شوگر ملز سبسڈی حکومت اور حزب اختلاف میں تناؤ عروج پر
سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع جبکہ کاروباری اوقات میں اضافہ کر دیا ہے
سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت میں توسیع جبکہ کاروباری اوقات میں اضافہ کر دیا ہے۔اب سندھ میں صبح 6 بجے سے شام 7 بجے تک کاروباری سرگر میوں کی اجازت ہوگی۔ یہ اجازت پیر سے جمعہ تک ہی ہوگی۔ سندھ میں لاک ڈاؤن کے تحت عائد پابندیوں کا اطلاق 30 جون تک ہوگا۔ اس حوالے سے صوبائی محکمہ داخلہ نے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے.نوٹیفکیشن کے مطابق تعلیمی ادارے شادی ہالز، ریسٹورنٹس اسپورٹس کلبس بند رہیں گے، ہوٹلز اور ریسٹورنٹس سے ٹیک اوے اور ہوم ڈلیوری کی اجازت ہوگی۔
سنیما، تھیٹر، بیوٹی پارلرز، جلسے جلوس اور دیگر عوامی اجتماعات پر پابندی برقرار رہے گی۔صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کسی بھی وقت کسی بھی علاقے میں سرگرمیوں کو مکمل محدود کرسکے گی، کورونا کیسز میں اضافے پر ہاٹ اسپاٹ ایریاز کو سیل کیا جاسکے گا، گھروں سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے، عوامی مقامات پر ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے۔
سندھ میں اس وقت لاک ڈاؤن کی پالیسی میں بظاہر ''نرمی''دیکھنے میں آرہی ہے۔تاہم صوبے میں عوام کی جانب سے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے اس وباء کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے،جو تشویشناک عمل ہے۔سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کرائے تاکہ کورونا کی وباء پر قابو پایا جاسکے۔
سندھ میں شوگر ملز کو سبسڈی دینے کے معاملے پر صوبائی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف آمنے سامنے آگئے ہیں اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر شدید الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا پیپلز پارٹی نے سندھ میں بڑی چوری کی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ میں موجود 34میں سے 18شوگر ملیں آصف علی زرداری کی ہیں جنہیں سبسڈی دوسری شوگر ملوں کے ذریعہ پہنچائی گئی ہے۔پی ٹی آئی رہنماؤں نے وزیراعظم سے اس معاملے پر کمیٹی بنانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ادھر وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا پی ٹی آئی رہنما ؤں کے الزامات کو مستر د کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شوگر سبسڈی معاملے سے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے وکلا نے انہیں بیان ریکارڈ کرانے کیلئے پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا جس سے کمیشن کو بروقت آگاہ کردیا گیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ میں شوگر ملز مالکان کو سبسڈی کسانوں کی خاطر دی گئی کیونکہ ان کے گنے کی فصل خراب ہورہی تھی۔
انہوں نے سوال کیا کہ آج ان فرشتوں کی حکومت میں چینی کیوں مہنگی ہے؟بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ چینی اسکینڈل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پی پی قیادت اس میں ملوث ہے جبکہ چینی بحران پر براہ راست وزیراعظم عمران خان ذمہ دار ہیں۔مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ چینی اسکینڈل انکوائری رپورٹ پر سوالات کا اب تک وفاقی حکومت سے جواب نہیں ملا۔شوگرملز سبسڈی کے معاملے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایشو اب مکمل طور پر سیاسی ہوچکا ہے۔
پریس کانفرنسز اور بیانات کے ذریعہ یہ طے نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس معاملے پر قصو ر وار کون ہے۔مختلف معاملات پر پہلے بھی انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی جاتی رہی ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے۔اگر کوئی چاہتا ہے کہ واقعی تمام حقائق شفاف طریقے سامنے آئیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جو فریقین کا موقف سنے اور حقائق کو عوام کے سامنے لائے۔
