حق اور سچ پر ایک بار پھر سے حملہ
اب روز کا معمول بن گیا ہے کہ 10 یا 15 ہلاکتیں شہر کراچی میں ضرور ہوتی ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی حکومت نام کی چیز ہے؟
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو؟
حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر آج کے دور حاضر پر پورا اترتا ہے۔ آج ہر شخص دوسرے کو کافر کہتا نظر آتا ہے۔ کافر کون ہے اور مسلمان کون؟ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر پاکستان میں یہ ذمے داری ہر شخص نے اپنے اوپر عائد کرلی ہے اور اصلی ذمے داری بھول چکے ہیں۔ اسلام نے یہ عظیم الشان اخلاقی اصول قائم کیا ہے کہ:
''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو ایذا نہ پہنچے۔''
اگرچہ اس اصول کی خلاف ورزی کا اثر ہر موقع پر برے نتائج پیدا کرتا ہے۔ آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنے ہی ہاتھوں تکلیف دے رہا ہے۔ کبھی کافر قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے، تو کبھی لوٹ مار کرکے تکلیف دی جارہی ہے، یعنی ہر طرح سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں۔ پورے ملک میں خوف اور دہشت گردی کا راج ہے، نظام، قانون، اصول نام کی چیز اس ملک میں نظر نہیں آتی، جس کا جو من چاہے وہ کرتا پھرتا نظر آتا ہے۔ ملک کی معیشت تیزی سے تباہ ہورہی ہے، اب روز کا معمول بن گیا ہے کہ 10 یا 15 ہلاکتیں شہر کراچی میں ضرور ہوتی ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی حکومت نام کی چیز ہے؟
کراچی میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری و ساری ہے مگر یہ کیسا آپریشن ہے کہ دہشت گردی رکنے کے بجائے اور تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے کہ دہشت گرد شہر میں اپنے خلاف ہونے والے آپریشن کے خلاف آپریشن کررہے ہیں؟ اپنی دہشت گردی تیز کرکے انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں کرسکتا، پھر آخر یہ آپریشن کس کے خلاف ہورہا ہے؟
دہشت گردوں سے روزنامہ ایکسپریس بھی نہیں بچ سکا۔ کراچی میں روزنامہ ایکسپریس کی عمارت پر شرپسندوں کی جانب سے دوسرا شدید ترین حملہ کیا گیا جس میں 2 گرینیڈ دھماکے اور دو اطراف سے شدید فائرنگ کی گئی۔ آزادی صحافت پر ایک بار پھر دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔ چند ماہ پہلے 16 اگست کو بھی ایکسپریس کے دفتر پر دہشت گردی کی بہیمانہ واردات ہوئی تھی۔ حالیہ حملے میں دہشت گردوں نے کے پی ٹی فلائی اوور پر مورچہ بناکر فائرنگ اور عمارت کی عقبی دیوار پر کریکر حملہ کرکے اندر گھسنے کی کوشش کی، فائرنگ کا سلسلہ کافی دیر چلتا رہا، جب کہ باہر کھڑی گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا۔
دہشت گردوں نے اتنی بڑی کارروائی کردی، اس کارروائی سے صاف ظاہر ہے کہ شہر کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والا آپریشن ناکام ہوچکا ہے۔ حکومت عام شہریوں اور اداروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔
ایکسپریس نیوز پر حملہ آزادی صحافت پر حملہ ہے، کیوں کہ ایکسپریس نیوز سچ اور حق کی بات کرتا ہے۔ شہر میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور ٹارگٹ کلنگ کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شہر کراچی میں دہشت گرد بڑی بڑی کارروائیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کو بھی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے۔ ملک میں شہریوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ ان مسائل کو پچھلی حکومت بھی حل نہ کرسکی تھی اور موجودہ حکومت بھی ان دہشت گردوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ حکومت کو اب ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرسکے۔ شہریوں کے اندر جو خوف پیدا ہوگیا ہے کہ ان کی جان اور مال اب پاکستان میں محفوظ نہیں اب وقت ہے کہ ایسی سوچ کو تبدیل کیا جائے اور حکومتی ادارے ملک میں بسنے والے ہر فرد کو تحفظ فراہم کریں، چاہے وہ کسی بھی مذہب اور عقیدے کے لوگ کیوں نہ ہوں جو انسانوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور تقسیم کو پیدا کرے ہر اس چیز کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
