پی سی بی پاکستان کرکٹ میں موجود تمام برائیوں کی ماں
پی سی بی کو واپس اسی فرسٹ کلاس سسٹم میں واپس جانا چاہیے جو کہ 80 اور 90 کی دہائی میں نافذ تھا۔
اگرچہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے کئی فتوحات دیکھی ہیں لیکن پاکستان میں کرکٹ نیچے جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے غیرملکی کوچ کی تعیناتی سمیت کئی اقدامات کیے ہیں لیکن بورڈ کے تمام اقدامات قومی ٹیم کی کارکردگی کو بہتر کرنے میں ناکام رہے۔
میرے خیال میں، اس تنزلی کو ان کمزور شخصیات سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو کہ مسلسل اپنی نوکریوں کوطول دینے کے لیے بولڈ اقدامات لینے سے کتراتے رہے اور کھلاڑیوں کی جانب سے ڈالے گئے دباؤ کا شکار ہو گئے۔
مثال کے طور پر پی سی بی سلیکشن کمیٹی نے سینئر کھلاڑیوں کو کم کرنے کے لیے نوجوانوں کو ٹیم میں شامل نہیں کیا۔ یہ ہارنے کے خوف کی وجہ سے بھی تھا۔ یہاں تک کہ جب نوجوان کھلاڑیوں کو کچھ موقعوں پر منتخب کیا بھی گیا تو انہیں اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع فراہم کیے بغیر ہی جلد ٹیم سے نکال باہر کیا گیا۔ ہارث سہیل، حماد اعظم، اویس ضیا، شکیل انصر، محمد رضوان اور کئی دیگر کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیت کو اظہار کرنے کا بہتر موقع فراہم کیے بغیر ہی باہر کا راستہ دکھا دیاگیا۔
حالیہ سالوں میں کرکٹ کے تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ٹیم کو نئے خون کی ضرورت ہے لیکن ان کی تمام اپیلیں بہروں کے کانوں پر پڑیں۔ 2011 کے ورلڈ کپ کے فوری بہت تمام انٹرنیشنل ٹیموں نے مستقبل کے حوالے سے تیاری شروع کردی اپنی ٹیموں میں نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان نے معمر کھلاڑیوں کا ساتھ نہ چھوڑا اور اب جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کھلاڑیوں کی کارکردگی مسلسل تنزلی کی شکار ہے۔
سلیکشن کمیٹی یہ راگ الاپ رہی ہے کہ پاکستان سے ٹیلنٹ ختم ہو رہا ہے۔ یہ بات کسی بھی لہٰذ سے درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ٹیلنٹ سے بھرا پڑا ہے لیکن ہمارے پاس دوراندیش سلیکٹرز کی کمی ہے جو کہ ضرورت کے مطابق ٹیلنٹ کو تلاش اور بہترموقع پر ان نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کر سکیں۔ پاکستان جس کاشمار ایک وقت میں اپنی ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کی وجہ سے ہوتا تھاوہ اس وقت سب سے معمر کھلاڑیوں کی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹی 20 ٹیم کو لے لیجئے، یہ ایسا فارمیٹ ہے جسے نوجوان کھلاڑیوں کا تصور کیا جاتا ہے تاہم پاکستان ٹی 20 ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کی اوسط عمر 30 سال کے قریب ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک معمر ٹیم اس فارمیٹ میں ٹیم کی کاکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔
پی سی بی کی ایک تاریخ ہے کہ اس نے جلد بازی میں فیصلے لیے اور ٹیم کے دباؤ کی وجہ سے انہیں جلد واپس لے لیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پی سی بی نے 2010 میں دورہ آسٹریلیا کے بعد ڈسپلن کی خلاف ورزی کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں پر جرمانہ اور پابندی عائد کی۔ اس پر خوشی کا کافی ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بورڈ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا وہ ڈسپلن پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا۔ تاہم یہ سب ایک ڈھونگ ثابت ہوا اور صرف 3 ماہ کے عرصے میں جرمانے ختم کردیئے گئے اور پابندی کو ہٹا دیاگیااور کئی کھلاڑیوں کوواپس ٹیم میں شامل کرلیاگیا۔
