چین اور انسدادِ غربت کا اہم سنگ میل
اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں غربت کا خاتمہ بھی ایک اہم ہدف ہے
عالمی سطح پر ناول کورونا وائرس کے باعث اقتصادی سماجی ترقی سنگین طور پر متاثر ہورہی ہے اور ماہرین کے نزدیک اس بحران سے نمٹتے ہوئے اقتصادی بحالی کے عمل میں بھی کافی وقت لگ سکتا ہے۔ دنیا بھر میں بے روزگاری، غربت سمیت دیگر سماجی و نفسیاتی مسائل جنم لے رہے ہیں جبکہ لوگوں کی ساری امیدیں ویکسین کی جلد ازجلد دستیابی سے وابستہ ہیں۔ ناول کورونا وائرس نے سب سے پہلے چین کو نشانہ بنایا، پھر یورپ کا رخ کیا، امریکا میں وائرس کی سنگین تباہ کاریاں بدستور جاری ہیں اور اب لاطینی امریکی ممالک وائرس کا نیا مرکز بن چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد اور اموات میں اضافہ تشویشناک ہے۔
اس صورتحال میں حالیہ دنوں چین کے سیاسی کیلنڈر کی نمایاں ترین سرگرمی ''دو اجلاسوں'' کا انعقاد کیا گیا، جسے عالمی برادری کی نمایاں توجہ حاصل رہی۔ اس کی ایک وجہ تو چین میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال کے بعد اقتصادی سماجی سرگرمیوں کی بحالی اور دوسرا چینی قیادت کی جانب سے فیصلہ سازی ہے۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: دنیا کا منفرد پارلیمانی نظام
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے لیکن ان اجلاسوں کے دوران چین کی جانب سے رواں برس جی ڈی پی کے حوالے سے کوئی مخصوص ہدف سامنے نہیں آیا، جو دیگر ممالک اور معاشی ماہرین کےلیے باعث حیرت ہے۔ جبکہ چین کا موقف ہے کہ دنیا بھر میں کساد بازاری کے باعث ملک میں روزگار کے تحفظ، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، مالیاتی منڈیوں کی بہتر صورتحال، توانائی اور خوراک کا تحفظ ، مستحکم صنعتی چین اور حکومتی امور پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔
موجودہ سال چین سے غربت کے مکمل خاتمے اور ایک معتدل خوشحال معاشرے کے قیام کا سال بھی ہے۔ ایک جانب اگر عالمی سطح پر چین کے سیاسی، اقتصادی، سفارتی کردار کی بات کی جائے تو دوسری جانب سماجی، معاشرتی اعتبار سے بھی چین دنیا میں ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت عالمگیر سطح پر انسداد وبا کے ساتھ ساتھ دنیا کو جو دیگر چیلنجز درپیش ہیں، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو، ان میں تخفیف غربت بھی ہے۔ اس ضمن میں دنیا کو غربت سے نجات دلانے میں چین کا ایک نمایاں کردار ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا سے غربت کے خاتمے کے بڑا سہرا چین کے سر جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا، جس نےانتہائی کم عرصے میں کروڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالتے ہوئے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اعدادوشمار کی روشنی میں چین میں کھلے پن اور اصلاحات کے آغاز کے بعد صرف چار دہائیوں میں تقریباً 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو سطح غربت سے نکالا گیا، جو حیرت انگیز طور پر دنیا کا 70 فیصد بنتا ہے۔
2013 میں چینی صدر شی جن پنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسداد غربت میں ایک ''ٹارگٹڈ اپروچ'' اپنائی جائے۔ اس مہم کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سرکاری حکام غربت کے شکار افراد کو نہ صرف امداد فراہم کریں بلکہ ایسے ذرائع تلاش کریں جس سے پائیدار آمدنی کا مستقل حصول ممکن ہوسکے۔ 2012 میں چین بھر میں غربت کے شکار افراد کی تعداد تقریباً نو کروڑ سے زائد تھی، جس میں سالانہ بنیادوں پر کمی لاتے ہوئے 2019 کے اواخر تک یہ تعداد صرف پچپن لاکھ تک رہ گئی ہے۔ 2012 میں شروع ہونے والا یہ سفر گزشتہ سات برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ اس دوران غربت کی شرح کو 10.2 فیصد کی سطح سے 0.6 فیصد کی سطح تک لایا گیا ہے۔
دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے تحت لوگوں کی جدید سہولیات سے آراستہ علاقوں میں منتقلی سمیت انہیں ذرائع آمد و رفت، تعلیم ، ٹیلی مواصلات، طب، بجلی، شفاف پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی بھی فراہم کی گئیں۔ لوگوں کی آبادکاری کے ساتھ انہیں روزگار اور فنی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ زرعی سیاحت، سبزیوں پھلوں کی کاشت، مویشی بانی، مقامی دستکاریوں سمیت انسداد غربت سے وابستہ دیگر صنعتوں کو ترقی دی گئی تاکہ شہریوں کی مستقل آمدن کا بہتر انتظام کیا جاسکے۔ اس قدر وسیع پیمانے پر حاصل کی جانے والی کامیابیوں میں صرف چین کی تیز رفتار اقتصادی ترقی اور صنعتکاری ہی کارفرما نہیں رہی بلکہ حکومت کی جانب سے ایسے موثر و مربوط منصوبہ جات سامنے لائے گئے جن کی بدولت لوگوں کو غربت سے چھٹکارا ملا۔ چینی قیادت نے ہمیشہ طویل المیعاد بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ہے جس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ستر کی دہائی کے اواخر میں چین کی جانب سے غربت کے خاتمے کےلیے دیرپا منصوبہ جات کا آغاز کیا گیا اور اس مقصد کی خاطر ایک حکومتی ادارے کا قیام عمل میں لاتے ہوئے فنڈز بھی مختص کیے گئے۔ منصوبہ بندی کے تحت حکومت کی جانب سے کم ترقی یافتہ علاقوں کا تعین کیا گیا اور بعد میں دہائیوں تک ایسے علاقوں کو مرکزی حکومت اور خوشحال ہمسایہ علاقوں کی جانب سے نہ صرف مالیاتی، تکنیکی امداد فراہم کی گئی بلکہ افرادی وسائل بھی مہیا کیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ چینی حکومت کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ غربت کے خاتمے کی کوششوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن سے حقیقی نتائج حاصل کیے جاسکیں۔
2013 میں غربت کے خاتمے کی پہلی پالیسی کو بدیل کرتے ہوئے غریب افراد کی ضرورت کے عین مطابق نئی تبدیل شدہ اور موزوں پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ اس ضمن میں یہ اقدامات کیے گئے کہ چین کے دور دراز اور ناقابل رسائی پہاڑی اور خشک علاقوں میں رہنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ایسے مقامات کو چھوڑتے ہوئے حکومت کی جانب سے موزوں علاقوں میں تعمیر کیے جانے والے گھروں میں منتقل ہوجائیں۔ یہ پالیسی اپنی نوعیت کی ایک منفرد کاوش ہے، کیونکہ عام طور پر لوگ اپنے آبائی گھروں کو آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہتے، لیکن جب بنیادی ضروریات زندگی ہی دستیاب نہ ہوں تو پھر غربت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وسائل کا ایک بڑا حصہ ایسے رہائشی منصوبہ جات کےلیے مختص کیا گیا، جن کی بدولت دیہی اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ نئے شہروں میں منتقل ہوں اور زندگی کے نئے سفر کا ازسرنو آغاز کریں۔
چینی قیادت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے اقدامات میں یہ کوشش کی گئی کہ چینی باشندوں کو ملک کا کارآمد شہری بنایا جائے اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔ اس حوالے سے چینی حکومت کی جانب سے ہنرمند اور پیشہ ورانہ افراد کےلیے سازگار صنعتی پالیسیاں اور مالیاتی امداد فراہم کی گئی تاکہ ایسے افراد یا تو اپنا روزگار شروع کرسکیں یا پھر روزگار کے اچھے مواقعوں کی تلاش کےلیے ترقی یافتہ علاقوں میں منتقل ہوجائیں۔ اس ضمن میں مذکورہ پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کےلیے حکومت نے نجی شعبے کی شمولیت سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ امدادی فنڈز کےلیے اربوں یوان مختص کیے گئے اور لاکھوں اہلکاروں کو پسماندہ علاقوں میں بھیجا گیا تاکہ وہ غربت کے خاتمے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