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے واضح کردیا ہے کہ اس سال پہلی سے بارہویں جماعت تک کے تمام طلبہ و طالبات بغیر امتحانات دئیے آگے کلاسز میں پرموٹ ہوجائیں گے اور جو بچے اگر فیل بھی ہیں تو انہیں بھی پاسنگ مارکس دے کر اگلی کلاسز میں پرموٹ کردیا جائے گا۔ اس سال کوئی خاص امتحان نہیں ہوگا اور جو طلبہ اپنے مضامین میں بہتری کے خواہ ہیں انہیں اگلے سال امتحان کا موقع دیا جائے گا۔ ہم نے تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل بند کیا ہے اور کوئی اسکول اپنی مرضی حکومت کی اجازت کے بغیر تدریسی عمل شروع نہیں کرسکتا۔
وزیر تعلیم سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو بچے اپنے مارکس کی بہتری چاہتے ہیں انہیں بھی پرموٹ کردیا جائے گا البتہ اگر وہ چاہتے ہیں تو انہیں اگلے سال اس کا موقع دیا جائے گا۔ پرائیوٹ طلبہ و طالبات پر بھی یہی رولز لاگو ہوں گے۔ حکومت سندھ کے اس واضح اعلان کے بعد طلباء اور ان کے والدین کے سر وں سے ایک بھاری بوجھ ہٹ گیا ہے۔اس سے قبل وہ گومگو کی کیفیت میں تھے کہ آیا ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ پروموشن کے عمل کو کسی طور پر بھی بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس درست فیصلہ کیا ہے تاہم ایسے بچے جو اچھے نمبروں کے ساتھ امتحانات میں پاس ہوتے ہیں وہ یقیناً اس فیصلے سے مایوس ہوں گے۔
ملک بھر کی سندھ میں بھی ٹڈی دل کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھی ارسال کیا ہے،جس میں وفاقی حکومت سے اپیل کی گئی ہے وہ 6 ایئرکرافٹ فضائی اسپرے اور 110ڈبل کیبن گاڑیاں زمینی اسپرے کے لیے فراہم کرے۔ سید مراد علی شاہ کا خط میں ہنگامی اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ میں ٹڈی دل صحرائی علاقوں کے بعد زیر کاشت رقبے کو بھی تباہ کررہی ہے،جس کی وجہ سے صوبے میں فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ بڑھتاجا رہاہے۔ٹڈی دل کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ ہوئے تو فصلیں تباہ ہوجائیں گی۔
ادھر ترجمان این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے حملہ ذدہ علاقوں کا سروے اورکنٹرول آپریشن جاری ہے۔ اب تک پورے ملک میں 4لاکھ 97 ہزار ہیکٹر رقبہ پرا سپرے کیا جا چکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کا معاملہ کورونا وائر سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کے نام خط میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ بے جا نہیں ہیں۔ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے بھی کورونا وائرس کی طرز جس طرح نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کام کر رہی ہے،اسی طرح کی ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تمام صوبوں کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقات کرنے والی غیر ملکی ماہرین کی ٹیم اپنا کام مکمل کرکے واپس فرانس روانہ ہوگئی ہے۔کراچی طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے ائیر بس کمپنی کے ماہرین پر مشتمل 11 رکنی ٹیم 26 مئی کو فرانس سے کراچی پہنچی تھی۔ غیر ملکی ٹیم نے اپنے قیام کے دوران جائے وقوعہ سے تمام ضروری شواہد اکٹھے کیے اور رن وے کا بھی معائنہ کیا۔فرانسیسی ٹیم کے ارکان کراچی ایئر پورٹ سے خصوصی پرواز اے آئی بی 1889 کے ذریعے فرانس روانہ ہوئے۔
فرانسیسی ٹیم اپنے ہمراہ دیگر شواہد کے ساتھ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر بھی لے گئی ہے، جنہیں ایئر بس کے ہیڈ کوارٹر میں ہی ڈی کوڈ کیا جائے گا۔دوسری جانب وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ حادثے میں جاں بحق 84افراد کی شناخت ہوگئی ہے،جن کی لاشیں ورثاء کے حوالے کردی گئی ہیں۔اس وقت 2 ڈی این اے سیمپلز میچنگ کیلئے موجود ہیں۔ایوی ایشن امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایئربس کمپنی کے ماہرین جو شواہد اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں،اس حادثے کی وجوہات جاننے میں کافی حد تک مدد ملے گی اور حادثے کے حوالے سے جاری چہ مگوئیاں کا بھی خاتمہ ہوگا۔