پی سی بی کو اس وقت ایسی طویل المدتی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جس پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے اور وہ بورڈ کے چیرمین کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل یا رک نہیں جاتا ۔ 2008 میں اعجاز بٹ کی تعیناتی کے بعد انہوں نے جو سب سے پہلااقدام کیا وہ غیرملکی کوچ جیف لاسن کو عہدے سے ہٹانے کا تھا۔
کیوں؟
یہ اس چیز کے عذر کے طور پر کیا گیا کہ ایک غیرملکی کوچ پاکستان کے لیے مؤثرنہیں ہے۔
اس کے برعکس اعجاز بٹ کے جان نشیں ذکا اشرف نے بالکل مختلف کیا اور مارچ 2012 میں ایک مرتبہ پھر سے ایک غیرملکی ڈیو واٹمور کو قومی ٹیم کا کوچ مقرر کردیا۔
اپنے ابتدائی سالوں میں پی سی بی نے اعزازی بنیادوں پر کام کیا لیکن اب یہ ایک بڑا ادارہ ہے اور اس سے منسلک لوگ اچھی تنخواہیں لے رہے ہیں اور مراعات کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔
تاہم، پاکستان میں کھیل کی بہتری اور فروغ کے لیے بہت کم کیا جا رہا ہے۔
ماضی میں جب پاکستان میں صرف ایک سرکاری چینل تھا تو نوجوانوں کو متاثر کرنے کے لیے صرف ڈومیسٹک ٹورنامنٹس کے فائنل مقابلے نشر کیے جاتے تھے تاہم اب جب ہم کھیلوں کے اور نیوز کے کافی چینل رکھتے ہیں پی سی بی کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ دکھانے کے لیےاس پلیٹ فارم کو استعال نہیں کیا جا رہا ۔ گزشتہ سالوں میں بالخصوص ڈومیسٹک ٹی 20 ٹورنامنٹ کوبہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔ میرے خیال میں یہ ٹورنامنٹ درحقیقت پاکستان کرکٹ کو فروغ دینے کے بجائے بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔
مزیدبراں، پی سی بی ملک کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا ایک مستقل فارمیٹ بنانے میں ناکام ہوگیا ہے اور ہرسال فارمیٹ میں تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں۔
سابق کرکٹر باسط علی نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران موجودہ سیٹ اپ میں موجود خامیوں پر روشنی ڈالی ۔ باسط علی کے مطابق اگر ڈومیسٹک فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ کا چار روزہ میچ میں اپنے وقت سے قبل ختم ہوجاتا ہے تو کھلاڑیوں کو باقی دنوں کا الاؤنس نہیں ملتا۔ اس کی وجہ سے کھلاڑی اپنا پورا الاؤنس لینے کیلئے فرسٹ کلاس میچ کو طوالت دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پی سی بی اور اس سے الحاق شدہ ریجنل باڈیز فرسٹ کلاس میچز کے لیے ضرورت پچ کی تیاری کے حوالے سے گراؤنڈ کے عملے کسی بھی قسم کی ہدایات نہیں دیتے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے سینٹرز پر آسان ٹریک تیار کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی پچز بھی اچھی کوالٹی کے بلے باز تیار کرنے میں ناکامی کی ایک وجہ ہیں۔ صاف دلی کے ساتھ میرے خیال میں پی سی بی کو واپس اسی فرسٹ کلاس سسٹم میں واپس جانا چاہیے جو کہ 80 اور 90 کی دہائی میں نافذ تھا کیونکہ وہ سسٹم اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود مسلسل اچھے کھلاڑی پیدا کر رہا تھا۔
اگر حکومت پاکستان میں کرکٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے پی سی بی کومکمل طور پر ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسے ان سب سابق کرکٹرز کو بھی ہٹانا چاہیے جو کہ کئی دہائیوں سے بورڈ میں موجود ہیں لیکن کھیل کے موجودہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔انہیں پی سی بی کے آئین میں بھی تبدیلیاں لانی چاہییں اور اسے ایک ایسی باڈی بنانا چاہیے جہاں ممبرز کو اعلیٰ حکام تعینات نہیں کرتے بلکہ انہیں الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ایک منتخب چیرمین ہٹائے جانے کے خوف کے بغیر آزادی سے کام کر سکتا ہے اور ایک ایسا کلچر ترتیب دے سکتا ہے جہاں تمام فیصلے لینے کا معیار میرٹ ہوتا ہے۔
