قلم کی حرمت
قوم ثمود کی بربادی ہمارے لیے ایک سبق ہے لیکن ہم سب کچھ دیکھنے سمجھنے کے باوجود اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر پڑھ کر۔۔۔
JAKARTA:
حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا تھا۔ یہ قوم مدین اور شام کے درمیانی علاقے میں آباد ہوئی تھی، یہ بہت باصلاحیت قوم تھی، پہاڑوں کو تراش کر گھر بناکر رہتی تھی اور زمین پر بھی شاندار محلات تعمیر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ رب العزت نے انھیں بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا، مویشی، باغات، پھل، چشمے وغیرہ لیکن یہ قوم ناشکری میں پڑگئی اور شرک کرنے لگی، بتوں کو پوجنا شروع کردیا، تب رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی اصلاح کے لیے رسول بناکر بھیجا لیکن وہ اپنی بری عادتوں اور شرک میں الجھے رہے اور حضرت صالح علیہ السلام کی ایک نہ مانی بلکہ اپنی ایک ڈیمانڈ ان کے سامنے رکھ دی کہ آپؑ پہاڑ سے زندہ اونٹنی ہماری آنکھوں کے سامنے نکال کر دکھائیں پھر ہم آپ کو اﷲ کا رسول مانیں گے۔ رب العزت نے ان کی ڈیمانڈ فوراً پوری کر دی اور ایک زندہ اونٹنی نکل آئی۔ قرآن مجید میں اس اونٹنی کو ''اللہ کی اونٹنی'' کہا ہے، اسے دیکھنے کے بعد چند ہی لوگ حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لائے، ان کے دلوں پر اب بھی تالے پڑے تھے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو خبردار کیا کہ یہ اونٹنی اﷲ کی ہے، اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا ورنہ تم پر اﷲ کا عذاب آجائے گا۔
قوم ثمود کے لیے پانی پینے کے لیے ایک ہی جگہ تھی جہاں سب جانور اور اﷲ کی اونٹنی سب ہی پانی پیتے تھے۔ اﷲ کے رسول نے پانی پینے کے دن مقرر کر رکھے تھے کہ ایک دن قوم کے جانور پانی پئیں گے تو ایک دن اﷲ کی اونٹنی پانی پیے گی۔ لیکن وہ ناخلف لوگ کچھ دن تو برداشت کرتے رہے اور ایک دن ایک برے آدمی نے اﷲ کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں اور اسے ہلاک کردیا۔ یہ ایک انتہائی گری ہوئی حرکت تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم کو تین دن کی مہلت ہے تم اور مزے کرلو پھر اﷲ کا عذاب تمہیں گھیر لے گا، لیکن وہ اپنی حرکتوں میں مگن رہے اور خدا کے رسول کی باتوں پر دھیان ہی نہ دیا، تین دن بعد اﷲ کا عذاب آیا، ایک بہت تیز آواز والا زلزلہ جس نے ان تمام نافرمانوں کو ہلاک کردیا، ان کے خوبصورت گھر، عالیشان محل کھنڈر بن گئے۔
یہ آج بھی نافرمان لوگوں کے لیے عبرت کا نشان ہے، جب کہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھ اہل ایمان کو اس عذاب سے بچا لیا۔ اگر قوم ثمود کا وہ برا آدمی فساد نہ کرتا اور اﷲ کی اونٹنی کو ہلاک نہ کرتا تو آج وہ کھنڈرات اپنی عبرت کی داستان نہ سناتے جن پر آج بھی قوم ثمود کی بربادی اور نافرمانی کی مہر ثبت ہے۔ سورہ الاعراف میں واضح لکھا ہے کہ ''پس تم یاد کرو اﷲ کی نعمتیں اور زمین میں مت پھرو فسادی بن کر''۔