سندھ میں جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان،جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔سندھ حکومت نے اس مسئلے پر پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے،جس کے سربراہ قاضی شاہد پرویز ہوں گے،جبکہ ارکان میں سعید احمد منگیجو اور نظیر احمد قریشی شامل ہوں گے۔یہ کمیٹی اپنی انکوائری مکمل کرکے رپورٹ چیف سیکرٹری سندھ کو پیش کرے گی۔ایم کیو ایم کا جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر کہنا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ڈومیسائل بنا رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے بھی آواز بلند کی ہے۔
سندھ میں نوکریاں اگر قانون کے مطابق نہیں مل رہیں تو یہ وزیراعلیٰ سندھ کے لیے شرم کی بات ہے۔کنور نوید جمیل کا کہنا تھا کہ ہم 5 سال سے جعلی ڈومیسائل پر سندھ اسمبلی میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔جب کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو پارٹی نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا،جہاں حکومت سندھ نے جواب جمع کروایا ہے کہ انہیں کوئی ڈومیسائل کی شکایت نہیں ملی ہے۔جی ڈی اے نے یہ معاملہ سندھ اسمبلی میں اٹھانے اور پی ٹی آئی نے اس معاملے کی مکمل غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر شفاف انکوائری کی ضرورت ہے۔
یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں ہے سندھ کے دیگر شہروں سے بھی اس طرح کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔اس عمل سے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور صوبے میں پہلے ہی کوٹہ سسٹم رائج ہے۔اگر لوگ جعلی ڈومیسائل بناکر نوکریاں حاصل کرتے رہے تو میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں کا حصول ناپید ہوجائے گا۔
سنیما، تھیٹر، بیوٹی پارلرز، جلسے جلوس اور دیگر عوامی اجتماعات پر پابندی برقرار رہے گی۔صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کسی بھی وقت کسی بھی علاقے میں سرگرمیوں کو مکمل محدود کرسکے گی، کورونا کیسز میں اضافے پر ہاٹ اسپاٹ ایریاز کو سیل کیا جاسکے گا، گھروں سے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے سے گریز کیا جائے، عوامی مقامات پر ماسک کا استعمال لازمی قرار دیا گیا ہے۔
سندھ میں اس وقت لاک ڈاؤن کی پالیسی میں بظاہر ''نرمی''دیکھنے میں آرہی ہے۔تاہم صوبے میں عوام کی جانب سے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجہ سے اس وباء کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہاہے،جو تشویشناک عمل ہے۔سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل کرائے تاکہ کورونا کی وباء پر قابو پایا جاسکے۔
سندھ میں شوگر ملز کو سبسڈی دینے کے معاملے پر صوبائی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف آمنے سامنے آگئے ہیں اور دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر شدید الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی کا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا پیپلز پارٹی نے سندھ میں بڑی چوری کی ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ سندھ میں موجود 34میں سے 18شوگر ملیں آصف علی زرداری کی ہیں جنہیں سبسڈی دوسری شوگر ملوں کے ذریعہ پہنچائی گئی ہے۔پی ٹی آئی رہنماؤں نے وزیراعظم سے اس معاملے پر کمیٹی بنانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ادھر وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا پی ٹی آئی رہنما ؤں کے الزامات کو مستر د کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شوگر سبسڈی معاملے سے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کوئی تعلق نہیں۔ اس لیے وکلا نے انہیں بیان ریکارڈ کرانے کیلئے پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا جس سے کمیشن کو بروقت آگاہ کردیا گیا تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ میں شوگر ملز مالکان کو سبسڈی کسانوں کی خاطر دی گئی کیونکہ ان کے گنے کی فصل خراب ہورہی تھی۔
