار چین کے قومی مفادات کے خلا ف نہ ہو اور ایمانداری کا معیار متاثر نہ ہو۔
1983 میں چین کا چوتھا آئین یا آئینی اصلاحات سامنے آئیں اور اقتدار اعلیٰ کے منصب کو صدر عوامی جمہوریہ چین کا نام دیا گیا،18 جون1983 سے18 اپریل1988تک لی شیان نیان عوامی جمہوریہ چین کے صدر رہے یہ وہ دور ہے جب سرد جنگ اپنے فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو گئی تھی اور سوویت یونین افغا نستان میں اُسی طرح پھنس گیا تھا جیسے امریکہ ویت نام میں پھنسا تھا۔ اُنہوں نے اس زمانے میں چین کی خارجہ پالیسی میں اصلاحات کی ابتدا کی اور چین کو دنیا کے لیے کھو ل دیا۔ وہ چین کے پہلے صدر تھے جنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا اور رونالڈ ریگن سے چین امریکہ تعلقات کے ساتھ ساتھ شمالی کو ریا کے حوالے سے بھی با ت چیت کی۔ انہوں نے شمالی کو ریا کے صدر اور امریکی صدر سے مشاروتی عمل کو بھی آگے بڑھا یا۔ اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے اُن پر تنقید بھی ہو ئی مگر یہ بھی تلخ حقیقت تھی۔
1988 تک اقوام متحدہ کے فورم پر سوویت یونین افغانستان میں جارحیت کی حمایت کے اعتبار سے بہت کمزور پوزیشن پر آچکا تھا اور اُس نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ دور پوری دنیا میںبہت ہی نازک اور احتیاط برتنے کا دور تھا سرد جنگ کے خاتمے کے مراحل شروع ہو چکے تھے، سوویت یونین کے سر براہ گارباچوف گلاسنس اور پرسٹرایکا کی بنیادوں پر اصلاحات پر خود عمل پیرا تھے اور پوری دنیا میں اشتراکی نظام ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔ عالمی سطح پر دو طاقتی نظام عدم توازن کا شکار تھا اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی بنیاد پر ینوورلڈ آڈر کا اعلان کر رہا تھا۔
یہ اتنی بڑ ی تبدیلی تھی کہ اس سے امریکہ کو بھی اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر مطابقت پید ا کر نی تھی تو ساتھ ہی سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد خود روس کو اپنا وجود برقرا ر رکھنا تھا۔ 70 سالہ اشتراکی نظامِ معاشیات ، اور سیاسیات کے بخیے اُدھڑ گئے تھے۔ بھارت بھی اب امریکہ کے زیادہ قریب تھا لیکن امریکہ کا کمال یہ تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایٹمی خطرات کو اُس نے روس سے مل کر کنٹرول کیا تھا۔ اشتراکیت کے اس طرح بکھر نے سے چین میں بھی عوامی سطح پر ردِ عمل کے خطرات تھے۔
چین کی قیادت یہ جانتی تھی اِس وقت بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے اور بدلتے ہو ئے عالمی حالات کے تقاضوں کے مطابق چین نے بھی بہت سے شعبوں میں ہم آہنگی پیدا کر نی ہے۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی نے دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ چین اپنے معاشرتی ، اقتصادی ،سیاسی نظام میں بہت احتیاط سے اور مرحلہ وار اصلاحات کر رہا ہے۔ صدر لی شیانیان کے بعد یا نگ شا نگکون عوامی جمہوریہ چین کے صدر منتخب ہو ئے۔ اِن کادورِحکومت 8 اپریل 1988 سے 27 مارچ 1993 تک رہا۔ اس زمانے میں عالمی سطح پر سیاسی دانشور اور تجزیہ کارسوویت یونین، مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا میں اشتراکیت کے زوال کے بعد یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب چین میں بھی ایسی ہی صورتحال رونما ہو گی۔
لیکن چین میں چونکہ سوویت یونین کے مقابلے میں زیاد ہ سخت اشتراکی نظام تھا اس لیے ان تجزیہ نگاروں کو اندیشہ تھا کہ چین میں شدید سیاسی بحران نمودار ہو گا۔ صدر لی شیان نیان کے انتخاب کے ٹھیک ایک سال بعد 15 اپریل سے 4 جون 1989 میں بیجنگ کی تیانا نمون چوک Tiananmon Square پر طلباء کا حکومت کے خلاف شدید نوعیت کا احتجاج ہوا، جو اس مرکزی شہر سے مزید 400 شہروں میں پھیل گیا اور احتجاج کر نے والوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی یہ احتجاجی طالب علم ملک میں آزادیِ اظہار ،آزادی صحافت جمہوریت اور احتساب کے مطالبات کر رہے تھے۔
اس موقع پر وزیراعظم لی پنگ نے پیپلز لبریشن آرمی کو طلب کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور تقریباً 300000 فوجی، ٹینکوں سمیت بیجینگ کے اس وسیع چوراہے اور دیگر مقامات پر پہنچ گئے اور پھراس احتجاج کو فوجی قوت سے دبا دیا گیا۔ مڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس پر بہت شور مچا یا اوربتا یا کہ فوج کی جانب سے فائرنگ اور تشدد کی وجہ سے سینکڑوں طالب علم ہلاک اور ہزاروں زخمی اور گر فتار ہو ئے۔ صدر یانگ شانگکون نے چین میں اقتصادی اصلاحات کو فورغ دیا لیکن سیاسی آزادی کی بھرپور مخالفت کی جس کا عملی مظاہر ہ تیانمون چوک کے مظاہرے کے خلاف شدید ایکشن تھا۔
اُن کے دور میں مارشل لا 20 مئی 1989 سے 10 جنوری 1990 تک یعنی ساڑھے سات مہینے نا فذ رہا۔ اس دوارن بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کی یہ پیش گو ئیاں تھیں کہ اب چین میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران چین کے اس نظام کو ختم کر دے گا۔ مگر صدر یانگ شانگکون نے اپنی صدارت کی مدت 27 مارچ 1993 تک نہ صرف پوری کی بلکہ چین کو سیاسی طور پر بھی مزید مستحکم کیا۔ ان کے بعد جیانگ زیمین چین کے صدر منتخب ہوئے اور 27 مارچ 1993 سے 15 مارچ1998 تک صدارت کی پہلی مدت مکمل کی اور پھر 15 مارچ 1998 سے 15 مارچ 2003 تک صدارت کی دوسری مدت پوری کی۔ واضح رہے کہ وہ اس سے قبل 1985 تا1989 شنگھائی کے میئر رہے اور پھر 1990 سے2005 تک چیرمین مرکزی فوجی کمیشن بھی رہے۔
