مادہ اور روح
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر جاندار بشمول انسان ہمارے عقیدے کے مطابق مادہ اور روح کا مرکب ہے
LONDON:
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر جاندار بشمول انسان ہمارے عقیدے کے مطابق مادہ اور روح کا مرکب ہے اور روح اللہ کا امر ہے۔ آج کل دنیا میں مادی ترقی کا غلغلہ مچا ہوا ہے اور نسل انسانی سائسی اور مادی ترقی کے اعتبار سے شاید اپنی تاریخ کے سب سے زریں دور سے گزر رہی ہے۔
انسانوں نے مادے پر محنت کی تو اسے آسمانوں میں اڑا دیا بلکہ خلاؤں میں پہنچا دیا۔ سمندروں کی تہیں انسانی مادی رسائی سے نہ بچ سکیں اور آبدوزوں کی شکل میں وہاں تک بھی باآسانی رسائی مل گئی۔ بلاشبہ مادے پر محنت کرنے سے بہت کچھ ملا۔ یہ سب کرشمات سائنس اور ٹیکنالوجی نامی جن نے دکھائے ہیں۔ چند صدیوں قبل تک یہ جن مشرق کے اور مسلمانوں کے قبضے میں تھا اور اس وقت مشرقی اور اسلامی تہذیب کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن زمانے کے تغیرات،حالات و واقعات سے یہ جن مشرقی قبضے سے نکل گیا اور مغرب کے سائنسی عاملوں نے کئی سو سال کی ریاضت اور چلہ کشی کے بعد اسے قابو کرلیا اور آج کل یہ مغربی تہذیب کو بام عروج عطا کیے ہوئے ہے اور وہ زمین و آسمانوں میں دھوم مچا رہے ہیں اور دنیا کو اپنی تہذیب کی چمک سے مسحور کرکے رکھا ہوا ہے۔
لیکن کیا بات اتنی ہی سادہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جن کو قابو کرکے انسانیت کو صرف فوائد اور سہولیات ہی ملی ہیں یا تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے؟ مانا کہ ٹیکنالوجی اور سائنس نے ہمیں بے شمار فوائد، سہولیات اور آسانیاں دی ہیں۔ برقی رو، فون، انٹرنیٹ، علاج معالجے کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی، رسل و رسائل کے ذرائع اور سفری سہولیات میں زبردست آسانیاں، رابطہ کاری کے بہت سے وسائل اور اس دورِ جدید میں ایجاد شدہ دیگر بہت سی اشیاء وغیرہ۔ یہ سب اب آپ کی عام رسائی اور فنگر ٹپ پر ہیں۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کے جن نے جہاں بہت کچھ دیا ہے وہیں بہت کچھ چھین بھی لیا ہے اور سود و زیاں کا حساب رکھنے والے بہت سے اہل نظر یہ بھی کہتے پائے گئے یہ لینا اس دینے سے بہت زیادہ ہے۔
میں علامہ کے شعر میں مشینوں اور ٹیکنالوجی پر کی گئی تنقید 'ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت، احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات' جیسی باتوں کو دلیل بالکل نہیں بناتا۔ حالانکہ اس ٹیکنالوجی سے بھری مشینی دنیا کی مشینوں نے انسانوں سے ان کے بہت سے فطری خواص کس بے رحمی سے آہستہ آہستہ چھین لیے ہیں اور مادہ پرست تہذیب نے اپنی تہذیبی ترقی اور چکاچوند کا فائدہ اٹھا کر انسانی اور دینی اخلاقیات پر اپنے مادر پدر آزاد نظریات اور اعمال کی ترویج کرتے ہوئے کیسی ضرب لگانے کی کوشش کی ہے اور کیسے انسانوں کو رفتہ رفتہ مشینوں میں ڈھالتی جارہی ہے کہ بس کسی بھی اخلاقیات کی پرواہ کیے بغیر لذات اور آسائشات کے حصول کےلیے ہر طریقہ اور ترکیب حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر استعمال کر گزرو، کیونکہ یہ حلال و حرام کا تصور تو ان کی آزاد تہذیب میں ہے ہی نہیں یا پھر بہت محدود اور ناقص ہے ۔ میں تو کچھ ٹھوس حقائق پر بات کروں گا اور ان میں سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے گلوبل وارمنگ۔