انہوں نے سوال کیا کہ آج ان فرشتوں کی حکومت میں چینی کیوں مہنگی ہے؟بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کا یہ بھی کہنا تھا کہ چینی اسکینڈل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پی پی قیادت اس میں ملوث ہے جبکہ چینی بحران پر براہ راست وزیراعظم عمران خان ذمہ دار ہیں۔مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ چینی اسکینڈل انکوائری رپورٹ پر سوالات کا اب تک وفاقی حکومت سے جواب نہیں ملا۔شوگرملز سبسڈی کے معاملے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایشو اب مکمل طور پر سیاسی ہوچکا ہے۔
پریس کانفرنسز اور بیانات کے ذریعہ یہ طے نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اس معاملے پر قصو ر وار کون ہے۔مختلف معاملات پر پہلے بھی انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی جاتی رہی ہیں لیکن ان کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ہے۔اگر کوئی چاہتا ہے کہ واقعی تمام حقائق شفاف طریقے سامنے آئیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جو فریقین کا موقف سنے اور حقائق کو عوام کے سامنے لائے۔
وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے واضح کردیا ہے کہ اس سال پہلی سے بارہویں جماعت تک کے تمام طلبہ و طالبات بغیر امتحانات دئیے آگے کلاسز میں پرموٹ ہوجائیں گے اور جو بچے اگر فیل بھی ہیں تو انہیں بھی پاسنگ مارکس دے کر اگلی کلاسز میں پرموٹ کردیا جائے گا۔ اس سال کوئی خاص امتحان نہیں ہوگا اور جو طلبہ اپنے مضامین میں بہتری کے خواہ ہیں انہیں اگلے سال امتحان کا موقع دیا جائے گا۔ ہم نے تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل بند کیا ہے اور کوئی اسکول اپنی مرضی حکومت کی اجازت کے بغیر تدریسی عمل شروع نہیں کرسکتا۔
وزیر تعلیم سندھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو بچے اپنے مارکس کی بہتری چاہتے ہیں انہیں بھی پرموٹ کردیا جائے گا البتہ اگر وہ چاہتے ہیں تو انہیں اگلے سال اس کا موقع دیا جائے گا۔ پرائیوٹ طلبہ و طالبات پر بھی یہی رولز لاگو ہوں گے۔ حکومت سندھ کے اس واضح اعلان کے بعد طلباء اور ان کے والدین کے سر وں سے ایک بھاری بوجھ ہٹ گیا ہے۔اس سے قبل وہ گومگو کی کیفیت میں تھے کہ آیا ان کا مستقبل کیا ہوگا۔ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ پروموشن کے عمل کو کسی طور پر بھی بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے لیکن موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے اس درست فیصلہ کیا ہے تاہم ایسے بچے جو اچھے نمبروں کے ساتھ امتحانات میں پاس ہوتے ہیں وہ یقیناً اس فیصلے سے مایوس ہوں گے۔
ملک بھر کی سندھ میں بھی ٹڈی دل کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے۔اس ضمن میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم عمران خان کو ایک خط بھی ارسال کیا ہے،جس میں وفاقی حکومت سے اپیل کی گئی ہے وہ 6 ایئرکرافٹ فضائی اسپرے اور 110ڈبل کیبن گاڑیاں زمینی اسپرے کے لیے فراہم کرے۔ سید مراد علی شاہ کا خط میں ہنگامی اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ میں ٹڈی دل صحرائی علاقوں کے بعد زیر کاشت رقبے کو بھی تباہ کررہی ہے،جس کی وجہ سے صوبے میں فوڈ سیکیورٹی کا خطرہ بڑھتاجا رہاہے۔ٹڈی دل کو روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ ہوئے تو فصلیں تباہ ہوجائیں گی۔