اگرچہ پاکستان کے نظام میں کافی مسائل ہیں لیکن کرکٹ ملک میں اب بھی پھل پھول رہی ہے جس کی بنیادی وجہ کھیل کے لیے عوام کی جڑوں میں جوش و ولولہ ہے۔کرکٹ ٹیم کو اگر ضروت ہے تو صرف ایک ایسے کرکٹ بورڈ کی جس میں اپنے کام پر گرفت رکھنے والے سابق کپتان عبدالحفیظ کاردار جیسے بامقصد لوگوں ہوں۔
اور صرف اسی صورت میں ہماری ٹیم اپنے خوبصورت دنوں میں واپس لوٹ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="180"]
میرے خیال میں، اس تنزلی کو ان کمزور شخصیات سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو کہ مسلسل اپنی نوکریوں کوطول دینے کے لیے بولڈ اقدامات لینے سے کتراتے رہے اور کھلاڑیوں کی جانب سے ڈالے گئے دباؤ کا شکار ہو گئے۔
مثال کے طور پر پی سی بی سلیکشن کمیٹی نے سینئر کھلاڑیوں کو کم کرنے کے لیے نوجوانوں کو ٹیم میں شامل نہیں کیا۔ یہ ہارنے کے خوف کی وجہ سے بھی تھا۔ یہاں تک کہ جب نوجوان کھلاڑیوں کو کچھ موقعوں پر منتخب کیا بھی گیا تو انہیں اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع فراہم کیے بغیر ہی جلد ٹیم سے نکال باہر کیا گیا۔ ہارث سہیل، حماد اعظم، اویس ضیا، شکیل انصر، محمد رضوان اور کئی دیگر کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیت کو اظہار کرنے کا بہتر موقع فراہم کیے بغیر ہی باہر کا راستہ دکھا دیاگیا۔
حالیہ سالوں میں کرکٹ کے تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ ٹیم کو نئے خون کی ضرورت ہے لیکن ان کی تمام اپیلیں بہروں کے کانوں پر پڑیں۔ 2011 کے ورلڈ کپ کے فوری بہت تمام انٹرنیشنل ٹیموں نے مستقبل کے حوالے سے تیاری شروع کردی اپنی ٹیموں میں نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان نے معمر کھلاڑیوں کا ساتھ نہ چھوڑا اور اب جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کھلاڑیوں کی کارکردگی مسلسل تنزلی کی شکار ہے۔
سلیکشن کمیٹی یہ راگ الاپ رہی ہے کہ پاکستان سے ٹیلنٹ ختم ہو رہا ہے۔ یہ بات کسی بھی لہٰذ سے درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ٹیلنٹ سے بھرا پڑا ہے لیکن ہمارے پاس دوراندیش سلیکٹرز کی کمی ہے جو کہ ضرورت کے مطابق ٹیلنٹ کو تلاش اور بہترموقع پر ان نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کر سکیں۔ پاکستان جس کاشمار ایک وقت میں اپنی ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کی شمولیت کی وجہ سے ہوتا تھاوہ اس وقت سب سے معمر کھلاڑیوں کی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹی 20 ٹیم کو لے لیجئے، یہ ایسا فارمیٹ ہے جسے نوجوان کھلاڑیوں کا تصور کیا جاتا ہے تاہم پاکستان ٹی 20 ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کی اوسط عمر 30 سال کے قریب ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایک معمر ٹیم اس فارمیٹ میں ٹیم کی کاکردگی پر اثرانداز ہوتی ہے۔
پی سی بی کی ایک تاریخ ہے کہ اس نے جلد بازی میں فیصلے لیے اور ٹیم کے دباؤ کی وجہ سے انہیں جلد واپس لے لیا۔ اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پی سی بی نے 2010 میں دورہ آسٹریلیا کے بعد ڈسپلن کی خلاف ورزی کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں پر جرمانہ اور پابندی عائد کی۔ اس پر خوشی کا کافی ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بورڈ کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا وہ ڈسپلن پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں کرے گا۔ تاہم یہ سب ایک ڈھونگ ثابت ہوا اور صرف 3 ماہ کے عرصے میں جرمانے ختم کردیئے گئے اور پابندی کو ہٹا دیاگیااور کئی کھلاڑیوں کوواپس ٹیم میں شامل کرلیاگیا۔
پی سی بی کو اس وقت ایسی طویل المدتی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جس پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے اور وہ بورڈ کے چیرمین کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل یا رک نہیں جاتا ۔ 2008 میں اعجاز بٹ کی تعیناتی کے بعد انہوں نے جو سب سے پہلااقدام کیا وہ غیرملکی کوچ جیف لاسن کو عہدے سے ہٹانے کا تھا۔
