صوبہ خیر پخیر چشم بد دور
دیکھیے تو یہ بھی ویسا ہی دعویٰ ہے جسے انسان کو اپنے بارے میں ہے یعنی صرف اپنے منہ میاں مٹھو
عام طور پرکہا جاتا ہے، پڑھا اور لکھا بھی جاتاہے اور تعجب کی بات یہ ہے کہ''مانا'' بھی جاتاہے کہ صحافی ہمارا مطلب میڈیا میڈان یا ان میڈ قوم کے''یہ یہ''یا وہ وہ ہوتے ہیں، آنکھیں کان ناک وغیرہ۔حالانکہ وہ صرف وہ ہوتے ہیں جس کا نام نہیں لیاجاتا یعنی ''منہ''اور ظاہر ہے قوم کا یہ منہ وہی کرتاہے جس کے لیے ''منہ''بنا ہے۔
دیکھیے تو یہ بھی ویسا ہی دعویٰ ہے جسے انسان کو اپنے بارے میں ہے یعنی صرف اپنے منہ میاں مٹھو۔کیونکہ دوسروںکے ''منہ'' یا زبان نہیں ہوتے۔خیر اس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں جس کا جوجی چاہے وہ خود کو سمجھے اور سمجھائے۔لیکن ہم اپنے بارے میں بھی آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ ہم قوم کے کیا ہیں؟بس ویسے ہی ملانصیرالدین کی تیراندازی کررہے ہیں۔
اب یہ جو کورونا کے اعداد وشمار اندرون صوبہ خیر پہ خیر ہیں،اس نے ہمیں دبدھا میں ڈالا ہوا ہے محاورتاً تو ہم اسے ''دن دونی رات چوگنی'' ترقی کہہ سکتے ہیں، بات فی الحال یعنی اب تک تو''چارسو تیس'' تک پہنچی ہے جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے گا اس وقت تک اعداد کیا ہوں گے؟ یہ تونہیں کہاجاسکتا ہے لیکن حساب کتاب یا تخمیناً اندازاً اور مجازاً اس موجودہ رفتار سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ چارسو تیس اگر آٹھ سو بتیس نہیں تو'' چارسو چالیس''تو یقیناً ہوچکے ہوں گے۔
اب آپ شاید یہ پوچھیں کہ کس حساب کتاب یا ریاضی کے فارمولے سے تو یہ بھی ہم بتانہیں پائیں گے کیونکہ جب سندھ سے شروع ہونے والے اعداد خیر پہ خیر آکر کئی گنا ہوسکتے ہیں، سب سے کم آبادی میں سب سے بڑے کارنامے ہوسکتے ہیں تو ریاضی کے فارمولوں میں بھی سب کچھ ہوسکتاہے۔
یہ تو''زمین''کی زرخیزی پر منحصر ہے اور علامہ نے بھی شاید اسی صوبہ خیرپہ خیر کی زمین کے بارے میں کہا ہے کہ''ذرا نم ہو تو۔۔۔۔ اور''نم''ہونے کا کیاہے، اتنے لائق فائق وزیرجہاں ہو ں،اتنے بابرکت مشیر اور پھر ان مشیروں کے ''کثیر'' جہاں ہوں، وہاں گندم کے پودے میں آلو بھی لگ سکتے ہیں اور الو کے پٹھے''اُلو''بھی بن سکتے ہیں یا بنائے جاسکتے ہیں۔ بات''برکت''کی ہے اور برکت کسی حرکت کی محتاج نہیں ہوتی۔ویسے بھی وزیراعلیٰ سے لے کر مشیرادنیٰ تک سب کے سب جو یہ ایک دوسرے کی تحسین کر رہے ہیں کہ فلاں نے کورونا کے سلسلے میں مثال قائم کی ہے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، اتنے کم وقت میں چارسو تیس اسکور کرنا قابل ستائش ہی توہے۔
ہم نے جہاں تک اخباروں میں پڑھا ہے کوئی ایک سیاسی یا سرکاری یا صحافی بندہ ایسا باقی نہیں رہا ہے جس کی ''کورونا''کے سلسلے میں''زبردست کار کردگی'' سراہی نہ گئی ہو اور یہ سراہنا یا تحسین یا ستائش اگر کی جا رہی ہے تو اسی''اسکور''کی بنیاد پر ہی ہورہی ہوگی۔ اور جتنی جتنی''تعداد''بڑھتی جارہی ہے اتنی ہی ستائش ''باہمی'' بھی بڑھتی جارہی ہے۔چیف سیکریٹری بچارے کورونا کے لیے دن رات جاگے تو بیمار ہوگئے۔ وزیراعلیٰ اتنا بولے، اتنا بولے کہ سراپا گفتار ہوگئے، اکثرلوگ اب وزیراعلیٰ کانام لینے کی بجائے ''گفتار اعلیٰ''کہتے ہیں، باقی رہے وزیر اور مشیرمنتخبان۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔کسی ایک کے سر پہ ''سہرا''نہیں جاتا بلکہ یہ ٹیم ورک ہے اور بہت جلد یہ خبر بھی آپ سن لیں گے کہ صوبہ خیر پہ خیر میں ''مردگان کوروناگان''کی تعداد پورے ملک کی تعداد سے دگنی ہوگئی ہے۔