اِن کے دس سالہ دور حکومت میں چین نے تیزی سے ترقی کے مر احل طے کئے اور یہ ترقی پائیدار اور مستحکم نوعیت کی رہی اُن کی سیاسی ،خارجی ، معاشی ،اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے نہ صرف چین میں عوام کا معیار زندگی بلند ہوا بلکہ چین اپنی بر آمدات کی وجہ سے ایک بڑی عالمی اقتصادی قوت کے طور پر دنیا میں ابھرا۔ خارجہ سطح پر چین نے پُرامن طور پر بر طانیہ سے ہانگ کانگ اور پرتگال سے مکاؤ واپس لے لیا۔ صدر زیمین کے دور میں چینی کیمو نسٹ پارٹی نے حکومت پر اپنا کنٹرول مضبو ط رکھا اُن پر بھی امریکہ اور روس سے تعلقا ت کے اعتبار سے تنقید ہو ئی۔ ان کے دور میں ہوجن تاؤ 1998 سے 2003 تک نائب صدر تھے اور پھر جیانگ زیمین کے بعد ہو جنتاؤ ہی 15 مارچ2003 کو صدر منتخب ہو ئے اور اپنی پہلی مدت 15 مارچ2008 پوری کرنے کے بعد دوسری مدت 15 مارچ 2008 سے 15 مارچ 2013 تک کے لیے عوامی جمہوریہ چین کے صدر رہے۔
اُنہوں نے گذشتہ دس سے پندرہ برسوں میں ہو نے والی اقتصادی صنعتی تجارتی اصلاحات پرچینی حکومتی ماہرین کی مشاورت سے نظر ثانی کی معیشت کے چند سیکٹرز کو دو بار ہ حکومتی کنٹرول میں لے لیا جہاں اَن سے پہلی لچک اور نرمی برتی گئی تھی۔ اِن کے دس سالہ دورِ حکومت میں معاشرے میں اقتصادی صنعتی ترقی کے لیے سائنٹفک انداز اپنا یا گیا۔ اُنہوں نے دنیا میں چین کو امن ترقی اور خوشحالی کی بنیاد قرارد یتے ہو ئے ملک پیداوری ،صنعتی، تجارتی عمل کو مستحکم بنیادوں پر خارجہ پالیسی اور بیرونی تجارت سے مر بوط کرتے ہو ئے تیر رفتار ترقی کی اور چین کو ایک عالمی قوت بنا دیا اور دنیا کے اکثر ملکوں نے چین کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی دور میں جب پا کستا ن میں گوادر ڈیپ سی پروجیکٹ ،سی پیک سمیت چین نے ترقی پذیر ملکوں میں تعمیراتی منصو بے شروع کئے اور افریقہ،لا طینی امریکہ،امریکہ،یورپ اور ایشیائی ملکوں سے تجارتی اقتصادی تعلقات قائم کئے اور اِن ملکوں میں سے بیشتر ملکوں سے اسٹریٹیجکل روابط مستحکم بھی ہو ئے تو عالمی سطح پر پہلے سے اِن شعبوں میں مو جود کھلاڑیوں سے پیشہ وارانہ مخاصمت بڑھنے لگی اور چین دنیا بڑی قوتوں کو کھٹکنے لگا۔ ہو جنتاؤ کی صدارت کی دوسری مد ت کے دوران چین کے حالیہ صدر شی جن پنگ 2008 سے 2013 تک نائب صدر رہے۔
صدر شی جن پنگ 15 مارچ2013 کو عوامی جمہوریہ چین کے صدر بنے اور اپنی پہلی مدت کے بعد اب دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیںاور اس قبل خود صدر ہو جنتاؤصدر جیا نگ ز یمین دور میں چین کے نائب صدر رہے۔ چین میں ون پارٹی سسٹم کے تحت کیمو نسٹ پارٹی نے اگر چہ اپنا نام نہیں بدلا لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج چین کی اقتصادی ،صنعتی خارجی ،اور کافی حد تک سیاسی پالیسیا ں مارکس ، لینن، اور خود ماو زے تنگ کے اشتراکی نظریات سے مختلف ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چین دنیا کی سب بڑی انسانی آبادی کا سب سے مضبو ط اور منظم معاشرہ ہے اور اس کی حکومت کو دنیا کی رائج جمہوریت کے اعتبار سے مکمل جمہوری نہیں کہا جا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ آج 71 برس تک کے حکومتی سفر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ زمانے کے تقاضوں اور چینی قومی مفاد کے تحت یہ دنیا کی سب سے زیادہ محب وطن حکومت ہے۔ ان میںجہاں تک تعلق کیمو نزم کے بنیادی نظریات کا ہے تو ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں چیر مین موزے تنگ اور وزیر اعظم چواین لائی سمیت چین میں دنیا کی سب سے بڑی آبادی کو ایک ہی طرح کا پاجامہ بوشرٹ پہنے اور صرف سائیکل چلاتے دیکھا ہے۔ لیکن یہ قوم اُتنی ہی حققیت پسند ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ماوزے تنگ نے امریکی صدر نکسن سے باوقار انداز میں ملاقات کی اور معاملات طے کئے۔
چین کو اقوام متحدہ میںاُس کی حقیقی حیثیت دلائی اور دنیا سے اس حیثیت کو منوا یا۔ یوں اقوام متحدہ کے قیام کے 25 سال گذرنے پر ایک ایسا ملک بھی سیکورٹی کونسل کا رکن بنا جو تاریخ میں نہ تو جارحیت کا مرتکب ہوا اور نہ ہی وہ نوآبادیاتی نظام کا حصہ بنا۔ چینی معاشرے میں دنیا کے باقی تمام معاشروں کے بر عکس تاریخی طور یہ سماجی مزاج ہے کہ وہ پہلے فرائض پر توجہ دیتے ہیں اور بعد میں حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اجتماعی مفاد کو اولیت دیتے ہیں اور انفرای مفاد کو بعد میں رکھتے ہیں یہ بھی چین کا قومی مزاج ہے کہ وہ اجتماعی طور مستقل مزاجی سے طویل ترین مدت تک بلکہ نسل در نسل کام کرنے کا قومی اجتماعی حوصلہ اور ظرف رکھتے ہیں۔
ماضی میں اس کی مثال عظیم دیوارِ چین ہے ، پھر عوامی جمہوریہ چین کی آزای میں ماوزے تنگ کا لانگ مارچ بھی ماضی قریب کی ایک زندہ مثال ہے۔ چین میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات کا سلسلہ حقیقی معنوں میں ماوزے تنگ کی زندگی کے آخری برسوں میں شروع ہو گیا تھا۔ دوسرے اور تیسرے آئین کے زمانے 1975-76 تا 1983 چینی قیادت نے دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہو ئے تبدیلیاں کیں لیکن ساتھ ہی احتیاط برتی کہ اصلاحات کے تحت ہو نے والی تبدیلیوں کی رفتار کو عدم توازن کا شکار نہ ہو نے دیا جائے۔
