ٹڈی دل اور کسانوں کی فریاد
حکومت اور متعلقہ محکموں نے ٹڈیوں کی آمد سے قبل زرعی شعبے کو بروقت آگاہ کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
زراعت پاکستان کی روح ہے اور چھوٹا کسان اس روحانی اثاثہ کا نگہبان ہے۔ فوٹو: فائل
منگل کو وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس پانچ گھنٹے جاری رہا جس میں ملکی سیاسی، معاشی اور کورونا کی صورت حال زیر بحث آئی اور ٹڈی دل کے خاتمے سمیت آیندہ وفاقی بجٹ 2020-21ء سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔ کابینہ نے تمام شوگر ملزکا ایف آئی اے اور نیب کے ذریعے 1985ء سے آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے چینی کی قیمتوں میں کمی کی ہدایت کی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی کم نہ ہونے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے مشیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ مہنگائی میں کمی کے لیے صوبوں سے رابطہ کریں گے۔
ذرایع کے مطابق این ڈی ایم اے حکام نے فصلوں پر ٹڈی دل کے حملے اور اس کے خلاف آپریشن پر جامع بریفنگ دی۔ وفاقی کابینہ نے کورونا سمیت قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی توثیق بھی کی۔ ٹڈی دل کے ہولناک حملوں اور مسلسل یورش کے تناظر میں دلچسپ انکشاف بھی سامنے آیا ہے جو ٹڈیوں کو پکڑنے اور ان کی خرید وفروخت سے متعلق ہے ۔
اس انکشاف کے مطابق ٹڈیوں کو پکڑنے اور 15 روپے کلو بیچنے پر اچھی خاصی رقم جمع کی جاسکتی ہے جب کہ اس ٹڈی دل اسٹاک کو پولٹری فیڈ کی ترقی و توسیع کے لیے مزید بہتر بنایا جاسکتاہے۔ ایسی خبریں بھی سننے میں آرہی ہیں جن میں ماہرین کے حوالے سے بتایا جارہا ہے کہ ٹڈیوں سے متعلق عوام کو حقائق سے آگاہ کیاجائے، ان کا کہنا ہے کہ ٹڈیوں کو اگر بھون لیا جائے تو اس کے کھانے سے شہریوں کو وٹامنز، پوٹاشیم، کیلشیم، منرلز اور پروٹین کی مطلوبہ مقدار ہر کھانے میں مہیا ہوسکتی ہے۔
یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ پہلی بار ٹڈی دل کے خاتمہ کے اقدامات بجائے، اس کے زندہ اسٹاک کو پولٹری فیڈ کے لیے استعمال کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، کہاجاتا ہے کہ اس منصوبہ پر عمل کرنے سے خوراک کا ایک اہم مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے اور ٹڈیوں کے مسلسل حملوں سے نجات کی بھی ایک اقتصادی سہولت اور روزگار کی فراہمی کا امکان پیدا ہوا ہے۔ بہرحال یہ ساری غیر سنجیدہ باتیں ہیں،اصل مسئلہ فصلوں کو ٹڈی دل سے بچانا ہے۔حکومت کی توجہ اسی پہلو پر ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ ٹڈی دل کے حوالے سے تمام مطلوبہ وسائل مہیا کیے جائیں، انھوں نے زور دیا کہ ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے ''آؤٹ آف باکس'' حل پر بھی غور کیا جائے اور مقامی سطح پر عوام کو مراعات فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔
دریں اثنا چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ وفاق ٹڈیوں کے خاتمے میں ناکام رہا ہے، ٹڈی دل نے جو تباہی مچائی ہے اس سے ملک کے کئی اضلاع میں قحط کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹڈی دل کی یلغار سے بے خبری اور تساہل طرز حکمرانی کی الم ناک داستانوں میں سے ایک ہے۔
زرعی شعبہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب جب کہ ٹڈی دل کا خطرہ سر پر پہنچ چکا ہے ارباب اختیار ابھی تک سنجیدہ نہیں ہیں ، عملی اقدامات کے بجائے اجلاس کیے جارہے ہیں یا پھر خوش نما بیانات جاری کیے جارہے ہیں، اب تک تو سرکاری سطح پر فضائی سپرے اور دیگر انتظامی اقدامات کی صرف برائے نام کوششیں ہوتی رہیں مگر ٹڈیوں نے بلوچستان میں قیامت برپا کردی ہے، کھڑی فصلیں چٹ کرگئے ، حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے، باغات اور پھلوں کا صفایا کردیا ، سرسبز وشاداب کھیت اجڑ گئے، کسانوں اور زمینداروں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں، سندھ ، خیبرپختونخوا، اور پنجاب کے اضلاع میں ان کی موجودگی کسی بھی وقت خطرے کو بڑھاوا دے سکتی ہے، کسان اور زرعی ورکر ڈرم اور ٹین کنستر پیٹ پیٹ کر ٹڈیوں کو بھگانے میں مصروف ہیں مگر یہ آفت شور مچانے سے تو ہجرت پر آمادہ نہیں ہوگی۔