اب آپ یہاں پھر پوچھیں گے کہ کیسے؟ اور ہم بتائیں کہ''ویسے''دراصل یہ انسان کی ترقی کا بھی ایک ثبوت ہے۔ پرانے زمانے میں صرف ہاتھی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ مرنے پر سوا لاکھ کا ہوجاتا تھا، تب انسان نے سوچا اور بہت خوب سوچا کہ جب ہاتھی سوا لاکھ کاہوسکتا ہے تو انسان کو تو کم سے کم ''سوا کروڑ''کا ہونا چاہیے اور سنا ہے یہی ریٹ آج کل بین الاقوامی مارکیٹ میں چل بھی رہی ہے۔ اس پر ہمیں اس پاگل شاعر کا ایک پشتو شعر یاد آرہاہے جس سے ہماری آئینے میں ملاقات ہوتی ہے۔ شعر یہ ہے کہ
کم عقل وارثان خو خخول کوی د مڑو
اوخیار پکے ھغہ وہ چہ کرل کوی د مڑو
یعنی نالائق وارث تو اپنے ''مردوں''کو دفن یعنی خاک کردیتے ہیں لیکن لائق اور ہوشیار وارث اپنے مردگان کو''بوتے''ہیں ۔کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتاہے، اسی لیے اس پاگل شاعر نے صحیح کہاہے کہ نااہل وارث اپنے مردگان کو ضایع کرتے ہیں اور لائق فائق وارثان مردوں کی کاشت کرتے ہیں۔ایک اور نامعقول قسم کا پشتو ٹپہ یاد آرہا ہے۔ وہ بھی سن لیں ع
کہ اباسین راغلے نہ وے
پہ کنگخڑو کے بہ چا موندل ٹیکونہ
یعنی اگر دریائے سندھ میں سیلاب نہ آیا ہوتا مطلب یہ کہ پاکستان میں کورونا نہ آیاہوتا۔تو خس وخاشاک میں لوگوں کو زر وجواہر کیسے ملتے؟۔ایسا ہوتا ہے کہ سیلاب کے بعد لوگوں کو دریا کنارے خس وخاشاک میں زیورات مل جاتے تھے جو سیلاب میں غرق ہونے والوں کے ہوتے تھے۔اور اب آخر میں اس تصویر کی فضول اور بے مقصد بات جو ایک نمائش میں رکھی تھی۔ تصویر کا نام تھا گھوڑا اور کھیت۔کسی نے پوچھا، اس میں کھیت کہاں ہے۔ بتایا گیا وہ گھوڑا چرگیا ہے اور گھوڑا؟ وہ کھیت چرکر چلا گیا ہے۔ اس تصویر کانام آپ کچھ اور بھی رکھ سکتے ہیں مثلاً۔۔
دیکھیے تو یہ بھی ویسا ہی دعویٰ ہے جسے انسان کو اپنے بارے میں ہے یعنی صرف اپنے منہ میاں مٹھو۔کیونکہ دوسروںکے ''منہ'' یا زبان نہیں ہوتے۔خیر اس سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں جس کا جوجی چاہے وہ خود کو سمجھے اور سمجھائے۔لیکن ہم اپنے بارے میں بھی آج تک یہ نہیں سمجھ پائے کہ ہم قوم کے کیا ہیں؟بس ویسے ہی ملانصیرالدین کی تیراندازی کررہے ہیں۔
اب یہ جو کورونا کے اعداد وشمار اندرون صوبہ خیر پہ خیر ہیں،اس نے ہمیں دبدھا میں ڈالا ہوا ہے محاورتاً تو ہم اسے ''دن دونی رات چوگنی'' ترقی کہہ سکتے ہیں، بات فی الحال یعنی اب تک تو''چارسو تیس'' تک پہنچی ہے جب تک یہ کالم آپ تک پہنچے گا اس وقت تک اعداد کیا ہوں گے؟ یہ تونہیں کہاجاسکتا ہے لیکن حساب کتاب یا تخمیناً اندازاً اور مجازاً اس موجودہ رفتار سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ چارسو تیس اگر آٹھ سو بتیس نہیں تو'' چارسو چالیس''تو یقیناً ہوچکے ہوں گے۔
اب آپ شاید یہ پوچھیں کہ کس حساب کتاب یا ریاضی کے فارمولے سے تو یہ بھی ہم بتانہیں پائیں گے کیونکہ جب سندھ سے شروع ہونے والے اعداد خیر پہ خیر آکر کئی گنا ہوسکتے ہیں، سب سے کم آبادی میں سب سے بڑے کارنامے ہوسکتے ہیں تو ریاضی کے فارمولوں میں بھی سب کچھ ہوسکتاہے۔