چینی حکومت نے 1978 میں چینی معاشرے میں اجتماعی مستقل مزاجی کی بنیاد پر چین میں ایک اورعظیم دیوار ِچین کے قیام کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ تقریباً ناممکن نظرآنے والا منصوبہ تھا جسے گریٹ گرین وال کا نام دیا گیا ہے۔ 1978 تک صحرائے گوبی تیزی سے پھیلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور ہر سال3600 مربع کلو میٹر سرسبز میدانوں کو نگل جا تا۔ ہر سال صحرائی آندھیاں 2000 کلومیٹر رقبے کو بر باد کر نے لگیں تھیں اور اس کو روکنے لیے چین نے 1978 میں گریٹ گرین وال پر وجیکٹ شروع کیاجس کے تحت چین نے5%سے 15% جنگلاتی رقبہ بڑھا کر صحرا کے پھیلنے کے عمل کو روک دیا۔ 2009 میں 500000 مربع کلو میٹر رقبے پر شجر کاری کی گئی اور درختوں پر مشتمل رقبے میں 12% سے18% اضافہ کیا۔ یہ انسانی ہا تھوں سے لگا یا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے۔
ہر سال کرڑوں اربوں درخت لگا ئے جاتے جن میں سے 25فیصد تک کو ریتلے طوفان ختم کردیتے ہیں مگر باہمت چینی مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے کام کر تے ہیں، یہ منصوبہ 2050 میں مکمل ہو جا ئے گا۔ 1978 سے آج 2020 تک 44 برسوں سے ہر حکومت تسلسل سے منصوبے کو جاری رکھے ہو ئے ہے۔
چینی معاشرہ کی منظم ہو نے کی حیرت انگیز مثال 1979 میں آبادی کے منصوبے کے تحت نافذ کی جانے والی ایک بچہ پالیسی تھی یہ پالیسی صدر جیانگ زیمن اور وزیر اعظم ہوا کوفینگ کے دور میں نافذ کی گئی جس کا دوارانیہ 20 سال رکھا گیا تھا لیکن ون چائلڈ پالیسی یعنی ایک جوڑے کو صرف ایک بچہ پید ا کرنے کی اجازت سے ملکی اقلیتی آبادیوں کو مستثنیٰ قرار د یا تھا بیس سال بعد ایک جوڑا دو بچے پالیسی رائج کی گئی ہے جو اب مستقل بنیادوں پر جاری ہے۔ آبادی پر جبری اور سختی سے کنٹرول کی یہ پالیسی ماو زے تنگ کی پالیسی سے متضاد تھی لیکن یہی حقیقت پسندانہ فیصلہ تھا اور اگر چین اس طرح نہ کرتا تو آج وہ کم ازکم ایک عالمی قوت نہیں بن سکتا تھا۔
اس اصول کو یورپ اور امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد نافذ العمل کیا اور ایک جوڑا دو بچے کی پالیسی کو اپنا یا اور یہ پالیسی بھی جبراً نہیں تھی بلکہ معاشرہ نے اس کو سماجی شعور کی بنیاد پر قبول کیا تھا۔ یہ اس لیے بھی کامیاب رہی کہ ایشیائی ملکوں کے مقابلے میںیورپ اور امریکہ کے سماج میں بیٹے اور بیٹی کی پیدائش پر کو ئی معاشرتی امتیازی جذ باتی اظہار نہیںکیا جاتا یوں یہ پالیسی کامیاب رہی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ 1951 میں ہماری پہلی مردم شماری ہوئی تو آج کے پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی اور بر طانیہ کی آبادی پانچ کروڑ دس لاکھ تھی جو آج پانچ کروڑ نوے لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اورہماری آبادی بائیس کروڑ سے زیادہ ہے اور اُس وقت آبادی میں بڑھوتی کے اعتبار سے اس سے کہیں زیادہ خراب صورتحال چین کی تھی اور چین نے ایشیائی ملک اور معاشرہ ہو نے کے باوجود انسانی جبلت کے خلاف ایک جوڑا ایک بچہ پالیسی کو 20 سال تک جبراً نا فذ العمل رکھا۔
یہ پالیسی سماجی علوم کے ماہر ین کے لیے حیرت انگیز تھی۔ کوئی بھی شخص اندازہ کر سکتا ہے ایک جوڑے کو جبراً ایک بچہ پالیسی پر آمدہ کر نا تقریباً ناممکن تھا اس میں بڑی حد تک چین کے معاشرے کا انتہائی منظم ہو نا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ چین نے اپنی آبادی میں بڑھوتری کی رفتار کو اس منصوبے کے تحت تعمیر وترقی کی رفتار کے مقابلے میں کم کر لیا اور اس کے نتیجے میں چین کا معاشرہ مثالی طور پر خو شحال اور ترقی یا فتہ ہو گیا جب کہ یہ پہلے ہی سے دنیا میں انسانی آبادی کا سب سے بڑا اور سب سے منظم معاشرہ ہے۔ چین نے اس کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہو ا ہے اور اب دنیا میںجب سرد جنگ کے بعد آزاد مارکیٹ اکنامی کی بنیاد پر صنعت و تجارت کے مقابلے کا دور شروع ہو ا تو چین نے گذشتہ تیس برسوں سے توازن کو برقرار رکھتے ہو ئے تیزرفتاری سے تعمیر و ترقی کا سفر طے کیا ہے۔
چین میں ون پارٹی سسٹم کے تحت اشتراکی نظامِ معیشت کو ترک کرنے کے باوجود ایک خاص میکانیزم کے تحت نجی ملکیت کے باوجود قومی دولت کو بیرونِ ملک منتقل کر نا، کرپشن کر نا اتنا آسان نہیںکیونکہ کرپشن پر سزائے موت تک کا قانون ہے۔ چین نے ہنر مند محنتی اور حبِ وطن افرادی قوت کی کمی نہیں جو یورپ اور امریکہ کے مقا بلے سستی بھی ہے۔ اِ ن کے تاریخی پس منظر میں کاغذ، چھاپہ خانے، باردو اور دیگر بہت سی اشیا کی ایجادات اور دریافتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اِن کے ہاں ذہانت کی سطح حس جمالیات کے ساتھ تحقیقی و تخلیقی قوتوں کی ہم آہنگی رکھتی ہے اور یہ سب کچھ چین کی مصنوعات میں اپنی انفرادی شناخت اور پہچان کے ساتھ دنیا میں نمایاں ہے۔