ٹیکنالوجی کے استعمال کےلیے بنائے گئے نظاموں نے عالمی موسم بگاڑ دیا ہے۔ اوزون کی تہہ جو ہمیں سورج کی ہلاکت خیز شعاعوں سے تحفظ دینے کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ اور غلاف تھا، وہ دیگر صنعتوں کے ساتھ ساتھ فریج اور ایئرکنڈیشنز میں استعمال ہونے والی گیسز کے بے تحاشا اضافے کی وجہ سے کئی جگہ سے پھٹ چکا ہے۔ لکڑی کے حصول کےلیے جنگلات کے بے تحاشا کٹاؤ کی وجہ سے دنیا یعنی کرۂ ارض کے پھیپڑے خراب ہورہے ہیں اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا قدرتی تناسب بگڑ چکا ہے، جس سے گرین ہاؤس افیکٹ جھوم جھوم کر رقص کررہا اور لمبی لمبی چھلانگیں لگارہا ہے۔ اسی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت تبدیل ہورہا ہے اور قطبین بھی اب ہزاروں سال سے منجمد حالت میں رہنے سے تنگ آگئے ہیں اور پگھلنے کے موڈ میں ہیں۔ جس سے زبردست طوفانوں اور بدترین موسمیاتی تغیرات کا خطرہ آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ پھر آتی ہے ایٹمی یا نیوکلیئر پاور، جس نے دنیا بھر کو گویا بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے اور ابھی جیسے کشمیر کے معاملے پر کچھ عرصے پہلے تک ہند و پاک کی نیوکلیئر ریاستیں آمنے سامنے بظاہر گنڈاسہ تھامے کھڑی ایک دوسرے کو للکار رہی تھیں اور ایسے ہی دنیا میں کئی جنگی فلیش پوائنٹس اور بھی موجود ہیں۔۔ اگر خدا نخواستہ خاکم بدہن کوئی ایسی ویسی بات ہوگئے، یعنی جنگ کے شعلے کہیں بھی بھڑک اٹھے تو پھر اس کے اثرات صرف کسی ایک جگہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سارا کرۂ ارض بدترین طور پر متاثر ہوگا۔ اسی خدشے پر چند دن پہلے ہی بی بی سی نے اس پر پوری تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جو اس شعبے کے ماہرین کی تیار کردہ ہے۔
اور بھی بہت سی باتیں اور خطرات و خدشات ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے یا اگر ہمدردانہ انداز میں کہا جائے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس گلوبل ولیج میں ان کمپنیوں اور سرمایہ دار بڑے ممالک کے بے تحاشا منافع کےلیے کیے جانے والے سرمایہ دارانہ اقدامات کےلیے ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی وجہ نہ صرف پیدا ہوچکے ہیں بلکہ جوان ہوکر آنکھیں دکھا رہے اور جائیداد میں سے حصہ بھی مانگ رہے ہیں۔
آخر میں چلتے چلتے موجودہ سائنسی دنیا کے امام جناب آئن اسٹائن کی ایک بات شیئر کرتا چلوں کہ کسی نے ان سے پوچھا تھا جناب آپ دنیا کے ذہین ترین انسان اور بڑا دماغ کہلاتے ہیں اور بجا طور پر کہلاتے ہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ میں کون سے ہتھیار استعمال کیے جائیں گے؟ وہ ستم ظریف سوال سن کر کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا کہ یہ تو میں یقین سے نہیں بتا سکتا لیکن یہ یقین سے بتا سکتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ میں کون سے ہتھیار استعمال ہوں گے۔ پوچھا گیا کہ کون سے؟ آئن اسٹائن بولا 'پتھر اور ڈنڈے'۔ تو یہ تو تھی مادے اور اس کی خدشات سے بھری ترقی کی روداد، اور اب آتے ہیں روح پر کہ ہر جاندار مادے اور روح کا ہی مرکب ہے۔ اب جس طرح مادے پر محنت نے حیر انگیز نتائج دیے ہیں، اسی طرح روح پر محنت اس سے ہزاروں گنا زیادہ عجائب و غرائب پر مبنی مفید نتائج دیتی رہی ہے اور ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں ہر مذہب کے ان حضرات کی جنہوں نے روحانی بالیدگی حاصل کرنے کی محنت کی اور معجزے برپا کرکے دکھا دیے۔