اس سارے عمل میں ہم یہ دیکھتے ہیں چینی حکومت نے کبھی بھی غربت کے خاتمے کی مہم کو سست روی کا شکار نہیں ہونے دیا، بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے عزم، ہمت اور اقدامات کو مزید تقویت ملی ہے۔ موجودہ چینی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ انسداد وبا کے ساتھ سال 2020 ملک سے غربت کے مکمل خاتمے اور ہر اعتبار سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تکمیل کا سال قرار پائے۔ اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں غربت کا خاتمہ بھی ایک اہم ہدف ہے۔ اگر چین رواں برس یہ ہدف حاصل کرلیتا ہے تو دس برس قبل منزل مقصود کا حصول یقیناً ایک تاریخی سنگ میل ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس صورتحال میں حالیہ دنوں چین کے سیاسی کیلنڈر کی نمایاں ترین سرگرمی ''دو اجلاسوں'' کا انعقاد کیا گیا، جسے عالمی برادری کی نمایاں توجہ حاصل رہی۔ اس کی ایک وجہ تو چین میں انسداد وبا کی بہتر صورتحال کے بعد اقتصادی سماجی سرگرمیوں کی بحالی اور دوسرا چینی قیادت کی جانب سے فیصلہ سازی ہے۔
یہ بلاگ بھی پڑھئے: دنیا کا منفرد پارلیمانی نظام
چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے لیکن ان اجلاسوں کے دوران چین کی جانب سے رواں برس جی ڈی پی کے حوالے سے کوئی مخصوص ہدف سامنے نہیں آیا، جو دیگر ممالک اور معاشی ماہرین کےلیے باعث حیرت ہے۔ جبکہ چین کا موقف ہے کہ دنیا بھر میں کساد بازاری کے باعث ملک میں روزگار کے تحفظ، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، مالیاتی منڈیوں کی بہتر صورتحال، توانائی اور خوراک کا تحفظ ، مستحکم صنعتی چین اور حکومتی امور پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔
موجودہ سال چین سے غربت کے مکمل خاتمے اور ایک معتدل خوشحال معاشرے کے قیام کا سال بھی ہے۔ ایک جانب اگر عالمی سطح پر چین کے سیاسی، اقتصادی، سفارتی کردار کی بات کی جائے تو دوسری جانب سماجی، معاشرتی اعتبار سے بھی چین دنیا میں ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ اس وقت عالمگیر سطح پر انسداد وبا کے ساتھ ساتھ دنیا کو جو دیگر چیلنجز درپیش ہیں، بالخصوص ترقی پذیر ممالک کو، ان میں تخفیف غربت بھی ہے۔ اس ضمن میں دنیا کو غربت سے نجات دلانے میں چین کا ایک نمایاں کردار ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا سے غربت کے خاتمے کے بڑا سہرا چین کے سر جاتا ہے تو بے جا نہ ہوگا، جس نےانتہائی کم عرصے میں کروڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالتے ہوئے ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ اعدادوشمار کی روشنی میں چین میں کھلے پن اور اصلاحات کے آغاز کے بعد صرف چار دہائیوں میں تقریباً 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو سطح غربت سے نکالا گیا، جو حیرت انگیز طور پر دنیا کا 70 فیصد بنتا ہے۔
2013 میں چینی صدر شی جن پنگ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ انسداد غربت میں ایک ''ٹارگٹڈ اپروچ'' اپنائی جائے۔ اس مہم کے دوران اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ سرکاری حکام غربت کے شکار افراد کو نہ صرف امداد فراہم کریں بلکہ ایسے ذرائع تلاش کریں جس سے پائیدار آمدنی کا مستقل حصول ممکن ہوسکے۔ 2012 میں چین بھر میں غربت کے شکار افراد کی تعداد تقریباً نو کروڑ سے زائد تھی، جس میں سالانہ بنیادوں پر کمی لاتے ہوئے 2019 کے اواخر تک یہ تعداد صرف پچپن لاکھ تک رہ گئی ہے۔ 2012 میں شروع ہونے والا یہ سفر گزشتہ سات برسوں سے مسلسل جاری ہے۔ اس دوران غربت کی شرح کو 10.2 فیصد کی سطح سے 0.6 فیصد کی سطح تک لایا گیا ہے۔