کیوں؟
یہ اس چیز کے عذر کے طور پر کیا گیا کہ ایک غیرملکی کوچ پاکستان کے لیے مؤثرنہیں ہے۔
اس کے برعکس اعجاز بٹ کے جان نشیں ذکا اشرف نے بالکل مختلف کیا اور مارچ 2012 میں ایک مرتبہ پھر سے ایک غیرملکی ڈیو واٹمور کو قومی ٹیم کا کوچ مقرر کردیا۔
اپنے ابتدائی سالوں میں پی سی بی نے اعزازی بنیادوں پر کام کیا لیکن اب یہ ایک بڑا ادارہ ہے اور اس سے منسلک لوگ اچھی تنخواہیں لے رہے ہیں اور مراعات کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔
تاہم، پاکستان میں کھیل کی بہتری اور فروغ کے لیے بہت کم کیا جا رہا ہے۔
ماضی میں جب پاکستان میں صرف ایک سرکاری چینل تھا تو نوجوانوں کو متاثر کرنے کے لیے صرف ڈومیسٹک ٹورنامنٹس کے فائنل مقابلے نشر کیے جاتے تھے تاہم اب جب ہم کھیلوں کے اور نیوز کے کافی چینل رکھتے ہیں پی سی بی کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ دکھانے کے لیےاس پلیٹ فارم کو استعال نہیں کیا جا رہا ۔ گزشتہ سالوں میں بالخصوص ڈومیسٹک ٹی 20 ٹورنامنٹ کوبہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی ہے۔ میرے خیال میں یہ ٹورنامنٹ درحقیقت پاکستان کرکٹ کو فروغ دینے کے بجائے بہت زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔
مزیدبراں، پی سی بی ملک کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا ایک مستقل فارمیٹ بنانے میں ناکام ہوگیا ہے اور ہرسال فارمیٹ میں تبدیلیاں کر دی جاتی ہیں۔
سابق کرکٹر باسط علی نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران موجودہ سیٹ اپ میں موجود خامیوں پر روشنی ڈالی ۔ باسط علی کے مطابق اگر ڈومیسٹک فرسٹ کلاس ٹورنامنٹ کا چار روزہ میچ میں اپنے وقت سے قبل ختم ہوجاتا ہے تو کھلاڑیوں کو باقی دنوں کا الاؤنس نہیں ملتا۔ اس کی وجہ سے کھلاڑی اپنا پورا الاؤنس لینے کیلئے فرسٹ کلاس میچ کو طوالت دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ پی سی بی اور اس سے الحاق شدہ ریجنل باڈیز فرسٹ کلاس میچز کے لیے ضرورت پچ کی تیاری کے حوالے سے گراؤنڈ کے عملے کسی بھی قسم کی ہدایات نہیں دیتے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے سینٹرز پر آسان ٹریک تیار کیے جاتے ہیں۔ اس قسم کی پچز بھی اچھی کوالٹی کے بلے باز تیار کرنے میں ناکامی کی ایک وجہ ہیں۔ صاف دلی کے ساتھ میرے خیال میں پی سی بی کو واپس اسی فرسٹ کلاس سسٹم میں واپس جانا چاہیے جو کہ 80 اور 90 کی دہائی میں نافذ تھا کیونکہ وہ سسٹم اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود مسلسل اچھے کھلاڑی پیدا کر رہا تھا۔
اگر حکومت پاکستان میں کرکٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو اسے سب سے پہلے پی سی بی کومکمل طور پر ٹھیک کرنا ہوگا۔ اسے ان سب سابق کرکٹرز کو بھی ہٹانا چاہیے جو کہ کئی دہائیوں سے بورڈ میں موجود ہیں لیکن کھیل کے موجودہ مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔انہیں پی سی بی کے آئین میں بھی تبدیلیاں لانی چاہییں اور اسے ایک ایسی باڈی بنانا چاہیے جہاں ممبرز کو اعلیٰ حکام تعینات نہیں کرتے بلکہ انہیں الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ایک منتخب چیرمین ہٹائے جانے کے خوف کے بغیر آزادی سے کام کر سکتا ہے اور ایک ایسا کلچر ترتیب دے سکتا ہے جہاں تمام فیصلے لینے کا معیار میرٹ ہوتا ہے۔
اگرچہ پاکستان کے نظام میں کافی مسائل ہیں لیکن کرکٹ ملک میں اب بھی پھل پھول رہی ہے جس کی بنیادی وجہ کھیل کے لیے عوام کی جڑوں میں جوش و ولولہ ہے۔کرکٹ ٹیم کو اگر ضروت ہے تو صرف ایک ایسے کرکٹ بورڈ کی جس میں اپنے کام پر گرفت رکھنے والے سابق کپتان عبدالحفیظ کاردار جیسے بامقصد لوگوں ہوں۔
اور صرف اسی صورت میں ہماری ٹیم اپنے خوبصورت دنوں میں واپس لوٹ سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[poll id="180"]