دین اسلام کا مرتب کردہ نظام حیات روح پر محنت کرکے فوائد حاصل کرنے کا سب سے بہتر نظام ہے، کیونکہ یہ اس کا مرتب کردہ نصاب اور طریقہ ہے جو روح، مادہ اور تمام عالمین اور مخلوقات کا خالق ہے اور اس نے انسانوں کی بھلائی اور فائدے کےلیے دین اسلام کی شکل میں بہترین طرز حیات برائے عمل تعلیم کیا ہے۔
اب ایک مثال پر بات ختم کرتا ہوں کہ روح کی گوناگوں اور بے شمار طاقتوں میں سے صرف ایک طاقت خیال یا سوچ کی ہے اور کوئی بھی فرد چاہے وہ روح کو نہ بھی مانتا ہو، خیال کی رسائی، رفتار اور پہنچ سے کیسے انکار کرسکتا ہے کہ خیال اور سوچ آناً فاناً کائنات بلکہ ورائے کائنات تک لے جاسکتی ہے اور انسانی سوچ کہاں کہاں تک چلی جاتی ہے، اسی مضمون کو مرزا غالب نے بھی یوں باندھا ہے کہ
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
تو روح پر محنت کرنا اور اس کے قواعد کو ضوابط کے مطابق اسے توانا بنانا آپ کو مشکلات سے مکھن میں سے بال کی طرح باہر نکال لینے کا ضامن ہے اور ہر قسم کے حالات میں چین و سکون، راحت اور آرام مہیا کرتا ہے۔ اسی لیے یہ عام مشاہدہ ہے کہ جن افراد کا تعلق اللہ پاک سے مضبوط ہوتا ہے اور جو اہل اللہ شمار ہوتے ہیں اور جن کی ارواح اس تعلق مع اللہ کی وجہ سےتوانا ہوتی ہیں، وہ چین و سکون کی نعمت سے نہ صرف خود مالامال ہوتے ہیں بلکہ اسے دوسروں کو بھی منتقل کردیتے ہیں اور ان کی صحبت میں رہنے والا بنا کسی مادی سبب کے خود کو پرسکون اور محفوظ کرتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
دنیا میں پیدا ہونے والا ہر جاندار بشمول انسان ہمارے عقیدے کے مطابق مادہ اور روح کا مرکب ہے اور روح اللہ کا امر ہے۔ آج کل دنیا میں مادی ترقی کا غلغلہ مچا ہوا ہے اور نسل انسانی سائسی اور مادی ترقی کے اعتبار سے شاید اپنی تاریخ کے سب سے زریں دور سے گزر رہی ہے۔
انسانوں نے مادے پر محنت کی تو اسے آسمانوں میں اڑا دیا بلکہ خلاؤں میں پہنچا دیا۔ سمندروں کی تہیں انسانی مادی رسائی سے نہ بچ سکیں اور آبدوزوں کی شکل میں وہاں تک بھی باآسانی رسائی مل گئی۔ بلاشبہ مادے پر محنت کرنے سے بہت کچھ ملا۔ یہ سب کرشمات سائنس اور ٹیکنالوجی نامی جن نے دکھائے ہیں۔ چند صدیوں قبل تک یہ جن مشرق کے اور مسلمانوں کے قبضے میں تھا اور اس وقت مشرقی اور اسلامی تہذیب کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ تہذیب میں ہوا کرتا تھا۔ لیکن زمانے کے تغیرات،حالات و واقعات سے یہ جن مشرقی قبضے سے نکل گیا اور مغرب کے سائنسی عاملوں نے کئی سو سال کی ریاضت اور چلہ کشی کے بعد اسے قابو کرلیا اور آج کل یہ مغربی تہذیب کو بام عروج عطا کیے ہوئے ہے اور وہ زمین و آسمانوں میں دھوم مچا رہے ہیں اور دنیا کو اپنی تہذیب کی چمک سے مسحور کرکے رکھا ہوا ہے۔