قوم ثمود کی بربادی ہمارے لیے ایک سبق ہے لیکن ہم سب کچھ دیکھنے سمجھنے کے باوجود اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر پڑھ کر ایک جانب رکھ دیتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک فساد، ایک کے بعد ایک کارروائی، جس سے فساد اور پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہو ابھر کر سامنے آرہی ہے، کہیں سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو اغوا کیا جارہا ہے تو کہیں ان کی لاشیں خون میں ڈوبی پڑی ملتی ہیں، کہیں مذہبی رہنما نشانہ بن رہے ہیں تو کہیں بم دھماکوں سے عبادت گاہوں کو اڑایا جارہا ہے اور تو اور عوام کو ملک کی صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے جو ادارے کام کر رہے ہیں اور عوام کو وہ تلخ سچ دکھا رہے ہیں جسے دیکھنا بہت سے لوگوں کے لیے اذیت ثابت ہو رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگوں کو ان کے بھیانک چہروں کی شناخت ہو، لوگ جان سکیں کہ ہمارے ملک میں کون کون سے عناصر ہیں جو صورتحال کو مستقل گرمانے کی کوششوں میں لگے ہیں، ایسے اداروں سمیت ایکسپریس نیوز کا دفتر بھی نہ بخشا گیا، جسے ایک بار پھر سچ بولنے کی سزا کے طور پر نشانہ بنایا گیا کہ اگر سچ بولوگے تو سزا ملے گی، حالانکہ سزا کے حقدار تو وہ لوگ ہیں جو اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے ارادے لے کر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں۔
مذموم ارادوں کے بیچ صحافیانہ زنجیر بہت چبھتی ہے، اسی لیے وہ اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں، ہینڈ گرینیڈ اور فائرنگ کے جس طرح وار کیے گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بظاہر انھوں نے اس حملے کو ٹوکن کے طور پر استعمال کیا ہے، اسے شریفانہ زبان میں دھمکی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اگر صحافیانہ ذمے داریوں کے بیچ اس طرح کے عناصر آتے رہے تو کیا دنیا سے سچ کا بول بالا اٹھ جائے گا۔ ایسا تو ہوتا ہی رہا ہے فسادی زمین پر اپنی مرضی سے زہر کے بیج بوتے رہتے ہیں لیکن جیت سچ کی ہی ہوتی ہے، ہمیشہ سے اس ملک کی تاریخ میں یہی دیکھا گیا ہے کہ وار کرنے والا جیسے ربر کے جوتے پہن کر پھسلتا ہوا چلا جاتا ہے اور اس پر کسی کی گرفت ہی نہیں ہوتی، کوئی پکڑنے والا آج تک بہادری سے یہ نہ کہہ سکا کہ یہ ہے وہ مجرم جس نے فلاں فلاں کارروائی کی تھی۔ ہر بڑی مجرمانہ کارروائی کے چہرے پر غلاف پہناکر اسے اندھیرے کمرے میں فائلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔
یہ حملہ دوسری بار کیا گیا ہے، اس سے پہلے 16 اگست 2013 کو بھی اسی طرح دہشت گردی کی واردات کی گئی تھی، ایکسپریس نیوز، ڈیلی ایکسپریس ٹریبیون اور روزنامہ ایکسپریس کو اس واردات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس بار بھی یہی کہا جارہا ہے کہ جلد ہی اس کے مجرموں کو پکڑا جائے گا، یہ ٹھنڈی تھپکیاں نہ صرف صحافی حضرات بلکہ پوری پاکستانی قوم برسوں سے کھاتی چلی آرہی ہے لیکن قلم کی حرمت کی خاطر اب وقت آگیا ہے کہ باضابطہ طور پر کارروائی کی جائے۔ یہ عمل ایک انتہائی بزدلانہ سازش بھی ہوسکتا ہے جس سے کسی خاص طبقے، فرد یا ادارے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ سچ کے دشمن عوام کی صفوں میں ہی چھپ کر بیٹھے ہوں اور بظاہر پرسکون ہوں لیکن آخر کب تک اسی طرح چلتا رہے گا؟ ہمارے ملک میں وی آئی پیز کے لیے پولیس فورسز کی موبائلز کھڑی رہتی ہیں حالانکہ یہ سب شان و شوکت صرف ایک وزیر کی ایک بڑے نام کے لیے ہوتی ہیں جب کہ کسی بھی اخباری دفتر میں ان صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جو سچ کی کھوج میں سڑکوں پر پیدل بھی سفر کرتے ہیں، دو پہیوں کی اسکوٹر پر دھوپ میں جلتے ہیں۔
کیا ان سچ کے محافظوں کی حفاظت کے لیے کوئی ایسا ادارہ، کوئی ایسی سیکیورٹی ایجنسی نہیں ہونی چاہیے جو ان سفید پوش، مڈل کلاس اور بے باک نڈر صحافیوں کی حفاظت کرسکے، ہاں شاید نہیں اس لیے کہ غریب پھر غریب ہوتا ہے اور سچ بڑا تلخ ہوتا ہے، اسے سننے، برداشت کرنے اور دیکھنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے اور ایسے بہت سے ہیں جو اسے برداشت کرنا گوارا نہیں کرتے اور اپنی طاقت اور گھمنڈ میں مست نشانہ بناکر دھمکاتے رہتے ہیں، زمین پر فساد کرنے والے ان فسادیوں کا علاج کس کے پاس ہے، کون ان فسادیوں کی لگامیں کسے گا، کون ان پر بند باندھے گا؟ کیا ہم قوم ثمود کی طرح بربادی کی جانب نہیں بڑھ رہے۔ قلم کی حرمت اب لفظوں تک ہی محدود رہ گئی ہے۔ خدا کرے کوئی واقعی اس قلم کی حفاظت کرنے کے لیے آگے بڑھے اور صحافتی اداروں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی ایجنسیوں کا قیام عمل میں لائے۔
حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا تھا۔ یہ قوم مدین اور شام کے درمیانی علاقے میں آباد ہوئی تھی، یہ بہت باصلاحیت قوم تھی، پہاڑوں کو تراش کر گھر بناکر رہتی تھی اور زمین پر بھی شاندار محلات تعمیر کرتے تھے۔ اس کے علاوہ رب العزت نے انھیں بہت سی نعمتوں سے نوازا تھا، مویشی، باغات، پھل، چشمے وغیرہ لیکن یہ قوم ناشکری میں پڑگئی اور شرک کرنے لگی، بتوں کو پوجنا شروع کردیا، تب رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی اصلاح کے لیے رسول بناکر بھیجا لیکن وہ اپنی بری عادتوں اور شرک میں الجھے رہے اور حضرت صالح علیہ السلام کی ایک نہ مانی بلکہ اپنی ایک ڈیمانڈ ان کے سامنے رکھ دی کہ آپؑ پہاڑ سے زندہ اونٹنی ہماری آنکھوں کے سامنے نکال کر دکھائیں پھر ہم آپ کو اﷲ کا رسول مانیں گے۔ رب العزت نے ان کی ڈیمانڈ فوراً پوری کر دی اور ایک زندہ اونٹنی نکل آئی۔ قرآن مجید میں اس اونٹنی کو ''اللہ کی اونٹنی'' کہا ہے، اسے دیکھنے کے بعد چند ہی لوگ حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لائے، ان کے دلوں پر اب بھی تالے پڑے تھے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو خبردار کیا کہ یہ اونٹنی اﷲ کی ہے، اسے کوئی نقصان نہ پہنچانا ورنہ تم پر اﷲ کا عذاب آجائے گا۔