پھر سب سے اہم یہ ہے کہ چین دنیا کی تاریخ میں اپنی فتو حات کے اعتبار سے نمایاں نہیں رہا بلکہ اپنی صنعت و تجارت علم و تحقیق کی بنیاد پر صدیوں تک دنیا میں سب سے آگے رہا۔ اس تنا ظر میں دیکھیں تو چین کو آزاد و خود مختار ہو ئے اب 71 برس ہو رہے ہیں اور اب وہ دنیا میں تجارتی ،صنعتی ،اقتصادی لحاظ سے امریکہ کے بعد دوسری بڑی قوت ہے۔ امریکہ کو 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے پر ا ور پھر دوسری مرتبہ 11 ستمبر2001 کے بعد سے اپنے مغربی اتحادیوں نیٹو کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں پر گرفت اور زیادہ مضبوط کرتے ہو ئے دنیا کو گلو بل ولیج قرار دیا تھا اور یوں امریکہ کو دنیا میں نیو ورلڈ آڈر نافذ کرنے کے لیے کھلا اور صاف میدان ملا تھا۔ لیکن شائد یہ فطرت کا قانون ہے کہ آج تک پوری دنیا کو کسی نے فتح نہیں کیا۔
1990 کو گذرے اب 30 سال ہو چکے ہیں سوویت یونین کے ٹو ٹنے کے بعد روس مستحکم ہو چکا ہے اور اب بھی وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں اگر امریکہ کا ہم پلہ نہیں رہا پر دنیا میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور اب چین اور روس میں ایسے اختلا فات نہیں بلکہ قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ چین نے اِن گذشتہ تیس برسوں میں پوری دنیا کی منڈیوں میںمقابلے کی بنیاد پر کہیں زیادہ سبقت حاصل کر لی ہے اب ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے سامنے امریکہ ، برطانیہ ، یورپی یونین کے علاوہ چین بھی مو جو د ہے۔
لیکن چین کے پاس عالمی سطح پر یا پوری دنیا میں اقتصادی بالادستی قائم کرنے کے لیے انفراسٹرکچر یا نظام مو جود نہیں اور اس کے لیے گذشتہ بیس برسوں سے چین نے دنیا کے مختلف ملکوں سے روابط استوار کر تے ہو ئے ون بیلٹ ون روڈ اور ہمارے ہاں سی پیک جیسے منصوبے شروع کئے ہیں واضح رہے کہ جنگ عظیم اوّل سے پہلے جرمنی نے سلطنتِ عثمانیہ سے اتحاد کرتے ہو ئے جد ہ سے استمبول تک ریلوئے لائن منصوبہ شروع کیا تھا کیونکہ استمبول سے آگے آسٹریا اور جرمنی ریلو ے لنک موجود تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ سمندورں پر برطانیہ کی اجارہ داری تھی۔ عوامی جمہوریہ چین نے بھی لگ بھگ وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو پہلی جنگ عظیم 1914 تا1918 جرمنی اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے اپنائی تھی۔
اور اس کو جنگ عظیم اوّل کے دوران بر طانوی جاسوس کرنل لارنس ،،لارنس آف عربیا،، نے عربوں کے ساتھ مل کر ڈائینمنٹ اور بموں سے تباہ کیا تھا،اس تناظر میں دیکھیں تو آج چین عالمی سیاسی و اقتصادی میدان میں بہت سمارٹ انداز میں کھیل رہا ہے جس کا کریڈٹ چین کی قیادت کے ساتھ کہیں زیادہ دنیا کے اس سب سے بڑے انسانی منظم معاشرے کو جا تا ہے۔
غالباً نیپو لین نے ہی چین کے بارے میں کہا تھا کہ ،، چین ایک سو یا ہوا اژدھا ہے اِسے مت چھیڑو اگر یہ جا گ گیا تو د نیا کو نگل جا ئے گا، آج جب اپریل 2020 کے اختتام پر یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو دنیا بھر میں کور ونا وائرس کا خوف پھیلا ہے اور چین ہی وہ ملک ہے جہاں کر ونا وائرس نومبر 2019 میں نمودار ہوا تو چین کے منظم معاشرے نے اس پر منظم لاک ڈاؤن کی بنیاد پر مکمل کنٹرول کر لیا اور پھر امریکہ اور یورپ اس وبائی مرض کی شدید گرفت آگئے۔ کورونا وائرس اب دنیا کے 98% ممالک میں پھیل چکا ہے اور چین اس کے بچاؤ میں پاکستان سمیت بہت سے ممالک کی مدد کر رہا ہے۔
کرونا وائرس کے نتیجے میں یورپ ، جاپان ، امریکہ ،سمیت دنیا بھر کے ملکوں کی اقتصادیا ت بحران کا شکار ہے اور امریکہ چین پر شدید نوعیت کے الزامات بھی عائد کر رہا ہے۔ اس وقت معلوم نہیں کہ آئندہ کیاصورت ہو لیکن یہ بات حقیقی ہے کہ جس طرح 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا تبدیل ہو گئی اور پھرجس طرح نائن الیون کے بعد دنیا وہ نہیں رہی تھی جو 11 ستمبر 2001 سے پہلے تھی اِسی طر ح اس کورونا وائرس کی عالمی نوعیت کی وبائی بیمار ی کے بعد دنیا سیاسی ،اقتصادی اور سماجی اعتبار سے تبدیل ہو جائے اور یہ تیسری تبدیلی پہلی دو تبدیلوں کا تسلسل ہے جواقوام متحدہ کے قیام کے بعد رونما ہوئیں۔ پہلی دو تبدیلیاں جہاں دنیا میں تباہیوں کے بعد آئیں اور ساتھ مواقع بھی لائیں تھیں اور یہ مواقع باقی دنیا کے مقابلے میں امریکہ کے لیے زیادہ فائدہ مند تھے اب اگر کوروناوائرس دنیا سے بغیر کسی عالمی جنگ کے چند مہینوں یا ایک آدھ سال میں کسی ویکسین کی ا یجاد سے ختم ہو جا تا ہے توکورونا وائرس کی تباہی کے بعد عالمی اقتصادی ،تجارتی، صنعتی اور سماجی شعبوں میں مقابلہ برابری کی بنیاد ہوگا اور فیصلہ ڈسپلن اور محنت کی بنیاد پر۔
(جاری ہے)
چین کی یہ انفرادیت بھی ہے کہ اقوام متحد ہ کی سیکورٹی کونسل کی یہ واحد ویٹو پاور ہے جو دوسری عالمی طاقتوں کے برعکس، نوآبادیات کی مالک ہونے کے بجائے خود استحصالی قوتوں کی نوآبادی رہی۔ اس بات نے چیئرمین ماوء کو ایک تاریخ ساز شخصیت کی حیثت دی۔ چیئرمین ماوء کی بہت سی پالیسیوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن یہ سب تسلیم کر تے ہیں کہ چین پر ماوء زے تنگ کے احسانات ان کی غلطیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
سب سے اہم یہ کہ اُنہوں نے چین کو دنیا کا سب سے منظم معاشرہ اور منظم قوم بنا دیااور ایک ایسا انداز دیا کہ اس کے بعد آنے والی چینی قیادت نے وقت کے تقاضوں کے مطابق چین کے لیے مفید اور اہم فیصلے کئے۔ چیئرمین ماوء کے ساتھ دوسرے اہم ترین رہنما وزیر اعظم چو این لائی تھے لیکن چو این لائی کے بعد کو ئی بھی وزیر اعظم اہم نہیں رہا بلکہ اختیارات کے اعتبار سے جیسے جیسے آئینی اصلاحات ہو تی رہیں وزیر اعظم کے اختیارات کم ہو تے چلے گئے۔
