تھیلیسیمیا موروثی مرض ہے ملکی وسائل محدود ہیں بچاؤ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا

شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی کرانے کا قانون حتمی مراحل میں ہے

تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتا ہے۔ اس بیماری کی دو اقسام، تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر ہیں۔ اگر والدین کی خراب جینز بچے میں منتقل ہوجائیں تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوتا ہے لیکن اگر ایک خراب جین بچے میں منتقل ہو تو وہ تھیلیسیمیا مائنر ہوگا جسے کیریئر کہا جاتا ہے۔

اگرایک کیرئیرمرد کسی کیریئر خاتون سے شادی کرے تو اس صورت میںبچے کا تھیلیسیمیا میجر ہونے کا امکان 25فیصد ہے جبکہ 50فیصد امکان ہے کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر کا مریض ہو۔اس وقت پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ افراد تھیلیسیمیا مائنر ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب تھیلیسیمیا میجر کے مریض ہیں جبکہ ہر سال ہزاروں بچے اس مرض کا شکار ہورہے ہیں۔ اس بیماری کے خاتمے کے لیے سرکاری و فلاحی ادارے کام کررہے ہیں تاہم اس میں سب سے اہم لوگوں کو آگاہی دینا ہے کہ دو تھیلیسیمیا مائنر آپس میں شادی نہ کریں۔

اس مرض کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اورحکومتی سطح پر کس طرح سے کام ہورہا ہے اس کا جائزہ لینے کے لیے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و سماجی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر شبنم بشیر

(پراجیکٹ ڈائریکٹرپنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام )

تھیلیسیمیا پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس حوالے سے اعداد و شمار الارمنگ ہیں۔ اس وقت ملک میں تھیلیسیمیا کے 80 ہزار سے 1 لاکھ مریض موجود ہیں جن کا نصف پنجاب میں موجود ہے۔24 گھنٹے میں تھیلیسیمیا کے 17 نئے مریض بچے پیدا ہورہے ہیں اور ہر سال پیدا ہونے والوں کی تعداد 6 ہزارہے۔ہمارے ہاں اچھے علاج کی وجہ سے اب یہ بچے 35 سے 40 برس کی عمر تک بھی زندہ رہتے ہیں مگر جب تک ان کی پیدائش کو نہ روکا گیا تب تک صورتحال مشکل رہے گی، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پریوینشن سے ہی اس مرض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

80 ملین آبادی والے ملک ترکی میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی کل تعداد 5ہزار 500 ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ تھیلیسیمیا صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک پورا خطہ ہے جسے تھیلیسیمیا بیلٹ کہتے ہیںاور اس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، ایران، مڈل ایسٹ وغیرہ شامل ہیں۔

ان تمام ممالک میں صرف پریوینشن سے تھیلیسیمیا پر قابو پایا گیا۔ ڈاکٹر یاسیمین راشد نے لیڈی ولنگٹن ہسپتال میں پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام کا آغاز 2009ء میں کیا تھامگر صحیح معنوں میں اس پر سر گنگا رام ہسپتال میں 2015ء میں کام شروع ہوا۔ ہم تاخیر سے اس پروگرام میں شامل ہوئے جبکہ ایران میں 1995ء، ترکی میں 2005ء میں اس کا آغاز ہوا۔ پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام کا دائرہ کار پنجاب کے 36 اضلاع میں ہے۔

اب تک ہم 2 لاکھ افراد کی سکریننگ کرچکے ہیں۔جب میں نے چارج سنبھالا تو اس وقت ہماری تین لیبارٹریاں تھیں مگر اس وقت لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، بہاولپور اور ڈی جی خان میں ہماری 6 لیبارٹریاں موجود ہیں جبکہ جون تک گوجرانوالہ، ساہیوال اور سرگودھا میں3 نئی لیبارٹریاں قائم کر دی جائیں گی۔جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ یہ جینیاتی بیماری ہے اور والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے لہٰذا اس کے لیے ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے۔ یہ واحد بیماری ہے جس کی تشخیص بڑی آسانی سے ہوجاتی ہے لہٰذا ہم اس حوالے سے سہولیات کو مزید بڑھا رہے ہیں۔

