بابری مسجد اور مندر کا تنازعہ

1992 میں انتہاپسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو محض اس الزام کے تحت شہید کردیا کہ یہاں پر ہندوؤں کا مندر تھا


نصیر احمد June 07, 2020
بھارت بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کا آغاز کررہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بھارت بابری مسجد کی جگہ پر مندر کی تعمیر کا آغاز کررہا ہے اور پاکستان نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے، ساتھ ہی عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ بھارتی حکومت کو مندر کی تعمیر اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی سے روکے۔

یاد رہے کہ 1992 میں انتہاپسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو محض اس الزام کے تحت شہید کردیا کہ یہاں پر ہندوؤں کا مندر تھا، جسے مسمار کرکے ظہیرالدین بابر نے مسجد تعمیر کروائی۔ بلاشبہ یہ ایک بے بنیاد الزام ہے اس عظیم مسلم فاتح پر جس نے تمام تر قوت و طاقت ہونے کے باوجود کبھی انصاف کا دامن نہیں چھوڑا۔

آیئے! ذرا تاریخ کے اوراق میں جھانک کر دیکھیں کہ ہندوؤں کے اس متعصبانہ رویے کی آخر کیا وجوہات ہیں اور ظہیرالدین بابر پر اس الزام کی کیا حقیقت ہے؟

یہ بات ہے لگ بھگ 1500 عیسوی کی جب ظہیر الدین بابر، سلطان سکندر لودھی کے زمانے میں اپنے دستِ راست احمد جمال اور کچھ سپاہیوں کے ساتھ حضرت موسٰی عاشقاںؒ سے ملاقات کی غرض سے اجودھیا پہنچتا ہے، جو کہ دریائے سرجو کی دوسری طرف اور ایک ٹیلے پر چند درویشوں کے ساتھ ڈیرہ لگائے بیٹھے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ ہندوؤں کا ایک عجیب و غریب رویہ نوٹ کرتے ہیں جو تمام ہندوستانیوں کے رویے سے مختلف تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ اجودھیا کے ہندوؤں کے چہرے پر نفرت کے علاوہ کوئی رنگ نہیں اور کسی کی آنکھ میں غصے کے علاوہ کوئی اور تاثر موجود نہیں۔ انہوں نے ہندوؤں کے اس رویے کا تذکرہ سید مبارک علی سے کیا، جو اجودھیا میں سرائے کے مسلم منتظمین میں سے تھے۔ جب سید مبارک علی نے ہندوؤں کے اس رویے کی وجوہات سے پردہ اٹھایا تو بابر اور اس کے ساتھی حیران رہ گئے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سلطان سکندر لودھی نے اجودھیا میں ایک وسیع و عریض سرائے بنوائی تھی، جس کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اس کا انتظام و انصرام ہندو اور مسلم دونوں قوموں کے حوالے کیا، تاکہ وہاں رہنے والے مہمانوں کو کسی قسم کی دشواری نہ ہو۔ اس سرائے میں آنے والے تمام مسافر سلطان کے ''خاص مہمان'' کہلاتے تھے۔

ظہیرالدین بابر کو بتایا گیا کہ اجودھیا میں برہمنوں کی اکثریت ہے اور سب سے بڑا برہمن اور پجاری پنڈت رگھوناتھ ہے اور اس کے اکلوتے بیٹے امرناتھ کی شادی علاقے کے سب سے بڑے راجپوت سردار سمیر سنگھ کی بیٹی شکنتلا کے ساتھ طے پاچکی تھی، جو کہ اس علاقے کی حسین ترین دوشیزہ ہے۔ پھر کیا ہوا ایک دن اجودھیا کے بت خانے میں زلزلہ آگیا۔ سب سے بڑے پجاری کا بیٹا امرناتھ سے امیرالدین ہوگیا اور ماتھے سے قشقہ کھرچ کر خدائے لم یزل کے حضور سجدہ ریز ہوگیا۔ بس موسیٰ عاشقاںؒ نے تو امرناتھ کو دیکھ کر فقط یہ کہا تھا ''اے اللہ تو اتنے دلکش چہرے کو بھی جہنم کی آگ میں جلا دے گا؟'' اس کے بعد ہندوؤں نے بڑے جتن کیے مگر امرناتھ کو موسیٰ عاشقاںؒ کے قدموں سے واپس نہ لاسکے۔ حتٰی کہ سردار سمیر سنگھ نے اپنی جان بھی مندر کی دیوی کے قدموں پر نچھاور کردی۔ وہ دن اور آج کا دن ہندو مسلمانوں کے بدترین دشمن بن چکے ہیں۔

اگلی صبح ظہیرالدین بابر اور احمد جمال جب حضرت موسٰی عاشقاںؒ سے ملاقات کے لیے پہنچے تو انہوں نے دعا فرمائی اور کہا کہ جب تمہیں ہندوستان کی حکومت مل جائے تو اس جگہ پر ایک مسجد تعمیر کردینا۔ یہ بات سن کر وہ لوگ حیران ہوگئے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک خانہ بدوش بادشاہ، ہندوستان کا بادشاہ بن سکتا ہے؟