چین میںیکم اکتوبر 1949 ہی سے ون پارٹی سسٹم نافذ ہے اور اقتدار اعلیٰ کے لیے سیاسی طور پر اِن کے ہاں جمہوریت اور جمہوری عمل کو اس کے مطابق یوں چلایا جاتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کی کیمو نسٹ پارٹی کے ساڑھے آٹھ کروڑ افراد اس کے رکن ہیں۔ شہر ی اس کی رکنیت کے لیے درخوست دیتے ہیں اور پھر معیار کے مطابق درخواست گذاروں کو رکنیت دی جاتی ہے۔ 1976 کے بعد سے وقت کے تقاضوں اور بدلتے عالمی حالات کے مطابق چین میں اصلاحات کا سلسلہ جاری ہے مگر اِن اصلاحات کوچین اپنے سیاسی ،اقتصادی نکتہ نظر سے دیکھتا ہے، اِور اصلاحات کو قومی مفاد میں رکھنے کے لیے کمو نسٹ پارٹی باوجود معاشی اقتصادی صنعتی ترقی اور آزادی کے ،اِن کے ہاں آزاد معیشت کا وہ تصور نہیں جو دوسرے ممالک میں ہے۔
چین میں اِس وقت معاشی آزادی ہے آپ اپنا کارو بار کر کے ارب پتی کھرب پتی بن سکتے ہیں لیکن یہ بھی ہے کہ کاروبار کی بڑھوتری کے ایک خاص ہجم یا سطح پر کمپنی میں کیمو نسٹ پا رٹی کی حکومت کی جانب سے ایک ماہر ایگزیکٹو کی حیثیت سے تعینات کر دیا جا تا ہے۔ وہ کمپنی کے کا روبار کو کسی طرح بھی متا ثر نہیں کرتا مگر نظر ضرور رکھتا ہے کہ یہ کار و بار چین کے قومی مفادات کے خلا ف نہ ہو اور ایمانداری کا معیار متاثر نہ ہو۔
1983 میں چین کا چوتھا آئین یا آئینی اصلاحات سامنے آئیں اور اقتدار اعلیٰ کے منصب کو صدر عوامی جمہوریہ چین کا نام دیا گیا،18 جون1983 سے18 اپریل1988تک لی شیان نیان عوامی جمہوریہ چین کے صدر رہے یہ وہ دور ہے جب سرد جنگ اپنے فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو گئی تھی اور سوویت یونین افغا نستان میں اُسی طرح پھنس گیا تھا جیسے امریکہ ویت نام میں پھنسا تھا۔ اُنہوں نے اس زمانے میں چین کی خارجہ پالیسی میں اصلاحات کی ابتدا کی اور چین کو دنیا کے لیے کھو ل دیا۔ وہ چین کے پہلے صدر تھے جنہوں نے امریکہ کا دورہ کیا اور رونالڈ ریگن سے چین امریکہ تعلقات کے ساتھ ساتھ شمالی کو ریا کے حوالے سے بھی با ت چیت کی۔ انہوں نے شمالی کو ریا کے صدر اور امریکی صدر سے مشاروتی عمل کو بھی آگے بڑھا یا۔ اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے اُن پر تنقید بھی ہو ئی مگر یہ بھی تلخ حقیقت تھی۔
1988 تک اقوام متحدہ کے فورم پر سوویت یونین افغانستان میں جارحیت کی حمایت کے اعتبار سے بہت کمزور پوزیشن پر آچکا تھا اور اُس نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ دور پوری دنیا میںبہت ہی نازک اور احتیاط برتنے کا دور تھا سرد جنگ کے خاتمے کے مراحل شروع ہو چکے تھے، سوویت یونین کے سر براہ گارباچوف گلاسنس اور پرسٹرایکا کی بنیادوں پر اصلاحات پر خود عمل پیرا تھے اور پوری دنیا میں اشتراکی نظام ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔ عالمی سطح پر دو طاقتی نظام عدم توازن کا شکار تھا اور امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کی بنیاد پر ینوورلڈ آڈر کا اعلان کر رہا تھا۔
یہ اتنی بڑ ی تبدیلی تھی کہ اس سے امریکہ کو بھی اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ مل کر مطابقت پید ا کر نی تھی تو ساتھ ہی سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد خود روس کو اپنا وجود برقرا ر رکھنا تھا۔ 70 سالہ اشتراکی نظامِ معاشیات ، اور سیاسیات کے بخیے اُدھڑ گئے تھے۔ بھارت بھی اب امریکہ کے زیادہ قریب تھا لیکن امریکہ کا کمال یہ تھا کہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ایٹمی خطرات کو اُس نے روس سے مل کر کنٹرول کیا تھا۔ اشتراکیت کے اس طرح بکھر نے سے چین میں بھی عوامی سطح پر ردِ عمل کے خطرات تھے۔
چین کی قیادت یہ جانتی تھی اِس وقت بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے اور بدلتے ہو ئے عالمی حالات کے تقاضوں کے مطابق چین نے بھی بہت سے شعبوں میں ہم آہنگی پیدا کر نی ہے۔ خارجہ پالیسی میں تبدیلی نے دنیا پر یہ واضح کر دیا کہ چین اپنے معاشرتی ، اقتصادی ،سیاسی نظام میں بہت احتیاط سے اور مرحلہ وار اصلاحات کر رہا ہے۔ صدر لی شیانیان کے بعد یا نگ شا نگکون عوامی جمہوریہ چین کے صدر منتخب ہو ئے۔ اِن کادورِحکومت 8 اپریل 1988 سے 27 مارچ 1993 تک رہا۔ اس زمانے میں عالمی سطح پر سیاسی دانشور اور تجزیہ کارسوویت یونین، مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا میں اشتراکیت کے زوال کے بعد یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب چین میں بھی ایسی ہی صورتحال رونما ہو گی۔
لیکن چین میں چونکہ سوویت یونین کے مقابلے میں زیاد ہ سخت اشتراکی نظام تھا اس لیے ان تجزیہ نگاروں کو اندیشہ تھا کہ چین میں شدید سیاسی بحران نمودار ہو گا۔ صدر لی شیان نیان کے انتخاب کے ٹھیک ایک سال بعد 15 اپریل سے 4 جون 1989 میں بیجنگ کی تیانا نمون چوک Tiananmon Square پر طلباء کا حکومت کے خلاف شدید نوعیت کا احتجاج ہوا، جو اس مرکزی شہر سے مزید 400 شہروں میں پھیل گیا اور احتجاج کر نے والوں کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچی یہ احتجاجی طالب علم ملک میں آزادیِ اظہار ،آزادی صحافت جمہوریت اور احتساب کے مطالبات کر رہے تھے۔
