کشمیر کا حسن جنگلات اور ٹمبر مافیا
محکمہ جنگلات، آزاد کشمیر حکومت اور مقامی افراد طاقتور ٹمبر مافیا کے خلاف ڈٹ جائیں
اسلام آباد سے نصف درجن بلاگرز ضلع حویلی آزاد کشمیر کے دورے پر آئے۔ میرا آبائی ضلع ہونے کے باعث مجھ سے رابطہ کیا گیا۔ مہمان نوازی کا تقاضا تھا کہ اپنی مصروفیات کو ترک کرتے ہوئے بلاگرز کو وقت دیا جائے۔ قصہ مختصر عیدالفطر کے چوتھے دن میں بلاگرز کے ہمراہ وادی کنول اور نیلوفر جھیل کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ موسم کی شدت اور سفر کے مصائب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے بساہاں سے وادی کنول جانے کا پروگرام بنایا۔ سڑک خراب ہونے کے باعث گاڑیاں راستے میں کھڑی کرکے چار کلومیٹر کی ہائیکنگ کی تجویز پر عملدرآمد ہوا۔ سو سبھی لوگ نیلوفر جھیل کی جانب چل پڑے۔
میرا بچپن اور لڑکپن انہی وادیوں میں گزرا ہے۔ وادی کنول کے جنگلات میں کرشن چندر کی طرح گڑنچھ (جنگلی فالسے کی قسم) کی تلاش میں زندگی کے روز و شب کٹتے تھے۔ ہاں کسی دیوقامت صنوبر کے درخت پر لٹکے شہد کی مکھیوں کی چھتوں کے ساتھ شرارتیں بھی انہی جنگلات کی حسین یادیں تھیں۔ اس جنگل کے چیڑھ اور دیودار کے درخت کئی رومانوی داستانوں کے شاہد بھی تھے۔ جو داستانیں ان درختوں کی چھاتی پر چاقو کی مدد سے محبوب کا نام کندہ کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی تھیں۔ انہی جنگلوں میں بچپن کے دنوں میں بچوں کے میگزین، خواتین کے رسائل، نسیم حجازی کے ناول اور عمر وعیار کی کہانیاں پڑھتا تھا۔ یہ وہی جنگل تھا، جس میں ایک بار داخل ہونے کے بعد سورج کی کرنیں بھی انسان کو چھو نہیں سکتی تھیں۔ آج بارہ سال کے بعد ایک بار پھر اس جنگل میں ہائیکنگ کرتے ہوئے بچپن کے سنہری دنوں کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔
اب اس جنگل میں شہد کے چھتے تھے اور نہ ہی گڑنچھ کی جھاڑیاں۔ جن درختوں کے سینے پر محبوب کا نام لکھنے سے دل چھلنی ہوجاتا تھا، اب ان درختوں کے تنوں پر کلہاڑی اور آری کے وار ہورہے تھے۔ جس جنگل میں جانور سیر ہوکر چارہ کھاتے اور درختوں کے سائے میں سستا لیتے تھے، اس جنگل میں اب ہائیکنگ کے دوران بھی سائبان میسر نہ تھا۔ یہ جنگل نہیں کٹی جھاڑیوں کا نمونہ تھا، جہاں بوسیدہ درختوں کے نشانات اور تازہ کٹے ہوئے تنے پڑے ہوئے تھے۔ یہ تنے، جھاڑیاں اور بوسیدہ نشانات دیکھ کر شاید کوئی تجزیہ کار یہ سمجھ لے کہ یہاں کبھی جنگل ہوا کرتا تھا۔
ہائیکنگ کرتے ہوئے میں جوں جوں پہاڑی پر چڑھ رہا تھا، پھولتی سانسوں کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ آنسو اس معصوم بچے کے تھے جو اس جنگل کے درختوں سے رات کو جگنو پکڑا کرتا تھا، اس نوجوان کے ارمان تھے جو ان درختوں کے تنوں میں اپنے گمشدہ محبوب کی تصویر تلاش کررہا تھا۔ اس شرارتی بچے کی سسکیاں تھے جو شہد کی مکھیوں کے چھتوں میں اپنی مسکراہٹ ڈھونڈ رہا تھا۔ یہ آنسو شہر کے شور سے بھاگ کر اپنے ماضی کا سکون تلاش کرنے والے اس پینڈو کا درد تھے، جو اپنی متاع حیات لٹنے پر افسردہ تھا۔
کیرن کے پہاڑ سے پگھلتی برف کے سرد پانی کے چھینٹے آنکھوں میں مار کر سفر جاری رکھنے کی کوشش کی، لیکن پانچ درختوں کے ایک جھنڈ نے سینہ چھلنی کردیا۔ ان پانچ درختوں میں سے حال ہی میں چار درخت کاٹ لیے گئے تھے، جبکہ چیڑھ کا ایک درخت محکمہ جنگلات کی نااہلی کا منہ چڑا رہا تھا۔ بساہاں اور اس کے نواحی جنگلات پر یہ قیامت ایک دن میں نہیں ڈھائی گئی، بلکہ یہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران ہر دن ان جنگلات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ میں جوں جوں بلندی کی جانب جارہا تھا، جنگل کی تباہی مجھ پر آشکار ہورہی تھی اور میں احساس ندامت سے اپنی ہی نگاہوں میں گرتا جارہا تھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس جنگل کی تباہی کا ذمے دار کون ہے؟ کیا جنگلات کی کٹائی کا قصوروار حویلی کے ان غریب عوام کو قرار دیا جائے جو ایندھن کےلیے جنگلات کی لکڑی پر انحصار کرتے ہیں؟ اس کا جواب بھی نفی میں تھا، کیونکہ تحقیقات کے مطابق حویلی کے تیس فیصد عوام ایل پی جی، چالیس فیصد عوام خودرو جھاڑیوں، پچیس سے اٹھائیس فیصد کھیتوں میں درخت اگا کر انہیں ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ایک فیصد سے بھی کم آبادی کا انحصار جنگلات کی لکڑی پر ہے۔ میں نے وہاں موجود بزرگوں سے جنگل کی تباہی کی بابت پوچھا۔ ان کے مطابق عام آدمی تو اپنے جانور بھی چرانے کےلیے جنگل میں نہیں لے جاسکتا۔ جنگل پر طاقتور لوگوں کا اختیار ہے۔ یہ اتنے طاقتور لوگ ہیں کہ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران ان کے گھر میں چائے پینے کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ان افراد پر ہاتھ ڈالنا ضلعی انتظامیہ تو درکنار وزیر جنگلات کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔
ہائیکنگ کے دوران ایک بزرگ نے دلچسپ بات بتائی۔ بزرگ کے مطابق نوے کی دہائی میں محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک گھر میں دیسی مرغی کا کھانا کھایا۔ وہ اس کھانے سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنے میزبان کو فوری طور پر ایک درخت کا پرمٹ جاری کیا، ساتھ ہی کہا کہ تمھاری جتنی ہمت و استطاعت ہے جنگل سے لکڑی کاٹ لو۔ محکمہ جنگلات کے اس اعلیٰ افسر کی فیاضی کا ان کے میزبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے حاجی پیر، علی آباد اور بھیڈی تک کے جنگل پر ایسی آری چلائی کہ آج تک اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر محکمہ ٹمبر مافیا کے کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو افسران کو شدید سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ہی کہانیاں مقامی افراد نے بھی سنائیں۔ میں نے جب علاقے کے نوجوانوں کو اس معاملے پر آواز بلند کرنے کو کہا تو سبھی کا کہنا تھا کہ انہیں سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مافیا میں ان کے رشتے دار، عزیز و اقارب ہیں۔ اگر ہم ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ہمیں بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ میں نے جب ضلع حویلی کے عوامی نمائندہ اور ریاست کے وزیر تعمیرات چوہدری محمد عزیز سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بھی تبصرے سے گریز کیا اور سارا ملبہ محکمہ جنگلات پر ڈال دیا۔ سیاسی اثر و رسوخ، سماجی دباؤ اور عوام میں شعور کی کمی کے باعث میرے ضلع کے جنگلات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ محکمہ جنگلات، آزاد کشمیر حکومت اور مقامی لوگ سبھی اس طاقتور مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن شاید انہیں اس بات کی خبر نہیں کہ جنگلات کے کٹائی کا نقصان ان کی نسلوں کو اٹھانا پڑے گا۔
جنگل کی تباہی پر کڑھتا، ٹوٹتی، اٹکتی اور پھولتی سانسوں کے ساتھ میں نیلوفر جھیل پر پہنچ چکا تھا۔ کٹے ہوئے جنگل کے بالکل سامنے مجھے درہ کی چراگاہ نظر آئی، جس کے پچاس ایکڑ پر مشتمل حصے پر چیڑھ اور دیودار کے سیکڑوں ننھے پودے نظر آئے۔ میری آنکھوں میں امید کے ستارے روشن ہوگئے۔ اس چراگاہ کے رہائشی دوستوں کو فون کیا، جنہوں نے بتایا کہ پانچ سال قبل مقامی لوگوں نے محکمہ جنگلات کی منت سماجت کے بعد اس چھوٹے سے رقبہ پر درخت لگوائے ہیں تاکہ علاقے کے حسن کو برقرار رکھا جائے۔ اس چراگاہ میں مقیم 80 فیصد افراد ان پڑھ ہیں، لیکن ان پڑھ آنکھوں میں اچھے مستقبل کے خواب دیکھ کر جنگلات کو تباہ کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مجھے ترس آنے لگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ جنگلات، آزاد کشمیر حکومت اور مقامی افراد اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے طاقتور مافیا کے خلاف ڈٹ جائیں اور قوم کے مستقبل کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ اگر اس پر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