قوم ثمود کے لیے پانی پینے کے لیے ایک ہی جگہ تھی جہاں سب جانور اور اﷲ کی اونٹنی سب ہی پانی پیتے تھے۔ اﷲ کے رسول نے پانی پینے کے دن مقرر کر رکھے تھے کہ ایک دن قوم کے جانور پانی پئیں گے تو ایک دن اﷲ کی اونٹنی پانی پیے گی۔ لیکن وہ ناخلف لوگ کچھ دن تو برداشت کرتے رہے اور ایک دن ایک برے آدمی نے اﷲ کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں اور اسے ہلاک کردیا۔ یہ ایک انتہائی گری ہوئی حرکت تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے فرمایا کہ تم کو تین دن کی مہلت ہے تم اور مزے کرلو پھر اﷲ کا عذاب تمہیں گھیر لے گا، لیکن وہ اپنی حرکتوں میں مگن رہے اور خدا کے رسول کی باتوں پر دھیان ہی نہ دیا، تین دن بعد اﷲ کا عذاب آیا، ایک بہت تیز آواز والا زلزلہ جس نے ان تمام نافرمانوں کو ہلاک کردیا، ان کے خوبصورت گھر، عالیشان محل کھنڈر بن گئے۔
یہ آج بھی نافرمان لوگوں کے لیے عبرت کا نشان ہے، جب کہ رب العزت نے حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھ اہل ایمان کو اس عذاب سے بچا لیا۔ اگر قوم ثمود کا وہ برا آدمی فساد نہ کرتا اور اﷲ کی اونٹنی کو ہلاک نہ کرتا تو آج وہ کھنڈرات اپنی عبرت کی داستان نہ سناتے جن پر آج بھی قوم ثمود کی بربادی اور نافرمانی کی مہر ثبت ہے۔ سورہ الاعراف میں واضح لکھا ہے کہ ''پس تم یاد کرو اﷲ کی نعمتیں اور زمین میں مت پھرو فسادی بن کر''۔
قوم ثمود کی بربادی ہمارے لیے ایک سبق ہے لیکن ہم سب کچھ دیکھنے سمجھنے کے باوجود اسے تاریخ کا حصہ سمجھ کر پڑھ کر ایک جانب رکھ دیتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک فساد، ایک کے بعد ایک کارروائی، جس سے فساد اور پھوٹ پڑنے کا خدشہ ہو ابھر کر سامنے آرہی ہے، کہیں سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو اغوا کیا جارہا ہے تو کہیں ان کی لاشیں خون میں ڈوبی پڑی ملتی ہیں، کہیں مذہبی رہنما نشانہ بن رہے ہیں تو کہیں بم دھماکوں سے عبادت گاہوں کو اڑایا جارہا ہے اور تو اور عوام کو ملک کی صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے جو ادارے کام کر رہے ہیں اور عوام کو وہ تلخ سچ دکھا رہے ہیں جسے دیکھنا بہت سے لوگوں کے لیے اذیت ثابت ہو رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ لوگوں کو ان کے بھیانک چہروں کی شناخت ہو، لوگ جان سکیں کہ ہمارے ملک میں کون کون سے عناصر ہیں جو صورتحال کو مستقل گرمانے کی کوششوں میں لگے ہیں، ایسے اداروں سمیت ایکسپریس نیوز کا دفتر بھی نہ بخشا گیا، جسے ایک بار پھر سچ بولنے کی سزا کے طور پر نشانہ بنایا گیا کہ اگر سچ بولوگے تو سزا ملے گی، حالانکہ سزا کے حقدار تو وہ لوگ ہیں جو اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کے ارادے لے کر ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں۔