لیکن کیا بات اتنی ہی سادہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس جن کو قابو کرکے انسانیت کو صرف فوائد اور سہولیات ہی ملی ہیں یا تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے؟ مانا کہ ٹیکنالوجی اور سائنس نے ہمیں بے شمار فوائد، سہولیات اور آسانیاں دی ہیں۔ برقی رو، فون، انٹرنیٹ، علاج معالجے کے شعبے میں حیرت انگیز ترقی، رسل و رسائل کے ذرائع اور سفری سہولیات میں زبردست آسانیاں، رابطہ کاری کے بہت سے وسائل اور اس دورِ جدید میں ایجاد شدہ دیگر بہت سی اشیاء وغیرہ۔ یہ سب اب آپ کی عام رسائی اور فنگر ٹپ پر ہیں۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کے جن نے جہاں بہت کچھ دیا ہے وہیں بہت کچھ چھین بھی لیا ہے اور سود و زیاں کا حساب رکھنے والے بہت سے اہل نظر یہ بھی کہتے پائے گئے یہ لینا اس دینے سے بہت زیادہ ہے۔
میں علامہ کے شعر میں مشینوں اور ٹیکنالوجی پر کی گئی تنقید 'ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت، احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات' جیسی باتوں کو دلیل بالکل نہیں بناتا۔ حالانکہ اس ٹیکنالوجی سے بھری مشینی دنیا کی مشینوں نے انسانوں سے ان کے بہت سے فطری خواص کس بے رحمی سے آہستہ آہستہ چھین لیے ہیں اور مادہ پرست تہذیب نے اپنی تہذیبی ترقی اور چکاچوند کا فائدہ اٹھا کر انسانی اور دینی اخلاقیات پر اپنے مادر پدر آزاد نظریات اور اعمال کی ترویج کرتے ہوئے کیسی ضرب لگانے کی کوشش کی ہے اور کیسے انسانوں کو رفتہ رفتہ مشینوں میں ڈھالتی جارہی ہے کہ بس کسی بھی اخلاقیات کی پرواہ کیے بغیر لذات اور آسائشات کے حصول کےلیے ہر طریقہ اور ترکیب حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر استعمال کر گزرو، کیونکہ یہ حلال و حرام کا تصور تو ان کی آزاد تہذیب میں ہے ہی نہیں یا پھر بہت محدود اور ناقص ہے ۔ میں تو کچھ ٹھوس حقائق پر بات کروں گا اور ان میں سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے گلوبل وارمنگ۔
ٹیکنالوجی کے استعمال کےلیے بنائے گئے نظاموں نے عالمی موسم بگاڑ دیا ہے۔ اوزون کی تہہ جو ہمیں سورج کی ہلاکت خیز شعاعوں سے تحفظ دینے کا سب سے بڑا قدرتی ذریعہ اور غلاف تھا، وہ دیگر صنعتوں کے ساتھ ساتھ فریج اور ایئرکنڈیشنز میں استعمال ہونے والی گیسز کے بے تحاشا اضافے کی وجہ سے کئی جگہ سے پھٹ چکا ہے۔ لکڑی کے حصول کےلیے جنگلات کے بے تحاشا کٹاؤ کی وجہ سے دنیا یعنی کرۂ ارض کے پھیپڑے خراب ہورہے ہیں اور فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا قدرتی تناسب بگڑ چکا ہے، جس سے گرین ہاؤس افیکٹ جھوم جھوم کر رقص کررہا اور لمبی لمبی چھلانگیں لگارہا ہے۔ اسی کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت تبدیل ہورہا ہے اور قطبین بھی اب ہزاروں سال سے منجمد حالت میں رہنے سے تنگ آگئے ہیں اور پگھلنے کے موڈ میں ہیں۔ جس سے زبردست طوفانوں اور بدترین موسمیاتی تغیرات کا خطرہ آنکھیں دکھا رہا ہے ۔ پھر آتی ہے ایٹمی یا نیوکلیئر پاور، جس نے دنیا بھر کو گویا بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا ہے اور ابھی جیسے کشمیر کے معاملے پر کچھ عرصے پہلے تک ہند و پاک کی نیوکلیئر ریاستیں آمنے سامنے بظاہر گنڈاسہ تھامے کھڑی ایک دوسرے کو للکار رہی تھیں اور ایسے ہی دنیا میں کئی جنگی فلیش پوائنٹس اور بھی موجود ہیں۔۔ اگر خدا نخواستہ خاکم بدہن کوئی ایسی ویسی بات ہوگئے، یعنی جنگ کے شعلے کہیں بھی بھڑک اٹھے تو پھر اس کے اثرات صرف کسی ایک جگہ تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ سارا کرۂ ارض بدترین طور پر متاثر ہوگا۔ اسی خدشے پر چند دن پہلے ہی بی بی سی نے اس پر پوری تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جو اس شعبے کے ماہرین کی تیار کردہ ہے۔