میرا بچپن اور لڑکپن انہی وادیوں میں گزرا ہے۔ وادی کنول کے جنگلات میں کرشن چندر کی طرح گڑنچھ (جنگلی فالسے کی قسم) کی تلاش میں زندگی کے روز و شب کٹتے تھے۔ ہاں کسی دیوقامت صنوبر کے درخت پر لٹکے شہد کی مکھیوں کی چھتوں کے ساتھ شرارتیں بھی انہی جنگلات کی حسین یادیں تھیں۔ اس جنگل کے چیڑھ اور دیودار کے درخت کئی رومانوی داستانوں کے شاہد بھی تھے۔ جو داستانیں ان درختوں کی چھاتی پر چاقو کی مدد سے محبوب کا نام کندہ کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی تھیں۔ انہی جنگلوں میں بچپن کے دنوں میں بچوں کے میگزین، خواتین کے رسائل، نسیم حجازی کے ناول اور عمر وعیار کی کہانیاں پڑھتا تھا۔ یہ وہی جنگل تھا، جس میں ایک بار داخل ہونے کے بعد سورج کی کرنیں بھی انسان کو چھو نہیں سکتی تھیں۔ آج بارہ سال کے بعد ایک بار پھر اس جنگل میں ہائیکنگ کرتے ہوئے بچپن کے سنہری دنوں کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔
اب اس جنگل میں شہد کے چھتے تھے اور نہ ہی گڑنچھ کی جھاڑیاں۔ جن درختوں کے سینے پر محبوب کا نام لکھنے سے دل چھلنی ہوجاتا تھا، اب ان درختوں کے تنوں پر کلہاڑی اور آری کے وار ہورہے تھے۔ جس جنگل میں جانور سیر ہوکر چارہ کھاتے اور درختوں کے سائے میں سستا لیتے تھے، اس جنگل میں اب ہائیکنگ کے دوران بھی سائبان میسر نہ تھا۔ یہ جنگل نہیں کٹی جھاڑیوں کا نمونہ تھا، جہاں بوسیدہ درختوں کے نشانات اور تازہ کٹے ہوئے تنے پڑے ہوئے تھے۔ یہ تنے، جھاڑیاں اور بوسیدہ نشانات دیکھ کر شاید کوئی تجزیہ کار یہ سمجھ لے کہ یہاں کبھی جنگل ہوا کرتا تھا۔
ہائیکنگ کرتے ہوئے میں جوں جوں پہاڑی پر چڑھ رہا تھا، پھولتی سانسوں کے ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ یہ آنسو اس معصوم بچے کے تھے جو اس جنگل کے درختوں سے رات کو جگنو پکڑا کرتا تھا، اس نوجوان کے ارمان تھے جو ان درختوں کے تنوں میں اپنے گمشدہ محبوب کی تصویر تلاش کررہا تھا۔ اس شرارتی بچے کی سسکیاں تھے جو شہد کی مکھیوں کے چھتوں میں اپنی مسکراہٹ ڈھونڈ رہا تھا۔ یہ آنسو شہر کے شور سے بھاگ کر اپنے ماضی کا سکون تلاش کرنے والے اس پینڈو کا درد تھے، جو اپنی متاع حیات لٹنے پر افسردہ تھا۔
کیرن کے پہاڑ سے پگھلتی برف کے سرد پانی کے چھینٹے آنکھوں میں مار کر سفر جاری رکھنے کی کوشش کی، لیکن پانچ درختوں کے ایک جھنڈ نے سینہ چھلنی کردیا۔ ان پانچ درختوں میں سے حال ہی میں چار درخت کاٹ لیے گئے تھے، جبکہ چیڑھ کا ایک درخت محکمہ جنگلات کی نااہلی کا منہ چڑا رہا تھا۔ بساہاں اور اس کے نواحی جنگلات پر یہ قیامت ایک دن میں نہیں ڈھائی گئی، بلکہ یہ گزشتہ بیس برسوں کے دوران ہر دن ان جنگلات کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ میں جوں جوں بلندی کی جانب جارہا تھا، جنگل کی تباہی مجھ پر آشکار ہورہی تھی اور میں احساس ندامت سے اپنی ہی نگاہوں میں گرتا جارہا تھا۔
