اتنا ’’کورونا‘‘ مجھے پیار ۔۔۔
اس کی ہلاکت خیزی کے ساتھ دنیا کے کرتا دھرتوں کی مضحکہ خیزیاں بھی کم نہیں
کورونا سے 'علیک سلیک'' تو کبھی نہ ہوئی اور نہ ہی اس کی خواہش ہے، لیکن پہلی بار اس کا نام نوے کی دہائی میں اپنے بنگالی خانساماں کے منہ سے سنا۔ اس وقت سلمان خان کی فلم ' لو' میں ایس پی بالا اور چترا سنگھ نے شاعر مجروح سلطان پوری کے گیت کو اپنی مدھر آواز سے امر کر دیا تھا۔
گیت کے بول تو ' اتنا کرو ناں مجھے پیار' تھے، لیکن نور الدین نے بنگالی لہجے میں اسے '' اتنا کورونا مجھے پیار'' بنا کر گانے کی ٹانگ توڑ دی تھی، ستم یہ کہ دن بھر بغیر کسی وقفے کے بہآواز بلند گاتے رہتے، حالاں کہ کئی بار سمجھایا کہ کہ بھیّا ہاتھوں میں ذائقہ ہو تو کوئی ضروری نہیں کہ گلے میں سُر بھی ہو، لیکن وہ کسی آمر کی طرح جمہور کا یہ 'گلہ' مسترد کر دیا کرتے تھے۔
ہم بھلے 1991ء میں بنگالی خانساماں کی زبانی کسی ''کورونا'' سے متعارف ہوئے ہوں، لیکن دنیا گزشتہ برس کے آخری ماہ سے اس نام سے آشنا ہوئی ہے، اور یہ لفظ جو کبھی ہمارے گھر میں ہنسی مذاق یا چھیڑ چھاڑ کا ذریعہ تھا، آج دنیا بھر میں خوف کی علامت بن گیا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے یہ کورونا بنگالی خانساماں سے بدلہ لینے آ رہے۔
کورونا اپنی ہلاکت خیزی کے برعکس اتنا بد ہیئت بھی نہیں۔کرکٹ کی گیند کی طرح گول مٹول، جس کی سطح پر چھتری نما اینٹینے لگے ہوتے ہیں۔ یہ ''ہڈ حرام وائرس'' کسی طرح ہمارے جسم میں داخل ہو کر ہمارے ہی خلیوں پر گزر بسر کرتا ہے اور تو اور ہمارے ہی خرچے پر اپنی نسل بڑھائے جاتا ہے، بالآخر ہمیں کو موت کے گھاٹ اتار کر احسان فراموشی کی نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔
آغاز تو اس وبا کا چین سے ہوا اور چین ہی نے سب سے پہلے اس پر قابو بھی پایا، لیکن جب پہلی بار ستمبر 2019 میں چین کے ماہر امراض چشم لی وین لیانگ نے ملک میں ایک نئے اور ہلاکت خیز پر اسرار وائرس سے انسانی جانوں کے ضیاع کی اطلاع چین کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ وائی ہو پر ڈاکٹرز کے ایک گروپ میں دی، تو انہیں سنسنی پھیلانے اور ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا۔
شاید انسان کی جبلت میں شامل ہے وہ ہر نئی چیز (چاہے وہ وبا ہی کیوں نہ ہو) مضحکہ خیز طور پر انکار کر دیتا ہے، انسان سمجھتا ہے کہ اسے زیر کرنے والی کوئی اور مخلوق کم از کم اس کرہ ارض میں تو موجود ہی نہیں۔ چین نے بھی اپنے محسن کو پہچاننے میں کافی دیر کردی تھی۔
چینی حکومت کو دو ہفتے سے زائد حراست میں رکھنے کے بعد سمجھ آئی کہ ڈاکٹر لی وین لیانگ درست کہہ رہے ہیں بعد ازاں مذکورہ ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود اس پراسرار وائرس کا شکار ہو کر فروری 2020ء میں جہان فانی سے کوچ کرگئے تب تک اس نامعلوم پر اسرار وائرس کو 'کورونا' کا نام مل گیا تھا۔