اس سال 1ہزار افراد کی سکریننگ کا ٹارگٹ تھا جو ہم نے 1003 ٹیسٹ کرکے ٹارگٹ حاصل کیا۔ ہم کیریئر سکریننگ کرتے ہیں اور ان خاندانوں میں کرتے ہیں جہاں تھیلیسیمیا کا مریض موجود ہو۔ اس کو ایکسٹینڈڈ فیملی سکریننگ کہتے ہیں۔ جب ہم ایسے خاندان کی سکریننگ کرتے ہیں تو وہاں ہر تیسرے فرد کو تھیلیسیمیا ہوتا ہے۔ ہم ایسے خاندانوں کو جینیٹک کونسلگ بھی دیتے ہیں کہ اگر وہ آپس میں شادی نہ کریں تو پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ ہم دوران حمل بھی تھیلیسیمیا ٹیسٹ کرتے ہیں اور پھر اس کی روشنی میں اقدامات کیے جاتے ہیں۔

یہ ہم نے ڈاکٹر یاسمین راشد سے سیکھا، ہم نے گائنا کولوجسٹ کو اس حوالے سے تربیت دی اوراب تک18 ڈاکٹرز کو تربیت دی جاچکی ہے۔ شادی سے پہلے تھیلیسیمیا کا ٹیسٹ کرنے کا قانون پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں موجود ہے، ہم نے یہ بل محکمہ قانون سے منظوری کے بعد کابینہ کو بھجوا دیا ہے جلد اس میں پیشرفت ہوگی۔ وفاقی سطح پر تھیلیسیمیا اتھارٹی قائم کی جارہی ہے جس کے بعد صوبوں میں بھی ذیلی اتھارٹیاں بنیں گی اور مزید موثر کام ہوسکے گا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے تمام محکموں کے فنڈز روک دیے گئے مگر چند روز قبل میٹنگ میں ہمارے فنڈز بحال کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ساتھ مل کر تھیلیسیمیا رجسٹری کا سافٹ ویئر بنا لیا ہے جسے جلد لانچ کیا جائے گا، اس سے ہمیں ملک بھر سے تھیلیسیمیا کے کیسز کا مکمل ڈیٹا اور تعداد معلوم ہوسکے گی۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو صحت انصاف کارڈز فراہم کیے جائیں گے۔ پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام دنیا کا سب سے بڑا پروگرام ہے، ہم نے سب سے زیادہ ٹارگٹڈ سکریننگ کی ہے، جبکہ اب اس کی دوا کے حوالے سے ریسرچ بھی کرنے جارہے ہیں۔ تھیلیسیمیا کے حوالے سے جتنی دیر کریں گے اتنے مسائل زیادہ ہوں گے، وفاق اور دیگر صوبوں کو بھی تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام شروع کرنا چاہیے، اس حوالے سے ہم معاونت کرنے کیلئے تیار ہیں۔

ڈاکٹر جویریہ منان

(سربراہ میڈیکل ایڈوائزری بورڈ تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان )

تھیلیسیمیا خون کی موروثی بیماری ہے، پاکستان میں ہر 100 میں سے5 یا 6 لوگ اس کی 'جین' رکھتے ہیں۔ اگر ان کی آپس میں شادی ہو جائے تو تھیلیسیمیا میجر کا شکار بچے کے پیدا ہونے کے 25 فیصد امکانات ہوتے ہیں اور انہیں انتقال خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا خاندان جس میں تھیلیسیمیا کی جین موجود ہو تو اس خاندان میں اس کی شرح 34 فیصد ہوتی ہے یعنی اس خاندان کے 100میں سے 34 افراد میں تھیلیسیمیا کی جین موجود ہوتی ہے لہٰذا کزن میرج کی وجہ سے تھیلیسیمیا کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون کی ضرورت ہوتی ہے۔