حکومتی سطح پر ہر شخص اور ہر ادارے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس وقت روح انسانیت کی چیخیں نکل رہی ہیں، مظلوم شہری بے دردی سے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مگر ہم شہریوں کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن پاک میں ہر جگہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ ایمان امید اور یقین ہے، کفر، شک اور مایوسی ہے۔ وہ بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ مایوس نہ ہو امید کا چراغ روشن رکھو ہر حال میں پر امید اور سعادت مند رہو، یہی سرچشمہ زندگی ہے، اسی سے تمام دنیوی اور اخروی کامرانیوں کی دولت حاصل ہوسکتی ہے۔ مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا ہے، اس کا ذہنی مزاج کسی سے اتنا بے گانہ نہیں جس قدر مایوسی سے، زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کردیں لیکن وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا۔
اس وقت جو پاکستان کے حالات ہیں بحیثیت پاکستانی ہم سب کو امید کا دامن پکڑ کر رہنا ہوگا کہ انشاء اﷲ بہت جلد ہماری موجودہ حکومت دہشت گردی کے اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ امید کرتی ہوں کہ ہماری موجودہ حکومت ایسا نظام ملک میں ضرور رائج کرپائے گی جس سے عام شہری اور اداروں کو تحفظ فراہم کیاجائے گا۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ملک میں بگڑتے ہوئے حالات کو جلد از جلد قابو میں کیا جاسکے اور جو امید شہریوں نے اس حکومت سے لگائی ہوئی ہے خدا کرے انھیں مایوسی نصیب نہ ہو۔
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو؟
حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر آج کے دور حاضر پر پورا اترتا ہے۔ آج ہر شخص دوسرے کو کافر کہتا نظر آتا ہے۔ کافر کون ہے اور مسلمان کون؟ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے مگر پاکستان میں یہ ذمے داری ہر شخص نے اپنے اوپر عائد کرلی ہے اور اصلی ذمے داری بھول چکے ہیں۔ اسلام نے یہ عظیم الشان اخلاقی اصول قائم کیا ہے کہ:
''مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان کو ایذا نہ پہنچے۔''
اگرچہ اس اصول کی خلاف ورزی کا اثر ہر موقع پر برے نتائج پیدا کرتا ہے۔ آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنے ہی ہاتھوں تکلیف دے رہا ہے۔ کبھی کافر قرار دے کر قتل کردیا جاتا ہے، تو کبھی لوٹ مار کرکے تکلیف دی جارہی ہے، یعنی ہر طرح سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں۔ پورے ملک میں خوف اور دہشت گردی کا راج ہے، نظام، قانون، اصول نام کی چیز اس ملک میں نظر نہیں آتی، جس کا جو من چاہے وہ کرتا پھرتا نظر آتا ہے۔ ملک کی معیشت تیزی سے تباہ ہورہی ہے، اب روز کا معمول بن گیا ہے کہ 10 یا 15 ہلاکتیں شہر کراچی میں ضرور ہوتی ہیں۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی حکومت نام کی چیز ہے؟
کراچی میں گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری و ساری ہے مگر یہ کیسا آپریشن ہے کہ دہشت گردی رکنے کے بجائے اور تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ آپریشن دہشت گردوں کے خلاف ہورہا ہے کہ دہشت گرد شہر میں اپنے خلاف ہونے والے آپریشن کے خلاف آپریشن کررہے ہیں؟ اپنی دہشت گردی تیز کرکے انھوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کا کوئی کچھ نہیں کرسکتا، پھر آخر یہ آپریشن کس کے خلاف ہورہا ہے؟