میں سوچ رہا تھا کہ اس جنگل کی تباہی کا ذمے دار کون ہے؟ کیا جنگلات کی کٹائی کا قصوروار حویلی کے ان غریب عوام کو قرار دیا جائے جو ایندھن کےلیے جنگلات کی لکڑی پر انحصار کرتے ہیں؟ اس کا جواب بھی نفی میں تھا، کیونکہ تحقیقات کے مطابق حویلی کے تیس فیصد عوام ایل پی جی، چالیس فیصد عوام خودرو جھاڑیوں، پچیس سے اٹھائیس فیصد کھیتوں میں درخت اگا کر انہیں ایندھن کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ایک فیصد سے بھی کم آبادی کا انحصار جنگلات کی لکڑی پر ہے۔ میں نے وہاں موجود بزرگوں سے جنگل کی تباہی کی بابت پوچھا۔ ان کے مطابق عام آدمی تو اپنے جانور بھی چرانے کےلیے جنگل میں نہیں لے جاسکتا۔ جنگل پر طاقتور لوگوں کا اختیار ہے۔ یہ اتنے طاقتور لوگ ہیں کہ محکمہ جنگلات کے اعلیٰ افسران ان کے گھر میں چائے پینے کو بھی اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ان افراد پر ہاتھ ڈالنا ضلعی انتظامیہ تو درکنار وزیر جنگلات کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔
ہائیکنگ کے دوران ایک بزرگ نے دلچسپ بات بتائی۔ بزرگ کے مطابق نوے کی دہائی میں محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ افسر نے ایک گھر میں دیسی مرغی کا کھانا کھایا۔ وہ اس کھانے سے اتنے خوش ہوئے کہ اپنے میزبان کو فوری طور پر ایک درخت کا پرمٹ جاری کیا، ساتھ ہی کہا کہ تمھاری جتنی ہمت و استطاعت ہے جنگل سے لکڑی کاٹ لو۔ محکمہ جنگلات کے اس اعلیٰ افسر کی فیاضی کا ان کے میزبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے حاجی پیر، علی آباد اور بھیڈی تک کے جنگل پر ایسی آری چلائی کہ آج تک اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ محکمہ جنگلات کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر محکمہ ٹمبر مافیا کے کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو افسران کو شدید سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی ہی کہانیاں مقامی افراد نے بھی سنائیں۔ میں نے جب علاقے کے نوجوانوں کو اس معاملے پر آواز بلند کرنے کو کہا تو سبھی کا کہنا تھا کہ انہیں سماجی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مافیا میں ان کے رشتے دار، عزیز و اقارب ہیں۔ اگر ہم ان کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو ہمیں بھیانک نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ میں نے جب ضلع حویلی کے عوامی نمائندہ اور ریاست کے وزیر تعمیرات چوہدری محمد عزیز سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بھی تبصرے سے گریز کیا اور سارا ملبہ محکمہ جنگلات پر ڈال دیا۔ سیاسی اثر و رسوخ، سماجی دباؤ اور عوام میں شعور کی کمی کے باعث میرے ضلع کے جنگلات تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ محکمہ جنگلات، آزاد کشمیر حکومت اور مقامی لوگ سبھی اس طاقتور مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن شاید انہیں اس بات کی خبر نہیں کہ جنگلات کے کٹائی کا نقصان ان کی نسلوں کو اٹھانا پڑے گا۔
جنگل کی تباہی پر کڑھتا، ٹوٹتی، اٹکتی اور پھولتی سانسوں کے ساتھ میں نیلوفر جھیل پر پہنچ چکا تھا۔ کٹے ہوئے جنگل کے بالکل سامنے مجھے درہ کی چراگاہ نظر آئی، جس کے پچاس ایکڑ پر مشتمل حصے پر چیڑھ اور دیودار کے سیکڑوں ننھے پودے نظر آئے۔ میری آنکھوں میں امید کے ستارے روشن ہوگئے۔ اس چراگاہ کے رہائشی دوستوں کو فون کیا، جنہوں نے بتایا کہ پانچ سال قبل مقامی لوگوں نے محکمہ جنگلات کی منت سماجت کے بعد اس چھوٹے سے رقبہ پر درخت لگوائے ہیں تاکہ علاقے کے حسن کو برقرار رکھا جائے۔ اس چراگاہ میں مقیم 80 فیصد افراد ان پڑھ ہیں، لیکن ان پڑھ آنکھوں میں اچھے مستقبل کے خواب دیکھ کر جنگلات کو تباہ کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مجھے ترس آنے لگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ جنگلات، آزاد کشمیر حکومت اور مقامی افراد اپنے فرائض کو سمجھتے ہوئے طاقتور مافیا کے خلاف ڈٹ جائیں اور قوم کے مستقبل کو بچانے میں کردار ادا کریں۔ اگر اس پر فوری ایکشن نہ لیا گیا تو ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