اس موقع پر وزیراعظم لی پنگ نے پیپلز لبریشن آرمی کو طلب کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور تقریباً 300000 فوجی، ٹینکوں سمیت بیجینگ کے اس وسیع چوراہے اور دیگر مقامات پر پہنچ گئے اور پھراس احتجاج کو فوجی قوت سے دبا دیا گیا۔ مڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اس پر بہت شور مچا یا اوربتا یا کہ فوج کی جانب سے فائرنگ اور تشدد کی وجہ سے سینکڑوں طالب علم ہلاک اور ہزاروں زخمی اور گر فتار ہو ئے۔ صدر یانگ شانگکون نے چین میں اقتصادی اصلاحات کو فورغ دیا لیکن سیاسی آزادی کی بھرپور مخالفت کی جس کا عملی مظاہر ہ تیانمون چوک کے مظاہرے کے خلاف شدید ایکشن تھا۔
اُن کے دور میں مارشل لا 20 مئی 1989 سے 10 جنوری 1990 تک یعنی ساڑھے سات مہینے نا فذ رہا۔ اس دوارن بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کی یہ پیش گو ئیاں تھیں کہ اب چین میں بڑھتا ہوا سیاسی بحران چین کے اس نظام کو ختم کر دے گا۔ مگر صدر یانگ شانگکون نے اپنی صدارت کی مدت 27 مارچ 1993 تک نہ صرف پوری کی بلکہ چین کو سیاسی طور پر بھی مزید مستحکم کیا۔ ان کے بعد جیانگ زیمین چین کے صدر منتخب ہوئے اور 27 مارچ 1993 سے 15 مارچ1998 تک صدارت کی پہلی مدت مکمل کی اور پھر 15 مارچ 1998 سے 15 مارچ 2003 تک صدارت کی دوسری مدت پوری کی۔ واضح رہے کہ وہ اس سے قبل 1985 تا1989 شنگھائی کے میئر رہے اور پھر 1990 سے2005 تک چیرمین مرکزی فوجی کمیشن بھی رہے۔
اِن کے دس سالہ دور حکومت میں چین نے تیزی سے ترقی کے مر احل طے کئے اور یہ ترقی پائیدار اور مستحکم نوعیت کی رہی اُن کی سیاسی ،خارجی ، معاشی ،اقتصادی اصلاحات کی وجہ سے نہ صرف چین میں عوام کا معیار زندگی بلند ہوا بلکہ چین اپنی بر آمدات کی وجہ سے ایک بڑی عالمی اقتصادی قوت کے طور پر دنیا میں ابھرا۔ خارجہ سطح پر چین نے پُرامن طور پر بر طانیہ سے ہانگ کانگ اور پرتگال سے مکاؤ واپس لے لیا۔ صدر زیمین کے دور میں چینی کیمو نسٹ پارٹی نے حکومت پر اپنا کنٹرول مضبو ط رکھا اُن پر بھی امریکہ اور روس سے تعلقا ت کے اعتبار سے تنقید ہو ئی۔ ان کے دور میں ہوجن تاؤ 1998 سے 2003 تک نائب صدر تھے اور پھر جیانگ زیمین کے بعد ہو جنتاؤ ہی 15 مارچ2003 کو صدر منتخب ہو ئے اور اپنی پہلی مدت 15 مارچ2008 پوری کرنے کے بعد دوسری مدت 15 مارچ 2008 سے 15 مارچ 2013 تک کے لیے عوامی جمہوریہ چین کے صدر رہے۔
اُنہوں نے گذشتہ دس سے پندرہ برسوں میں ہو نے والی اقتصادی صنعتی تجارتی اصلاحات پرچینی حکومتی ماہرین کی مشاورت سے نظر ثانی کی معیشت کے چند سیکٹرز کو دو بار ہ حکومتی کنٹرول میں لے لیا جہاں اَن سے پہلی لچک اور نرمی برتی گئی تھی۔ اِن کے دس سالہ دورِ حکومت میں معاشرے میں اقتصادی صنعتی ترقی کے لیے سائنٹفک انداز اپنا یا گیا۔ اُنہوں نے دنیا میں چین کو امن ترقی اور خوشحالی کی بنیاد قرارد یتے ہو ئے ملک پیداوری ،صنعتی، تجارتی عمل کو مستحکم بنیادوں پر خارجہ پالیسی اور بیرونی تجارت سے مر بوط کرتے ہو ئے تیر رفتار ترقی کی اور چین کو ایک عالمی قوت بنا دیا اور دنیا کے اکثر ملکوں نے چین کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی دور میں جب پا کستا ن میں گوادر ڈیپ سی پروجیکٹ ،سی پیک سمیت چین نے ترقی پذیر ملکوں میں تعمیراتی منصو بے شروع کئے اور افریقہ،لا طینی امریکہ،امریکہ،یورپ اور ایشیائی ملکوں سے تجارتی اقتصادی تعلقات قائم کئے اور اِن ملکوں میں سے بیشتر ملکوں سے اسٹریٹیجکل روابط مستحکم بھی ہو ئے تو عالمی سطح پر پہلے سے اِن شعبوں میں مو جود کھلاڑیوں سے پیشہ وارانہ مخاصمت بڑھنے لگی اور چین دنیا بڑی قوتوں کو کھٹکنے لگا۔ ہو جنتاؤ کی صدارت کی دوسری مد ت کے دوران چین کے حالیہ صدر شی جن پنگ 2008 سے 2013 تک نائب صدر رہے۔
صدر شی جن پنگ 15 مارچ2013 کو عوامی جمہوریہ چین کے صدر بنے اور اپنی پہلی مدت کے بعد اب دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیںاور اس قبل خود صدر ہو جنتاؤصدر جیا نگ ز یمین دور میں چین کے نائب صدر رہے۔ چین میں ون پارٹی سسٹم کے تحت کیمو نسٹ پارٹی نے اگر چہ اپنا نام نہیں بدلا لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج چین کی اقتصادی ،صنعتی خارجی ،اور کافی حد تک سیاسی پالیسیا ں مارکس ، لینن، اور خود ماو زے تنگ کے اشتراکی نظریات سے مختلف ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ چین دنیا کی سب بڑی انسانی آبادی کا سب سے مضبو ط اور منظم معاشرہ ہے اور اس کی حکومت کو دنیا کی رائج جمہوریت کے اعتبار سے مکمل جمہوری نہیں کہا جا سکتا مگر یہ حقیقت ہے کہ آج 71 برس تک کے حکومتی سفر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ زمانے کے تقاضوں اور چینی قومی مفاد کے تحت یہ دنیا کی سب سے زیادہ محب وطن حکومت ہے۔ ان میںجہاں تک تعلق کیمو نزم کے بنیادی نظریات کا ہے تو ہم نے ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں چیر مین موزے تنگ اور وزیر اعظم چواین لائی سمیت چین میں دنیا کی سب سے بڑی آبادی کو ایک ہی طرح کا پاجامہ بوشرٹ پہنے اور صرف سائیکل چلاتے دیکھا ہے۔ لیکن یہ قوم اُتنی ہی حققیت پسند ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ماوزے تنگ نے امریکی صدر نکسن سے باوقار انداز میں ملاقات کی اور معاملات طے کئے۔