ادھر ترجمان این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کے حملہ ذدہ علاقوں کا سروے اورکنٹرول آپریشن جاری ہے۔ اب تک پورے ملک میں 4لاکھ 97 ہزار ہیکٹر رقبہ پرا سپرے کیا جا چکا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کا معاملہ کورونا وائر سے بھی زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کے نام خط میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ بے جا نہیں ہیں۔ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے بھی کورونا وائرس کی طرز جس طرح نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی کام کر رہی ہے،اسی طرح کی ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے تمام صوبوں کی مشاورت سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔
پی آئی اے طیارہ حادثے کی تحقیقات کرنے والی غیر ملکی ماہرین کی ٹیم اپنا کام مکمل کرکے واپس فرانس روانہ ہوگئی ہے۔کراچی طیارہ حادثے کی تحقیقات کے لیے ائیر بس کمپنی کے ماہرین پر مشتمل 11 رکنی ٹیم 26 مئی کو فرانس سے کراچی پہنچی تھی۔ غیر ملکی ٹیم نے اپنے قیام کے دوران جائے وقوعہ سے تمام ضروری شواہد اکٹھے کیے اور رن وے کا بھی معائنہ کیا۔فرانسیسی ٹیم کے ارکان کراچی ایئر پورٹ سے خصوصی پرواز اے آئی بی 1889 کے ذریعے فرانس روانہ ہوئے۔
فرانسیسی ٹیم اپنے ہمراہ دیگر شواہد کے ساتھ فلائٹ ڈیٹا ریکارڈر اور کاک پٹ وائس ریکارڈر بھی لے گئی ہے، جنہیں ایئر بس کے ہیڈ کوارٹر میں ہی ڈی کوڈ کیا جائے گا۔دوسری جانب وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ حادثے میں جاں بحق 84افراد کی شناخت ہوگئی ہے،جن کی لاشیں ورثاء کے حوالے کردی گئی ہیں۔اس وقت 2 ڈی این اے سیمپلز میچنگ کیلئے موجود ہیں۔ایوی ایشن امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایئربس کمپنی کے ماہرین جو شواہد اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں،اس حادثے کی وجوہات جاننے میں کافی حد تک مدد ملے گی اور حادثے کے حوالے سے جاری چہ مگوئیاں کا بھی خاتمہ ہوگا۔
سندھ میں جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر ایم کیو ایم پاکستان،جی ڈی اے اور پی ٹی آئی کی جانب سے شدید رد عمل دیکھنے میں آیا ہے۔سندھ حکومت نے اس مسئلے پر پر ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے،جس کے سربراہ قاضی شاہد پرویز ہوں گے،جبکہ ارکان میں سعید احمد منگیجو اور نظیر احمد قریشی شامل ہوں گے۔یہ کمیٹی اپنی انکوائری مکمل کرکے رپورٹ چیف سیکرٹری سندھ کو پیش کرے گی۔ایم کیو ایم کا جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر کہنا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ڈومیسائل بنا رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر لوگوں نے بھی آواز بلند کی ہے۔
سندھ میں نوکریاں اگر قانون کے مطابق نہیں مل رہیں تو یہ وزیراعلیٰ سندھ کے لیے شرم کی بات ہے۔کنور نوید جمیل کا کہنا تھا کہ ہم 5 سال سے جعلی ڈومیسائل پر سندھ اسمبلی میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔جب کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی تو پارٹی نے عدالت جانے کا فیصلہ کیا،جہاں حکومت سندھ نے جواب جمع کروایا ہے کہ انہیں کوئی ڈومیسائل کی شکایت نہیں ملی ہے۔جی ڈی اے نے یہ معاملہ سندھ اسمبلی میں اٹھانے اور پی ٹی آئی نے اس معاملے کی مکمل غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر شفاف انکوائری کی ضرورت ہے۔
یہ صرف کراچی کا مسئلہ نہیں ہے سندھ کے دیگر شہروں سے بھی اس طرح کی شکایات سامنے آرہی ہیں۔اس عمل سے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور صوبے میں پہلے ہی کوٹہ سسٹم رائج ہے۔اگر لوگ جعلی ڈومیسائل بناکر نوکریاں حاصل کرتے رہے تو میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں کا حصول ناپید ہوجائے گا۔