صنعتی اور آٹو پالیسیوں کا اعلان آئندہ ماہ کیا جائے گا مرتضیٰ جتوئی

نئی پالیسی کے بعدکسی سرمایہ کارکوصنعت لگانے کیلیے حکومت سے اجازت نہیں لینی پڑے گی


Commerce Reporter December 07, 2013
یاماہاپراجیکٹ کی منظوری کے بعد ہونڈا نے بھاری سرمایہ کاری کیلیے رابطہ کیا،فوٹو: فائل

NOTTINGHAM: وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا ہے کہ نئی صنعتی اور آٹو پالیسیوں کا آئندہ ماہ اعلان کیا جائے گا۔

گزشتہ روز ٹیکنالوجی اپگریڈیشن اینڈ اسکل ڈیولپمنٹ کمپنی (ٹسڈک) کے صدر دفتر کے دورے کے موقع پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک میں صنعتی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضوں کی مد میں 500 ارب روپے سے زائد کی ادائیگی کے باعث لوڈشیڈنگ میں کمی کے نتیجے میں صنعتی پیداوار میں 12.5 فیصد اضافہ ہوااور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔

غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نیشنل انڈسٹریل پارکس کے تحت کراچی میں 300 ایکڑ رقبے پر صنعتی زون قائم کیا ہے، اسی طرح بن قاسم میں 1 ہزار ایکڑ رقبے پر اور سرگودھا میں بھی وسیع رقبے پر صنعتی زونز قائم کیے جا رہے ہیں جہاں صنعتکاروں کو ون ونڈو آپریشن کے تحت تمام سہولتیں ایک ہی چھت تلے فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام صنعتی پارکس کو اسپیشل اکنامک زونز کا درجہ دیا گیا ہے جس کے تحت یہاں سرمایہ کاری کرنے والے کو 10 سال کے لیے ٹیکس میں چھوٹ دی جائے گی اور بغیر کسٹمز ڈیوٹی کی ادائیگی کے مشینری اور پلانٹ درآمد کرنے کی اجازت ہو گی۔



انہوں نے کہا کہ نئی صنعتی پالیسی کے بعد کسی سرمایہ کار کو صنعت لگانے کے لیے حکومت سے اجازت نہیں لینی پڑے گی ماسوائے اس کے کہ کوئی ملک میں نئی ٹیکنالوجی لگا رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ صرف چینی کا کارخانہ لگانے کے لیے صوبائی حکومت کا اجازت نامہ ضروری ہو گا۔ غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے جاپانی کمپنی یاماہا کو 20 کروڑ ڈالر مالیت کا منصوبہ لگانے کی اجازت دے دی ہے جس کے بعد ہونڈا کمپنی نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے حکومت سے رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یاماہا کمپنی کا کیس گزشتہ 3 سال سے وفاقی حکومت کے پاس پھنسا ہوا تھا جسے موجودہ حکومت نے صرف 3 ماہ میں نمٹا کر بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سرمایہ کاری آسان ہو گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اٹلی، جاپان، چین اور دیگر ممالک سے سرمایہ کار پاکستان میں توانائی اور صنعتی شعبوں میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ توانائی کی قلت سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار نے کہا کہ ملک میں جاری توانائی بحران کی ذمے داری سابق حکومتوں کی نقاص پالیسیوں کا نتیجہ ہے، مشرف یا پیپلز پارٹی کے دور میں اس حوالے منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو آج پاکستان کو اس مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے کرائے کے بجلی گھروں کی آڑ میں جتنی رقم ضائع کی اس سے یہ بجلی گھر خریدے جا سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے گردشی قرضوں کی ادائیگی کر کے توانائی بحران کی شدت میں کمی کی ہے لیکن جس تناسب سے بجلی چوری ہو رہی ہے یا بجلی کے نظام کے لائن لاسز ہیں آئندہ 6 ماہ میں گردشی قرضہ ایک مرتبہ پھر چڑھ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کی قلت کا واحد حل پن بجلی اور دیگر سستے ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہے اور اس کے لیے حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے، توانائی کی قلت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے حکومت پرعزم ہے لیکن اس مسئلے سے جان چھڑاتے ہوئے 4 سے ساڑھے 4 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے کیونکہ تمام بڑے پیداواری منصوبوں کی تکمیل کیلیے کم از کم حکومت کو اتنا وقت درکار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں