انسانی آبادی اور بڑھتی آلودگی کے باعث تتلیوں کی معدومی کا خطرہ
خوبصورتی کا استعارہ،رومانوی اور جمالیاتی حسن کی عکاس تتلیاں تیزی سے ہمارے ماحول سے غائب ہو رہی ہیں
DUBAI:
تیزی سے بڑھتی انسانی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی نے تتلیوں کی نسل کو معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
ہمیں احساس ہی نہیں کہ خوبصورتی کا استعارہ ، رومانوی اور جمالیاتی حسن کی عکاس یہ تتلیاں کس تیزی سے ہمارے ماحول سے غائب ہو رہی ہیں۔اسی وجہ سے پنجاب حکومت نے لاہورمیں تتلیوں کی افزائش، ان سے متعلق آگاہی ،ریسرچ اورافزائش کے لئے دو تتلی گھر بنا رکھے ہیں جہاں موسم کے مطابق مختلف اقسام کی سیکڑوں تتلیاں موجود ہوتی ہیں۔
2016 میں لاہورکے جلوپارک میں پہلا جب کہ 2019 میں جوہر ٹاؤن لاہور میں دوسرا تتلی گھر بنایا گیا،یہاں پاکستان کی مقامی تتلیوں کی افزائش کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ان دنوں گرمی کے سیزن میں یہاں 8 سے 10 اقسام کی تتلیاں موجود ہیں جن میں لٹل ییلو، پلین ٹائیگر، مارمن،سلفر،پی کاک پانسی، پینٹیڈ لیڈی اورکامن کاسٹر شامل ہیں۔
تتلی گھرمیں کام کرنیوالے ملازمین کے مطابق ابتدامیں فلپائن سے مختلف تتلیوں کے لاروے منگوائے گئے تھے تاہم اب مقامی نسل کی تتلیوں کی ہی بریڈنگ کی جارہی ہے۔ پی ایچ اے کے ملازمین شام کے وقت بوٹینکل گارڈن کی آزادفضاؤں میں اڑنے والی تتلیوں کو پکڑتے اور پھر انہیں یہاں بٹر فلائی ہاؤس کے اندر چھوڑ دیتے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق تتلی ایک کیڑا ہے جو اپنے خوبصورت پروں کی وجہ سے ممتاز ہے۔ دنیا بھر میں 17500 کے قریب تتلی کی انواع پائی جاتی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک تتلیوں کی 58 اقسام دریافت ہوسکی ہیں، پھولوں کا رس تتلیوں کی بنیادی خوراک ہے۔ اس کے علاوہ زرگل دانے درختوں کے رس، پھل اور کئی چیزیں بھی ان کی خوراک میں شامل ہیں۔تتلی دیگر جانوروں کی طرح چیزوں کو زبان سے نہیں چکھتی بلکہ اس کے لیے وہ اپنی پتلی پتلی ٹانگوں کو استعمال میں لاتی ہے۔ تتلی کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے، جو ایک ہفتے سے ایک ماہ تک ہوسکتی ہے،تتلی کے پروں کی خوبصورتی اس کے پروں پر موجود نظر نہ آنے والے ''کرسٹلز'' کی بدولت ہوتی ہے۔ تتلی کے پروں میں سیاہ اور براؤن رنگ کچھ پگمنٹس کی بدولت ہوتا ہے جبکہ باقی سات رنگ درحقیقت ان کرسٹلز پر روشنی پڑنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، جو تتلیوں کے پروں کو بے بہا خوبصورتی دیتے ہیں اور دیکھنے والے کی آنکھ کو بہت بھلے سات رنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کرسٹل اس قدر نرم ہوتے ہیں کہ چھونے پر ریشم کا احساس ہوتا ہے۔ تتلیاں آسانی سے اپنے پروں کا بوجھ اٹھاتی ہیں اور ہواوں میں لہراتی ہیں۔
نرم ونازک اوررنگ برنگی تتلیوں سے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ زہریلی نہیں ہوتیں اس لیے اکثر افراد انہیں چھونے اورپکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے تتلیاں دم توڑجاتی ہیں لیکن اب تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تتلیوں کی کچھ اقسام بے حد زہریلی اور خطرناک بھی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک ایسی کوئی قسم سامنے نہیں آئی ہے۔