اور بھی بہت سی باتیں اور خطرات و خدشات ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے یا اگر ہمدردانہ انداز میں کہا جائے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اس گلوبل ولیج میں ان کمپنیوں اور سرمایہ دار بڑے ممالک کے بے تحاشا منافع کےلیے کیے جانے والے سرمایہ دارانہ اقدامات کےلیے ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کی وجہ نہ صرف پیدا ہوچکے ہیں بلکہ جوان ہوکر آنکھیں دکھا رہے اور جائیداد میں سے حصہ بھی مانگ رہے ہیں۔
آخر میں چلتے چلتے موجودہ سائنسی دنیا کے امام جناب آئن اسٹائن کی ایک بات شیئر کرتا چلوں کہ کسی نے ان سے پوچھا تھا جناب آپ دنیا کے ذہین ترین انسان اور بڑا دماغ کہلاتے ہیں اور بجا طور پر کہلاتے ہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ میں کون سے ہتھیار استعمال کیے جائیں گے؟ وہ ستم ظریف سوال سن کر کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا کہ یہ تو میں یقین سے نہیں بتا سکتا لیکن یہ یقین سے بتا سکتا ہوں کہ چوتھی عالمی جنگ میں کون سے ہتھیار استعمال ہوں گے۔ پوچھا گیا کہ کون سے؟ آئن اسٹائن بولا 'پتھر اور ڈنڈے'۔ تو یہ تو تھی مادے اور اس کی خدشات سے بھری ترقی کی روداد، اور اب آتے ہیں روح پر کہ ہر جاندار مادے اور روح کا ہی مرکب ہے۔ اب جس طرح مادے پر محنت نے حیر انگیز نتائج دیے ہیں، اسی طرح روح پر محنت اس سے ہزاروں گنا زیادہ عجائب و غرائب پر مبنی مفید نتائج دیتی رہی ہے اور ہزاروں لاکھوں مثالیں ہیں ہر مذہب کے ان حضرات کی جنہوں نے روحانی بالیدگی حاصل کرنے کی محنت کی اور معجزے برپا کرکے دکھا دیے۔
دین اسلام کا مرتب کردہ نظام حیات روح پر محنت کرکے فوائد حاصل کرنے کا سب سے بہتر نظام ہے، کیونکہ یہ اس کا مرتب کردہ نصاب اور طریقہ ہے جو روح، مادہ اور تمام عالمین اور مخلوقات کا خالق ہے اور اس نے انسانوں کی بھلائی اور فائدے کےلیے دین اسلام کی شکل میں بہترین طرز حیات برائے عمل تعلیم کیا ہے۔
اب ایک مثال پر بات ختم کرتا ہوں کہ روح کی گوناگوں اور بے شمار طاقتوں میں سے صرف ایک طاقت خیال یا سوچ کی ہے اور کوئی بھی فرد چاہے وہ روح کو نہ بھی مانتا ہو، خیال کی رسائی، رفتار اور پہنچ سے کیسے انکار کرسکتا ہے کہ خیال اور سوچ آناً فاناً کائنات بلکہ ورائے کائنات تک لے جاسکتی ہے اور انسانی سوچ کہاں کہاں تک چلی جاتی ہے، اسی مضمون کو مرزا غالب نے بھی یوں باندھا ہے کہ
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا
تو روح پر محنت کرنا اور اس کے قواعد کو ضوابط کے مطابق اسے توانا بنانا آپ کو مشکلات سے مکھن میں سے بال کی طرح باہر نکال لینے کا ضامن ہے اور ہر قسم کے حالات میں چین و سکون، راحت اور آرام مہیا کرتا ہے۔ اسی لیے یہ عام مشاہدہ ہے کہ جن افراد کا تعلق اللہ پاک سے مضبوط ہوتا ہے اور جو اہل اللہ شمار ہوتے ہیں اور جن کی ارواح اس تعلق مع اللہ کی وجہ سےتوانا ہوتی ہیں، وہ چین و سکون کی نعمت سے نہ صرف خود مالامال ہوتے ہیں بلکہ اسے دوسروں کو بھی منتقل کردیتے ہیں اور ان کی صحبت میں رہنے والا بنا کسی مادی سبب کے خود کو پرسکون اور محفوظ کرتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