کورونا وائرس کو تو مائیکرو اسکوپ کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس نہایت ننھے وائرس نے دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کے حکمرانوں کے تفاہلانہ انداز فکر، سوچ کی بے ہدف و منشتر پرواز اور غفلت سے بھری انتظامی مہارت کو بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ اگر آنے والی نسلیں کسی ایک بھی بات پر کورونا وائرس کی شکر گزار ہوگئی تو وہ یہی بات ہوگی۔
کورونا وائرس سے اپنے شہریوں کو بچانے اور دنیا کو اس بن بلائی آفت سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کے بہ جائے بڑی طاقتیں ایک دوسرے پر 'کورونا وائرس' کی لیبارٹری میں تیاری اور پھر ایک سازش کے تحت پھیلاؤ کا الزامات عائد کر کے اس معاملے کو عوام میں نظر میں مشکوک بناتی رہیں۔ امریکا نے کہا کہ کورونا ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار ہوا جس کا مقصد صدر ٹرمپ کو آئندہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں شکست دینا تھا۔
چین بھی کہاں چپ بیٹھ سکتا تھا فوراً جوابی کارروائی ''داغی'' کہ ووہان میں کورونا وائرس امریکی سپاہی ساتھ لائے تھے جس کے ثبوت میں امریکی محکمہ صحت کی گزشتہ برس کی ویڈیو بھی ہے جس میں ملک بھر میں انفلوئنزا کی قسم کے ایک وائرس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اٹلی بھی کسی سے پیچھے نہ رہا، امریکا کی مخالفت میں میئر نے اپنے شہر میں آنے والے ہر چینی باشندے کو گلے لگانے کی مہم کا آغاز کر کے گویا ''کورونا'' کا پرتپاک استقبال کیا جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ ایران نے بھی کورونا وائرس کے ابتدائی مریضوں کو اپنی ایک دینی درس گاہ سے جاری ہونے والے علاج سے شفایاب کرنا چاہا جس سے یہ وائرس تو قابو میں نہیں آیا، لیکن ایک ماہ بعد ہی تمام مقدس مقامات زیارت کے لیے بند کردیے گئے۔
پاکستان میں بھی حالات آئیڈیل نہ رہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر نہ آسکیں۔ تذبذب کا یہ عالم رہا کہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح لاک ڈاؤن، سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن نہیں کرفیو، کرفیو نہیں لاک ڈاؤن اور پھر ایک نئی اصطلاح ''اسمارٹ لاک ڈاؤن'' کے گرد ہی گھومتی رہی اور ٹھوس اقدامات نہ اْٹھائے جائے سکے۔ عوام نے بھی کورونا وائرس کو مسلکی بنادیا اور یوں کیا حکومت اور کیا عوام۔۔۔ وقت برباد کرتے رہے۔
جب حکومتوں کا یہ حال رہا ہو تو بے چارے عوام کو کیا دوش دیا جائے، جو اس حساس اور اہم موضوع پر بھی جگتوں سے باز نہ آئے۔ پہلے تو اس بحث میں وقت برباد کیا کہ یہ چمگادڑ سے شروع ہوا یا کسی اور جانور سے۔ پھر لگے چینیوں کے کھانے پینے کی عادات کا مذاق اْڑانے۔ کسی نے کہا کہ چوہے بلی کھانے والی قوم ہے اس لیے 'کورونا' ہوا۔۔ باقاعدہ طعنے دیئے گئے اور چمگادڑ کا سوپ پیئیں۔ رچ کے حرام اور مکروہ جانور کھائیں۔
پھر یہ زعم کے ہم مسلمان ہیں ہمیں تو کورونا ہوگا ہی نہیں۔ یہ بھی ہوگیا تو کہا گیا کہ سازش ہے کوئی مرض نہیں نہ مریض، بلکہ دیگر بیماریوں میں مرنے والوں کو کورونا کا مریض ثابت کیا جا رہا ہے، تاکہ عالمی اداروں سے فی مریض کے حساب سے رقم ہتھیا سکیں وغیرہ وغیرہ ۔