جسمانی کمزوری، پیلا پن، جگر، تلی کا بڑھ جانا، چہرے کی بناوٹ کا بدلنا خون کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فولاد کی کمی ہو تو بچے کے وزن کے مطابق اس کو لگنے والے خون کی مقدار بڑھ جاتی ہے، چھوٹے بچوں کو ایک ماہ بعد، 5 سے 7 سال کے بچوں کو 15 دن بعد جبکہ جوان کو ہر ہفتے خون لگتا ہے۔ جب بچہ جوان ہوتا ہے تو مقدار بڑ ھ جاتی ہے۔ ہر خون کی بوتل میں 200mg فولاد ہوتا ہے۔ انسانی جسم میں اضافی فولاد کو خارج کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے لہٰذا خراج فولاد کے لیے ادویات دی جاتی ہیں ، اس طرح تھیلیسیمیا کے شکار بچے دوہری پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔

ایک طرف خون کی کمی کا مسئلہ ہے جبکہ دوسری طرف فولاد کے خاتمے کی ادویات کا خرچ ہے ۔ ہمارے ملک میں خون کے عطیات دینے کا زیادہ رجحان نہیں ہے۔ کئی ایسے بچے ہوتے ہیں جنہیں 10 دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ بلڈ بینک کے پاس خون نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے ان کی ہیموگلوبن کم ہوجاتی ہے۔ ہمیوگلوبن کی کمی سے تلی بڑھ جاتی ہے اور جب تلی زیادہ بڑھ جائے تو مریض کو جو خون لگایا جاتا ہے وہ تلی لے لیتی ہے اور مریض ہمیوگلوبن کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے لہٰذا جب تلی بہت زیادہ بڑھ جائے تو پھر اسے آپریشن کے ذریعے نکال دیا جاتا ہے۔

زیادہ فولاد کی وجہ سے ہڈیوں پر بھی اثر پڑتا ہے۔ یہ غدودوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ نشونما میں بھی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس مرض میں اور بھی پیچیدگیاں ہیں۔ ملک میں اب تھیلیسیمیا کی کافی ادویات موجود ہیں مگر یہ مسلسل بیماری ہے جس میں کسی بھی سٹیج پر لاپرواہی سے مسائل پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔

پہلے تھیلیسیمیا کے شکار بچے چھوٹی عمر میں ہی فوت ہوجاتے تھے مگر اب ہم سب کی کاوشوں سے بالغ عمر کے مریض بھی موجود ہیں۔ اس وقت ہماری فیڈریشن میں 49 این جی اوز رجسٹرڈ ہیں اور سب مل کرتھیلیسیمیا کے تدارک کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ہر سال 6 سے 7 ہزار تھیلیسیمیا کا شکار بچے پیدا ہوتے ہیں، ہمارے ملکی وسائل محدود ہیں لہٰذا بچاؤ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی کمی ہے اور ہمارے رسم و رواج بھی رکاوٹ ہیں۔ ہم تعلیمی اداروں میں آگاہی دے رہے ہیں، بہت زیادہ کام کیا جارہا ہے مگر جب تک شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہوگا تب تک ملک کو مسائل درپیش رہیں گے۔

یاسین خان

(صدر سندس فاؤنڈیشن)

کورونا وائرس کے ملک میں آتے ہی لاک ڈاؤن کر دیا گیا، تعلیمی ادارے بند ہوگئے جو خون کا بڑا ذریعے ہیں لہٰذا یہ خدشہ تھا کہ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون کے حوالے سے شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ ہمارے ادارے سمیت تھیلیسیما کے حوالے سے کام کرنے والوں میں تشویش پیدا ہوئی کہ اب مشکل صورتحال پیدا ہوجائے گی مگر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔

میڈیا کی آگاہی کی وجہ سے لوگوں خصوصاََ نوجوانوں نے خون عطیہ کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ہمارے اسلام آباد سینٹر کا دورہ کیا تو وہاں انہوں نے بھی لوگوں سے اپیل کی اور ان کی کال پر لوگوں نے بڑی تعداد میں خون کا عطیہ دیا۔ اس کے علاوہ دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت دی کہ وہ خون عطیہ کریں اور ہزاروں خون کی بوتلیں عطیہ کر چکے ہیں، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کی ہدایت پرسینکڑوں کی تعداد میں پولیس افسران و اہلکاروں نے بھی خون عطیہ دیا۔ سی پی او راولپنڈی احسن یونس، سی ٹی او لاہور، آر پی او فیصل آبادراجہ رفعت، بی اے ناصر، آئی جی اسلام آباد پولیس عامر ذوالفقار نے خود بھی دیا اور ان کے جوانوں نے بھی عطیہ دیا۔ یہ خوش آئند ہے کہ اس مشکل گھڑی میںکسی بھی تھیلیسیمیا کے مریض کی موت خون نہ ملنے کے باعث نہیں ہوئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم بہترین ہے اور ہر مشکل گھڑی میں مدد کیلئے پیش پیش ہوتی ہے۔میرے نزدیک ہماری قوم کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔

حکومت کے ساتھ طے شدہ 'ایس او پیز' کے مطابق ہمارے سینٹر کھلے رہے تاکہ لوگ ہمارے سینٹرز میںآکر خون عطیہ کریں اور ہزاروں افراد نے خون کا عطیہ دیا۔ اس کے علاوہ مخیر حضرات نے اپنی زکوٰۃ و خیرات بھی دی تاکہ ان مریضوں کی علاج معالجے کی دیگر ضروریات پوری کی جاسکیں۔

محمد طلال احمد

( مرکزی نائب صدر جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا پاکستان)

جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا پاکستان رضا کاروں کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو 100سے زائد شہروں اور 80 سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں موجود ہے۔ ہمارے 90 فیصد رضا کار سٹوڈنٹس ہے اور اب تک6 ہزار سے زائد افراد ہم سے منسلک ہیں۔ پہلے دن سے ہی ہماری توجہ اس بیماری کے حوالے سے آگاہی پر ہے، ہمارے رضاکار اپنی مدد آپ کے تحت ملک بھر میں کام کر رہے ہیں اور اس وقت بھی چاروں صوبوں میں کام جاری ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے کافی مشکلات پیش آرہی ہیں، ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے رضاکاروں کو خون کے عطیات دینے کیلئے جانے میں دشواری کا سامنا ہے جبکہ مریض بھی مشکل میں ہیں مگر اس کے باوجود ہم نے فاٹا، جامشورو، حیدرآباد، کوئٹہ، کراچی و دیگر شہروں میں بلڈ کیمپ لگائے، افواج پاکستان نے بھی اس میں ہماری مدد کی اور فوجی جوانون نے بھی خون کے عطیات دیے۔

2011 میں ہم نے خون عطیہ کرنے والوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کا سب سے بڑا بلڈ کیمپ لگا کر ریکارڈ بنایا اور اس پر عالمی ادارہ صحت نے بھی ہماری پذیرائی کی۔ اب تک ہم پچاس ہزار سے زائد خون کی بوتلیں دے چکے ہیں اور تھیلسیمیا کے مریضوں کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کی خون کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

ملک میں اگر ہنگامی صورتحال ہو تو ہمارے رضا کار قومی خدمت کے جذبے سے اس میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں۔ہم each one ease one پروگرام کے تحت تھیلیسیمیا کے بچے adoptکر رہے ہیں، اب تک ہم 400 سے زائد بچے ایڈاپٹ کر چکے ہیں جن کے خون و ادویات کی ضرورت ہمارے رضاکار خود پوری کرتے ہیں۔ فاٹا میں مریضوں کو گھر سے ہسپتال آنے میں مشکلات کا سامنا تھا، ہمارے رضاکاروں نے مخیر حضرات کی مدد سے پہلی ایمبولینس سروس شروع کی جو آج تک جاری ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکر زکے ذریعے ملک بھر سے تھیلیسیمیا کے مریضوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکتا ہے، اس سے سمت متعین کرنے میں مدد ملے گی۔ خون کے عطیات دینے والے ہیروز ہیں، سرکاری سطح پر ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، سرٹیفکیٹ دینے سے دیگر لوگ بھی اس طرف راغب ہونگے۔
Load Next Story