دہشت گردوں سے روزنامہ ایکسپریس بھی نہیں بچ سکا۔ کراچی میں روزنامہ ایکسپریس کی عمارت پر شرپسندوں کی جانب سے دوسرا شدید ترین حملہ کیا گیا جس میں 2 گرینیڈ دھماکے اور دو اطراف سے شدید فائرنگ کی گئی۔ آزادی صحافت پر ایک بار پھر دہشت گردوں کا حملہ ہوا۔ چند ماہ پہلے 16 اگست کو بھی ایکسپریس کے دفتر پر دہشت گردی کی بہیمانہ واردات ہوئی تھی۔ حالیہ حملے میں دہشت گردوں نے کے پی ٹی فلائی اوور پر مورچہ بناکر فائرنگ اور عمارت کی عقبی دیوار پر کریکر حملہ کرکے اندر گھسنے کی کوشش کی، فائرنگ کا سلسلہ کافی دیر چلتا رہا، جب کہ باہر کھڑی گاڑیوں کو شدید نقصان پہنچا۔
دہشت گردوں نے اتنی بڑی کارروائی کردی، اس کارروائی سے صاف ظاہر ہے کہ شہر کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والا آپریشن ناکام ہوچکا ہے۔ حکومت عام شہریوں اور اداروں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہے۔
ایکسپریس نیوز پر حملہ آزادی صحافت پر حملہ ہے، کیوں کہ ایکسپریس نیوز سچ اور حق کی بات کرتا ہے۔ شہر میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور ٹارگٹ کلنگ کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ شہر کراچی میں دہشت گرد بڑی بڑی کارروائیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کو بھی مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کا خاتمہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے۔ ملک میں شہریوں کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔ ان مسائل کو پچھلی حکومت بھی حل نہ کرسکی تھی اور موجودہ حکومت بھی ان دہشت گردوں کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ حکومت کو اب ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو شہریوں کو مکمل تحفظ فراہم کرسکے۔ شہریوں کے اندر جو خوف پیدا ہوگیا ہے کہ ان کی جان اور مال اب پاکستان میں محفوظ نہیں اب وقت ہے کہ ایسی سوچ کو تبدیل کیا جائے اور حکومتی ادارے ملک میں بسنے والے ہر فرد کو تحفظ فراہم کریں، چاہے وہ کسی بھی مذہب اور عقیدے کے لوگ کیوں نہ ہوں جو انسانوں کے درمیان نفرت، دشمنی اور تقسیم کو پیدا کرے ہر اس چیز کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
حکومتی سطح پر ہر شخص اور ہر ادارے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس وقت روح انسانیت کی چیخیں نکل رہی ہیں، مظلوم شہری بے دردی سے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ مگر ہم شہریوں کو امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ قرآن پاک میں ہر جگہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ ایمان امید اور یقین ہے، کفر، شک اور مایوسی ہے۔ وہ بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ مایوس نہ ہو امید کا چراغ روشن رکھو ہر حال میں پر امید اور سعادت مند رہو، یہی سرچشمہ زندگی ہے، اسی سے تمام دنیوی اور اخروی کامرانیوں کی دولت حاصل ہوسکتی ہے۔ مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا ہے، اس کا ذہنی مزاج کسی سے اتنا بے گانہ نہیں جس قدر مایوسی سے، زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کردیں لیکن وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا۔
اس وقت جو پاکستان کے حالات ہیں بحیثیت پاکستانی ہم سب کو امید کا دامن پکڑ کر رہنا ہوگا کہ انشاء اﷲ بہت جلد ہماری موجودہ حکومت دہشت گردی کے اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ امید کرتی ہوں کہ ہماری موجودہ حکومت ایسا نظام ملک میں ضرور رائج کرپائے گی جس سے عام شہری اور اداروں کو تحفظ فراہم کیاجائے گا۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہم بھی آس لگائے بیٹھے ہیں کہ ملک میں بگڑتے ہوئے حالات کو جلد از جلد قابو میں کیا جاسکے اور جو امید شہریوں نے اس حکومت سے لگائی ہوئی ہے خدا کرے انھیں مایوسی نصیب نہ ہو۔