چین کو اقوام متحدہ میںاُس کی حقیقی حیثیت دلائی اور دنیا سے اس حیثیت کو منوا یا۔ یوں اقوام متحدہ کے قیام کے 25 سال گذرنے پر ایک ایسا ملک بھی سیکورٹی کونسل کا رکن بنا جو تاریخ میں نہ تو جارحیت کا مرتکب ہوا اور نہ ہی وہ نوآبادیاتی نظام کا حصہ بنا۔ چینی معاشرے میں دنیا کے باقی تمام معاشروں کے بر عکس تاریخی طور یہ سماجی مزاج ہے کہ وہ پہلے فرائض پر توجہ دیتے ہیں اور بعد میں حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اجتماعی مفاد کو اولیت دیتے ہیں اور انفرای مفاد کو بعد میں رکھتے ہیں یہ بھی چین کا قومی مزاج ہے کہ وہ اجتماعی طور مستقل مزاجی سے طویل ترین مدت تک بلکہ نسل در نسل کام کرنے کا قومی اجتماعی حوصلہ اور ظرف رکھتے ہیں۔
ماضی میں اس کی مثال عظیم دیوارِ چین ہے ، پھر عوامی جمہوریہ چین کی آزای میں ماوزے تنگ کا لانگ مارچ بھی ماضی قریب کی ایک زندہ مثال ہے۔ چین میں وقت کے تقاضوں کے مطابق اصلاحات کا سلسلہ حقیقی معنوں میں ماوزے تنگ کی زندگی کے آخری برسوں میں شروع ہو گیا تھا۔ دوسرے اور تیسرے آئین کے زمانے 1975-76 تا 1983 چینی قیادت نے دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہو ئے تبدیلیاں کیں لیکن ساتھ ہی احتیاط برتی کہ اصلاحات کے تحت ہو نے والی تبدیلیوں کی رفتار کو عدم توازن کا شکار نہ ہو نے دیا جائے۔
چینی حکومت نے 1978 میں چینی معاشرے میں اجتماعی مستقل مزاجی کی بنیاد پر چین میں ایک اورعظیم دیوار ِچین کے قیام کا منصوبہ شروع کیا۔ یہ تقریباً ناممکن نظرآنے والا منصوبہ تھا جسے گریٹ گرین وال کا نام دیا گیا ہے۔ 1978 تک صحرائے گوبی تیزی سے پھیلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور ہر سال3600 مربع کلو میٹر سرسبز میدانوں کو نگل جا تا۔ ہر سال صحرائی آندھیاں 2000 کلومیٹر رقبے کو بر باد کر نے لگیں تھیں اور اس کو روکنے لیے چین نے 1978 میں گریٹ گرین وال پر وجیکٹ شروع کیاجس کے تحت چین نے5%سے 15% جنگلاتی رقبہ بڑھا کر صحرا کے پھیلنے کے عمل کو روک دیا۔ 2009 میں 500000 مربع کلو میٹر رقبے پر شجر کاری کی گئی اور درختوں پر مشتمل رقبے میں 12% سے18% اضافہ کیا۔ یہ انسانی ہا تھوں سے لگا یا جانے والا دنیا کا سب سے بڑا جنگل ہے۔
ہر سال کرڑوں اربوں درخت لگا ئے جاتے جن میں سے 25فیصد تک کو ریتلے طوفان ختم کردیتے ہیں مگر باہمت چینی مسلسل محنت اور مستقل مزاجی سے کام کر تے ہیں، یہ منصوبہ 2050 میں مکمل ہو جا ئے گا۔ 1978 سے آج 2020 تک 44 برسوں سے ہر حکومت تسلسل سے منصوبے کو جاری رکھے ہو ئے ہے۔
چینی معاشرہ کی منظم ہو نے کی حیرت انگیز مثال 1979 میں آبادی کے منصوبے کے تحت نافذ کی جانے والی ایک بچہ پالیسی تھی یہ پالیسی صدر جیانگ زیمن اور وزیر اعظم ہوا کوفینگ کے دور میں نافذ کی گئی جس کا دوارانیہ 20 سال رکھا گیا تھا لیکن ون چائلڈ پالیسی یعنی ایک جوڑے کو صرف ایک بچہ پید ا کرنے کی اجازت سے ملکی اقلیتی آبادیوں کو مستثنیٰ قرار د یا تھا بیس سال بعد ایک جوڑا دو بچے پالیسی رائج کی گئی ہے جو اب مستقل بنیادوں پر جاری ہے۔ آبادی پر جبری اور سختی سے کنٹرول کی یہ پالیسی ماو زے تنگ کی پالیسی سے متضاد تھی لیکن یہی حقیقت پسندانہ فیصلہ تھا اور اگر چین اس طرح نہ کرتا تو آج وہ کم ازکم ایک عالمی قوت نہیں بن سکتا تھا۔
اس اصول کو یورپ اور امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد نافذ العمل کیا اور ایک جوڑا دو بچے کی پالیسی کو اپنا یا اور یہ پالیسی بھی جبراً نہیں تھی بلکہ معاشرہ نے اس کو سماجی شعور کی بنیاد پر قبول کیا تھا۔ یہ اس لیے بھی کامیاب رہی کہ ایشیائی ملکوں کے مقابلے میںیورپ اور امریکہ کے سماج میں بیٹے اور بیٹی کی پیدائش پر کو ئی معاشرتی امتیازی جذ باتی اظہار نہیںکیا جاتا یوں یہ پالیسی کامیاب رہی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ 1951 میں ہماری پہلی مردم شماری ہوئی تو آج کے پاکستان کی کل آبادی تین کروڑ تیس لاکھ تھی اور بر طانیہ کی آبادی پانچ کروڑ دس لاکھ تھی جو آج پانچ کروڑ نوے لاکھ سے کچھ زیادہ ہے اورہماری آبادی بائیس کروڑ سے زیادہ ہے اور اُس وقت آبادی میں بڑھوتی کے اعتبار سے اس سے کہیں زیادہ خراب صورتحال چین کی تھی اور چین نے ایشیائی ملک اور معاشرہ ہو نے کے باوجود انسانی جبلت کے خلاف ایک جوڑا ایک بچہ پالیسی کو 20 سال تک جبراً نا فذ العمل رکھا۔
یہ پالیسی سماجی علوم کے ماہر ین کے لیے حیرت انگیز تھی۔ کوئی بھی شخص اندازہ کر سکتا ہے ایک جوڑے کو جبراً ایک بچہ پالیسی پر آمدہ کر نا تقریباً ناممکن تھا اس میں بڑی حد تک چین کے معاشرے کا انتہائی منظم ہو نا بھی اہمیت رکھتا ہے۔ چین نے اپنی آبادی میں بڑھوتری کی رفتار کو اس منصوبے کے تحت تعمیر وترقی کی رفتار کے مقابلے میں کم کر لیا اور اس کے نتیجے میں چین کا معاشرہ مثالی طور پر خو شحال اور ترقی یا فتہ ہو گیا جب کہ یہ پہلے ہی سے دنیا میں انسانی آبادی کا سب سے بڑا اور سب سے منظم معاشرہ ہے۔ چین نے اس کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا ہو ا ہے اور اب دنیا میںجب سرد جنگ کے بعد آزاد مارکیٹ اکنامی کی بنیاد پر صنعت و تجارت کے مقابلے کا دور شروع ہو ا تو چین نے گذشتہ تیس برسوں سے توازن کو برقرار رکھتے ہو ئے تیزرفتاری سے تعمیر و ترقی کا سفر طے کیا ہے۔
چین میں ون پارٹی سسٹم کے تحت اشتراکی نظامِ معیشت کو ترک کرنے کے باوجود ایک خاص میکانیزم کے تحت نجی ملکیت کے باوجود قومی دولت کو بیرونِ ملک منتقل کر نا، کرپشن کر نا اتنا آسان نہیںکیونکہ کرپشن پر سزائے موت تک کا قانون ہے۔ چین نے ہنر مند محنتی اور حبِ وطن افرادی قوت کی کمی نہیں جو یورپ اور امریکہ کے مقا بلے سستی بھی ہے۔ اِ ن کے تاریخی پس منظر میں کاغذ، چھاپہ خانے، باردو اور دیگر بہت سی اشیا کی ایجادات اور دریافتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اِن کے ہاں ذہانت کی سطح حس جمالیات کے ساتھ تحقیقی و تخلیقی قوتوں کی ہم آہنگی رکھتی ہے اور یہ سب کچھ چین کی مصنوعات میں اپنی انفرادی شناخت اور پہچان کے ساتھ دنیا میں نمایاں ہے۔
پھر سب سے اہم یہ ہے کہ چین دنیا کی تاریخ میں اپنی فتو حات کے اعتبار سے نمایاں نہیں رہا بلکہ اپنی صنعت و تجارت علم و تحقیق کی بنیاد پر صدیوں تک دنیا میں سب سے آگے رہا۔ اس تنا ظر میں دیکھیں تو چین کو آزاد و خود مختار ہو ئے اب 71 برس ہو رہے ہیں اور اب وہ دنیا میں تجارتی ،صنعتی ،اقتصادی لحاظ سے امریکہ کے بعد دوسری بڑی قوت ہے۔ امریکہ کو 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے پر ا ور پھر دوسری مرتبہ 11 ستمبر2001 کے بعد سے اپنے مغربی اتحادیوں نیٹو کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں پر گرفت اور زیادہ مضبوط کرتے ہو ئے دنیا کو گلو بل ولیج قرار دیا تھا اور یوں امریکہ کو دنیا میں نیو ورلڈ آڈر نافذ کرنے کے لیے کھلا اور صاف میدان ملا تھا۔ لیکن شائد یہ فطرت کا قانون ہے کہ آج تک پوری دنیا کو کسی نے فتح نہیں کیا۔
1990 کو گذرے اب 30 سال ہو چکے ہیں سوویت یونین کے ٹو ٹنے کے بعد روس مستحکم ہو چکا ہے اور اب بھی وہ سائنس و ٹیکنالوجی میں اگر امریکہ کا ہم پلہ نہیں رہا پر دنیا میں امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اور اب چین اور روس میں ایسے اختلا فات نہیں بلکہ قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ چین نے اِن گذشتہ تیس برسوں میں پوری دنیا کی منڈیوں میںمقابلے کی بنیاد پر کہیں زیادہ سبقت حاصل کر لی ہے اب ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کے سامنے امریکہ ، برطانیہ ، یورپی یونین کے علاوہ چین بھی مو جو د ہے۔
لیکن چین کے پاس عالمی سطح پر یا پوری دنیا میں اقتصادی بالادستی قائم کرنے کے لیے انفراسٹرکچر یا نظام مو جود نہیں اور اس کے لیے گذشتہ بیس برسوں سے چین نے دنیا کے مختلف ملکوں سے روابط استوار کر تے ہو ئے ون بیلٹ ون روڈ اور ہمارے ہاں سی پیک جیسے منصوبے شروع کئے ہیں واضح رہے کہ جنگ عظیم اوّل سے پہلے جرمنی نے سلطنتِ عثمانیہ سے اتحاد کرتے ہو ئے جد ہ سے استمبول تک ریلوئے لائن منصوبہ شروع کیا تھا کیونکہ استمبول سے آگے آسٹریا اور جرمنی ریلو ے لنک موجود تھا۔ یہ اس لیے تھا کہ سمندورں پر برطانیہ کی اجارہ داری تھی۔ عوامی جمہوریہ چین نے بھی لگ بھگ وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو پہلی جنگ عظیم 1914 تا1918 جرمنی اور ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے اپنائی تھی۔
اور اس کو جنگ عظیم اوّل کے دوران بر طانوی جاسوس کرنل لارنس ،،لارنس آف عربیا،، نے عربوں کے ساتھ مل کر ڈائینمنٹ اور بموں سے تباہ کیا تھا،اس تناظر میں دیکھیں تو آج چین عالمی سیاسی و اقتصادی میدان میں بہت سمارٹ انداز میں کھیل رہا ہے جس کا کریڈٹ چین کی قیادت کے ساتھ کہیں زیادہ دنیا کے اس سب سے بڑے انسانی منظم معاشرے کو جا تا ہے۔
غالباً نیپو لین نے ہی چین کے بارے میں کہا تھا کہ ،، چین ایک سو یا ہوا اژدھا ہے اِسے مت چھیڑو اگر یہ جا گ گیا تو د نیا کو نگل جا ئے گا، آج جب اپریل 2020 کے اختتام پر یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو دنیا بھر میں کور ونا وائرس کا خوف پھیلا ہے اور چین ہی وہ ملک ہے جہاں کر ونا وائرس نومبر 2019 میں نمودار ہوا تو چین کے منظم معاشرے نے اس پر منظم لاک ڈاؤن کی بنیاد پر مکمل کنٹرول کر لیا اور پھر امریکہ اور یورپ اس وبائی مرض کی شدید گرفت آگئے۔ کورونا وائرس اب دنیا کے 98% ممالک میں پھیل چکا ہے اور چین اس کے بچاؤ میں پاکستان سمیت بہت سے ممالک کی مدد کر رہا ہے۔
کرونا وائرس کے نتیجے میں یورپ ، جاپان ، امریکہ ،سمیت دنیا بھر کے ملکوں کی اقتصادیا ت بحران کا شکار ہے اور امریکہ چین پر شدید نوعیت کے الزامات بھی عائد کر رہا ہے۔ اس وقت معلوم نہیں کہ آئندہ کیاصورت ہو لیکن یہ بات حقیقی ہے کہ جس طرح 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا تبدیل ہو گئی اور پھرجس طرح نائن الیون کے بعد دنیا وہ نہیں رہی تھی جو 11 ستمبر 2001 سے پہلے تھی اِسی طر ح اس کورونا وائرس کی عالمی نوعیت کی وبائی بیمار ی کے بعد دنیا سیاسی ،اقتصادی اور سماجی اعتبار سے تبدیل ہو جائے اور یہ تیسری تبدیلی پہلی دو تبدیلوں کا تسلسل ہے جواقوام متحدہ کے قیام کے بعد رونما ہوئیں۔ پہلی دو تبدیلیاں جہاں دنیا میں تباہیوں کے بعد آئیں اور ساتھ مواقع بھی لائیں تھیں اور یہ مواقع باقی دنیا کے مقابلے میں امریکہ کے لیے زیادہ فائدہ مند تھے اب اگر کوروناوائرس دنیا سے بغیر کسی عالمی جنگ کے چند مہینوں یا ایک آدھ سال میں کسی ویکسین کی ا یجاد سے ختم ہو جا تا ہے توکورونا وائرس کی تباہی کے بعد عالمی اقتصادی ،تجارتی، صنعتی اور سماجی شعبوں میں مقابلہ برابری کی بنیاد ہوگا اور فیصلہ ڈسپلن اور محنت کی بنیاد پر۔
(جاری ہے)