کم و بیش 25 سال گزرنے کے بعد ظہیر الدین بابر نے ہندوستان کو فتح کرلیا اور وہ ایک مرتبہ پھر حضرت موسٰی عاشقاںؒ سے ملاقات کو اجودھیا پہنچا۔ مگر یہاں پہنچ کر اسے خبر ملی کہ حضرت موسٰی عاشقاںؒ تو اپنی جان، جانِ آفرین کے سپرد کرچکے۔ المختصر اس نے حضرت کی قبر پر فاتح خوانی کی اور اجودھیا کے تمام مقتدر لوگوں کو ایک وسیع میدان میں اکٹھا کیا اور کہا کہ میں اس ٹیلے پر ایک مسجد تعمیر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتائو کہ یہ جگہ کس کی ملکیت ہے تاکہ میں رقم ادا کرکے مسجد کی تعمیر شروع کرا دوں۔ تو سب ہندووں نے کہا ''شہنشاہ یہ جگہ تو صدیوں سے اسی طرح ویران پڑی ہے، آج تک اس پر کسی نے ملکیت کا دعوٰی نہیں کیا''۔

جب اس ٹیلے پر کسی کی ملکیت کا دعوٰی سامنے نہیں آیا تو شہنشاہ نے اعلان کیا کہ میں اس پہاڑی کے اردگرد رہنے والے غریبوں کو اس جگہ کا مالک تصور کرتا ہوں اور ساتھ ہی اودھ کے عامل میر باقی کو حکم دیا کہ وہ ایک بڑی نقد رقم ان غریبوں میں تقسیم کردے۔

پھر ظہیرالدین بابر نے اجودھیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تم گواہ رہنا کہ میں نے خود ہی اس جگہ کے وارث پیدا کرکے ان کی پوری قیمت ادا کردی، حالانکہ تم لوگ یہ بخوبی جانتے ہو اور اگر نہیں بھی جانتے تو کان کھول کر سن لو جب بھی کوئی فاتح کسی ملک میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کی ہر چیز خودبخود اس کی جاگیر و ملکیت میں شمار ہونے لگتی ہے۔ مگر میں ایسا نہیں کروں گا۔ میں ایک مسلم فاتح ہوں، اسی لیے میرا قانون بھی دوسرے حملہ آوروں سے مختلف ہوگا۔ میں نے انسانیت اور روادری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کردی اور اس ویران پہاڑی کی قیمت بھی ادا کردی، جس کی ملکیت کا دعویدار بھی کوئی نہیں تھا۔ ان سارے مراحل سے فارغ ہونے کے بعد شہنشاہ نے میر باقی کو اس جگہ پر عالیشان مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔

اس کے بعد ظہیرالدین بابر ہندوستان میں امن و سکون بحال کرنے کی مہمات میں مصروف ہوگیا۔ مگر ساتھ ساتھ اسے مسجد کی تعمیر کی خبریں برابر پہنچ رہی تھیں۔ گوالیار میں بابر نے سلطان شمس الدین التمش کی تعمیر کردہ عظیم الشان مسجد دیکھی اور اس میں نماز ادا کی۔ پھر بابر گوالیار سے آگرہ پہنچا تو میر باقی کا قاصد اس خوشخبری کے ساتھ موجود تھا کہ جو کام اس غلام کے سپرد کیا گیا تھا وہ تائیدِ ایزدی سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا، یعنی مسجد کی تعمیر مکمل ہوچکی۔ بابر نے میر باقی کا خط پڑھ کر ناقابلِ بیان خوشی کا اظہار کیا اور کہا ''ایک دن تاج و تخت اور دولتِ اقتدار سب کچھ خاک میں مل جائیں گے، میں بھی فنا ہوجاؤں گا اور وقت کی تیز آندھی میری فتوحات کے آثار کو بھی خس و خاشاک کی مانند اڑا کر لے جائے گی، مگر اس خانہ خدا کی تعمیر کے حوالے سے ہندوستان کے لوگ مجھے ہمیشہ یاد رکھیں گے''۔

اس کے بعد شہنشاہ اپنی مسجد کو دیکھنے کےلیے اجودھیا پہنچا۔ مسجد کی خوبصورتی اور جاہ و جلال کو دیکھ کر بابر دنگ رہ گیا۔ پوری مسجد کو بغور دیکھا، کاریگروں کے کام کی تعریف کی اور بے ساختہ کہہ اُٹھا ''میر باقی زندہ باد''۔ پھر مسجد میں نماز ادا کی اور دعا کی۔ ان سارے واقعات کو خان آصف نے اپنی کتاب ''شمشیر کا قرض'' میں بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے۔

افسوس! ہندو، ظہیر الدین بابر کے احسانوں کا صلہ آج کس انداز میں دے رہے ہیں کہ اتنی مضبوط تاریخ رکھنے والی مسجد کو شہید کردیا جس کی زمین کی قیمت خود ظہیرالدیں بابر نے ادا کی اور اب اس پر مندر بنانے کی کوشش میں ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