دوسری جانب مقامی ٹوٹکوں اور اپنی خود ساختہ 'ریسرچ' کے سراب میں راہ حقائق سے دور لوگ ہیں جنہوں نے جراثیم کُش مائع جیسے ڈیٹول یا میتھانول وغیرہ غٹاغٹ پی گئے اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہیں احتیاط، علاج اور پرہیز سے زیادہ یہ آسان لگا۔ صرف ایران اور افریقی ممالک میں اس طرح ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔
اس تمام بے مقصد اور ''وقت گزاری'' کے مباحث سے احتیاطیں، علاج اور وبا سے لڑنے کے لیے خصوصی انتظام ملکوں کی ترجیحات میں سے ''لاپتا'' ہوگئے۔ کسی دانش وَر نے کہا تھا کہ 'ہم زبان اتنی چلاتے ہیں کہ دماغ چلانے کی باری ہی نہیں آتی' چناں چہ یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جتنی گفتگو اور مباحث کورونا کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے پر کی گئی اتنی اگر علاج، احتیاط اور انتظام پر ہوتی تو شاید یہ وبا اب بھی قیمتی انسانی جانوں کو یوں نہ نگل رہی ہوتی اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ ویکسین کی دستیابی تک بقول غالب 'کوئی امید بر نہیں آتی'۔
آپ جس بھی سازشی تھیوری پر یقین رکھتے ہوں، کورونا کو حقیقی یا غیر حقیقی سمجھیں، لیکن اگر ساتھ میں میل جول کے دوران فاصلہ رکھنے، ہاتھ بار بار کم از کم 20 سیکنڈ تک دھونے اور چہرے کو ہاتھ نہ لگانے جیسے مفت اور بے ضرر احتیاطیں اپنالیں تو اس سے آپ کی دیگر سازشی نظریات پر کوئی کاری ضرب نہیں آئے گی ہاں البتہ زندگی کے دن زیادہ ہوسکتے ہیں۔
بصورت دیگر مجذوب شاعر حضرت جون ایلیا نے یہ شعر نہ جانے کس ترنگ میں کہہ گئے، اور معلوم نہیں اس شعر کا 'شان نزول' کیا ہو لیکن موجودہ صورت حال پر صادق آتا ہے؎
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سب ہی کو سب ہی سے خطرہ ہے
گیت کے بول تو ' اتنا کرو ناں مجھے پیار' تھے، لیکن نور الدین نے بنگالی لہجے میں اسے '' اتنا کورونا مجھے پیار'' بنا کر گانے کی ٹانگ توڑ دی تھی، ستم یہ کہ دن بھر بغیر کسی وقفے کے بہآواز بلند گاتے رہتے، حالاں کہ کئی بار سمجھایا کہ کہ بھیّا ہاتھوں میں ذائقہ ہو تو کوئی ضروری نہیں کہ گلے میں سُر بھی ہو، لیکن وہ کسی آمر کی طرح جمہور کا یہ 'گلہ' مسترد کر دیا کرتے تھے۔
ہم بھلے 1991ء میں بنگالی خانساماں کی زبانی کسی ''کورونا'' سے متعارف ہوئے ہوں، لیکن دنیا گزشتہ برس کے آخری ماہ سے اس نام سے آشنا ہوئی ہے، اور یہ لفظ جو کبھی ہمارے گھر میں ہنسی مذاق یا چھیڑ چھاڑ کا ذریعہ تھا، آج دنیا بھر میں خوف کی علامت بن گیا ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے یہ کورونا بنگالی خانساماں سے بدلہ لینے آ رہے۔
کورونا اپنی ہلاکت خیزی کے برعکس اتنا بد ہیئت بھی نہیں۔کرکٹ کی گیند کی طرح گول مٹول، جس کی سطح پر چھتری نما اینٹینے لگے ہوتے ہیں۔ یہ ''ہڈ حرام وائرس'' کسی طرح ہمارے جسم میں داخل ہو کر ہمارے ہی خلیوں پر گزر بسر کرتا ہے اور تو اور ہمارے ہی خرچے پر اپنی نسل بڑھائے جاتا ہے، بالآخر ہمیں کو موت کے گھاٹ اتار کر احسان فراموشی کی نئی تاریخ رقم کرتا ہے۔