ماہرین کا اعتراف ہے کہ حکومت اور متعلقہ محکموں نے ٹڈیوں کی آمد سے قبل زرعی شعبے کو بروقت آگاہ کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، ان کے مطابق جدید سائنسی دور ہے محکمہ خوراک و زراعت سٹیلائٹ سے عکسی تصاویر لے کر زمینداروں اور کسانوں کو ٹڈیوں کی اچانک یورش سے پیشگی طور پر آگاہ کرسکتی تھی لیکن کورونا سے نمٹنے میں مصروف بیوروکریسی اور صوبائی و وفاقی حکومت کو ادراک ہی نہ تھا کہ کورونا سے بڑی مصیبت زرعی شعبے کا مستقبل غارت کرنے کے لیے دہلیز تک آپہنچی ہے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹڈی دل سے شروع ہونے والی بات ملک کی روبہ زوال زراعت اور چھوٹے کسانوں اور ہاریوں کی حالت زار پر مرکوز رکھی جائے۔ ان کی زندگی کے روز شب پر حکمراں ٹاسک فورس تشکیل دیں، ان کے مصائب وآلام کی باتیں کریں، اور ان قوتوں کو لگام دیں جنھوں نے زرعی شعبے کو ان طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رکھا ہے جو اپنے سیاسی اثرورسوخ سے حکومت سے ہر بات منوالیتے ہیں ، ہر قسم کی سبسڈی لے لیتے ہیں، زرعی قرضے ان ہی کو ملتے ہیں، وہی ان قرضوں کو معاف بھی کراتے ہیں ان کی ری شیڈولنگ کا اختیار یا راستہ بھی انھیں معلوم ہے، رگڑا جاتا ہے تو چھوٹا کسان،کاشتکار جو دس بارہ ایکڑ زمین لے کر زندگی بھر بیج، کھاد، ٹریکٹر ، ٹیوب ویل اور منڈی میں میں اپنی پروڈکٹ اور پیداوارکی جائز قیمت اور محنت کے معاوضہ سے محروم ہے، اسے پیداوار بیچنے کے لیے ضروری سائٹ اور پوائنٹس تک دستیاب نہیں، یوں تو ہماری قومی ڈکشن میں علامہ اقبال کا یہ لازوال شعر ضرب المثل بن چکا ہے کہ
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
لیکن اس انقلاب آفریں اور حکیمانہ پیغام کو حکمراں بھلا چکے، وہ اس ملک کے زرعی عوام کو روزگار نہیں دے سکے، آج کا کسان بنیادی طور پر زرعی معیشت کے سینگوں پر کھڑا ہے ، ملک کی معیشت ''ایگروبیسڈ'' ہے جہاں قدرت نے اہل وطن کو اہل چمن سمجھتے ہوئے ہر نعمت سے نوازا ہے مگر کسان کے گھر کا دیا آج بھی روشنی کو ترس رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے سماجی تبدیلی ، کسان اور ہاری کی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کا وعدہ کیا تھا، وزیراعظم عمران خان نے ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کی کمٹمنٹ کی تھی ، کیا انھیں چھوٹا کسان آج یاد ہے۔
آج بھی پاکستان میں دو طبقے ہیں امیر اور غریب ، مگر کسانوں کے دو طبقے ہیں ایک وہ سیاسی طاقت سے مالامال ، انٹچ ایبل بالادست فیوڈل طبقہ ہے جس کی مٹھی میں اقتدار اور حکومت ہے، وہی سبسڈیز لیتا ہے ، اس نے کہیں زمیندار اور کہیں صنعت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، ساری مراعات وہ لیتا ہے،کسانوں کو کہاں سبسڈی ملتی ہے، وہ بیج اور کھاد سے محروم ہے، زرعی قرضوں اور ٹریکٹرز وٹیوب ویلز کی تنصیب اور فصل کے لیے پانی کو ترستا ہے، زرعی شعبہ میں استحصال ملکی صنعتی شعبے سے بھی زیادہ ہے، وہ اپنی پیداوار لے کر منڈی جاتا ہے تو اسے زرعی گدھ گھیر لیتے ہیں، ان کے کئی چہرے ہیں، چھوٹا کسان ان سے کیسے لڑ سکتا ہے، وہ ناخواندہ ہے، بدحال ہے اس کی زندگی میں خوشی حکمراں ہی لاسکتے ہیں لیکن انھیں لڑائی جھگڑوں، گرفتاریوںِ، کشیدگی، محاذ آرائی اور ٹاک شوز سے فرصت نہیں ۔
زراعت پاکستان کی روح ہے اور چھوٹا کسان اس روحانی اثاثہ کا نگہبان ہے۔ ارباب بست وکشاد کے لیے لازم ہے کہ وہ زرعی شعبے کی طرف اپنی ترجیحات کا توازن درست رکھیں، بڑے جاگیردار تو اپنا حصہ وفاق وصوبائی حکومتوں سے پورا لیتے ہیں، لیکن چھوٹاکسان ہر سہولت، مراعات، امداد، قرضوں کا منتظر ہے، اسے بیج اور کھاد مفت دستیاب ہونا چاہیے، اسے اپنی پیداوارکی حقیقی اور جائز قیمت ملنی چاہیے، گنے کا کاشتکار روتے روتے سو نہیں گیا بلکہ اس کے آنسو خشک ہوگئے، اس کے کھیت وکھلیان کی طرح جنھیں ٹڈی دل نے برباد کر ڈالا۔
چھوٹا کسان مظلوم ہے، اس کے لیے آواز بلند کرنے والے کسان رہنما بھی بڑے زمیندار ہیں،چھوٹے کسان تو بیچارے حکومت سے ملتجی ہیں کہ کاشتکار اور کسان کی مدد کی جائے، کسان کے بھی دن بدلنے چاہئیں۔بالادست اور بااثر زرعی طبقہ سیاست و سماج سے اپنے حصے کی ساری نعمتیں لے رہا ہے تو کسان اور غریب کاشتکار کیوں زرعی مداخل کی رعائتی نرخوں پر فراہمی سے محروم ہے؟ حکمرانوں کی گڈ بک میں اسے کب شامل کیا جائے گا؟