تتلی گھرکی انچارج نازین سحر کا کہنا ہے پاکستان میں مختلف موسموں کے دوران مختلف قسم کی تتلیاں پائی جاتی ہیں تاہم چنداقسام ایسی بھی ہیں جو پورا سال نظرآتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں تتلیوں کو زندہ رکھنے کے لئے خاص انتظامات کرناپڑتے ہیں۔ بوٹینکل گارڈن میں تتلیوں کے لئے فائبرکی خاص ٹنل بنائی گئی ہے جس کے اندر درجہ حرارت کو 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھا جاتا ہے۔
نازنین سحر کہتی ہیں کہ ہم تتلیوں کی 8 سے 10 اقسام کی افزائش بھی کررہے ہیں، ہم نے ان کے لئے الگ سے پروڈکشن ہاؤس بنایا ہے ، ان کی افزائش اتنی آسان نہیں ہے ،مختلف مقامات پر تتلیوں کے ہوسٹ پلانٹ لگائے گئے ہیں ،انہوں نے کہا پاکستان میں تتلیوں کی افزائش ابھی تجرباتی مراحل میں ہے اورہم نے ابھی آغازکیاہے، آنیوالے سالوں میں یہاں مزیدکئی اقسام کی تتلیاں نظرآئیں گی۔
نئے موسم اور نئی نسل کی سو سے ڈیڑھ سو تتلیاں جب اس مصنوعی مسکن میں چھوڑی جاتی ہیں تو دو ہفتوں میں ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اس مسکن میں ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جو تتلیوں کے قدرتی ماحول سے مطابقت رکھتی ہے تاہم ان کی شرح اموات بھی بہت زیادہ ہے اوران کی طبعی عمربھی چند دن ہی ہوتی ہے۔
نازنین سحریہ بھی کہتی ہیں کہ ابھی توان کے یہاں تتلیوں کی جو افزائش ہورہی ہے وہ تتلی گھروں کے لئے بھی کم ہے، اس لئے باہرسے تتلیاں پکڑنا پڑتی ہیں تاہم آنیوالے چندسالوں میں تتلیوں کی افزائش اس سطح پر پہنچ جائے گی کہ ہم انہیں کھلی فضا میں چھوڑ سکیں۔
تیزی سے بڑھتی انسانی آبادی اور ماحولیاتی آلودگی نے تتلیوں کی نسل کو معدوم ہونے کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
ہمیں احساس ہی نہیں کہ خوبصورتی کا استعارہ ، رومانوی اور جمالیاتی حسن کی عکاس یہ تتلیاں کس تیزی سے ہمارے ماحول سے غائب ہو رہی ہیں۔اسی وجہ سے پنجاب حکومت نے لاہورمیں تتلیوں کی افزائش، ان سے متعلق آگاہی ،ریسرچ اورافزائش کے لئے دو تتلی گھر بنا رکھے ہیں جہاں موسم کے مطابق مختلف اقسام کی سیکڑوں تتلیاں موجود ہوتی ہیں۔
2016 میں لاہورکے جلوپارک میں پہلا جب کہ 2019 میں جوہر ٹاؤن لاہور میں دوسرا تتلی گھر بنایا گیا،یہاں پاکستان کی مقامی تتلیوں کی افزائش کا خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ ان دنوں گرمی کے سیزن میں یہاں 8 سے 10 اقسام کی تتلیاں موجود ہیں جن میں لٹل ییلو، پلین ٹائیگر، مارمن،سلفر،پی کاک پانسی، پینٹیڈ لیڈی اورکامن کاسٹر شامل ہیں۔
تتلی گھرمیں کام کرنیوالے ملازمین کے مطابق ابتدامیں فلپائن سے مختلف تتلیوں کے لاروے منگوائے گئے تھے تاہم اب مقامی نسل کی تتلیوں کی ہی بریڈنگ کی جارہی ہے۔ پی ایچ اے کے ملازمین شام کے وقت بوٹینکل گارڈن کی آزادفضاؤں میں اڑنے والی تتلیوں کو پکڑتے اور پھر انہیں یہاں بٹر فلائی ہاؤس کے اندر چھوڑ دیتے ہیں۔