آغاز تو اس وبا کا چین سے ہوا اور چین ہی نے سب سے پہلے اس پر قابو بھی پایا، لیکن جب پہلی بار ستمبر 2019 میں چین کے ماہر امراض چشم لی وین لیانگ نے ملک میں ایک نئے اور ہلاکت خیز پر اسرار وائرس سے انسانی جانوں کے ضیاع کی اطلاع چین کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ وائی ہو پر ڈاکٹرز کے ایک گروپ میں دی، تو انہیں سنسنی پھیلانے اور ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے کے جرم میں حراست میں لے لیا گیا۔
شاید انسان کی جبلت میں شامل ہے وہ ہر نئی چیز (چاہے وہ وبا ہی کیوں نہ ہو) مضحکہ خیز طور پر انکار کر دیتا ہے، انسان سمجھتا ہے کہ اسے زیر کرنے والی کوئی اور مخلوق کم از کم اس کرہ ارض میں تو موجود ہی نہیں۔ چین نے بھی اپنے محسن کو پہچاننے میں کافی دیر کردی تھی۔
چینی حکومت کو دو ہفتے سے زائد حراست میں رکھنے کے بعد سمجھ آئی کہ ڈاکٹر لی وین لیانگ درست کہہ رہے ہیں بعد ازاں مذکورہ ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے کرتے خود اس پراسرار وائرس کا شکار ہو کر فروری 2020ء میں جہان فانی سے کوچ کرگئے تب تک اس نامعلوم پر اسرار وائرس کو 'کورونا' کا نام مل گیا تھا۔
کورونا وائرس کو تو مائیکرو اسکوپ کے ذریعے ہی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس نہایت ننھے وائرس نے دنیا کے طاقت ور ترین ممالک کے حکمرانوں کے تفاہلانہ انداز فکر، سوچ کی بے ہدف و منشتر پرواز اور غفلت سے بھری انتظامی مہارت کو بے نقاب کر کے رکھ دیا۔ اگر آنے والی نسلیں کسی ایک بھی بات پر کورونا وائرس کی شکر گزار ہوگئی تو وہ یہی بات ہوگی۔
کورونا وائرس سے اپنے شہریوں کو بچانے اور دنیا کو اس بن بلائی آفت سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کے بہ جائے بڑی طاقتیں ایک دوسرے پر 'کورونا وائرس' کی لیبارٹری میں تیاری اور پھر ایک سازش کے تحت پھیلاؤ کا الزامات عائد کر کے اس معاملے کو عوام میں نظر میں مشکوک بناتی رہیں۔ امریکا نے کہا کہ کورونا ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار ہوا جس کا مقصد صدر ٹرمپ کو آئندہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں شکست دینا تھا۔
چین بھی کہاں چپ بیٹھ سکتا تھا فوراً جوابی کارروائی ''داغی'' کہ ووہان میں کورونا وائرس امریکی سپاہی ساتھ لائے تھے جس کے ثبوت میں امریکی محکمہ صحت کی گزشتہ برس کی ویڈیو بھی ہے جس میں ملک بھر میں انفلوئنزا کی قسم کے ایک وائرس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
اٹلی بھی کسی سے پیچھے نہ رہا، امریکا کی مخالفت میں میئر نے اپنے شہر میں آنے والے ہر چینی باشندے کو گلے لگانے کی مہم کا آغاز کر کے گویا ''کورونا'' کا پرتپاک استقبال کیا جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ ایران نے بھی کورونا وائرس کے ابتدائی مریضوں کو اپنی ایک دینی درس گاہ سے جاری ہونے والے علاج سے شفایاب کرنا چاہا جس سے یہ وائرس تو قابو میں نہیں آیا، لیکن ایک ماہ بعد ہی تمام مقدس مقامات زیارت کے لیے بند کردیے گئے۔