یہ تو''زمین''کی زرخیزی پر منحصر ہے اور علامہ نے بھی شاید اسی صوبہ خیرپہ خیر کی زمین کے بارے میں کہا ہے کہ''ذرا نم ہو تو۔۔۔۔ اور''نم''ہونے کا کیاہے، اتنے لائق فائق وزیرجہاں ہو ں،اتنے بابرکت مشیر اور پھر ان مشیروں کے ''کثیر'' جہاں ہوں، وہاں گندم کے پودے میں آلو بھی لگ سکتے ہیں اور الو کے پٹھے''اُلو''بھی بن سکتے ہیں یا بنائے جاسکتے ہیں۔ بات''برکت''کی ہے اور برکت کسی حرکت کی محتاج نہیں ہوتی۔ویسے بھی وزیراعلیٰ سے لے کر مشیرادنیٰ تک سب کے سب جو یہ ایک دوسرے کی تحسین کر رہے ہیں کہ فلاں نے کورونا کے سلسلے میں مثال قائم کی ہے تو یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، اتنے کم وقت میں چارسو تیس اسکور کرنا قابل ستائش ہی توہے۔
ہم نے جہاں تک اخباروں میں پڑھا ہے کوئی ایک سیاسی یا سرکاری یا صحافی بندہ ایسا باقی نہیں رہا ہے جس کی ''کورونا''کے سلسلے میں''زبردست کار کردگی'' سراہی نہ گئی ہو اور یہ سراہنا یا تحسین یا ستائش اگر کی جا رہی ہے تو اسی''اسکور''کی بنیاد پر ہی ہورہی ہوگی۔ اور جتنی جتنی''تعداد''بڑھتی جارہی ہے اتنی ہی ستائش ''باہمی'' بھی بڑھتی جارہی ہے۔چیف سیکریٹری بچارے کورونا کے لیے دن رات جاگے تو بیمار ہوگئے۔ وزیراعلیٰ اتنا بولے، اتنا بولے کہ سراپا گفتار ہوگئے، اکثرلوگ اب وزیراعلیٰ کانام لینے کی بجائے ''گفتار اعلیٰ''کہتے ہیں، باقی رہے وزیر اور مشیرمنتخبان۔ ایں خانہ ہمہ آفتاب است۔کسی ایک کے سر پہ ''سہرا''نہیں جاتا بلکہ یہ ٹیم ورک ہے اور بہت جلد یہ خبر بھی آپ سن لیں گے کہ صوبہ خیر پہ خیر میں ''مردگان کوروناگان''کی تعداد پورے ملک کی تعداد سے دگنی ہوگئی ہے۔
اب آپ یہاں پھر پوچھیں گے کہ کیسے؟ اور ہم بتائیں کہ''ویسے''دراصل یہ انسان کی ترقی کا بھی ایک ثبوت ہے۔ پرانے زمانے میں صرف ہاتھی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ مرنے پر سوا لاکھ کا ہوجاتا تھا، تب انسان نے سوچا اور بہت خوب سوچا کہ جب ہاتھی سوا لاکھ کاہوسکتا ہے تو انسان کو تو کم سے کم ''سوا کروڑ''کا ہونا چاہیے اور سنا ہے یہی ریٹ آج کل بین الاقوامی مارکیٹ میں چل بھی رہی ہے۔ اس پر ہمیں اس پاگل شاعر کا ایک پشتو شعر یاد آرہاہے جس سے ہماری آئینے میں ملاقات ہوتی ہے۔ شعر یہ ہے کہ
کم عقل وارثان خو خخول کوی د مڑو
اوخیار پکے ھغہ وہ چہ کرل کوی د مڑو
یعنی نالائق وارث تو اپنے ''مردوں''کو دفن یعنی خاک کردیتے ہیں لیکن لائق اور ہوشیار وارث اپنے مردگان کو''بوتے''ہیں ۔کہ دانہ خاک میں مل کر گل گلزار ہوتاہے، اسی لیے اس پاگل شاعر نے صحیح کہاہے کہ نااہل وارث اپنے مردگان کو ضایع کرتے ہیں اور لائق فائق وارثان مردوں کی کاشت کرتے ہیں۔ایک اور نامعقول قسم کا پشتو ٹپہ یاد آرہا ہے۔ وہ بھی سن لیں ع
کہ اباسین راغلے نہ وے
پہ کنگخڑو کے بہ چا موندل ٹیکونہ
یعنی اگر دریائے سندھ میں سیلاب نہ آیا ہوتا مطلب یہ کہ پاکستان میں کورونا نہ آیاہوتا۔تو خس وخاشاک میں لوگوں کو زر وجواہر کیسے ملتے؟۔ایسا ہوتا ہے کہ سیلاب کے بعد لوگوں کو دریا کنارے خس وخاشاک میں زیورات مل جاتے تھے جو سیلاب میں غرق ہونے والوں کے ہوتے تھے۔اور اب آخر میں اس تصویر کی فضول اور بے مقصد بات جو ایک نمائش میں رکھی تھی۔ تصویر کا نام تھا گھوڑا اور کھیت۔کسی نے پوچھا، اس میں کھیت کہاں ہے۔ بتایا گیا وہ گھوڑا چرگیا ہے اور گھوڑا؟ وہ کھیت چرکر چلا گیا ہے۔ اس تصویر کانام آپ کچھ اور بھی رکھ سکتے ہیں مثلاً۔۔