دیہی علاقوں میں غربت کے خاتمے کے تحت لوگوں کی جدید سہولیات سے آراستہ علاقوں میں منتقلی سمیت انہیں ذرائع آمد و رفت، تعلیم ، ٹیلی مواصلات، طب، بجلی، شفاف پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات زندگی بھی فراہم کی گئیں۔ لوگوں کی آبادکاری کے ساتھ انہیں روزگار اور فنی تربیت بھی فراہم کی گئی۔ زرعی سیاحت، سبزیوں پھلوں کی کاشت، مویشی بانی، مقامی دستکاریوں سمیت انسداد غربت سے وابستہ دیگر صنعتوں کو ترقی دی گئی تاکہ شہریوں کی مستقل آمدن کا بہتر انتظام کیا جاسکے۔ اس قدر وسیع پیمانے پر حاصل کی جانے والی کامیابیوں میں صرف چین کی تیز رفتار اقتصادی ترقی اور صنعتکاری ہی کارفرما نہیں رہی بلکہ حکومت کی جانب سے ایسے موثر و مربوط منصوبہ جات سامنے لائے گئے جن کی بدولت لوگوں کو غربت سے چھٹکارا ملا۔ چینی قیادت نے ہمیشہ طویل المیعاد بنیادوں پر منصوبہ بندی کی ہے جس کے دوررس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ستر کی دہائی کے اواخر میں چین کی جانب سے غربت کے خاتمے کےلیے دیرپا منصوبہ جات کا آغاز کیا گیا اور اس مقصد کی خاطر ایک حکومتی ادارے کا قیام عمل میں لاتے ہوئے فنڈز بھی مختص کیے گئے۔ منصوبہ بندی کے تحت حکومت کی جانب سے کم ترقی یافتہ علاقوں کا تعین کیا گیا اور بعد میں دہائیوں تک ایسے علاقوں کو مرکزی حکومت اور خوشحال ہمسایہ علاقوں کی جانب سے نہ صرف مالیاتی، تکنیکی امداد فراہم کی گئی بلکہ افرادی وسائل بھی مہیا کیے گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ چینی حکومت کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ غربت کے خاتمے کی کوششوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور ایسی پالیسیاں ترتیب دی جائیں جن سے حقیقی نتائج حاصل کیے جاسکیں۔
2013 میں غربت کے خاتمے کی پہلی پالیسی کو بدیل کرتے ہوئے غریب افراد کی ضرورت کے عین مطابق نئی تبدیل شدہ اور موزوں پالیسیاں تشکیل دی گئیں۔ اس ضمن میں یہ اقدامات کیے گئے کہ چین کے دور دراز اور ناقابل رسائی پہاڑی اور خشک علاقوں میں رہنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ ایسے مقامات کو چھوڑتے ہوئے حکومت کی جانب سے موزوں علاقوں میں تعمیر کیے جانے والے گھروں میں منتقل ہوجائیں۔ یہ پالیسی اپنی نوعیت کی ایک منفرد کاوش ہے، کیونکہ عام طور پر لوگ اپنے آبائی گھروں کو آسانی سے چھوڑنا نہیں چاہتے، لیکن جب بنیادی ضروریات زندگی ہی دستیاب نہ ہوں تو پھر غربت جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وسائل کا ایک بڑا حصہ ایسے رہائشی منصوبہ جات کےلیے مختص کیا گیا، جن کی بدولت دیہی اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والے افراد کی حوصلہ افزائی ہوئی کہ وہ نئے شہروں میں منتقل ہوں اور زندگی کے نئے سفر کا ازسرنو آغاز کریں۔
چینی قیادت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے اقدامات میں یہ کوشش کی گئی کہ چینی باشندوں کو ملک کا کارآمد شہری بنایا جائے اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے۔ اس حوالے سے چینی حکومت کی جانب سے ہنرمند اور پیشہ ورانہ افراد کےلیے سازگار صنعتی پالیسیاں اور مالیاتی امداد فراہم کی گئی تاکہ ایسے افراد یا تو اپنا روزگار شروع کرسکیں یا پھر روزگار کے اچھے مواقعوں کی تلاش کےلیے ترقی یافتہ علاقوں میں منتقل ہوجائیں۔ اس ضمن میں مذکورہ پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کےلیے حکومت نے نجی شعبے کی شمولیت سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کی کوشش کی۔ امدادی فنڈز کےلیے اربوں یوان مختص کیے گئے اور لاکھوں اہلکاروں کو پسماندہ علاقوں میں بھیجا گیا تاکہ وہ غربت کے خاتمے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
اس سارے عمل میں ہم یہ دیکھتے ہیں چینی حکومت نے کبھی بھی غربت کے خاتمے کی مہم کو سست روی کا شکار نہیں ہونے دیا، بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ان کے عزم، ہمت اور اقدامات کو مزید تقویت ملی ہے۔ موجودہ چینی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ انسداد وبا کے ساتھ سال 2020 ملک سے غربت کے مکمل خاتمے اور ہر اعتبار سے ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تکمیل کا سال قرار پائے۔ اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں غربت کا خاتمہ بھی ایک اہم ہدف ہے۔ اگر چین رواں برس یہ ہدف حاصل کرلیتا ہے تو دس برس قبل منزل مقصود کا حصول یقیناً ایک تاریخی سنگ میل ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