پاکستان میں بھی حالات آئیڈیل نہ رہے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک پیج پر نہ آسکیں۔ تذبذب کا یہ عالم رہا کہ گھڑی کی سوئیوں کی طرح لاک ڈاؤن، سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن نہیں کرفیو، کرفیو نہیں لاک ڈاؤن اور پھر ایک نئی اصطلاح ''اسمارٹ لاک ڈاؤن'' کے گرد ہی گھومتی رہی اور ٹھوس اقدامات نہ اْٹھائے جائے سکے۔ عوام نے بھی کورونا وائرس کو مسلکی بنادیا اور یوں کیا حکومت اور کیا عوام۔۔۔ وقت برباد کرتے رہے۔
جب حکومتوں کا یہ حال رہا ہو تو بے چارے عوام کو کیا دوش دیا جائے، جو اس حساس اور اہم موضوع پر بھی جگتوں سے باز نہ آئے۔ پہلے تو اس بحث میں وقت برباد کیا کہ یہ چمگادڑ سے شروع ہوا یا کسی اور جانور سے۔ پھر لگے چینیوں کے کھانے پینے کی عادات کا مذاق اْڑانے۔ کسی نے کہا کہ چوہے بلی کھانے والی قوم ہے اس لیے 'کورونا' ہوا۔۔ باقاعدہ طعنے دیئے گئے اور چمگادڑ کا سوپ پیئیں۔ رچ کے حرام اور مکروہ جانور کھائیں۔
پھر یہ زعم کے ہم مسلمان ہیں ہمیں تو کورونا ہوگا ہی نہیں۔ یہ بھی ہوگیا تو کہا گیا کہ سازش ہے کوئی مرض نہیں نہ مریض، بلکہ دیگر بیماریوں میں مرنے والوں کو کورونا کا مریض ثابت کیا جا رہا ہے، تاکہ عالمی اداروں سے فی مریض کے حساب سے رقم ہتھیا سکیں وغیرہ وغیرہ ۔
دوسری جانب مقامی ٹوٹکوں اور اپنی خود ساختہ 'ریسرچ' کے سراب میں راہ حقائق سے دور لوگ ہیں جنہوں نے جراثیم کُش مائع جیسے ڈیٹول یا میتھانول وغیرہ غٹاغٹ پی گئے اور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انہیں احتیاط، علاج اور پرہیز سے زیادہ یہ آسان لگا۔ صرف ایران اور افریقی ممالک میں اس طرح ہلاک ہونے والوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔
اس تمام بے مقصد اور ''وقت گزاری'' کے مباحث سے احتیاطیں، علاج اور وبا سے لڑنے کے لیے خصوصی انتظام ملکوں کی ترجیحات میں سے ''لاپتا'' ہوگئے۔ کسی دانش وَر نے کہا تھا کہ 'ہم زبان اتنی چلاتے ہیں کہ دماغ چلانے کی باری ہی نہیں آتی' چناں چہ یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جتنی گفتگو اور مباحث کورونا کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے پر کی گئی اتنی اگر علاج، احتیاط اور انتظام پر ہوتی تو شاید یہ وبا اب بھی قیمتی انسانی جانوں کو یوں نہ نگل رہی ہوتی اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ ویکسین کی دستیابی تک بقول غالب 'کوئی امید بر نہیں آتی'۔
آپ جس بھی سازشی تھیوری پر یقین رکھتے ہوں، کورونا کو حقیقی یا غیر حقیقی سمجھیں، لیکن اگر ساتھ میں میل جول کے دوران فاصلہ رکھنے، ہاتھ بار بار کم از کم 20 سیکنڈ تک دھونے اور چہرے کو ہاتھ نہ لگانے جیسے مفت اور بے ضرر احتیاطیں اپنالیں تو اس سے آپ کی دیگر سازشی نظریات پر کوئی کاری ضرب نہیں آئے گی ہاں البتہ زندگی کے دن زیادہ ہوسکتے ہیں۔
بصورت دیگر مجذوب شاعر حضرت جون ایلیا نے یہ شعر نہ جانے کس ترنگ میں کہہ گئے، اور معلوم نہیں اس شعر کا 'شان نزول' کیا ہو لیکن موجودہ صورت حال پر صادق آتا ہے؎
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سب ہی کو سب ہی سے خطرہ ہے