تحقیقات کے مطابق تتلی ایک کیڑا ہے جو اپنے خوبصورت پروں کی وجہ سے ممتاز ہے۔ دنیا بھر میں 17500 کے قریب تتلی کی انواع پائی جاتی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک تتلیوں کی 58 اقسام دریافت ہوسکی ہیں، پھولوں کا رس تتلیوں کی بنیادی خوراک ہے۔ اس کے علاوہ زرگل دانے درختوں کے رس، پھل اور کئی چیزیں بھی ان کی خوراک میں شامل ہیں۔تتلی دیگر جانوروں کی طرح چیزوں کو زبان سے نہیں چکھتی بلکہ اس کے لیے وہ اپنی پتلی پتلی ٹانگوں کو استعمال میں لاتی ہے۔ تتلی کی عمر بہت مختصر ہوتی ہے، جو ایک ہفتے سے ایک ماہ تک ہوسکتی ہے،تتلی کے پروں کی خوبصورتی اس کے پروں پر موجود نظر نہ آنے والے ''کرسٹلز'' کی بدولت ہوتی ہے۔ تتلی کے پروں میں سیاہ اور براؤن رنگ کچھ پگمنٹس کی بدولت ہوتا ہے جبکہ باقی سات رنگ درحقیقت ان کرسٹلز پر روشنی پڑنے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں، جو تتلیوں کے پروں کو بے بہا خوبصورتی دیتے ہیں اور دیکھنے والے کی آنکھ کو بہت بھلے سات رنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کرسٹل اس قدر نرم ہوتے ہیں کہ چھونے پر ریشم کا احساس ہوتا ہے۔ تتلیاں آسانی سے اپنے پروں کا بوجھ اٹھاتی ہیں اور ہواوں میں لہراتی ہیں۔
نرم ونازک اوررنگ برنگی تتلیوں سے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ یہ زہریلی نہیں ہوتیں اس لیے اکثر افراد انہیں چھونے اورپکڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے تتلیاں دم توڑجاتی ہیں لیکن اب تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ تتلیوں کی کچھ اقسام بے حد زہریلی اور خطرناک بھی ہیں تاہم پاکستان میں ابھی تک ایسی کوئی قسم سامنے نہیں آئی ہے۔
تتلی گھرکی انچارج نازین سحر کا کہنا ہے پاکستان میں مختلف موسموں کے دوران مختلف قسم کی تتلیاں پائی جاتی ہیں تاہم چنداقسام ایسی بھی ہیں جو پورا سال نظرآتی ہیں۔ گرمی کے موسم میں تتلیوں کو زندہ رکھنے کے لئے خاص انتظامات کرناپڑتے ہیں۔ بوٹینکل گارڈن میں تتلیوں کے لئے فائبرکی خاص ٹنل بنائی گئی ہے جس کے اندر درجہ حرارت کو 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھا جاتا ہے۔
نازنین سحر کہتی ہیں کہ ہم تتلیوں کی 8 سے 10 اقسام کی افزائش بھی کررہے ہیں، ہم نے ان کے لئے الگ سے پروڈکشن ہاؤس بنایا ہے ، ان کی افزائش اتنی آسان نہیں ہے ،مختلف مقامات پر تتلیوں کے ہوسٹ پلانٹ لگائے گئے ہیں ،انہوں نے کہا پاکستان میں تتلیوں کی افزائش ابھی تجرباتی مراحل میں ہے اورہم نے ابھی آغازکیاہے، آنیوالے سالوں میں یہاں مزیدکئی اقسام کی تتلیاں نظرآئیں گی۔
نئے موسم اور نئی نسل کی سو سے ڈیڑھ سو تتلیاں جب اس مصنوعی مسکن میں چھوڑی جاتی ہیں تو دو ہفتوں میں ان کی تعداد ہزاروں میں پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اس مسکن میں ہر وہ چیز دستیاب ہوتی ہے جو تتلیوں کے قدرتی ماحول سے مطابقت رکھتی ہے تاہم ان کی شرح اموات بھی بہت زیادہ ہے اوران کی طبعی عمربھی چند دن ہی ہوتی ہے۔
نازنین سحریہ بھی کہتی ہیں کہ ابھی توان کے یہاں تتلیوں کی جو افزائش ہورہی ہے وہ تتلی گھروں کے لئے بھی کم ہے، اس لئے باہرسے تتلیاں پکڑنا پڑتی ہیں تاہم آنیوالے چندسالوں میں تتلیوں کی افزائش اس سطح پر پہنچ جائے گی کہ ہم انہیں کھلی فضا میں چھوڑ سکیں۔