مذموم ارادوں کے بیچ صحافیانہ زنجیر بہت چبھتی ہے، اسی لیے وہ اسے کمزور کرنا چاہتے ہیں، ہینڈ گرینیڈ اور فائرنگ کے جس طرح وار کیے گئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بظاہر انھوں نے اس حملے کو ٹوکن کے طور پر استعمال کیا ہے، اسے شریفانہ زبان میں دھمکی بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اگر صحافیانہ ذمے داریوں کے بیچ اس طرح کے عناصر آتے رہے تو کیا دنیا سے سچ کا بول بالا اٹھ جائے گا۔ ایسا تو ہوتا ہی رہا ہے فسادی زمین پر اپنی مرضی سے زہر کے بیج بوتے رہتے ہیں لیکن جیت سچ کی ہی ہوتی ہے، ہمیشہ سے اس ملک کی تاریخ میں یہی دیکھا گیا ہے کہ وار کرنے والا جیسے ربر کے جوتے پہن کر پھسلتا ہوا چلا جاتا ہے اور اس پر کسی کی گرفت ہی نہیں ہوتی، کوئی پکڑنے والا آج تک بہادری سے یہ نہ کہہ سکا کہ یہ ہے وہ مجرم جس نے فلاں فلاں کارروائی کی تھی۔ ہر بڑی مجرمانہ کارروائی کے چہرے پر غلاف پہناکر اسے اندھیرے کمرے میں فائلوں میں بند کردیا جاتا ہے۔
یہ حملہ دوسری بار کیا گیا ہے، اس سے پہلے 16 اگست 2013 کو بھی اسی طرح دہشت گردی کی واردات کی گئی تھی، ایکسپریس نیوز، ڈیلی ایکسپریس ٹریبیون اور روزنامہ ایکسپریس کو اس واردات میں نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس بار بھی یہی کہا جارہا ہے کہ جلد ہی اس کے مجرموں کو پکڑا جائے گا، یہ ٹھنڈی تھپکیاں نہ صرف صحافی حضرات بلکہ پوری پاکستانی قوم برسوں سے کھاتی چلی آرہی ہے لیکن قلم کی حرمت کی خاطر اب وقت آگیا ہے کہ باضابطہ طور پر کارروائی کی جائے۔ یہ عمل ایک انتہائی بزدلانہ سازش بھی ہوسکتا ہے جس سے کسی خاص طبقے، فرد یا ادارے کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ سچ کے دشمن عوام کی صفوں میں ہی چھپ کر بیٹھے ہوں اور بظاہر پرسکون ہوں لیکن آخر کب تک اسی طرح چلتا رہے گا؟ ہمارے ملک میں وی آئی پیز کے لیے پولیس فورسز کی موبائلز کھڑی رہتی ہیں حالانکہ یہ سب شان و شوکت صرف ایک وزیر کی ایک بڑے نام کے لیے ہوتی ہیں جب کہ کسی بھی اخباری دفتر میں ان صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے جو سچ کی کھوج میں سڑکوں پر پیدل بھی سفر کرتے ہیں، دو پہیوں کی اسکوٹر پر دھوپ میں جلتے ہیں۔
کیا ان سچ کے محافظوں کی حفاظت کے لیے کوئی ایسا ادارہ، کوئی ایسی سیکیورٹی ایجنسی نہیں ہونی چاہیے جو ان سفید پوش، مڈل کلاس اور بے باک نڈر صحافیوں کی حفاظت کرسکے، ہاں شاید نہیں اس لیے کہ غریب پھر غریب ہوتا ہے اور سچ بڑا تلخ ہوتا ہے، اسے سننے، برداشت کرنے اور دیکھنے کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے اور ایسے بہت سے ہیں جو اسے برداشت کرنا گوارا نہیں کرتے اور اپنی طاقت اور گھمنڈ میں مست نشانہ بناکر دھمکاتے رہتے ہیں، زمین پر فساد کرنے والے ان فسادیوں کا علاج کس کے پاس ہے، کون ان فسادیوں کی لگامیں کسے گا، کون ان پر بند باندھے گا؟ کیا ہم قوم ثمود کی طرح بربادی کی جانب نہیں بڑھ رہے۔ قلم کی حرمت اب لفظوں تک ہی محدود رہ گئی ہے۔ خدا کرے کوئی واقعی اس قلم کی حفاظت کرنے کے لیے آگے بڑھے اور صحافتی اداروں کی حفاظت کے لیے سیکیورٹی ایجنسیوں کا قیام عمل میں لائے۔